سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(40)خلق قرآن کا مسئلہ

  • 15894
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 2698

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

خلق قرآن کا مسئلہ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلاشبہ امام بخاری رحمہ اللہ نے زبان سےکبھی بھی ’’ لفظی بالقرآن مخلوق ،، نہیں کہا پس جوشخص بھی ان الفاظ کوان کی طرف منسوب کرتا ہے ان پر

                عزیز گرامی مولوی حبیب احمدخان صاحب رحمانی

السلام  علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا لفافہ 23 ؍ جولائی کووصول ہوگیاتھا ۔عیدالاضحی کی چھٹیوں میں جواب لکھنے کا اخیال تھا۔لیکن عید کےتیسرے دن یکا یک طبیعت خراب ہوگئی اس لیے جواب میں کافی دیر ہوگئی ۔تحریر کافی طویل اس لیے ہوگئی ہےکہ جابجا ہندی کی چند ی کرنی پڑی ہے، اوراس خیال سےکہ شاید آپ کےپاس کتب  محولہ موجودنہ ہوں ،ضروری عبارتیں نقل کردی گئی ہیں۔آپ ان سے اپنی مطلب کی چیزیں اخذکرلیں اورپوری تحریر کی نقل لےکر اس کوواپس ضرورکر دیں ،اس لیے کہ میرے پاس اس کی نقل نہیں ہےاور مسودہ موجود رہنا ضروری ہے۔

شرح مشکوۃ بقدر 2 جلد تیار ہوچکی ہےپہلی جلد ان شاء اللہ مغربی پاکستان میں طبع ہوگی اور دوسری یہیں بھارت میں اپنے زیر اہتمام ،سرمایہ کی فراہمی کی فکر ہے، دعا کرتے رہیے کہ اللہ تعالی جلد انتظام فرمائیں اورحسن قبول عطا کریں۔

رسید اورخیریت سےمطلع کریں ۔والسلام

   عبیداللہ رحمانی  26؍ 12؍1374ھ

از اسلامیہ سنئر مدرسہ آرانگر مدرسہ عالیہ

ڈاک خانہ سرساباڑی ضلع میمن سنگھ بخدمت عالی مقام حضرت العلام شیخنا واستادنا مولانا مولوی عبیداللہ صاحب رحمانی ؍مدظلہ العالی۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ :                                     مزاج گرامی!

حضور قبلہ ! سب سے پہلے خدمت اقدس میں راقم کفش بردار کی ادب واحترام دست بستہ معانی کودرخواست ہےکہ خلق قرآن کا مسودہ واپس بھیجنے میں از حدتاخیرہوئی۔لہذا درگزر فرما کرممنون فرمائیں۔مسودہ مرسل خدمت ہے۔خبریا فتگی کا خواست گارہوں۔

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کےمسلک خلق قرآن کےمضمون پرجوتعاقب نکلا تھا راقم احقر نے اس پرتنقید ی جواب لکھاتھا مگر مومئے قسمت کہ اس کا جواب خاموشی اور اب تک خاموشی ۔

حضور قبلہ!  آپ کی تصنیف شرح مشکوۃ طبع وشائع ہوئی کہ نہیں ؟ اگر ہوئی ہےتو قیمت وملنے کاپتہ کیا ہے ؟ یہ معلوم کرنے کامتمنی ہوں، نیز حضور کے کوائف مطلوب ہیں۔بفضلہ تعالی بخیر وعافیت ہوں اوردعا کاطالب

                     ( ہمارے یہاں آئندہ یکم اپریل سے تعطیل رمضان کاآغاز ہوگا)

لیکن : باایں ہمہ آپ کی تحریر مدیر ’’ ترجمان الحدیث ،، کاتعاقب چوں کہ صرف ایک لفظی گرفت ہےاس لیے چنداں وزن نہیں رکھتا۔آپ نےامام بخاری رحمہ اللہ کی طرف جوالفاظ منسوب کئے ہیں اگرچہ لفظا ان کی نسبت صحیح نہیں ہےلیکن معنی بالکل صحیح اورحق مطابق واقعہ ہےجیسا کہ سطور تحت سےواضح ہوگا۔

امام بخاری کی طرف ’’لفظی بالقرآن مخلوق ،، کےمنسوب کئےجانے کی وجہ دوہے:

پہلی وجہ :

امام ممدوح کےورودنیشاپور کےموقعہ پرعوام اورجمہور علماء کی طرح امام ذہلی بھی مع اپنے تلامذہ کے، شہر سےباہر ان کے استقبال کےلیے گئے تھےاورامام بخاری کےبخاریوں کےمحلے میں فردکش ہوجانےکےبعد امام ذہلی نےاپنے تلامذہ کوان سےعلم حدیث حاصل کرنے کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:’’اذهبوا إلى هذا الرجل الصالح العالم ، فاسمعوا منه ، ، ( مقدمة  فتح الباري ص: 490 ) لیکن  ساتھ ہی لوگوں سےیہ بھی فرمادیاتھا:’’ لاتسألوه عن شئ من الكلام ، فإنه إن أجاب بخلاف مانحن عليه ، وقع بيننا وبينه ، وشمت بنا كل رافضى وناصبى وجهمى ومرجئ بخراسان ،، (مقدمةالفتح ص: 490).

لیکن امام ذہلی کی تنبیہ کےباوجود کسی نےامام بخاری کےاس درس قائم ہونے کےتیسرے دن ان سے ’’ اللفظ بالقرآن ،، کےبارے میں سوال کردیا ۔ امام بخاری نےجواب میں صرف یہ فرمایا :’’ افعالنا مخلوقة والفاظنا من افعالنا ،، .

