سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(299) میں مسلمان ہونا چاہتی ہوں مگر صرف اللہ کے لیے،نکاح کے لیے نہیں

  • 15868
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 957

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں ایک عیسائی عورت ہوں اور ایک مسلمان شخص سے محبت کرتی ہوں اوراس سے شادی کرنا چاہتی ہوں اس نے میری اسلام کی طرف رہنمائی کی ،حتیٰ کہ میں نے اسلام کے صحیح دین ہونے کے علمی دلائل بھی دیکھے،اب میں نہ تومسلمان ہوں اور نہ عیسائی بلکہ ایک درمیانے مؤقف کی مالک ہوں۔میں حقیقتاً اسلام قبول کرنا چاہتی ہوں اور اس کی سچی کوشش بھی کررہی ہوں۔پہلے میں بہت زیادہ عیسائیت پر قائم تھی لیکن اب مجھے ا س کا شعور بھی نہیں رہا اور میرا خاندان بھی میرے اسلام قبول کرنے پر راضی ہے۔

اگرچہ مجھے یہ بات اچھی لگتی ہے اور عنقریب میں اسلام بھی قبول کرلوں گی لیکن مجھے ایک پریشانی ہے جو میری رغبت پوری کرنے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے اور اگر مجھے اسلام قبول کرتے وقت اطمینان محسوس نہ ہوا تو میں یہ سوچوں گی کہ میں نے صرف اسلام اس لیے قبول کیا ہے  تاکہ اس مسلمان شخص سے شادی کرسکوں،لیکن میں یہ نہیں چاہتی بلکہ میں تو یہ چاہتی ہوں کہ اسلام صرف اللہ تعالیٰ کے لیے قبول کروں اور اب  میں اپنے اس معاملے میں متردد ہوں تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟

میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا میں اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے غیر مسلم خاندان سے مل سکتی ہوں؟میں نے ایک اسلامی ویب سائٹ پر پڑھا ہے۔کہ اگر خاوند  ا پنی بیوی کو اپنی ناپسندیدہ جگہ  پر جانے سے منع کردے یا پھر جن اشیاء کووہ  نہیں چاہتا ان سے اپنی بیوی کو منع کردے تو بیوی کو اس کی اطاعت کرنا پڑتی ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ میں اپنے خاندان سے بہت زیادہ محبت کرتی ہوں اور وہ بھی مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں اسی لیے انہوں نے میری قبول اسلام میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی اور میں بھی یہ نہیں چاہتی کہ انہیں چھوڑ دوں اور وہ بھی مجھے چھوڑنا نہیں چاہتے۔

میر ی آپ سے گزارش ہے کہ آپ مجھے وضاحت سے یہ بتائیں کہ کیا میرےلیے ممکن ہے کہ میں ان سے مل سکوں اور ان کےتہواروں میں ان کےساتھ شرکت کرسکوں؟ اور کیا میں ان کےتہواروں پر ہدیوں اور تحفوں کاتبادلہ کرسکتی ہوں مثلاًکرسمس وغیرہ کے تہواروں پر؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ جیسی عورت کو اسلام قبول کرنے میں کسی بھی قسم کا تردد زیب نہیں دیتا اور نہ ہی آ پ کےلائق ہے کہ آپ قبول اسلام میں تردد کریں۔بلکہ آپ کو تو اللہ تعالیٰ نےاس قدر علم وحکمت کی مالک بنایا ہے آپ کو تو چاہیے کہ آپ اپنے علاوہ ایسے لوگوں کی بھی  اسلام کی طرف راہنمائی کریں جو اس سے ہٹے ہوئے ہیں۔آپ کو یہ علم ہونا چاہیے کہ آپ کےقبول اسلام کے پختہ ارادے اور آپ کے د رمیان صرف شیطان حائل ہے۔

اور وہی آپ کو اس قسم کے وسوسوں سے دو چار کررہاہے۔جن کی وجہ سے آپ دنیا وآخرت کی سعادت حاصل کرنے کافیصلہ کرنے میں متردد کا شکار ہیں۔

