سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(294) شوہر کا زیادہ دیر ڈیوٹی پر رہنا اور بیوی کو اکیلا چھوڑنا

  • 15859
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 909

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا گھر میں بیوی کو چھوڑنا اور اسے یہ کہنا کہ میرے بغیر تو گھر سے نہیں نکل سکتی غلط ہے؟ میں دن میں پندرہ گھنٹے اور ہفتہ کے ساتوں دن کام کرتا ہوں اور وہ گھر میں اکیلی بور ہوتی رہتی ہے تین ہفتوں کے بعد مجھے ایک دن کی چھٹی ملتی ہے وہ بھی جب میرا نصیب ہو۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔بلاشبہ دنیاوی زندگی میں خواہشات بہت ہی زیادہ ہیں اور انسان کو گمراہ کرنے کے لیے شیطان مختلف انواع و اقسام کے طریقے استعمال کرتا ہے

اس لیے خاوند پر واجب ہے کہ وہ اس میں احتیاط سے کام لے۔

اللہ تعالیٰ نے اس کی بیوی اوراولاد کے بارے میں اس پر بہت ہی اہم ذمہ داری ڈالی ہے اور ان کی حفاظت و تربیت کا معاملہ بھی اسی کے سپرد کیا ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے اس کے متعلق یوں فرمایا ہے۔

"كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤول عَنْ رَعِيَّتِهِ، الإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا وَمَسْؤولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا، وَالْخَادِمُ رَاعٍ فِي مَالِ سَيِّدِهِ ومَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، -قَالَ: وَحَسِبْتُ أَنْ قَدْ قَالَ: وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي مَالِ أَبِيهِ وَمَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ- وَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ"

"تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہو گا ۔ امام نگران ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ مرد اپنے گھر کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ابن عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ   نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے یہ بھی فرمایا کہ انسان اپنے باپ کے مال کا نگران ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہو گا اور تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔( بخاری 893۔کتاب الجمعہ باب الجمعہ فی القری والمدن مسلم 1829۔کتاب الامارۃ باب فضیلۃ الامیر العادل و عقوبۃ الجائز والحث علی الرفق بالرعیہ ترمذی 1705کتاب الجہاد باب ماجاء فی الامام نسائی فی السنن الکبری 9173/5۔عبدالرزاق 20649الادب المفرد للبخاری 214 ،بیہقی 287/6)

2۔یہ بھی یاد رہے کہ عورت بھی ایک گوشت اور خون سے پیدا انسان ہے پر فتن قسم کے لوگوں کو دیکھ کر یا ان کی باتیں سن کر وہ بھی متاثر ہو سکتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ خاوند اسے بھی اپنے ذہن میں رکھے اور غلط قسم کی اثر انداز ہونے والی اشیاء سے بچائے اسی طرح اسے شرو برائی  والی جگہوں پر لے جانے سے بھی بچائے۔

3۔مسلمان خاوند پر ضروری ہے کہ وہ صرف دنیا کے لیے ہی زندگی بسر نہ کرے اور ایک گونگی وبے حس مشین کی طرح صرف کام میں ہی نہ جتارہے اگر چہ مال کی خواہش بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن جو چیز اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ زیادہ بہتراور باقی رہنے والی ہے لہٰذا اسے یہ کوشش کرنی چاہیے کہ کم وقت والا کام کرے خواہ اسے اس میں اجرت کم ہی حاصل ہو جبکہ وہ کم اجرت اسے کافی ہواور اس کی ضروریات زندگی پوری کرتی ہو تاکہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کے لیے بھی وقت نکال سکے اور ان کا خیال اور تربیت کر سکے۔

4۔اتنی دیر تک عورت کو گھر میں اکیلا رکھنا مناسب نہیں الاکہ عورت کے پاس خاوند کی عدم موجودگی میں کوئی ایسی چیز ہو جو اس کا بدلہ بن سکے مثلاً اسلامی تعلیمات کا حصول یا ایسے لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا جو خیر و بھلائی کے کاموں کی ترغیب دلاتے ہوں لیکن اس کے برعکس عورت کو گھر میں گیم وغیرہ کے لیے یا ٹیلی ویژن دیکھنے کے لیے یا غلط قسم کے پڑسیوں سے میل ملاقات کے لیے یا پھر کسی اور بری صحبت میں چھوڑ دینا بہت ہی بری بات اور ناجائز عمل ہے۔ اس طرح کے کام کرنے والے لوگ اپنے رب سے ملاقات سے پہلے ہی اس کا انجام دیکھ لیتے ہیں۔

5۔ عورت کاگھر  سے خاوند یا کسی محرم کے بغیر نکلنے کے متعلق گزارش ہے کہ اگر راستہ پر امن ہو اور جہاں وہ جارہی ہے وہاں کسی قسم کا خطرہ نہ ہو اور عورت بھی قابل اعتماد ہو کہ وہ کوئی غلط کام نہیں کرے گی۔تو پھر اس کے خاوند یا کسی محرم کے ساتھ جانے کی شرط نہیں۔لیکن یہ یادرہے کہ سفر کے لیے محرم کی شرط بہر حال ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ شہر میں جہاں بھی عورت جائے مرد بھی ساتھ ہی جائے البتہ یہ ضرورہے کہ اگر تھوڑی مسافت میں بھی فتنہ کا ڈر ہو تو پھر وہ اکیلی نہ جائے بلکہ یا خاوند کو ساتھ لے کر جائے یا کسی محرم کو جواسے فتنہ و فساد سے بچاسکے۔

6۔کفار کے ممالک میں مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اپنے آپ اور اپنے اہل و عیال کی حفاظت کی بھر پور کوشش کریں مثلاً کچھ مسلمان مل کر ایک اسلامی فضا اور ماحول تیار ہوسکے اور ان کی حفاظت بھی ہو۔ پھر اس طرح کرنے سے ایک مسلمان عورت کو اچھی اور نیک عورتوں کی صحبت بھی حاصل ہوگی۔جس سے وہ اپنے خاوند کی غیر موجودگی میں بھی اپنے آپ کو محفوظ پائے گی اور مستفید ہو سکے گی۔آخر میں ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ اے ہمارے رب !ہماری بیویوں اور ہماری اولادوں کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا اور ہمیں متقی لوگوں کا امام بنا اور ہمارے پیارے نبی محمد  صلی اللہ علیہ وسلم   پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔(آمین یا رب العالمین) (شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص371

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