مجلس درس میں جولوگ حاضر تھے۔انہیں اس جواب سےاختلاف پیداہوگیا ،بعض کہنےلگے کہ امام بخاری ’’لفظی بالقرآن مخلوق ،، کےقائل ہیں اوربعض نےکہا کہ امام نےیہ نہیں کہا۔

حاضرین میں اتنا شدیداختلاف ہواکہ سب اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک دوسرے کی طرف لپکے اورپڑھے، آخر محلّہ والوں نےتمام حاضرین کواس وقت وہاں سے ہٹایا ۔ (مقدمۃ الفتح ص: 49)

امام  ذہلی تک اس سوال وجواب اور ہنگامہ کی خبر پہنچنے میں شبہ نہیں کیا جاسکتا ۔ادھر امام بخاری کی طرف رجوع عام کی وجہ سے اما م ذہلی کی مجلس درس سونی اوربے رونق بلکہ خالی ہوگئی تھی ، جس کاان پر نفسانی اثر یہ ہوا کہ معاصرہ اور حسد کی وجہ سے طالبان حدیث اورعلماء

گھر کاپتہ :     محمد حبیب اللہ خان رحمانی موضع شریف پور ڈاک خانہ گاچھاضلع دھاکہ ،مشرقی پاکستان

( اس خط پرتاریخ نہیں ہےلیکن ڈاک خانہ کی مہر سےمعلوم ہوتا ہےکہ یہ ملفوف 28؍ مارچ 1957ء کوچل کریکم اپریل 1957 ء مطابق 30؍8؍1378ھ مبارکپور پہنچ گیا تھا)

حدیث کوامام بخاری کی طرف سےبدظن اورمتنفر کرنے کےلیے ان پرکلام کرنا شروع کردیا ،اوربے دھڑک بہ کہہ دیاکہ محمدبنااسماعیل (بخاری )  ’’ لفظی بالقرآن مخلوق ،، کےقائل ہیں۔امام ذہلی کےاس پروپگنڈے سےامام بوحاتم اورامام  ابوزرعۃ جیسے جلیل القدر محدثین بھی متاثر ہوگئے ، بہرکیف امام ذہلی کےکلام وجرح کےبعد امام بخاری کی بھری مجلس درس میں کسی نےان سے یہ کہا:’’ یا عبداللہ ماتقول فی اللفظ بالقرآن مخلوق ہو؟ او غیر مخلوق ؟،، .  امام بخاری نے سائل کی طرف قصدا توجہ نہیں فرمائی۔

لیکن جب اس نے باربار سوال دہرایا ،تو امام بے بادل ناخواستہ صرف اس قدر جواب ارشاد فرمایا ’’ القرآن كلام الله غير مخلوق ، وافعال العباد مخلوقة ، والامتحان بدعة ،، اس  سائل نےہڑبونگ مچاتے ہوئے کہاکہ ’’ لفظی بالقرآن  مخلوق ،، کے قائل ہیں( مقدمۃ الفتح : 490 ).

دوسری  وجہ :

متعزلہ ( اتباع جعد بن درہم وجہم بن صفوان ومریسی وغیرہم ) کامذہب تھا ’’ القرآن مخلوق ،، اورجب یہ لوگ قرآن یعنی : کلام الہی کےمخلوق ہونےکے قائل ہیں۔جو صفۃ الہی ہے۔تو قراۃ   قرۂآن جوقاری کی صفت اوراس کا فعل وعمل ہے کوبدرجہ اولی مخلوق کہیں گے، معلوم ہواکہ اس بارے میں ان کےنزدیک قراۃ اورمقروء اورتلاوۃ ومتلو ، یعنی فعل اورمفعول کےدرمیان کوئی فرق نہیں ہے۔بالفاظ دیگر ’’ القرآن  بلفظی ،، اور’’ لفظی بالقرآن ،، ان کے نزدیک ایک ہی چیز ہے، اورجس طرح ’’ لفظی بالقرآن ،، مخلوق ہےاسی طرح ’’ القرآن بلفظی ،، بھی مخلوق ہے۔

اس کےبرخلاف تمام اہل سنت کا مذہب یہ ہےکہ ’’ القرآں کلام اللہ غیر مخلوق ،، پھر ان میں باہم بعض تفصیلات کے بارے میں اختلاف ہے، جس کی تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔حافظ نےفتح الباری ( 13؍452۔453۔454۔13؍492) میں کچھ بیان کردیا ہے۔و أحب الوقوف عليه رجع إليه ، وإلي الملل والنحل للشهر ستاني والفضل لأبن حزم (ص: 15/3) والفتاوى لابن تيميه .

امام ذہلی جہاں اس بات کےقائل تھے’’القرآن کلام اللہ غیرمخلوق ،، وہیں یہ بھی فرماتے تھے:’’ من زعم لفظی بالقرآن مخلوق فهو مبتدع لا یجارلس ولاا یکلم ،، اورچونکہ ان کا خیال تھا کہ امام بخاری ’’ لفظی بالقرآن مخلوق ،، کےقائل ہیں اس  لیے علان کردیا کہ :’’ من ذهب بعد هذا إلى محمدبن إسماعيل فاتهموه ، فإنه لا يحضر مجلسه إلا من كان على مذهبه،، اوريہ بهی فرماياكہ (’’ من قال باللفظ فلا يحل له أن يخضر مجلسنا ،،  اس اعلان كافوري اثر يه هواكه ’’ اخذ مسلم رداءه فوق عمامته ، وقام على رؤس الناس فبعث إلى الذهلى جميع ماكان كتب عنه على ظهر جمال ،، اورجب امام مسلم اوراحمدبن مسلمہ ان کےدرس گاہ سے اٹھ کرچلے گئے توامام ذہلی نےکہا:’’ لا يساكنني هذا الرجل (يعني البخاري ) في البلد ، فخشى البخارى وسافر ،، (مقدمة الفتح ص: 491).

