سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(28)حدیث صحیح سقیم کی عام معرفت

  • 15864
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 1318

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک جماعت اسلامی سےوالبستہ عالم دین لکھتے ہیں:

کتاب ’’سنت رسول،، مصنفہ شیخ مصطفی السباعی مترجمہ غلام علی کا ایک مقام ، باربار ذہن میں کھٹگ رہا ہے ۔بعض قریبی علماء سے دریافت کیا گیا مگر تسکین نہ ہوئی۔

موصوف ’’ متفرق علوم حدیث ،، حدیث کےزیر عنوان تحریر فرمانے ہیں:’’ سنت کوعلم روایت محافظت اور اس کےاصول ورماخذ کےمتعلق علوم کی متعدد اقسام ہیں۔حاکم نیشاپوری نےاپنی کتاب ’’ معرفۃ علوم الحدیث ،، ایسے باون 52 گنائے ہیں،،۔

ان میں سے چند کا ذکر شیخ موصوف نے اپنی اس کتاب ’’سنت رسول،، میں کیا  ہے۔جس میں نمبر 5’’ حدیث صحیح سقیم کی عام معرفت ،، ہے، اس عنوان کی تشریع کرتے ہوئے حضرت ابن عمر کی روایت ’’ صلوۃ اللیل وانہار مثنی مثنی ،، (مرعاۃ المفاتیح 4؍ 256؍ 257 )امثال میں پیش کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

’’ حاکم نےاس حدیث کےلیے ضروری ہےاو راس کےعلم کی تحصیل کےلیے اسناد کےبل پرنہیں پہچانی جاتی ۔بلکہ حدیث کافہم ،حفظ اورکثرت سماع بھی اس کےلیے ضروری ہےاور اس قسم کےعلم کی تحصیل کےلیے سب سے زیادہ مفید چیز اہل علم وفہم سےمذاکرہ ہے۔

عرض یہ ہے کہ وہ احادیث جوصیحین کےعلاوہ دوسری کتابوں میں ہیں۔خواہ وہ صحیح الاسناد ہوں ان کی جانچ اور پرکھ بہت ضروری ہے۔حاکم کوقول بالخصوص خط کشیدہ عبارۃ مسلک اہل حدیث کےخلاف تونہیں ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(1) کتاب ’’ سنت رسول ،، سے آپ نے امام حاکم کا جوقول نقل کیا ہے وہ مسلک اہل حدیث کےخلاف نہیں ہے۔اس لیے اس کا حاصل مطلب صرف اس قدر ہےکہ کسی حدیث کےراویوں کےثقہ ہونے سےاس کاصحیح  ہونا لازم نہیں ہوتا ۔تاوقتیکہ علل خفیہ قادحہ فی الصحۃ اورشذوز وغیرہ لگادیتا ہے،لیکن ایک ماہر فن جوکثیر الحفظ والسماع والمعرفۃ والاطلاع اور دقیق الفہم ہونا ہے،اس حدیث کی سند یامتن میں کسی پوشیدہ علت پراطلاع پانے کی وجہ سےاس کے معلول  ہونے کا حکم لگاتاہے۔او رحدیث غیر صحیح قرار پاتی ہے۔

حافظ زیلعی حنفی لکھتے ہیں:

’’ صحةالإسناد يتوقف علي ثقة الرجال ، ولو فرض ثقة الرجال ، لم يلزم منه صحة الحديث ، حتي ينتفي منه الشذوذ والعلة ،، (نصب الراية 1/347 ).

اور حافظ عراقی فرماتے ہیں:’’ قد يصح الاسناد لثقة رجاله ، ولا يصح الحديث الشذوذ أو علة ،، (فتح المغيث ..)

او رحافظ ابن حجر لکھتے ہیں: ’’لا يلزم من كون رجال الحديث ثقات أن يكون صحيحا ً ،، (تلخيص ص : 239 ).

اورحضرۃ الشیخ مولانا مبارک پوری فرماتے ہیں:

’’ أما قول الهيثمي رجاله ثقات ، فلا يدل علي صحة الحديث ، لا حتمال أن يكون فيه مختلط ، ورواه عنه صاحبه بعد اختلاطه ، أو يكون فيهم من لم يدرك من رواه عنه ، أو يكون فيه علة أو شذوذ ،، (تحفة 1/ 190).

