اگر کوئی بااقتدار شخص جوحکومت کےاعلی منصب پرفائز ہو، اور وہ کسی کوذاتی مخاصمت کی بناء پر ماتحت چندافراد سے اسے قتل کرادے ، توکیا صرف وہی قاتل کہ جس نے مقتول کوکاری ضرب پہنچائی قصاص کیاجائے ، یا اس کےساتھ شریک ہونے والے افراد بھی ؟
مزید یہ کہ اس بااقتدار شخص کوکہ جوحکومت کے اعلیٰ منصب پرفائز ہے او رجس کےحکم سے قتل ہوا ہے ۔ اسے قصاص میں بھی مارا جائے گا؟۔
( محمد امین اثری )ایسابااقتدار شخص جوحکومت کےاعلی منصب پرفائز ہواور عملا مطلق العنان اوراسلامی شریعت کےحدود و قیود سے آزاد ہو، جیسا کہ آج کل کےبااقتدار سیاسی حکام ہوتےہیں ۔اوران کے ماتحت ملازمین ایک طرح سےمکروہ ومجبور ہوتے ہیں اور اقتدار اعلی کےحکم واشارہ پرچلتے ہیں۔اگر اقتدار اعلی کےحکم اور اشارہ سےکسی مسلمان کوظلما اورناحق قتل کردیں ، توایسی صورت میں ان قاتلین اور ان کے آمرمطلق سب کوقصاص میں قتل کردیا جائے گا بشرطیکہ بقاعدہ شرعیہ یہ ثابت ہوجائے کہ ان قاتلین نے بااقتدار شخص کےحکم سےقتل کیا ہے ۔خلاصہ یہ ہے کہ قاتل اورحکم دینے والا سبھی قصاص میں قتل کئے جائیں گے۔یہی مذہب ہےامام احمد اور امام مالک کا ۔
ابن قدامہ لکھتے ہیں:
’’ إذا أكْرِهَ رَجُلًا عَلَى قَتْلِ آخَرَ، فَيَقْتُلَهُ، فَيَجِبُ الْقِصَاصُ عَلَى الْمُكْرِهِ وَالْمُكْرَهِ جَمِيعًا، وَبِهَذَا قَالَ مَالِكٌ. وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ، وَمُحَمَّدٌ: يَجِبُ الْقِصَاصُ عَلَى الْمُكْرِهِ دُونَ الْمُبَاشِرِ؛ لِقَوْلِهِ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ -: «عُفِيَ لِأُمَّتِي عَنْ الْخَطَإِ وَالنِّسْيَانِ وَمَا اُسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ» . وَلِأَنَّ الْمُكْرَهَ آلَةٌ لِلْمُكْرِهِ، بِدَلِيلِ وُجُوبِ الْقِصَاصِ عَلَى الْمُكْرِهِ، وَنَقْلِ فِعْلِهِ إلَيْهِ، فَلَمْ يَجِبْ عَلَى الْمُكْرَهِ، كَمَا لَوْ رَمَى بِهِ عَلَيْهِ فَقَتَلَهُ. وَقَالَ زُفَرُ: يَجِبُ عَلَى الْمُبَاشِرِ دُونَ الْمُكْرِهِ؛ لِأَنَّ الْمُبَاشَرَةَ تَقْطَعُ حُكْمَ السَّبَبِ، كَالْحَافِرِ مَعَ الدَّافِعِ، وَالْآمِرِ مَعَ الْقَاتِلِ.وَقَالَ الشَّافِعِيُّ: يَجِبُ عَلَى الْمُكْرِهِ، وَفِي الْمُكْرَهِ قَوْلَانِ. وَقَالَ أَبُو يُوسُفَ: لَا يَجِبُ عَلَى وَاحِدٍ مِنْهُمَا؛ لِأَنَّ الْمُكْرَهَ لَمْ يُبَاشِرْ الْقَتْلَ، فَهُوَ كَحَافِرِ الْبِئْرِ، وَالْمُكْرَهَ مُلْجَأٌ، فَأَشْبَهَ الْمَرْمِيَّ بِهِ عَلَى إنْسَانٍ. وَلَنَا، عَلَى وُجُوبِهِ عَلَى الْمُكْرِهِ، أَنَّهُ تَسَبَّبَ إلَى قَتْلِهِ بِمَا يُفْضِي إلَيْهِ غَالِبًا، فَأَشْبَهَ مَا لَوْ أَلْسَعَهُ حَيَّةً، أَوْ أَلْقَاهُ عَلَى أَسَدٍ فِي زُبْيَةٍ. وَلَنَا، عَلَى وُجُوبِهِ عَلَى الْمُكْرَهِ، أَنَّهُ قَتَلَهُ عَمْدًا ظُلْمًا لِاسْتِبْقَاءِ نَفْسِهِ، فَأَشْبَهَ مَا لَوْ قَتَلَهُ فِي الْمَخْمَصَةِ لِيَأْكُلَهُ. وَقَوْلُهُمْ: إنَّ الْمُكْرَهَ مُلْجَأٌ. غَيْرُ صَحِيحٍ، فَإِنَّهُ مُتَمَكِّنٌ مِنْ الِامْتِنَاعِ، وَلِذَلِكَ أَثِمَ بِقَتْلِهِ، وَحَرُمَ عَلَيْهِ، وَإِنَّمَا قَتَلَهُ عِنْد الْإِكْرَاهِ ظَنًّا مِنْهُ أَنَّ فِي قَتْلِهِ نَجَاةَ نَفْسِهِ، وَخَلَاصَهُ مِنْ شَرِّ الْمُكْرِهِ، فَأَشْبَهَ الْقَاتِلَ فِي الْمَخْمَصَةِ لِيَأْكُلَهُ،، (الغنى باختصار وتصرف يسيرا 11/455).اور اگر اس بااقتدار شخص کوغلام کےمالک کی حیثیت دی جائے اور ماتحت افسران کوجنہوں نے اس بااقتدار شخص کےحکم سےقتل کا ارتکاب کیاہے اس غلام کی حیثیت دی جائے جس کوناحق قتل کی حرمت کاعلم تھا اور اس نے اپنے آقا کے حکم سے کسی کوظلما قتل کردیا ،توایسی صورت میں بھی یہ بااقتدار شخص اور قتل کرنےوالے یعنی : آمر اورمامور دونوں ہی قصاص میں قتل کیے جائیں گے، یہی مذہب ہے قتادہ تابعی کا ، اوراما م احمدبن اس صورت میں صرف غلام کے قتل کیے جانے کےقائل ہیں اور کہتے ہیں کہ آقا کوقتل کےسوا حبس یا جومنا سب سزا ازقسم تعزیر ہو، دی جائے گی ۔ابن قدامہ لکھتے ہیں:’’ متى كان العبد يعلم تحريم القتل ، فالقصاص عليه ، ويؤدب سيده لأمره بما أفضى إلى القتل ، بما يراه الإمام من الحبس والتعزير ، لتعدية بالتسبب إلى القتل ،، ( المغنى 11 / 598) والله اعلم –
اورجتنے لوگ قتل میں شریک ثابت ہوں سب کےسب قصاص میں مارے جائیں گے ، ایسا نہیں کہ قصاص بعض سےلیا جائےاور بعض سےنہ لیا جائے۔ابن قدامہ لکھتے ہیں:’ أَنَّ الْجَمَاعَةَ إذَا قَتَلُوا وَاحِدًا، فَعَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ الْقِصَاصُ، إذَا كَانَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ لَوْ انْفَرَدَقَتَلَ سَبْعَةً مِنْ أَهْلِ صَنْعَاءَ قَتَلُوا رَجُلًا، وَقَالَ لَوْ تَمَالَأَ عَلَيْهِ أَهْلُ صَنْعَاءَ لَقَتَلْتُهُمْ جَمِيعًا. وَعَنْ عَلِيٍّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - أَنَّهُ قَتَلَ ثَلَاثَةً قَتَلُوا رَجُلًا. وَعَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَتَلَ جَمَاعَةً بِوَاحِدٍ، وَلَمْ يُعْرَفْ لَهُمْ فِي عَصْرِهِمْ مُخَالِفٌ، فَكَانَ إجْمَاعًا، قال :ولا يعتبر فى وجوب القصاص على المشتوكين التساوى فى سببه ،، الخ (المغنى 11/490/491).
(املاہ عبیداللہ المبارکفوری 3؍5؍1398ھماخذ:مستند کتب فتاویٰ