امامذہلی کے’’ لفظی  بالقرآن مخلوق ،، کے قائلین کومبتدع کہنے اوراس قول پرانکار کرنے کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی ، ممکن ہےاحیتاطاًاور سداللباب انکار کرتے رہے ہوں، ارویہ بھی ہےکہ تلامذہ وقراءۃ تلفظ بالقرآن اورمتلوومقروء مایتلفظ بہ کے درمیان فرق نہ کرتے ہوئے متلو ومقروء ووما یتفلفظ بہ یعنی : قرآن جوصفۃ الہی ہے،کی طرح تلاوۃ و قرأۃ وتلفظ ( جو صفۃ قاری وفعل عبد ہے) کوبھی غیر مخلوق کہتے ہوں جیساکہ بعض حنابلہ کایہ مذہب ہے۔

امام احمد رحمہ اللہ بھی ’’ لفظی بالقرآن مخلوق ،، کےقائلین پرانکار کرتے تھے۔لیکن ان کا یہ انکار اس وجہ سے نہیں تھا کہ ہمارے تلفظ بالقرآن  اور قرأۃ قرآن( جوبندے کافعل وعمل ہے)متلو، یعنی : قرآن کی طرح ( حوصفۃ رب ہے) غیر مخلوق کہتے ہوں، یعنی امام احمد رحمہ اللہ تلفظ بالقرآن کو غیرمخلوق نہیں کہتے ہیں۔اس لیے کہ جن لوگوں نےان کی طرف ’’ لفظی بالقرآن غیر مخلوق ،، کے قول کومنسوب کیا ان پروہ سختی سےانکار کرتے تھے۔’’أسند(البيهقي ) إلى أحمد أنه أنكر على من نقل عنه أنه قال : لفظى بالقرآن غير مخلوق ،، ( فتح البارى 13/492) معلوم ہواکہ وہ قاری کی قراءۃ اورتلفظ بالقرآن کو، اور عندالتلاوۃ حرکۃ لسان وشفتہ اور صوت قراۃ کوقدیم اورغیر مخلوق نہیں کہتے تھے۔بلکہ ان کا انکار ’’ لفظى بالقرآن مخلوق ،، بر محض حسماً للمادة وسداً للذريعة وصوناً للقرآن  أن يوصف بكونه مخلوقاً تها-قال البيهقي : ’’ أما ما نقل عن احمد أنه سوى بينها ( أى بين التلاوة والمتلو) ، فإنما أراد حسم المادة ، لئلا يتذرع أحد إلى القول بخلق القرآن ،، . (فتح البارى 13/492).

امام احمد کےزمانہ میں فتنہ خلق قرآن کازور تھا، اور ان کا سابقہ انہیں لوگوں سےپڑا جو ’’ القرآن مخلوق ،، کےقائل تھے۔اس لیے انہوں نے اس فتنہ کے مقابلہ میں اور قائلین خلق القرآن  کی تردید میں پورا زور صرف کیا ۔یہاں کہ جولوگ اس بارے میں توقف کرتے اور قرآن کونہ مخلوق کہتے اورنہ غیر مخلوق ، ان پربھی امام احمدانکار کرتے، ونیز اس کے ساتھ ان پربھی انکار فرماتے جو’’ لفظی بالقرآ ن مخلوق ،، کہتے ،یعنی : جولوگ قرآن کونہیں ، صرف تلفظ بالقرآن کومخلوق کہتے ، ان پر بھی انکار کرتے اور اس قول کواطلاق کو اورزبان پرلانے کوناپسند کرتےتاکہ ’’ القرآن بلفظی مخلوق،، کےقائلین ( معتزلہ ، جہمیہ ) ’’ لفظی بالقرآن مخلوق ،، کو’’ القرآن بلفظی مخلوق ،، کےقول اور اس کے اثبات کے ذریعہ نہ بنالیں ۔یعنی کہیں ایسا نہ ہوکہ یہ لوگ کہہ کر کہ ’’ القرآن بالفاظنا ،، اور ’’ الفاظنا بالقرآن،، کےدرمیان کوئی فرق نہیں ہے۔یعنی : مقروء متلو اور قراۃ تلاوۃ دونوں شی واحد ہیں۔اورجب قراۃ اورتلفظ بالقرآن ( الفاظنا بالقرآن یا لفظی  بالقرآن ) مخلوق ہے۔تومقروء متلو یعنی قرآن (القرآن بالفاظنا القرآن بلفظی ) بھی مخلوق ہےاو رجب تم ’’ لفظی بالقرآن مخلوق ،، کےقائل ہوئے تم کو’’ القرآن بلفظی مخلوق ،، کا بھی قائل ہوجانا چائیے ۔’’ فلما ابتلى احمدبمن يقول القرآن مخلوق، كان أكثر كلامه فى الرد عليهم ، حتى بالغ فأنكرعلى من يقف ، ولا يقول مخلوق ولا غير مخلوق ، وعلى من قال لفظى بالقرآن مخلوق ، لئلا يتذرع بذلك من يقول القرآن بلفظى مخلوق ،مع أن الفرق بينهما لا يخفى عليه ، لكنه قد يخفى على البعض ،، ( فتح الباري 13/492)

خلاصہ امام احمدکی روشن اورمذہب کا یہ ہےکہ وہ’ القرآن کلام اللہ غیر مخلوق ،، کےقائل تھے اور’’ لفظی بالقرآن غیر مخلوق ،، کےقائل نہیں تھے ۔ یعنی : تلاوۃ اورمتلو کےدرمیان فرق کرتے تھے، اوربندے کےفعل تلاوۃ اورتلفظ بالقرآن ( لفظی بالقرآن ،) کوغیر مخلوق نہیں کہتے بلکہ مخلوق مانتے ، اورصرف اللہ کی صفت قرآن (متلو ) کوغیر مخلوق کہتے ، لیکن باوجود تلفظ بالقرآن کی مخلوقیت کےقائل ہونے کے ’’ لفظی بالقرآن مخلوق ،، کےقول اوراطلاق واستعمال کواحیتاطا اورسداً للذریعۃ نا  پسندکرتے ۔کما تقدم .