آپ کاقبول اسلام صرف اورصرف اللہ کےلیے ہے اور وہ مسلمان تو صرف اس میں ایک سبب کی حیثیت رکھتاہے۔اور اس وجہ سے آپ پرقطعاً کوئی عیب نہیں کہ فلاں شخص آپ کے قبول اسلام کا سبب بن رہاہے۔ہم آپ کے سامنے ایک ایسی عورت کاقصہ رکھتے ہیں جس کی دین اسلام میں کوئی نظیر نہیں ملتی یہ قصہ اس اُمت کے نوادرات میں شامل ہوتاہےاس واقعہ میں آپ مکمل طور پر غوروفکرکریں:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ  تعالیٰ عنہ   بیان کرتے ہیں کہ ابو طلحہ نے اُم سلیم رضی اللہ  تعالیٰ عنہا    کو شادی کاپیغام بھیجا تو انہوں نے جواب میں کہا،اے ابوطلحہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  !اللہ تعالیٰ کی قسم! تیرے جیسے مرد کو  رد نہیں کیا جاسکتا،لیکن تو ایک کافر شخص ہے اور میں مسلمان عورت ہوں میرے لیے یہ حلال نہیں کہ میں تیرے ساتھ شادی کرسکوں۔لیکن اگر  تو مسلمان ہوجائے تو میری شادی کا یہی مہر ہوگا،اس کے علاوہ میں کسی اور چیز کا مطالبہ نہیں کرتی۔اس پر ابو طلحہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ   مسلمان ہوگئے اور ان کی شادی کا مہر بھی اسلام ہی تھا۔

ثابت رحمۃ اللہ علیہ  جو کہ انس رضی اللہ  تعالیٰ عنہ   کےشاگرد ہیں ،کہتے ہیں کہ میں نے کسی بھی عورت کے بارے میں نہیں سنا کہ اس کامہر اُم سلیم کے مہر سے اچھا اور قیمتی ہو۔اُم سلیم رضی اللہ  تعالیٰ عنہا    سے ابو طلحہ  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ   کی شادی ہوگئی اور ان سے ان کی اولاد بھی ہوئی۔( صحیح،صحیح نسائی،نسائی(3341) کتاب النکاح باب التزویج علی الاسلام)

آپ یہ جان لیں کہ آپ کے دل کی تہوں تک ایمان بہت ہی جلد داخل ہوجائےگا اور یہ ساری کی ساری دنیا اس عظیم نعمت میں گزری ہوئی ایک گھڑی کے برابر بھی نہیں ہوسکتی، اسلام میں تو کچھ لوگ صرف مال حاصل کرنے کے لیے داخل ہوتے ہیں۔لیکن ان کے دلوں میں بھی اسلام کی محبت بہت ہی جلد داخل ہوجاتی ہے۔اور وہ اسلام سے محبت کرنے لگتے ہیں،اور پھر وہ اسی اسلام کی وجہ سے لڑائیاں لڑتے ہیں اور اس کے لیے اپنی سب سے قیمتی اشیاءحتیٰ کہ اپنی جان بھی قربان کردیتے ہیں۔لہذا آپ پر بھی یہ ضروری ہے کہ فوری طور پر بلاتاخیر اسلام قبول کرلیں اور یہ علم میں رکھیں کہ شیطان چاہتا ہے کہ وہ  آپ کو اس سعادت اور دین فطرت سے دور رکھے۔آپ دین اسلام میں داخل ہوکر وہ دین اختیار کریں گی جو کہ آدم علیہ السلام   ،ابراہیم علیہ السلام  ،موسیٰ علیہ السلام  ،اور عیسیٰ علیہ السلام  ،سب کا دین تھا،یہ وہی دین ہے جو دین فطرت کہلاتا ہے۔اور اسی پر سب لوگوں کو پیدا کیا گیا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اسلام آپ کو اپنے خاندان سے ملاقات کرنے سے نہیں روکتا بلکہ اسلام تو آپ کو اس کی وصیت کرے گا تاکہ آپ ان کے قبول اسلام میں معاون ومددگار ثابت ہوسکیں اور پھر لوگوں میں سے سب سے زیادہ اس لائق تو آپ کے خاندان والے ہی ہیں کہ وہ بھی اس عظیم نعمت میں آپ کے ساتھ شامل ہوں۔حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ  تعالیٰ عنہا    بیان کرتی ہیں کہ:

