سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(141) نماز میں ہاتھ پر ہاتھ رکھنے کا طریقہ

  • 1597
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1324

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

( ۱)عَنْ عَلِیٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ مِنْ سُنَّةِ الصَّلٰوۃِ وَضْعُ الْاَیْدِیْ عَلَی الْاَیْدِیْ تَحْتَ السُّرَرِ(مصنف ابن ابی شیبه ج۱ ص۳۹۱)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کہ نماز کی سنت میں سے ہے ہاتھوں کو ہاتھوں پر رکھنا ناف کے نیچے۔

(۲) قَالَ ابْنُ حَزْمٍ رُویْنَا عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ وَضْعُ الْکَفِّ عَلَی الْکَفِّ فِی الصَّلٰوۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ (الجوہر النقی ج۲ ص۳۱)

ابن حزم فرماتے ہیں کہ ہم حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیے گئے کہ ہاتھ کو ہاتھ پر نماز میں رکھنا ناف کے نیچے ہو گا۔

(۳) عَنْ اَنَسٍ قَالَ ثَلاَثٌ مِنْ اَخْلاَقِ النُّبُّوَّۃِ تَعْجَیْلُ الْاِفْطَارِ وَتَاخِیْرُ السُّحُوْرِ وَوَضْعُ الْیَدِ الْیُمْنٰی عَلَی الْیُسْرٰی فِی الصَّلٰوۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ(الجوہر النقی ص ۳۲ ج۲)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا تین چیزیں نبوت کے کاموں میں سے ہیں جلد افطار کرنا دیر سے سحری کھانا اور نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا۔

(۴) ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے ہے فرمایا:یَضَعُ یَمِیْنَہُ عَلٰی شِمَالِہِ فِی الصَّلٰوۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ (ابن ابی شیبہ ج۱ ص ۲۹۰)

نمازی اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر نماز میں ناف کے نیچے رکھے۔

(۵) ابو مجلز فرماتے ہیں: یَضَعُ بَاطِنَ کَفِّ یَمِیْنِہِ عَلٰی ظَاہِرِ کَفِّ شِمَالِہِ وَیَجْعَلُہُمَا اَسْفَلَ مِنَ السُّرَّۃِ(ابن ابی شیبہ ج۱ ص۲۹۱) دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے اوپر والے حصے پر رکھے اور ان کو ناف سے نیچے رکھے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

از عبدالمنان نور پوری بطرف بھائی مکرم بابر صاحب امیر اہل حدیث سنہسرہ گورایہ حفظہما اللہ تبارک وتعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اما بعد! خیریت موجود خیریت مطلوب آپ نے ہمارے مدرسہ جامعہ محمدیہ کے ایک منتہی طالب علم نصیر احمد کے ہاتھ ایک تحریر مجھے بھیجی جس کے آغاز میں بسم اللہ نہیں لکھی گئی اور نہ ہی لکھنے والے بزرگوں نے اس میں اپنا اسم گرامی اور پتہ تحریر فرمایا اس میں کیا حکمت ہے ؟ وہ بزرگ ہی جانتے ہیں یا پھر اللہ تبارک وتعالیٰ ۔ بہرکیف اس تحریر میں مذکور باتوں کا جواب ترتیب وار مندرجہ ذیل ہے بتوفیق اللہ تبارک وتعالیٰ وعونہ ۔

(۱) اس روایت کی سند میں عبدالرحمن بن اسحاق ہیں جن کے متعلق سنن کبری للبیہقی میں لکھا ہے :

«عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ إِسْحَاقَ ہٰذَا ہُوَ الْوَاسِطِیُّ الْقُرَشِیُّ جَرَحَہُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ ، وَیَحْیٰی بْنُ مَعِیْنٍ ، وَالْبُخَارِیُّ ، وَغَیْرُہُمْ ۔ وَرَوَاہُ أَیْضًا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ عَنْ یَسَارٍ عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ کَذٰلِکَ ، وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ ابْنُ إِسْحَاقَ مَتْرُوْکُ‘‘ ۔» ۱ہـ (۳۱/۲-۳۲)