قال الحافظ فی الفتح ( 13؍493):

’’ ولم ينقل عن أحمد قط، أن فعل العبد (اى التلاوة والتلفظ بالقرآن ) قديم ولا صوته، وإنما أنكر اطلاق اللفظ ، وصرح البخارى بأن أصوات العباد مخلوقة ، وأن لا يخالف ذلك ، فقال فى كتاب خلق افعال العباد ( ص : 30) ما يد عونه عن احمد ليس الكثير منه بالبين الثالث ، وربما لم يفهموا مراده ودقة مذهبه ، والتنقيب عن الأشياء الغامضة ، وتجنبوا الحوض فيها والتنازع ، إلا فيما جاء فيه العلم ، وبينه رسول الله  صلى الله عليه وسلم ،، ثم نقل ( 65/ 66) عن بعض أهل عصره أنه قال : ’’ القرآن بألفاظنا والفاظنا بالقرآن شئى واحد ، فالتلاوة هي التلو ، والقراة هي المقروء ، قال : فقيل له إن التلاوة فعل التالى وعمل القارى ، فقال : ظننتهما مصدرين،

قال: فقيل له هل لا أمسكت كما أمسك كثير من اصحابك ، ولو بعثت إلى من كتب عنك ، فاستردت ما أثبت وضربت عليه ، فقال ، كيف يمكن هذا وقد قلت ومضى ، فقيل له كيف جاز لك أن تقول فى الله شيئا لا يقوم به شرحاً وبيانا، أذا لم تميز بين التلاوة والمتلو، فسكت اذا لم يكن عنده جواب ،، انتهي.

امام بخار ی بھی اگرچہ امام احمد کی طرح تلاوۃ اورتلفظ بالقرآن (لفظی بالقرآن مخلوق ،، کہتے تھے، اورصرف متلو یعنی : قرآن کو’’ غیرمخلوق ،، کہتے تھے ۔لیکن باین ہمہ انہوں نے اپنی زبان سےکبھی بھی ’’ لفظی بالقرآن مخلوق ،، کاجملہ نہیں نکالا اوراس لفظ کواستعمال نہیں کیا ،محض بربناء احتیاط وسدذریعہ وفراراز ایہام وابتداع ومخالف سلف۔

امام بخاری کازیادہ سابقہ ان لوگوں سےپڑا جومفرط تھے ،اوربندے کےفعل ( تلاوۃ تلفظ بالقرآن ) اور اس کی آواز قرآنی کوبھی قدیم وغیرمخلوق کہتے ۔یہاں تک کہ ان میں سےبعض قرآنی اوراق اورنقوش وسیاہی کوبھی غیر مخلوق کہتے تھےاوریہ سخت جہل ونادانی کی بات تھی اس لیے امام ممدوح نےان کی تردید پورے زور سے کی ، اورافعال  عباد کےمخلوق ہونے پرقرآنی آیات واحادیث صحیحہ سے استدلال کرنے میں قوت خرچ کردی اور تلاوت ومتلو کےدرمیان فرق کرنے میں اس قدر اہتمام کیا کہ لوگوں نےان کےاس مسلک کو  سامنے رکھتے ہوئے ان کی طرف ’ ‎’ لفظی بالقرآن مخلوق ،، کا قول منسوب کردیا ، اوریہ مشہور کردیا کہ امام بخاری ’’ لفظی بالقرآن مخلوق ،، کے قائل ہیں، حالانکہ وہ اس جملہ کواپنی زبان پراحتیاطاً کبھی نہیں لائے اگرچہ اس کے مفہوم ومعنی کےقائل بلکہ مثبت تھے ، امام ممدوح نےصرف ا س قدر کہا ہےکہ:’’افعالنا مخلوقة ، وألفاظنا من أفعالنا ،،حافظ فتح 13/ 492  میں لکھتےہیں:’’وأما البخارى  فابتلى بمن يقول أصوات العباد غير مخلوقة ، حتى بالغ بعضهم فقال : والمداد والورق بعد الكتابة ، فكان أكثر كلامه فى الرد عليهم ، وبالغ فى الاستدلال ، بأن أفعال العباد مخلوقة بالآيات والأحاديث ، وأطنب فى ذلك،حتى نسب إلى أنه من اللفظية ،،.

تفصیل بالا سےمعلوم ہواکہ امام احمداور امام بخاری دونوں کاایک ہی مسلک ہے، اوردونوں کےدرمیان اس مسئلہ میں کوئی معنوی اور حقیقی اختلاف نہیں ہے۔

اب اس بات کے ثبوت کےلیے کہ امام بخاری نے گو’’ لفظی بالقرآن مخلوق ،، کبھی نہیں کہا ، اوراس حیثیت سےاس قول کی  نسبت ان کی طرف صحیح نہیں ہے،مگر وہ معنی اورمفہوماً اس قول کےضرور قائل تھے، سطور ذیل کوغور سےپڑھئے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ مدیر ’’ ترجمان الحدیث ،، کامذکورہ تعاقب محض ایک لفظی گرفت ہےاس لیے چنداں وزن نہیں رکھتا ۔ اس سلسلے میں پہلے ’’ لفظی بالقرآن مخلوق ،، کی تشریح ضروری ہے۔