"میرے پاس قریش کے معاہدہ کی مدت کے دوران(یعنی صلح حدیبیہ کی مدت،جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے قریش کے ساتھ لڑائی نہ کرنے کا معاہدہ کیا تھا)میری والدہ آئیں جو کہ ابھی مشرکہ تھیں۔میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   سے اس کے بار ے میں دریافت کرتے ہوئے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  !میرے پاس میری والدہ آئیں ہیں اور وہ رغبت بھی رکھتی ہیں تو کیا میں ان سے صلہ رحمی کروں؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا،ہاں اپنی والدہ سے صلہ رحمی اور حسن سلوک کرو۔"( بخاری(2620) کتاب الھبہ:باب الھدیۃ للمشرکین مسلم(1003) کتاب الزکاۃ باب فضل النفقۃ والصدقۃ علی الاقربین والزوج والاولاد والوالدین ولو کانوا مشرکین ابو داود(1668) کتاب الزکاۃ باب الصدقۃ علی اھل الذمۃ ابن حبان(452) طیالسی(1643) احمد(26981)

اس  حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   اپنے خاندان ان کے ان لوگوں کے ساتھ بھی صلہ رحمی کی اجازت دے رہے ہیں جو دین اسلام  پر نہیں۔لیکن یہ یاد رہے کہ ان کے کہنے پر دوبارہ شرک کی طرف لوٹ جانا اور اسلام چھوڑ دینا قطعاً مباح نہیں بلکہ صرف دنیاوی اُمور میں ہی ان کے ساتھ بھلے برتاؤ کی اجازت ہے۔دین کے معاملے میں ان کی ماننے کی ہرگز کوئی گنجائش نہیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

"ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے اس کی ماں نے اسے دُکھ پر دُکھ اٹھا کرحمل  میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شگر گزاری کر(تم سب کو) میری طرف ہی لوٹ کرآناہے۔اور اگر وہ دونوں تم پر اس بات کادباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شرک کر جس کاتجھے علم بھی نہ ہوتو ان کا کہنا نہ ماننا،ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح گزر بسر کرنا اور اس کی راہ پر چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو پھر تم سب کا لوٹنا میری طرف سے ہی ہے اور جو کچھ بھی تم کررہے ہو پھر میں تمھیں اس سے خبردار کروں گا۔"(لقمان:15.14)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی اپنے خاندان و الوں کو د عوت دینے کااہتمام کیا تھا آپ ان کے پاس جاتے تھے اور انہیں دعوت دیتے تھے حتیٰ کہ آپ نے اپنے چچا ابو طالب کو بھی دعوت دی تھی  جبکہ وہ موت کے آخری سانس لے رہاتھا اس لیے آپ کے لیے اپنے خاندان والوں کو ملنے میں کوئی  رکاوٹ نہیں اور یہ سب کچھ آپ اپنے خاوند کے ساتھ مل کرکریں۔انہیں تحفے وغیرہ دینے میں بھی کوئی حرج نہیں اور ہوسکتا ہے کہ یہ چیز ان کے لیے تالیف قلب کا باعث بنے اور اس بنا پر وہ اسلام کی طرف راغب ہوجائیں لیکن یہ یاد رہے کہ یہ تحفے ان کے تہواروں پرانہیں دینا اور اسی طرح ان موقعوں پر ان سے تحفے لینا کیونکہ ایسا کرنے میں باطل کام پر ان کی اعانت اور ان کے اس  فعل پر  رضا مندی کا اظہار ہے۔(واللہ اعلم)(شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص378

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