پھر اس کی سند میں زیاد بن زید کوفی ہیں جن کے متعلق تقریب میں لکھا ہے ’’زِیَادُ ابْنُ زَیْدٍ السُوَائِیُ الْأَعْصَمُ بِمُہْمَلَتَیْنِ الْکُوْفِیُ مَجْہُوْلُ مِنَ الْخَامِسَۃِ ۔ ۱ہـ (۱۱۰) ‘‘

علامہ زیلعی حنفی نصب الرایہ میں لکھتے ہیں

«وَلَمْ أَرَ مَنْ عَزَاہُ لِأَبِیْ دَاوُدَ إِلاَّ عَبْدُ الْحَقِ فِی أَحْکَامِہِ ، وَلَمْ یَتَعَقَّبْہُ ابْنُ الْقَطَّانِ فِی کِتَابِہِ مِنْ جِہَةِ الْعَزْوِ عَلَی عَادَتِہِ فِی ذٰلِکَ ، وَإِنَّمَآ تَعَقَّبَہُ مِنْ جِہَةِ التَضْعِیْفِ ، فَقَالَ : عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ إِسْحَاقَ ہُوَ ابْنُ الْحَارِثِ أَبُوْ شَیْبَةَ الْوَاسِطِیُّ قَالَ فِیْہِ ابْنُ حَنْبَلٍ، وَأَبُوْ حَاتِمٍ: مُنْکَرُ الْحَدِیْثِ ۔ وَقَالَ ابْنُ مَعِیْنٍ : لَیْسَ بِشَیْئٍ۔ وَقَالَ الْبُخَارِیُّ : فِیْہِ نَظَرٌ : زِیَادُ بْنُ زَیْدٍ ہٰذَا لاَ یُعْرَفُ ، وَلَیْسَ بِالْأَعْسَمِ(1)۔ انتہی وَرَوَاہُ أَحْمَدُ فِی مُسْنَدِہِ ، وَالدَّارَ قُطْنِیُّ ، ثُمَّ الْبَیہَقِیُّ مِنْ جِہَتِہِ فِی سُنَنِہِمَا قَالَ الْبَیہَقِیُّ فِی الْمَعْرِفَةِ : لاَ یَثْبُتُ إِسْنَادُہُ تَفَرَّدَ بِہِ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ إِسْحَاقَ الْوَاسِطِیُّ ، وَہُوَ مَتْرُوْکٌ ۔ انتہی ، وَقَالَ النَوَوِیُ فِی الْخُلاَصَةِ ، وَفِی شَرَحِ  مُسْلِمٍ : ہُوَ حَدِیْثُ مُتَّفَقٌ عَلَی تَضْعِیْفِہِ ، فَإِنَّ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ إِسْحَاقَ ضَعِیْفٌ بِالْاِتِّفَاقِ ۔ انتہی‘‘»   (۳۱۴/۱) 

تو یہ روایت اس قابل نہیں کہ اس سے استدلال کیا جائے کیونکہ وہ ثابت ہی نہیں۔

(۲) بیہقی کے کلام میں گذرا کہ اس کی سند میں عبدالرحمن بن اسحاق واسطی ہے جو متروک ہے لہٰذا اس سے استدلال کرنا بھی درست نہیں اس کے علاوہ اس روایت کی کوئی سند صاحب تحریر کو معلوم ہو تو وہ لکھیں اور اس چیز کو ملحوظ رکھیں کہ وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہو اور تَحْتَ السُّرَّۃ کے  لفظ یا معنی پر مشتمل ہو کیونکہ انہوں نے اس نمبر میں یہی کچھ لکھا ہے ۔

(۳) اس کی سند نہ تو ابن حزم نے ذکر کی اور نہ ہی جواہر النقی والے نے اور مجھے بھی ابھی تک کہیں نہیں ملی لہٰذا صاحب تحریر کے ذمہ ہے کہ وہ اس کی سند بیان فرمائیں۔

(۴،۵ ) یہ دونوں روایتیں مقطوع ہیں اور مقطوع روایت حجت نہیں ہوتی ۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب


(1)یہ لفظ محولہ بالا کتاب میں اسی طرح لکھا ہے۔ عنہ

احکام و مسائل

نماز کا بیان ج1ص 133

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