اس جملہ یا مقولہ میں دوچیزیں قابل توجہ ہیں۔ایک ( لفظی ) یعنی : میرا تلفظ بالقرآن ( پڑھنا میراقرآن کا ) جوبندے کافعل ہےاورقائم مقام مفعول مطلق کےہے۔دوسرا ’’ القرآن،، ہےجو مقروء ومتلو ومتلفظ بہ ہےاور جس پرمیرا فعل تلفظ وارد ہوا ہےاوربمنزلہ مفعول بہ کے ہے، سو’’ خلق ،، کاحکم ’ ’لفظی،، پرواردہوا ہےنہ ’’ القرآن ،، پر۔حاصل معنی اس جملہ کا یہ ہےکہ تلفظ : جوفعل عبد ہےوہ مخلوق ہے اوریہی تلفظ ’’ قرآن ،، کے ساتھ متعلق ہوتا ہے۔جوصفتہ رب ہےاورغیر مخلوق ہے۔فعل عبد اورصفۃ رب کےدرمیان فرق نہ کرنا جہل و حمق ہےاور خبط میں واقع ہوجانے کا سبب ۔۔۔۔۔۔۔ مفہوم بالا کویوں بھی ادا رکرسکتے ہیں کہ : ۔

’’ ہمارے تلفظ بالقرآن  یعنی : ہمارا قرآن کوپڑھنا اوراس کی تلاوت کرنا ( الفاظنا بالقرآن ) ہماری صفت اورہمارا فعل ہےاور اللہ ک ہم مع اپنی جملہ صفات وافعال کےمخلوق ہیں ۔اوراللہ تعالی مع اپنی جملہ صفات کے غیر مخلوق ہے، لہذا میرا تلفظ بالقرآن ( لفظی بالقرآن) یعنی قار ی کی قراۃ مخلوق ہےاور مقروء یعنی :’’ قرآن ،، غیر مخلوق ہے۔خلاصہ یہ کہ وارد مخلوق ہے، اورمورد غیر مخلوق ،اور یہی حاصل معنی ہے

امام بخاری کےمختصر کلام’’ افعالنا مخلوقۃ ، والفاظنا من افعالنا ،، کایہ پوری تشریح دوامروں پر مبنی ہے:

(1)           افعال عباد مخلوق ہیں۔

(2)   وارد اورمورد یعنی : قراء ۃ تلاوۃ اورمقروء متلو کےدرمیان فرق ہے۔اول یعنی قراۃ فاعل  (قاری ) کافعل ہے، اورقائم مقام مفعول مطلق کےہے اور دوسرا یعنی : مقروء متلو قائم مقام مفعول بہ ہے، جس پرقاری کافعل ( قراءۃ) وارد ہوتاہے

ان دونوں امروں کےاثبات کےلیے اما م بخاری نےایک مستقل کتاب ’’ خلق  افعال العباد ،، تصنیف کرڈالی ، اورصحیح بخاری کے آخر میں کلام الہی سےمتعلق کئی ابواب محض اسی غرض  سے منعقد فرمائے ، اب ہم کتاب ’ ’ خلق افعال العباد ،، تصنیف کرڈالی، اور صحیح بخاری کےآخر میں کلام الہی سےمتلق کئی ابواب محض اسی غرض سےمنعقد فرمائے ، اب ہم کتاب ’’ خلق العباد ،، کی جستہ جستہ عبارات اوران کی جامع صحیح کےبعض ابواب مع کلام بعض شراح نقل کرتےہیں، تاکہ ہمارا مدعا خوب واضح ہوجائے اورحقیقت حال روشن ہوکر سامنے آجائے ۔

قال البخارى فى كتاب خلق افعال العباد ص : 18 بعدماروى حذيفة مرفوعا:

’’ إن الله خلق كل صانع وصنعته ، سمعت عبدالله بن سعيد يقول : سمعت يحيي بن سعيد القطان يقول : مَا زِلْتُ أَسْمَعُ مِنْ أَصْحَابِنَا يَقُولُونَ: «إِنَّ أَفْعَالَ الْعِبَادِ مَخْلُوقَةٌ» قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: " حَرَكَاتُهُمْ وَأَصْوَاتُهُمْ وَاكْتِسَابُهُمْ وَكِتَابَتُهُمْ مَخْلُوقَةٌ، فَأَمَّا الْقُرْآنُ الْمَتْلُوُّ الْمُبَيَّنُ الْمُثَبَّتُ فِي الْمُصْحَفِ الْمَسْطُورُ الْمَكْتُوبُ الْمُوعَى فِي الْقُلُوبِ فَهُوَ كَلَامُ اللَّهِ لَيْسَ بِخَلْقٍ، قَالَ اللَّهُ: ﴿بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ﴾ [العنكبوت: 49] " وَقَالَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ: «فَأَمَّا الْأَوْعِيَةُ فَمَنْ يَشُكُّ فِي خَلْقِهَا؟» قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ﴿وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ فِي رَقٍّ مَنْشُورٍ﴾ [الطور: 3] ،الخ (وهكذا في الفتح ( 13/ 498) وفي مقدمته ص : 490).

