سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(24)پنجتن پاک کی وضاحت

  • 15850
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 6182

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمایان دین متین ومفتیان شرح مبین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص مسمی زید جو مذہبا شیعہ ہے ، وہ کہتا ہے کہ پنجتن پاک حضرت محمد رسول اللہ ﷺ وحضرت علی وحضرت فاطمہ الزہرااور حضرت حسنین رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کہہ کر پاکیزگی کاحصہ ان پانچوں میں کرتا ہےکہ بجز ان پانچوں کےاور دوسرا کوئی پاک نہیں ہے۔

دوسرا فریق جو مذہبا اہل سنت والجماعت ہیں وہ بطور الزام ان پانچوں میں خلفائے اربعہ کوبھی شامل کرتا ہے۔لہذا براہ مہربانی یہ بیان  واضح تحریر فرمادیں اکہ اہل سنت والجماعت خصوصا حنفیہ مذہب میں پنجتن پاک کامسئلہ ثابت ہےتوبھی اوراگر نہیں توبھی ؟مدلل بیان فرماکر ہماری رہ نمائی کریں ،عنداللہ مأجور وعندنامشکور ہویں۔  ولی محمد مؤرخہ 25 نومبر 1941ء


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 زیدرافضی سےدریافت کرنا چاہیے کہ ’’پنجتن پاک ،، میں آں حضرت ﷺ کےعلاوہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنمہا حضرت علی، حضرت حسن ، حضرت حسین رضی اللہ عنہم کوپاک کہنے اورانہی پانچ میں پاکیزگی حصہ کرنے کاکیا مطلب ہے؟اگر وہ رافضی یہ کہے کہ یہ چاروں حضرات رسول اللہ ﷺ ودیگر انبیا ء کی طرح معصوم اورمنزہ من المعاصی والذنوب تھے اوران چاروں کی عصمت قطعی ویقنی وضروری ہے جیسے انبیا ء عصمت قطعی ویقینی ہے۔تواس کایہ دعوی کذب محض اوربالکل باطل ہے،اس دعوی کی کوئی نقلی وعقلی دلیل اس کےپاس نہیں ہے۔