امام حاکم کی پیش کردہ مثال حدیث ابن عمر ’’ صلاۃ اللیل والمنهار مثنی مثنی ،، کودیکھئے اس کےتمام راوی ثقہ ہیں اس لحاظ سے یہ پوری مرفوع حدیث  بظاہر صحیح معلوم ہوتی ہے، لیکن اکثر ائمہ نےجن میں امام حاکم بھی ہیں ا سکومعلول بتایا ہےاور کہاہے کہ اس میں ’’النھار ،، کی زیادتی صحیح نہیں ۔اگرچہ اس کے تمام رواۃ ثقہ ہیں۔حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : ’’ بِأَنَّ أَكْثَرَ أَئِمَّةِ الْحَدِيثِ أَعَلُّوا هَذِهِ الزِّيَادَةَ وَهِيَ قَوْلُهُ وَالنَّهَارِ بِأَن الْحفاظ من أَصْحَاب بن عُمَرَ لَمْ يَذْكُرُوهَا عَنْهُ وَحَكَمَ النَّسَائِيُّ عَلَى رَاوِيهَا بِأَنَّهُ أَخْطَأَ فِيهَا وَقَالَ يَحْيَى بْنُ معِين من عَلِيٍّ الْأَزْدِيِّ(الراوي عن ابن عمر) حَتَّى أَقْبَلَ مِنْهُ،، (فتح الباري 2/ 479).

اور بھی لکھتے ہیں:’’ رَوَى بن وهب بِإِسْنَاد قوي عَن بن عُمَرَ قَالَ صَلَاةُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مَثْنَى مَثْنَى مَوْقُوف أخرجه بن عَبْدِ الْبَرِّ مِنْ طَرِيقِهِ فَلَعَلَّ الْأَزْدِيَّ اخْتَلَطَ عَلَيْهِ الْمَوْقُوفُ بِالْمَرْفُوعِ فَلَا تَكُونُ هَذِهِ الزِّيَادَةُ صَحِيحَةً عَلَى طَرِيقَةِ مَنْ يَشْتَرِطُ فِي الصَّحِيحِ أَن لَا يكون شاذا ،، انتھی (2/479).

غیر صحیحین کی وہ احادیث جن اسانید ، ثفاہت رجال کی وجہ سے بظاہر صحیح معلوم ہوتی  ہوں ۔لیکن کسی امام فن سے ان کی تصحیح یا تحسین منقول ومنصوص نہ ہو ،  ایک صاحب اہلیت محدث کےلیے ضروری ہے ان کوجانچ اور پرکھ کر اور یہ تحقیق کرے کہ انھیں کوئی علت تونہیں ہے؟ جب ہرطرح اطمینان ہودجائے توان کے صحیح یا حسن ہونے کا حکم لگائے۔

امام حاکم کےقو ل کا ہم نےجو یہ مطلب بیان کیا ہے ۔اس کی تائید خود ان کی اصل عربی عبارت سے ، ونیز دوسری کتب اصول حدیث سے ہوتی ہے۔لیکن قبل اس کے  کہ یہ عبارت پیش کی جائیں یہ بتا دینا ضروری معلوم ہوتاہے کہ امام حاکم نے ’’ معرفۃ الصحیح والسقیم ،، کی نو ع کو ’’ معرفۃ علل الحدیث ،، سےالگ علیحدہ نوع قرار دیا ہے۔چنانچہ ’’ ذکر النوع السابع والعشرین ،، کے ماتحت لکھتے ہیں:

’’ هذا النوع منه معرفة علل الحديث ، وهو علم برأسه، غير الصحيح والسقيم والجرح والتعديل ،،(علوم الحديث ص : 112).

لیکن ہمارے خیال میں یہ تفریق صحیح نہیں معلوم ہوتی ہے۔خود ان کی آگے کا یہ عبارت : ’’ وعلة الحديث يكثر في أحاديث الثقات ، أن يحدثوا بحديث له علة ، فيخفي عليهم علمه ، فيصير الحديث معلو لاً ، والحجة فيه عندنا الحفظ والفهم والمعرفة لا غير ،،علوم الحدیث :).

اس امر پر صاف طور پردلالت کرتی ہےکہ دونوں نوع میں (معرفت صحیح وسقیم اورمعرفت علل حدیث ) باعتبا ر مآل ومقصد کےایک ہیں۔حافظ ابن الصلاح فرماتے ہیں:’’معرفة علل الحديث من أجل علوم الحديث وأدقها وأشرفها ، وإنما يطلع بذلك أهل الحفظ والخبر ة والفهم الثافب ، وهي عبارة عن أسباب خفية غامضة قادحة فيه ، فالحديث المعلل : هوالحديث  الذي اطلع فيه علي علة تقدح في صحته ، مع أن الظاهر السلامةمنها، ويتطرق ذلك الي الإسناد الذي رجاله ثقات الجامع شروط الصحة من  حيث الظاهر ،،                ( مقدمة ابن الصلاح مع شرحه التقييد والايضاح ص : 115 ).