وقال فى خلق افعال العباد ص: 19: ’’ فَأَمَّا الْمِدَادُ وَالرَّقُّ وَنَحْوُهُ فَإِنَّهُ خَلْقٌ، كَمَا أَنَّكَ تَكْتُبُ اللَّهَ، فَاللَّهُ فِي ذَاتِهِ هُوَ الْخَالِقُ، وَخَطُّكَ وَاكْتِسَابُكَ مِنْ فِعْلِكَ خَلْقٌ، لِأَنَّ كُلَّ شَيْءٍ دُونَ اللَّهِ يَصْنَعُهُ وَهُوَ خَلْقٌ، وَقَالَ: ﴿وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا﴾ [الفرقان: 2]

وقال فى ص 23: ’’ وَنَعَتَتْ قِرَاءَتَهُ فَإِذَا قِرَاءَتُهُ حَرْفًا حَرْفًا

وَنَعَتَتْ قِرَاءَتَهُ فَإِذَا قِرَاءَتُهُ حَرْفًا حَرْفًا،،

وقال فى ص : 25:بعدالإشارةإلى حديث جبريل : ’’ فسمى الايمان والإسلام والشهادة والإحسان ، والصلاة بقراءتها وما فيها من حركات الركوع والسجود فعلاً للعبد ،، الخ .

وقال فى ص : 33. 34: بعد ذكر حديث  الى موسى: ’’ لقد أوتيت ( ياأبا موسى ) مزماراً من مزميرا آل داؤد ، ولا ريب فى تخليق مزاميرآل داؤدوندائهم لقوله عزوجل : ( وخلق كل شئ ) ... الخ.

وقال قى ص : 35 بعد ذكر قوله تعالى ( واتل ماأوحى إليك من كتاب ربك ) وقوله : (الذين يتلون كتاب الله ) ونحو ذلك من الآيات مالفظه :’’ فبين أن التلاوة من النبى صلى الله عليه وسلم وأصحابه ، وأن الوحى من الرب .،،

وقال فى ص : 37: ’’ فَبَيَّنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ أَصْوَاتَ الْخَلْقِ وَقِرَاءَاتِهِمْ وَدِرَاسَتَهُمْ وَتَعْلِيمَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ مُخْتَلِفَةٌ بَعْضُهَا أَحْسَنُ وَأَزْيَنُ وَأَحْلَى، وَأَصْوَتُ، وَأَرْتَلُ، وَأَلْحَنُ، وَأَعْلَى، وَأَخَفُّ، وَأَغَضُّ، وَأَخْشَعُ، وَقَالَ: {وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْسًا} [طه: 108] ، وَأَجْهَرُ، وَأَخْفَى، وَأَمْهَرُ، وَأَمَدُّ، وَأَلْيَنُ، وَأَخْفَضُ مِنْ بَعْضٍ،،.

وقال فى ص : 38:’’ فَأَمَّا الْمَتْلُوُّ فَقَوْلُ اللَّهِ الَّذِي: {لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ}، وقال بعد ذكر حديث عبدالله بن عمرو مرفوعا : يمثل القرآن يوم القيامة رجلا فيشفع لصاحبه ، وقال أبو عبدالله ( البخارى ) : وهواكتسابه وفعله ، قال الله : (فمن يعمل مثقال ذرة خيرايره ) وقد دخل ذلك فى قراءة القرآن وغيرها،، .

وقال فى ص : 38:’’مع أن الجهمية والمعطلة إنما ينازعون أهل العلم على قول الله ، إن الله لا يتكلم وإن تكلم فكلامه خلق ، فقالوا: إن القرآن المقروء بعلم الله مخلوق ، فلم يميزوا بين تلاوته العباد وبين المقروء وقال أيضا :فالمقروء هو كلام الرب قال لموسى : ( إنما الله لاإله الا أنا فاعبدونى  ) الخ ،،.

وقال أيضا فى ص : 63 : ’’ وقد كتب النبي ﷺ كتابا فيه : بسم لله الرحمن الرحيم ، وقرأ ه ترجمان قيصر على قيصروأصحابه ، ولا نشك فى قراءة تالكفار وأهل الكتاب ، إنها أعمالهم ،و أما المقوروء فهو كلام الله العزيز المنان الذى ليس بمخلوق  ،، الح.

وقال فى ص : 64 : ’’ وهذا واضح بين ، عند من كان  ادنى معرفة،أن القراءة غير المقروء ، وليس لكلام الفجرة وغيرهم ، فضل على كلام غيرهم ، كفضل الخالق على مخلوق ،، الخ .

وقال أيضا ( ص : 65 ) :’’ القراءة هى التلاوة ، والتلاوة غير المتلو، وقد بينه  أبوهريرة  رض الله عنه عن النبي ﷺ  قال: إقرؤا إن شئتم  يقول العبد :’’ الحمدلله رب العالمين ،، (الى آخر الحديث ) ، قال الامام البخارى  : فبين أن سؤال العبد  غير ما يعطيه الله العبد  ، أن قول العبد غير كلام الله ، هذا من العبد الدعاء والتضرع ، ومن الله الأمر والإجابة ،،

وقال ايضا (فى ص : 65): ’’ فذكر النبىﷺ  أن بعض الصلاة أطول من بعض ، وأخف ، وأن بعضهم يزيد على بعض فى القرأة  ، وبعضهم ينقص ، وليس في القرآن  زيادة ولا نقصان ، فأماالتلاوة فإنهم يتفاضلون فى الكثرة والقلة والزيادة والنقصان ، وقد يقال فلان حسن القراءة وردى القراءة ، ولا يقال حسن القرآن وردى القرآن ، وإنما نسب إلى العباد القراءة لا القرآن ،لأن القرآن كلام الرب جل ذكر ه ، والقراءة فعل العبد ، ولا يخفى معرفة هذا القدر إلا على من أعمى الله قلبه ولم يوفقه ولم يهده سبيل الرشاد ،،.

وقال فى أيضا  (ص: 66) بعد ذكر حديث ’’ لاصلوة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب ، فأوضح أن قرأءة القارى وتلاوته غير المقرؤ والمتلو، وإنما المتلو فاتحة الكتاب ،،.