قرآن کریم یاکسی صحیح معتبرحدیث سےان چاروں حضرات یا بارہ اماموں کی عصمت ثابت نہیں، اس لیے تمام اہل سنت والجماعت یعنی اہل حدیث وحنفی ومالکی وشافعی وحنبلی کایہ عقیدہ ہےجو  ان کی کتابوں میں درج ہےکہ انبیاء کرام کےعلاوہ کسی امتی کی عصمت قطعی ویقینی نہیں ہےیعنی صرف نبی کامعصوم ہونا ضروری ہے، نبی کےعلاوہ کوئی امتی معصوم نہیں ہے۔حضرت علی ﷜ بعد آپ کے دونوں نورچشم حسنین اورآپ کی زوجہ محترمہ جگر گوشہ رسول حضرت فاطمہ  ر ضی اللہ عنہما اور اسی طرح دسرے ائمہ اہل بیت امتی اورغیر  نبی ہونے کی وجہ سے معصوم نہیں ہیں۔یعنی بنی کی طرح ان کےمعصوم ہونے کاعقیدہ رکھنے کےمکلف نہیں ہیں،جب یہ چاروں نبی کی طرح معصوم نہیں ،تو حضرت ابوبکر ،حضرت عمر، حضرت عثمان ﷢ بھی معصوم نہیں ہیں۔اور نہ ازواج مطہرات کی قطعی عصمت کےاعتقاد کےہم مکلف ہیں۔اوراگر وہ رافضی ان کے پاک ہونے کایہ مطلب بتاتے ہیں۔یہ چاروں آیت تطہیر:’’ إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهر كم تطهيرا ً،، (الأحزاب : 33) کی  روسے ہرقسم کےظاہری عیوب وباطنی نقائض ،برائی ،خرابی ،گناہ و گندگی وغیرہ سے پاک ہیں اوراللہ ان کے پاک صاف ہونے کی خبر دیتا ہےکیوں کہ اس آیت میں اہل بیت سےمراد علی ،فاطمہ ،حسن ، حسین ہیں۔چنانچہ آٖپ نے ان کو کمبل میں لپیٹ اورڈھانک کریہ دعافرمائی تھی کہ : اللهم هولاء أهل بيتي فازهب عنهم الرجس وطهر هم تطهيراً ،، (سنن ترمذي ( 3787) 5/663.)پس بکر کواس رافضی سےکہنا چاہیے کہ اول تواس ’’آیت تطہیر ،، میں اور اس سے پہلے اوربعد کی آیتوں میں فاطمہ علی  حسنین کاکہیں نام ونشان تک نہیں بلکہ اس آیت کے سیاق وسباق میں آں حضرت ﷺ کی ازواج مطہرات کاتذکرہ ہے اورانہیں کومخاطب کیا ہے چنانچہ پوری آیت مع ترجمہ کےدرج کی جاتی ہے۔پس قرآن کی روسے اگر کسی کی پاکی ثابت ہوگی توازواج مطہرات کی پاکی ثابت ہوگی کیوں کہ قرآن کی رو سے وہی اہل بیت ہیں فاطمہ وعلی وحسنین ﷢ کی طہارت وپاکی اس آیت سےثابت نہ ہو گی کیوں کہ ان آیتوں میں ان حضرات کانام ونشان تک نہیں۔ ﴿يـٰنِساءَ النَّبِىِّ مَن يَأتِ مِنكُنَّ بِفـٰحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضـٰعَف لَهَا العَذابُ ضِعفَينِ وَكانَ ذٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ يَسيرًا ﴿٣٠﴾وَمَن يَقنُت مِنكُنَّ لِلَّـهِ وَرَسولِهِ وَتَعمَل صـٰلِحًا نُؤتِها أَجرَها مَرَّتَينِ وَأَعتَدنا لَها رِزقًا كَريمًا ﴿٣١﴾ يـٰنِساءَ النَّبِىِّ لَستُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّساءِ إِنِ اتَّقَيتُنَّ فَلا تَخضَعنَ بِالقَولِ فَيَطمَعَ الَّذى فى قَلبِهِ مَرَضٌ وَقُلنَ قَولًا مَعروفًا ﴿٣٢﴾ وَقَرنَ فى بُيوتِكُنَّ وَلا تَبَرَّجنَ تَبَرُّجَ الجـٰهِلِيَّةِ الأولىٰ وَأَقِمنَ الصَّلوٰةَ وَءاتينَ الزَّكوٰةَ وَأَطِعنَ اللَّـهَ وَرَسولَهُ إِنَّما يُريدُ اللَّـهُ لِيُذهِبَ عَنكُمُ الرِّجسَ أَهلَ البَيتِ وَيُطَهِّرَكُم تَطهيرًا ﴿٣٣﴾ وَاذكُرنَ ما يُتلىٰ فى بُيوتِكُنَّ مِن ءايـٰتِ اللَّـهِ وَالحِكمَةِ إِنَّ اللَّـهَ كانَ لَطيفًا خَبيرًا ﴿٣٤﴾...الأحزاب