یہ عبارت واضح دلیل ہےاس امر پرکہ ’’ معرفت علل حدیث ،، ’’معرفت صحیح وسقیم ،، سےالگ  نہیں ہے ۔بہرحال امام حاکے قول مسؤل عنہ کی تشریع میں ہم نے جوکچھ لکھا ہے وہی اہل  حدیث کا بھی مسلک ہے۔اب امام حاکم کی اصل عربی عبارت پڑھیے جس کا ترجمہ آپ نے ’’ سنت رسول ،، سےنقل کرکے استفسار کیا ہے ۔امام حاکم ’’ ذكر النوع التاسع عشر من علوم الحديث ،، کے زیر عنوان لکھتے  ہیں:’’ وهو معرفة الصحيح والسقيم ، وهذا النوع من هذه العلوم ، غير الجرح والتعديل الذي قد منا ذكره ، فرب اسناد يسلم من  المجرد وحين ، غير مخرج في الصحيح ،،  پھر اس کی مثال میں اپنی سند سےحدیث ابن عمر مرفوعاً ’’ صلاة لليل والنهار مثني مثني ،،روایت کرنے کےبعد لکھتے ہیں:’’ هذا حديث ليس في اسناد ه إلا ثقة ثبت ، وذكر النهار فيه وهم ، والكلام عليه يطول ،، .

پھر اس نوع کی دومزید مثالیں ذکرفرماتے ہیں:

’’ ان الصحيح لا يعرف بروايته (اي برواية الثقة ) فقط ، وإنما يعرف بالفهم والحفظ وكثر ةالسماع ، و ليس لهذا النوع من العلم عون ، أكثر من مذاكرةأهل الفهم والمعرفة ، ليظهر مايخفي من علة الحديث ، فإذا وجد مثل هذا الأحاديث بالأسانيد الصحيحة ، غير مخرجة في كتابي إلا ما مين البخاري ومسلم ، لزم صاحب الحديث التفسير  (البحث ولتفتيش ) عن علته ، ومذاكرة اهل المعرفة لتظهر علته  ،، . ( معرفۃ علوم الحدیث ص  58؍59 ؍60 )

پوری عبارت غور سے پڑھ جائیے اس کلام کااس  کےسوا او رکیا مطلب ہوسکتا ہے جوہم نےبیان کیا ہے ۔اور کیا یہ نوع معرفۃ علل حدیث سےالگ کوئی دوسری مستقل نوع ہوسکتی ہے ؟

  • حافظ سیوطی تدریب الراوی ص : 63 میں ’’ صحیح ،، کی مشہور اصطلاحی تعریف :’’ مااتصل إسناده بالعدول الضابطين من غير شذوذ ولا علة  ،، کی قیود کےفوائد اوراس تعریف پروارد کردہ منافشات اوربعض دیگر متعلقہ امور ذکر کرنے کےبعد ’’فائدہ ،،  کےتحت لکھتے ہیں: بَقِيَ لِلصَّحِيحِ شُرُوطٌ(متدوال نسخوں میں ’’ بقی للصحیح شروط ،، ہے(فواز) مُخْتَلَفٌ فِيهَا: مِنْهَا مَا ذَكَرَهُ الْحَاكِمُ مِنْ عُلُومِ الْحَدِيثِ: أَنْ يَكُونَ رَاوِيهِ مَشْهُورًا بِالطَّلَبِ، وَلَيْسَ مُرَادُهُ الشُّهْرَةَ الْمُخْرِجَةَ عَنِ الْجَهَالَةِ، بَلْ قَدْرٌ زَائِدٌ عَلَى ذَلِك قَالَ عَبْدُالرحمن ِ بْنُ عَوْنٍ: لَا يُؤْخَذُ الْعِلْمُ إِلَّا عَلَى مَنْ شُهِدَ لَهُ بِالطَّلَبِ.قال شيخ الإسلام (الحافظ ابن حجر ): ويكمن أن يقال اشتراط الضبط يغني عن ذلك ، اذا المقصود الشهرة بالطلب ، أن يكون له مزيد اعتناء بالرواية لتركن النفس الي كونه ضبط ماروي ، منها ما ذكر ه السمعاني في القواطع : أن الصحيح لا يعرف برواية الثقات فقط ، وإنما يعرف بالفهم والمعرفة وكثرة السماع والمذاركرة.قال شيخ الإسلام : وهذا يؤخذ من اشتراط انتفاء . كونه معلولاً ، لأن الإطلاع علي ذلك ، إنما يحصل  بما ذكر من الفهم والمذاركرة وغيرهما، منها : أن بعضهم اشترط علمه بمعاني الحديث ، حيث يروي بالمعني ، وهو شرط لا بد منه ، لكنه داخل في الضبط ،ومنها اشتراط البخاري أحد إلي أنه شرط الصحيح بل للأصحية ( قلت : بل هوشرط التزمه البخاري لما أورده وقيل : إن ذلك لم يذهب أحد إلي أنه شرط الصحيح بل للأصحية ( بل هوشرط التزمه البخاري لما أورده في جامعه الصحيح ،لا للصحيح مطلقاً،كما ذهب اليه  الحافظ ابن كثير في اختصار علوم الحديث ) ومنها : أن بعضهم اشتراط العدد  في الرواية كالشهادة ،،إلي آخرما بسطاالكلام في هذه الأخير تدريب الراوي 1/ 69/70/ 71).