وقال (قى ص : 68): ’’ ففى قولك تلفظ به وتقرأالقرآن ، دليل بين أنه غير القراءة ................... وقال أحمد رحمه الله : لا يعجبنى قراءة حمزة ، ولا يقال لا  يعجبنى القرآن ،، الخ .....

وقال ( فى ص : 67 ) ’’ وقال النبى ﷺ إنما الصلوة القراءة القرآن ولذكرالله ولحاجة المرأ إلى ربه ، أن الدعاء والحاجة والتضرع والذكروالقراءة من العبد ، وإن المقروء هوكلام الله عز وجل ،،.

وقال (فى ص: 74): فالقرآن قول الله عز وجل ، والقرأءة والكتابة والحفظ للقرآن هو فعل الخلق ، لقوله : ( فاقرؤا ما تيسر منه ) (المزمل : 20 ) القرآن والقراءة  فعل الخلق وطاعة الله والقرآن ليس هوالطاعة ، إنما هو الأمر بالطاعة ..........

وقال أيضا ( فى ص : 75 ) : ’’ والصلاة بجملتها طاعة الله ،وقراءة القرآن من جملة الصلوة  ، فالصلوة طاعة مالله ،والأمر بالصلوة قرآن، وهو مكتوب فى المصاحف ، محفوظ فى الصدور ، مقروء على اللسان ، والقراة والحفظ والكتابة مخلوق، وما قرى وحفظ وكتب ليس بمخلوق  ، ومن الدليل عليه أن الناس يكتبون الله ويحفظونه ويدعونه، فالدعا ء والحفظ ولكتابة من الناس مخلوق ، ولا شك فيه والخلق الله بصفته ،،الخ

وقا ل فى جامعة الصحيح : ’’ باب ذكرالله بالأمر وذكر العباد بالدعا: والتصرع والرسالة والابلاغ، لقوله تعالى : ( فاذكرونى أذكركم ) (البقره : 153)،

قال الحافظ فى الفتح  13/489: ’’ قال البخارى في كتاب خلق أفعال العباد : بين بهذه الآية ، أن ذكر العبد ، غير ذكر الله عبده ، لأن ذكر العبد الدعاء والتصرع والثناء وذكر الله الإجابة ،،

وقال فيه : ’’ باب قول الله تعالى  (فلا تجعلوا لله أنداد ) الخ ( البقره :22)

وقال الكرمانى ،مراد البخارى بذلك ، بيان كون أفعال العباد ، بخلق الله تعالى ، إذلو كانت أفعالهم (كالقراءة والتلفظ بالقرآن  مثلا) بخلقهم لكانوا أندادا لله وشركا ء له فى الخلق ،، ( فتح البارى 13/49).

وقال فيه :’’ باب قول الله ( لاتحرك به لسانك  ( القيامه : 16) وفعل النبى ﷺ حيث ينزل عليه الوحى ،

قال العيني 25/ 170: ’’ غرض البخارى أن  قراءة الإنسان وتحريك شفتيه ولسانه عمل له ، يؤجر عليه ،،  انتهي .

وقال البخارى : ’’ وقال أبوهريرة عن النبى ﷺ ، قال الله تعالى ( أنا مع عبدى إذ ما ذكرنى .............. وتحركت بى شفتاه )، ثم روى البخارى حديث ابن عباب ’’ قال : كان النبى ﷺ يعالج من التنزيل شدة ،وكان يحرك شفتيه ،، ( بخارى مع الفتح كتا ب التوحيد 13/499).الحديث .

قال الحافظ فى الفتح  13/ 500 : ’’ مراد البخارى بهذين الحديثين المعلق والموصول الرد على من زعم أن قرأءة القارى قديمة، فبان أن حركة لسان القارى بالقرآن من فعل القارئى ، بخلاف المقروء ، فإنه كلام الله القديم ، كما أن حركة لسان ذاكرالله حادثه من فعله ، المذكوروهو الله سبحانه وتعالى قديم ، وإلى ذلك أشار بالتراجم التى تأتى بعد هذا ،،.

وقال فيه : ’’ باب قول الله عز وجل ( وأسروا قولكم أو اجهروبه،إنه عليم بذات الصدور . ألا يعلم من خلق وهو اللطيف الخبير (الملك : 13) ،،

ثم روى فيه أحاديث منها قوله ﷺ :’’ ليس منامن لم يتغن بالقرآن ،،( 7527)

قال القسطلانى  12/15، والحافظ فى الفتح 13/501 والعينى 25/181:قصد البخارى بذلك للإشارة إلى النكتة ، التى کانت محنته  بمسئلة اللفظ ، فأشاربالرجمة إلى أن تلاوة الخلق ، تتصف بالسر والجهر ، ويستلزم أن تكون مخلوقة ............ قال ابن المنير. دلت أحاديث الباب الذى قلبه على أن القراءة فعل القارى ، وأنها تسمى تغنيها ، وهذا هوالحق ،اعتقاد الاإطلاقا، حذرامن الإيهام وفرارا من الإبتداع بمخالفة السلف فى الإطلاق ، وقد ثبت عن البخارى أنه قال : من نقل عنى أنى قلت لفظى بالقرآن مخلوق فقد كذب ، وإنما قلت أفعال العباد مخلوقة ،، انتهى.