ترجمہ : اے نبی کی بیٹیو!جوتم میں کھلی بے ہودگی آں حضرت کوتکلیف دینے اورپریشان کرنے والا کام کرے گی ۔ا س کو دورہری سزادی جائے گی اور یہ بات اللہ کو آسان ہے۔اورجو کوئی تم میں اللہ کواو ر اس کے رسول کی نافرماں برداری کرے  گی اور نیک کام کرے گی تو ہم اس کا ثواب  دہرادیں گے اور ہم نےاس کےلیے ایک عمدہ روزی تیار کررکھی ہے۔اےنبی کی بیٹیو  ! تم معمولی بیبیو کی طرح نہیں ہو ۔اگر تم تقوی اختیار کروتو تم بولنے میں نزاکت مت کروکہ ایسے شخص کوخیال ہونے لگتا ہے جس کودل میں خرابی ہےاور قاعدہ کےموافق بات کہو ،اور تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو، اورقدیم زمانہ جاہلیت کےدستور کےموافق مت پھرو،تم نمازوں کی پابندی رکھو اورزکاۃ دیاکرو ۔اوراللہ و  اس کے رسول کا کہنا مانو ،اللہ تعالی کی یہ منظور ہےکہ اے گھر والو تم سےآلودگی ،مصیبت ونافرمانی کودور رکھےاور تم کوپاک وصاف رکھے ۔اور تم ان آیات الہیہ کواور اس علم کویاد رکھو۔جس کاتمہارے گھروں میں چرچا رہتا ہےبے شک اللہ تعالی راز دار ہےپورا خبر دار ہے،،۔

اس آیت میں سیاق وسباق کے دیکھنے سے واضح ہوتا ہے کہ اہل بیت کامصداق بالیقین ازواج مطہرات ہیں ۔چنانچہ ابن عباس ﷜ فرماتے ہیں:’’ نزلت فی نساء النبی  ﷺ حاصة ،، اور عکرمہ اس آیت کےبارے میں کہتے ہیں :’’من شاء باهلته أنها نزلت في أزواج النبي  صلي لله عليه وسلم ،، اور يہ بهی عكرمہ نى كہا كہ :’’ ليس بالذي تذهبون اليه ، إنما هونساء النبي  صلي لله عليه وسلم ،، (تفيسر در منثور للسيوطي 6/603، ابن كثير 595) پس قرآن کی رو سے آیت تطہیر میں ازواج مطہرات کا تذکرہ ہونے میں کوئی شبہ نہ رہا ۔بنابریں اگر طہارت وپاگیزگی ثابت ہوگی توازو اج مطہرات کی ، نہ کہ فاطمہ وعلی حسین ﷢ کی ،نیز قرآن کی اصطلاحی میں ’’ اہل بیت ،، سےمراد بیوی ہے چنانچہ ارشاد ہے :’’  اتعجبین من امراللہ رحمۃاللہ ، برکاتہ علیکم اہل البیت،، (ہود :73) اس آیت کریمہ میں حضرت ابراہیم  علیہ السلام کی بیوی کو’’ اہل بیت ،، کہا گیا ہے،پس آیت متنازع فیہا میں ’’اہل بیت ،، سےمراد ازواج النبی ہوں گی نہ کوئی اور ۔رہ گئئ وہ حدیث جوترمذی (کتاب المناقب باب مناقب اہل بیت النبی  ﷺ ( 3787)5؍663) وغیرہ میں حضرت ام سلمہ  رضی للہ عنہا سے اور صحیح مسلم (مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب فضا ئل اہل ابیت النبی ﷺ (2424)4؍1883)وغیرہ میں حضرت عائشہ  رضی للہ عنہا سےمروی اور جس کامضمون یہ ہے کہ:’’ آں حضرت  ﷺ نے جس کملی کو آپ اوڑٗھے ہوئے تھے اس میں علی  ،فاطمہ  ،حسنین  ﷢ کولپٹا کر یہ فرمایا کہ اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے ناپاکی دورفرما دے اور ان کوخوب پاک فرما دے ،، سوواضح ہونا چائیے کہ بے شک اس حدیث میں قرینہ حالیہ کی وجہ سے ’’اہل بیت ،،سےمرا د یہی چاروں حضرات ہیں ۔لیکن ا س سے یہ لازم نہیں آیا کہ آیت تطہیر میں بھی ’’ اہل بیت ،، سےمراد یہی چاروں حضرات ہیں ۔آیت مذکورہ میں تو’’ اہل بیت ،،سے مراد صرف ازواج مطہرات ہی ہیں ۔البتہ حدیث میں یہ حضرات ضرور مراد ہیں۔مگران حضرات کوعباس داخل فرما کر اس آیت کا یا اس آیت کےمناسب الفاظ سےدعا فرمانا بطور ’’ علم ،، کیا ہے ۔یعنی اے اللہ! ایک نوع اہل بیت کی یہ ہے،ان کے لیے میں دعا کرتا ہوں ۔خلاصہ یہ کہ آیت میں تطہیر سےمراد ’ ’تطہیر شرعی ،، ہے اورحدیث میں ’’تطہیر تکوینی ،،۔پس اہل بیت میں ان حضرات کوداخل فرمانا بطور ’’علم،، اعتبار کیاہے ۔اس لیے آیت میں صرف ازواج مطہرات ہی مراد ہوں گی  نہ عترت رسول ﷺ ۔