اور علامہ جزائری ’’ صحیح ،، کی تعریف اور دیگر متعلقہ امور پرکلام وبحث کرنے کےبعد لکھتے ہیں : ’’ وقد بقي للصحيح شروط قد اختلف فيها ، فمنها ماذكر ه الحاكم في علوم الحديث من كون الراوي مشهورا بالطلب ............ومنها ثبوت التلاقي بين كل راوو من روي عنه ، وعدم الاكتفاء بالمعاضرة وامكان التلافي بينهما ...............، ومنها ما ذكرهالسمعاني في القوطع : وهو أن الصحيح لايعرف بالثقاة فقط ، وإنما يعرف بالفهم والمعرفة وكثرة السماع والمذاكرة ،قال بعضهم (يعني الحافظ ابن حجر ): أن هذا داخل في اشتراط كونه غير معلول ، لأن الإطلاع علي ذالك ، إنما يحصل بما ذكر من الفهم والمعرفة وغيرهما ،،. ( توجیہ النظر للجزائری ص 73؍ 74 )

دونوں کتابوں کی خط کشیدہ عبارات کوغور سے پڑھئے ۔حاکم کی عبارت میں اور سمعانی کی عبارت میں کوئی فرق نہیں ہے۔دونوں کا ماحصل اس کے سوا اور کیا ہے کہ صرف سند کےصحیح ہونے یعنی راویوں کےثقہ ہونے سےحدیث صحت  پہچانی جاتی ہےکثرۃسماع ، وسعت معرفۃ واطلاع ،ماہرین فن سےمذاکرہ اور کثرۃحفظ طرق کی مدد سے جب تک  اس حدیث  کی سند یامتن سےشذوذوغلت وغیرہ کےانتفاء کا ظن غالب نہ  ہوجائے اس حدیث کی صحت کاحکم نہیں لگایا جا سکتا ۔لیکن جیسا کہ حافظ ابن حجر کےکلام میں گزر چکا ہے’’صحیح ،، کی تعریف ہے’’ انتفاء علت وشذوذ ،، کی قیدوشرط کےبعد اس نئی مزید شرط یامعیار کےاضافہ کی قطعا گنجائش نہیں ہے۔

شاید حاکم کےکلام میں ’’فہم ،، کےلفظ سےآپ کا ذہن اس طرف گیا ہے کہ اس سےحدیث  میں درایت سےکام لینے کو قائل نہیں ہیں۔اس لیے حاکم کا یہ قول مسلک اہل حدیث کےخلاف ہے۔

اس کےمتعلق نہایت اختصار کےساتھ اس قدر عرض ہےکہ اس سے مراد اولاً : یہاں ’’ فہم ،، سےدرایت مصطلحہ مراد لینے میں کلام ہے۔

ثانیا ً: یہ زعم وخیال کہ  اہل حدیث تنقید حدیث میں صرف سند پراعتماد کرلیتے ہیں اور مضمون حدیث کونہیں دیکھتے اورتحقیق حدیث میں درایت سےکام لینے کےقائل نہیں ہیں۔یکسر غلط اور الزام محض ہے ۔اس طرح یہ خیال بھی صحیح نہیں کہ ائمہ متقدین محدثین نےنقد احادیث میں عقل وفہم اور اصول درایت سےکام نہیں لیا ہےاوراس معاملہ میں فقط سند پراعتمادکیا ہے۔واقعہ کیاہے ۔واقعہ اور حقیقت یہ ہے  کہ عقل وفہم اورتفقہ ودرایت کا جومقام ومرتبہ ہے، محدثین نےنقد حدیث میں اس کا پورا پورا لحاظ رکھا ہےاور موجودہ علماء حدیث بھی اس کی پوری رعایت کرتےہیں۔