وقال فيه ........’’ باب قول النبى ﷺ : رجل آتاه الله القرآن ، فهو يقوم به آناء الليل وآناءالنهار، ورجل يقول : لو أوتيت مثل أوتى هذا ، فعلت كما يفعل ، فبين الله (أى على لسان نبيه ) أن قيامه بالكتاب هو فعله ، ( حيث أسند القيام إليه) وقال : ( ومن آياته خلق السماوات والأرض واختلاف ألسنتكم  وألوانكم )  (الروم :22) وقال جل ذكره : ( وافعلواالخير لعلكم تفعلحون (الحج :77 )  ، قال الحافظ ( فى الفتح 13/ 502): ’’ أما الآية الاولى فالمراد منهااختلاف ألسنتكم ، لأنها تشمل الكلام كله فتدخل القراءة ، أما الآية الثانية ، فعموم فعل الخير يتناول قراءة القرآن والذكر والدعاء وغير ذلك ، فدل على أن القراءة فعل القارى ،، انتهى.

وقال الحافظ فى شرح ( 13/503/504) ’’ باب قول الله تعالى : ياأيهاالرسول بلغ ماأنزل إليك من ربك ( المائده : 67) الخ ، قال البخارى فى كتاب خلق أفعال العباد :بعد أن ساق قوله تعالى ( يا أيهاالرسول بلغ ) الآية ،

قال: فذكر تبليغ ماأنزل إليه ، ثم وصف فعل تبليغ الرسالة ، فقال:(وإن لم تفعل فما بلغت ) ، قال : فسمى تبليغ الرسالة  وتركه فعلا، ولا يمكن لا حد أن يقول : إن الرسول لم يفعل ما أمربه من تبليغ الرسالة ، يعنى : فإذا بلغ فقد فعل ما أمر به وتلاوته ما أنزل إليه هوالتبليغ وهو فعله ،، (إلى آخر ماذكر ).

وذكر تحت قول عايشة رضى الله عنها : إذا أعجبك حسن عمل امرى ، فقل اعملوا فسيرى الله عملكم ورسوله والمؤمنون الخ قصة، ثم قال :’’ دل سياق القصة على أن المراد بالعمل ، ما أشارت إليه من القراءة  والصلوة وغيرهما فسمت كل ذلك عملا ،، انتهى ( فتح البارى  13/503/504/505).

وقال البخارى .......’’ باب قول الله تعالى ( قل فأتوا بالتوراة فاتلوها) الخ.

قال الحافظ فى الفتح 13/508:’’ مراده بهذه الترجمة ، أن يبين أن المراد بالتلاوة القراءة ، وقد فسرت التلاوة بالعمل ، والعمل من فعل العامل ، وقال فى كتاب خلق افعال العباد : ذكر ﷺ أن بعضهم يزيد على بعض فى القراءة :الخ.

وقال : ’’ باب قول النبى ﷺ الماهر بالقرآن مع سفرة الكرام البررة، وزينوالقرآن بأصواتكم ،، .

قال الحافظ  13/519: ’’ والذى قصده البخارى إثبات كون التلاوة فعل العبد ،فانها يدخلها التزيين والتحسين والتطريب ، وقد يقع بأضداد ذلك ،وكل ذلك دال على المراد ، وقد اشارالى ذلك ابن المنير فقال : ظن الشراح ان غرض البخارى جواز قراءة القرآن بتحسين الصوت ، وليس كذلك ،وإنما غرضه للإشارة الى  ما تقدم من وصف  التلاوة ، بالتحسين والتراجيع والخفض والرافع ومقارنة الاحوال البشرية ، كقول عائشة  : ’’ يقرأالقرآن فى حجرى، وأنا خائض ،، فكل ذلك يحقق أن التلاوة فعل القارى ، وتتصف بما تتصف به الافعال ، ويتعلق بالظروف الزمانية والمكانية ،،انتهى ،

ثم نقل الحافظ عن كتا ب خلق أفعال العباد ما يؤيد ذلك : ( فتح البارى  13/519).

وقال :’’ باب قول الله تعالى : (بل هو قرآن مجيد فى لوح محفوظ ).

قال الحافظ 13 / 522:’’ قال البخارى فى خلق افعال أن ذكر هذه الآية والذي بعدها ، قد ذكرالله أن القرآن يحفظ ويسطر، والقرآن الموعى فى القلوب ، المسطور فى المصاحف المتلو بالألسنة ، كلام الله ليس بمخلوق ، وأما المداد الورق والجلد فانه مخلوق ،،.

ان تمام عبارات سے صاف واضح ہےکہ امام بخاری تلاوۃ او رمتلوکےدرمیان فرق کرتے ہیں۔اور تلاوت کوبندے کا فعل وعمل کہتے ہیں۔او رچونکہ بندے کےتمام افعال مخلوق خدا ہیں۔اس لیے اس کی تلاوت یعنی : تلفظ بالقرآن (لفظی بالقرآن ) مخلوق ہے، اور متلو جواللہ کی صفت ہےوہ غیرمخلوق ہے، اوریہ پوری تشریح عین مفہوم ہے’’ لفظی بالقرآن مخلوق ،، کا ۔پس ہمارا یہ دعوی بالکل درست ہےکہ امام بخاری نےاگرچہ اپنی  زبان سےصرف ’’ افعالنا مخلوفة ، والفاظنا من افعالنا ،، کہا ہے اور احتیاطاً اور حذراً من الاتهام اور فرار من الابتداع عن لغة السلف في الاطلاق ’’  لفظي بالقرآن مخلوق ،، اپنی زبان پرکبھی بھی نہیں لائے ، لیکن ان کےعقیدہ اس جملہ کےمفہوم ومعنی کےمطابق ہی تھا ۔یعنی : ان کا عقیدہ وہی تھا جس پرجملہ مذکورہ دلالت کرتا ہے ۔لہذا گولفظا اس جملہ کی نسبت ان کی طرف صحیح نہیں ہے، لیکن معنی بلاشبہ صحیح ہے۔

هذا ما ظهر لي بعد إمعان النظر في كلامه  .عبيدالله مبارك پوری 26؍12؍1374ھ ؍ 16؍8؍ 1955 ء

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 119

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