(ثانیا)بکر کواس رافضی سےیہ کہنا چائیے کہ ہم مان لیتے ہیں کہ آیت تطیہر میں ’’اہل بیت ،، سےمراد ازواج مطہرات اوریہ چاروں حضرات ہیں ۔یعنی یہ چاروں حضرات بھی ’’ اہل بیت ،، مذکور فی الآیت میں داخل وشامل ہیں۔لیکن اس رافضی کایہ کہنا کہ اس آیت میں اہل بیت کےپاک ۃصاف ہونے کی خبر دی گئی ہے۔اس لیے ان کا پاک وصاف ہونا ضروری ویقینی ہے،قطعا غلط وباطل ہے۔کیوں کہ آیت مذکورہ میں ’’ اہل بیت ،، کوان کے اعمال کےکرنے اوران برائیوں سےبچنے اورپرہیز کرنے کاحکم دیا گیا ہے،جن کی اطاعت سےپاکیز گی وباطنی طہارت حاصل ہوئی ہے ، پس اگر وہ ان اوامر کی تعمیل کریں گےاور نواہی سےپرہیز کریں گےتو پاکیزگی وصفائی حاصل ہوگی اور اگر ایسا نہیں کریں گے توطہارت بھی حاصل نہ ہوگی اوروہ پاک نہیں ہوں گے۔خلاصہ یہ کہ آیت میں ارادہ سے وہ ارادہ مشئت نہیں ہے جومراد کےوقوع اوروجود کومستلزم ہو، بلکہ وہ  ارادہ مذکورہ ہےجو متضمن امر ونہی ہےیعنی آیت میں ارادہ تشریعی مراد ہے جو مراد کے وجود کو مستلزم نہیں ۔ورنہ لازم آئے گا کہ تمام لوگ طاہر ومطہر پاک وصاف ہوں اور ان کو پاک وصاف کہا جائے کیوں کہ آیت تطہیر کی طرح یہ آیات بھی ہے،ارشاد ہے:﴿ما يُريدُ اللَّـهُ لِيَجعَلَ عَلَيكُم مِن حَرَجٍ وَلـٰكِن يُريدُ لِيُطَهِّرَكُم ... ﴿٦﴾...المائدة  یعنی :’’ اللہ ان باتوں کا حکم دے کر تم کوتنگی میں ڈالنے کا ارادہ نہیں ،وہ تو تم کوپاک کرنا چاہتاہے ،،۔یعنی اس کو تمہارا پاک کرنا منظور ہے﴿يُريدُ اللَّـهُ لِيُبَيِّنَ لَكُم وَيَهدِيَكُم سُنَنَ الَّذينَ مِن قَبلِكُم وَيَتوبَ عَلَيكُم وَاللَّـهُ عَليمٌ حَكيمٌ ﴿٢٦﴾...النساء ، ﴿وَاللَّـهُ يُريدُ أَن يَتوبَ عَلَيكُم وَيُريدُ الَّذينَ يَتَّبِعونَ الشَّهَوٰتِ أَن تَميلوا مَيلًا عَظيمًا ﴿٢٧﴾...النساء ، ان آیات میں غور کرو! نتیجہ صاف ظاہر ہے یعنی اگر آیت تطہیر میں یہ دعوی کیا جائے کہ اس میں ’’ اہل بیت ،، کےپاک وصاف ہونے کی خبر دی گئی ہے اس لیے وہ ضرور پاک وصاف ہیں، توماننا پڑ ہےگا کہ ہر آیات مذکورہ کےمطابق تمام مسلمان پاک وصاف ہوں اوران کی پاکیزگی ضروری ہو۔کیوں کہ ہر سہ آیات بھی آیت تطہیر کی طرح ہیں اور ان میں باہم فرق نہیں ہے، اور یہ معلوم ہےکہ تمام ان لوگوں کا پا ک وصاف ہونا جن کو ان آیات میں مختلف آیات کی تکمیل کاحکم دیا  گیا ہے، لازم وضروری نہیں ، نہ ا س پر استدلا ل درست ہےاسی طرح آیت تطہیر ..............سے ’’ اہل بیت ،، کے پاک و صاف ہونے پر دلیل قائم کرنا بھی درست نہیں ہوگا ، کیوں کہ ارادہ تطہیر میں سب مسلمان برابر کےشریک ہیں ، اس لیے علمائے اہل السنّت والجماعت کےنزدیک اس آیت تطہیر سےازواج مطہرات یا حضرات حسنین وعلی وفاطمہ کی عصمت پراستدلال صحیح نہیں ہے۔

ہمارے اس دعوی  کی کہ آیت تطہیر میں ارادہ تشریعی متضمن امرونہی ہےاور اس میں اہل بیت کے پاک وصاف ہونے کی خبر نہیں دی گئی ہے۔دوسر  ی دلیل یہ بھی ہے کہ آں حضرت ﷺ نے حضرت علی وفاطمہ وحسنین ﷢ کوکملی میں لپیٹ کر دعا فرمائی ،اذہاب رجس اور تطہیر کی دعا کرنے کی دلیل ہےکہ آیت میں ذہاب رجس اورطہارت کی خبر نہیں دی گئی ہے، کیوں کہ اگر اللہ کی طرف سےطہارت کی خبر دی گئی ہوتی تو آپ کوپھر طہارت کی دعا کرنے کی ضرورت نہیں تھی ، بلکہ آں حضرت ﷺ ان چاروں حضرات کےلیے طہارت کا شرف حاصل ہوجانے کی وجہ سے اللہ تعالی کی حمد وثناء بیان فرماتے اور اس کا شکریہ ادا کرتے ، صرف دعا پر قناعت نہ کرتے ۔

اس دعوی کی تیسری دلیل آیت تطہیر کے ماقبل ومابعد کے وہ فقرے اور جملے بھی ہیں ، جن میں امر ونہی مذکورہے ، مثلا : ’’ لا تخضعن بالقول / قلن قولا ومعروفا/ قرن في بيوتكن / لا تبرجن / أقمن الصلوة / آتين الزكاة / أطعن الله ورسوله ، اذكرن ما يتلي في بيوتكن .،،

آپ کےسوال کا خلاصہ یہ ہےکہ اہل سنت والجماعت خصوصا احناف کے نزدیک پنجتن پاک ،، کا  لفظ خالص  رافضیانہ ہے۔رافضیوں کا شعار اورانہی کے ساتھ مخصوص ہےاور اس لفظ سے بظاہر جومطلب لیتے ہیں وہ صرف شیعوں کا عقیدہ ہے۔اہل سنت والجماعت کےیہاں اس عقیدہ کی کوئی اصلیت نہین ۔ہمارے نزدیک صرف نبی معصوم اورپاک ہےنبی کا معصوم وپاک ہونا ضروری وقطعی ہے ۔نبی کے علاوہ اورکوئی بھی معصوم نہیں ۔یعنی غیر نبی کا پاک ومعصوم ہونا غیر لا بدی ہے۔

  کتبہ عبیداللہ المبارکفوری الرحمانی   المدرس بمدرسۃ دارالحدیث الرحمانیہ ،بدہلی   ( 16؍ ذی قعدہ 1360ھ) 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 69

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