قرآن کریم نےجب تمام دینی امور میں عقل وفہم اورتدبر وتفکر سےکام لینے کی ہدایت کی ہے ،تویہ دینی مسئلہ کیوں کر اس سےمستثنی ہوسکتا ہے، یہی وجہ ہے حضرت عمر ، حضرت حفصہ ، حضرت عائشہ ، حضرت ابن عباس ، حضرت ابوایوب  ، حضرت ابن مسعود ﷢ً ،و دیگر فقہاء صحابہ وتابعین نےاس بارے میں  برابر درایت سےکام لیا ۔پھر فقہاء محدثین اپنے اپنے زمانوں میں اس کی پوری پوری رعایت کی ، بلکہ بعض ائمہ حدیث نے اس کے اصول بھی منضبط فرمائے ۔گوان میں سے بعض اصل مخدوش ہیں ملا حظہ ہو: فتح المغيث للسخاوي ، الموافقات للشاطبي ، تدريب الراوي للسيوطي ( 1/ 275/476 )، توجيه النظر للجزائري ص : 82)، الموضوعات للملاعلي القاري الهروي ص: 92 تا آخر كتاب –

طاش کبری زادہ نےمفتاح السعادۃ 2؍2 میں ’’ علم درایۃالحدیث ،، کی  یہ تعریف لکھی ہے:’’ هوعلم يبحث فيه المعني المفهوم من الفاظ الحديث ، وعن المعني المراد منها ، مبتيا ً علي قواعد العربية وضوابط الشريعة ، ومطابقاً الأحوال النبي  صلي الله عليه وسلم ،، .ظاہرہے اس درایت سےکون انکار کرسکتا ہے۔تحقیق حدیث میں سب سےپہلے اصول حدیث کی روشنی میں سند حدیث پراعتماد کرنا ضروری ہے، سند کی طرف سےاطمینان نہ ہو ،تو مضمون حدیث کودیکھ کراس کے ذریعہ بھی حدیث کا درجہ معلوم کیا جاسکتا ہے ۔مگر اس کے لیے کچھ شرائط ہیں ، جن کی تفصیل کا یہ موقعہ نہیں ہے۔اس کےلیے ملاحظہ ہو:قواعد التحدیث ص : 146تا ص 155

یہ جان لینا ضروری ہےکہ ہم احادیث نبویہ وآثار صحابہ کی تحقیق  وتنقید میں ان اصول درایت سےکام لینے کوقائل نہیں ہے، جن کوابن خلدون نےتاریخی واقعات کی تحقیق کےلیے مرتب کیا ہے ، اور ان سےکام لینے کوضروری بتایا ہے، لکھتے ہیں:

’’لأن الأخبار إذا فيها علي مجرد النقل ،ولم نحكم أصور العادة وقواعد السياسة وطبيعة العمران والأحوال في الإجتماع  الأنساني ، ولا قيس الغائب منها بالشاهد والحاضر بالذاهب فربما لم يؤمن فيها من العثور ومزلة القدم ، والحيد عن جادة الصدق ،، ( مقدمہ ابن خلدون ص :6 نیز ملاحظہ ہوص : 16 )

٭اورنہ ہی ہم اس درایت کے قائل ہیں جس کوصاحب سیرۃ النعمان نےان الفاظ میں بیان کیا ہے:

’’ درایت سےیہ مطلب ہے کہ جب کوئی واقعہ بیان کیا جائے تواس پر غور کیا جائے کہ وہ طبیعت انسانی  کے اقتضاء ، زمانہ کی خصوصیتوں ،منسوب الیہ کےحالات اوردیگر قرائن عقلی کےساتھ نسبت رکھتا ہے،،

ظاہر ہےخط کشیدہ عبارت  والی درایت بالکل نیچر یانہ درایت ہے، جس سےکسی اہل حدیث کواتفاق نہیں ہوسکتا ، ہم اس درایت کو بھی قابل اعتناء نہیں سمجھتے جس کی روشنی میں متکلمین سیدہی اور آسان صحیح احادیث کی بھی عجیب وغریب تأویل کرڈالتے تھے اوراگر  کوئی تاویل نہیں کرسکتے تھے تواپنی عقول کےخلاف ہونے کی وجہ سے انہیں رد کردیتے ،بلکہ بعض بےباک قسم کےان کامذاق بھی اڑاتے ،ہمارے نزدیک یہ ان کےعقول وافہام کے...........وفساد کا نتیجہ اورغیر اسلامی علوم ومعارف سےتأثر کاثمرہ تھا ۔

ہم ان متنورین کی دریت کوبھی ناقابل  التفات سمجھتے ہیں جواس فن سےبالکل کورے ہیں۔اور مستشرقین کی  آراءو تحقیقات سے مرعوب ہوکر ان پر ایمان لا چکے ہیں، اور ان کے اعتراضات وہفوات کےجواب سےقاصر ہوکر قرآنی آیات میں معنوی تحریف اور احادیث کی غلط تأویل کرتے  ہیں یا ان کورد کردیتے ہیں جیسے  سرسید راحمد اور ان کے ہم خیال نیچر پرست ۔

مولانا مودودی نے ’’ مسلک اعتدال ،، وغیرہ میں حدیث  کی طنیت اورفقہاء کی درایت میں مہارت اورائمہ حدیث کے درایت وتفقہ سےبے تعلق رہنے کا دعوی کیا ہے اور اس کی تشریح میں جو کچھ لکھا  ہے۔وہ بھی مسلک اہل حدیث کےخلاف ہے۔انہوں  نےمتاخرین حنفیہ کی باتوں کوایک نئے انداز او راسلوب میں پیش کردیا ہے اوربس۔

٭( محمولہ عبارت درج ذیل ہے:

’’وقد كدنا أن نخرج عن الكتاب ، بالإطناب في هذه المغالط فقد زلت أقدام كثير من الأثبات والمؤرخين الحفاظ ، في مثل هذه الاحاديث ولآراء وعلقت بأفكار هم ، ونقلها عنهم الكافة من فعفة النظر والغفلة عن القياس ، وتلقوها هم أيضا ، كذلك من غير بحث ولا رؤية ، واندرجت في  محفوظاتهم ، حتي صارفن التاريخ واهما مختلطا وناظره مرتبكا ، وعدمن مناحي العامة ، فإذا يحتاج صاحب هذالفن ، الي العلم بقواعد السياسة وطبائع الموجودات ، واختلاف الأمم والبقاع والاعصارم في السير ، والاخلاق والعوائد والنحل والمذاهب وسائر الأحوال ،والإحاطة بالحاضرمن ذلك ، ومماثلة مابينه ومابين الغائب من الوفاق ، أو بون مابينهما من الخلاف ، وتعليل المتفق منها والمحتلف ، والقيام علي أصول الدول والملل ، ومبادي ظهور ها اسباب حدوثها  ودواعي كونها، وأحوال القائمين بها وأخبارهم ،حتي يكون مستوعبا لأسباب كل حادث ، وافقا علي أصول كل خبر ، وحينئذ يعرض خبر المنقول علي ما عنده من القواعد والأصول ، فإن وافقها وجري علي مقتضاها ، كان صحيحا ، وألا زيفه واستغني عنه.

وماستكبر القدماء علم التاريخ إلا لذلك ، حتي انتحله الطبري والبخاري ، وابن اسحاق من قبلهما وامثالهم من علماء الامة ، وقد ذهل الكثير عن هذا السرفية ، حتي صارانتحاله مجهلة، واستخف العوام ومن لا رسوخ له في المعارف مطالعته وحمله ، والخوض فيه التطفل عليه، فاختلط المرعي بالهمل واللباب بالقشر والصادق بالكاذب وإلي الله عاقبة الامور.،،)

الحمدللہ کہ حضرت مولانا محمداسماعیل صاحب سلفی نےاس مضمون کی لاجواب تنقید کرکے اس کا تاروپود بکھیر دیا ہے۔’’مسلک اعتدال ،، کےساتھ مولانا محمداسماعیل صاحب کاجوابی مقالہ ضرور دیکھنا چائیے کہ ’’مسلک اعتدال ،، کےمضر اورغیر معتدل اثرات سےمحفوظ رہا جا سکے۔

آخر میں ہم علامہ جزائری کا وہ  کلا م ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔جس میں انہوں نے درایت سے کام لینے کےمسئلہ میں تین مسلک ذکر کئے ہیں چنانچہ فرماتے ہیں:

’’اعلم أن هذه المسئلة من أهم مسائل هذه الفن الجليل السأن ، والناظرون في هذا الموضع قد انقسموا الي ثلات فرق.

الفرفة الأول : فرقة جعلت جل همها النظر في الإسناد ، فإذا وجدته متصلاً، ليس في اتصاله شبهة ، ووجدت رجاله ممن يوثق بهم ، حكمت بصحة الحديث  قبل امعان النظر فيه ، حتي إن بعضهم يحكم بصحته ولو خالف حديثا آخر ، رواته أرجح ، ويقول كل ذلك صحيح ، وربما قال : هذا صحيح ،وهذا أصح ،وكثيراً مايكون الجمع بينهما غير ممكن ، وإذا توقف متوقف في ذلك نسبه إلي مخالفة السنن ،وربما سعي في ايقاعه في محنة من المحن ،مع أن جهابذة هذا الفن ، قد حكموا بأن حجة الإسناد لا تقتضي صحة المتن ، ولذلك قالوا، لا يسوغ لمن رأي حديثا له إسناد صحيح ،أن يحكم بصحته ،إلا أن يكون من أهل هذا لشأن ،لأحتمال أن تكون له علة قادحة قد خفيت عليه ،،.

’’ الفرقة الثانية : فرقة جعلت همها انظر في نفس الحديث ،فإن رامتها أمره حكمت بصحته ، واسندته إلي النبي  عليه الصلاة والسلام ، وإن كان في إسناده مقال، مع أن في كثير من الأحاديث  الضعيفة بل الموضوعة ماهو صحيح المعني فصيح المبني ، غير أنه لم تصح نسبته إلي النبي   عليه الصلاة والسلام ، وقال بعض الوضاعين : لابأ س إذا كان الكلام حسنا أن تضع له إسناده ، وحكي القرطبي عن بعض أهل الرأي أنه قال: ماوافق القياس الجلي ، يجوز أن يعزي إلي النبي  عليه الصلاة والسلام ، وان راعهم أمره لمخالفته لشئي مما يقولون به، وإن كان مبنيا علي مجرد الظن ، بادروالرد الحديث والحكم بوضعه وعدم صحة رفعه ، وإن كان إسناده خاليا عن كل علة، وإن ساعدهم الحال علي تأويله علي وجه لا يخالف أهوائهم ، بادروا الي ذالك ،وهذه الفرقة : هم المعتزلة والمتكلمون الذين حذواحذوهم ، وقد نحا أناس من غيرهم نحوهم ، وقد طعنت الفرقة الاولي في هذه الفرقة طعنا شديد اً وقابلتهم ،وهذه الفرقة يمثل ذلك أو أشد .

ونسبوا رواة ما أنكروه من الأحاديث إلي الإختلاف الوضع ، مع الجهل بمقاصد الشرع ، وقد ذكر ابن قتيبة شيئا من ذلك في مقدمة كتابه ، الذي وضعه في تأويل مختلف الحديث ، والجاملون اكتفوا بأن نسبوا الي الرواة الوهم والغلط والنسيان ، وهو مما يخلوا عنه انسان ، وقالوا: إن المحدثين أنفسهم قدردوا كثيرا من أحاديث الثقاة بناء علي ذلك ،،.

قال الجزائري : ’’ ولايدخل في هذه الفرقة أناس ردوابعض الأحاديث الصحيحة الإسناد ، لشبهة قوية عرضت لهم ، أو جبت شكهم في صحتها ، إن كانت مما لا يدخل فيه النسخ أو في بقاء حكمها ، إن كانت مما يدخل فيه ، فقد وقع التوقف في الأخذ بأ حاديث صحيحة الإسناد ، فقد وقع ذلك لأ ناس من العلماء الأعلام المعروفين بنشرالسنن ، بل وقع لأناس من كبار الصحابة ،، . ثم ذكر الجزائري مثالا لذلك ، من أحب الوقوف عليه ،رجع الي توجيه النظزص: 76.

’’ الفرقة الثالثة :فرقة جعلت جلّ همهما البحث عما صح من الحديث لتأخذبه ، فأعطت المسألة حقها من النظر ، فبحثت في الإسناد والمتن معاً ، بحث مؤثر للحق ، فلم تنسب إلي الرواة الوهم والخطاء نحو ذلك ، لمجرد كون المتن يدل علي  خلاف رأي لها ، مبني علي مجرد الظن ، ولم تعتقد فيهم أنهم معصومون عن الخطأ والنسيان ، وهذه الفرقة ثبت عندها صحة كثيرمن الأحاديث ، التي ردتها الفرقة الثانية ، وهي المفرطة فيه ، وهذه الفرقة هي أوسط الفرق وأمثلها وأقربها للإمتثال ، وهي أقل الفرق عدداً ، ومقتفي أثرها ممن أريدبه الرشد،،.

 توجيه النظرالي أصول الأثرلطاهربن صالح الجزائري ص :174 الي 182 الطبعة الاولي  1328 ه/ 1910ءم

٭ کثرت مشاغل کےباعث ’’نتائج التقلید ،، بالاستعیاب نہیں پڑھ سکا ۔تاہم اس کے اکثر مقامات نظر سےگزر گئے ہیں۔ماشاءاللہ کتاب نہایت محنت سےلکھی گئی ہے اور موضوع اورمقصد کےلحاظ سےبالکل اچھوتی اور بےنظیر،اور اس لائق ہےکہ ہمارے وہ حضرات جودیوبندی صاحبان سےکسی قسم کا حسن ظن رکھتے ہیں ا ور ان پر اعتماد کرتے ہیں، خصوصیت کےساتھ اس کا مطالعہ کریں۔

دیوبندی مسلک سے والبستہ سب ہی حضرات اہل سنت اور اہل حدیث سے النقباض اوربغض ونفرت رکھنےمیں مشترک ہیں مولانا تھانوی صاحب کاخواب اوراس کی تعبیر ،اور کتب احادیث کےتحشیہ وطباعت میں دیوبندی علماء کا کتر بیونت اور مخالف مذہب احادیث کا آپریشن کرنا ں مسلک اہل حدیث  سےدشمنی رکھنے کا ہی نتیجہ ہے ۔اسی طرح اہل حدیث کےپیچھے نماز پڑھنے میں کراہت وانقباض اور اہل حدیث طلبہ کواپنے مدارسس میں برداشت نہ کرنا ، اہل حدیث سےبعض رکھنے کا ہی کرشمہ ہے۔

جن دیوبند ی صاحبان نےاپنی  تحریروں میں علماء اہل حدیث کے شان میں گستاخانہ کلمات لکھے ہیں اور ان کا استخفاف کیا ہے ۔یہ ان کی وقاحت وسوقیت کی کھلی دلیل ہے ،ان کےمدرسین کاتقریبا یہ معمول ہوگیا ہے کہ درس کےوقت کاکچھ حصہ علماء اہل حدیث کی تحقیر اورتجہیل وتسفیہ میں اور اپنے طلبہ کوان کی طرف سےبدظن ومتنفر کرنے کےلیے بیہودہ ،من گھڑت قصوں اور اپنے مولویوں کی علمیت وکراہت کی جھوٹی بےسروپاداستانوں کے بیان میں ضرور صرف کرتے ہیں،اور موقع بے موقع ائمہ محدثین اورکبت حدیث بالخصوص صحیح بخاری کےاستخفاف اورامام بخاری پررکیک حملے اورطعن وتشنیع کرنے سے نہیں چوکتے ،اور مقابلہ میں حنفی علماء وفقہاء کی جلالت اورفقہ وکتب فقہ کی عظمت مزہ لےلے بیان کرتے ہیں۔

ابن ہمام نے ’’ تحریر،،اور’’ فتح القدیر ،، میں صحیحین کےمرتبہ کےمتعلق اورزاہد کوثری مصری اپنی تصنیفات و حواشی میں محدثین اورائمہ جرح وتعدیل کےخلاف جوکچھ لکھا ہے وہ کسی سےپوشیدہ نہیں ہے۔

مولانامودودی صاحب نے ’’ مسلک اعتدال ،، وغیرہ میں کتب حدیث اورائمہ حدیث وفقہ کےبارے میں جن خیالات کااظہار کیا ہے وہ در حقیقت ابن ہمام وغیرہ کےانہیں رجحانات کی ترجمانی ہے۔مودودی صاحب کی تقریر کواپنے مخصوص طرز وانداز میں بیان کردیا ہے اوربس۔

اللہ تعالی ہمارے اصحاب کےدلوں میں اس کتاب کےمطالعہ واشاعت کاشوق وجذبہ پیدا فرمائے اور دیوبندی مولوی صاحبان کےمکائد سمجھنے اوران سےہوشیار رہنے کوتوفیق بخشے اور آپ کی اس خالص دنی خدمت کوقبول فرمائے ( آمین )

 عبیداللہ رحمانی مبارکپوری 33؍ ذولقعدہ 1376ھ ( نتائج التقلید بحوالہ الفلاح بھیکم پورگونڈہ علامہ عبیداللہ رحمانی نمبر ج:3؍4ش: 11؍1،12 ؍ 2،جون تاستمبر 1994ء ؍ 1415 ھ )

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 89

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