سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(06)تعویذ ،گنڈا ، فلیتہ، طشتری لکھنا

  • 15828
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1062

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تعویذ ،گنڈا ، فلیتہ، طشتری لکھنا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تعویذ ،گنڈا ، فلیتہ، طشتری لکھنے اوراس کاکاروبار کرنے کاجورواج مسلمانوں میں عام ہےبلاشبہ غلط اورمذموم ہے، اس کے ختم کرنے کی کوشش محمود ہے۔اس لحاظ سے رسالہ’’تعویذ گنڈا شرک ہے،، ایک مناسب کوشش ہے۔لیکن افسوس ہےکہ مناظر انہ روش پیدا ہوجانے کی وجہ سے افراط تفریط سےخالی نہیں ہے۔مثلا: اپنے موافق جس دلیل پر مخالفین نےجوتنقید کی ہے اس کا جواب دینے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی اروجو دلیل یاقول اپنے خلاف معلوم ہوا، اس کی غلط یا صحیح پور ی تنقید کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ص5 پر محمد بن اسحق عن عمروبن شعیب عن ابیہ جدہ کےطریق سےجوروایت ابو داؤد(کتاب الطب باب کیف الرقی(3897)4؍ 19۔ترمذی( کتاب الدعوات باب : 94( 3528)5؍ 341.کےحوالہ سے نقل کی گئی ہےاس روایت میں متعدد علتیں بیان کرکے اسے ناقابل التفات بتانے کی کوشش کی گی ہے: پہلی علت: یہ بیان کی گئی ہےکہ’’ یہ روایت حسن بھی نہیں ہے،امام ترمذی اس روایت کوحسن بھی شمار نہیں کرتے بلکہ غریب کہتے ہیں،،۔

ہمارے نزدیک یہ تعلیل صحیح نہیں ہے اس رویت کےحسن ہونے میں شبہ نہیں، حسن کےساتھ غریب کہنا اس کے حسن ہونے کے منافی نہیں ہے۔اس کے رواۃ صحیح حدیث کے رواۃ سےکم درجہ کےہیں اس لیے یہ حدیث سنداً حسن ہے، اور رواۃ کےتفرد کی وجہ سے سندا غریب ہے ، یہ ایسا ہی ہے کہ بعض حدیثیں صحیح ہونے کےساتھ غریب ہوتی ہیں۔تفصیل مقدمہ مرعاۃ ص: 19اور ص: 22 میں ملاحظہ کی جائے۔امام ابوداؤد نےاس حدیث کےروایت کرنے کےبعد اس پر کچھ کلام نہیں کیا ہے، ان کا سکوت اختیار کرنا محدثین کے نذدیک اس بات کی علامت ہےکہ ان کےنذدیک یہ حدیث حسن اورقابل اسندلال واستناد ہے۔علامہ احمد شاکر نے بھی شرح مسند احمد 10؍ 222میں اس حدیث کی سندکوصحیح بتایا ہے اور امام حاکم مستدرک 1 ؍ 548 میں بطریق مذکور روایت کرنے کےبعد لکھتے ہیں: هذا حديث صحيح الاسناد متصل في موضع الخلاف ،،يعني : الا ختلاف في سماع شعيب عن جده.

دوسری علت: یہ بیان کی گئی ہےکہ حدیث کےآخر میں یہ جملہ :’’کان عبدالله بن عمرو یعلمها من بلغ من ولده ،ان یقولها عند نومه ، ومن یعقل کتبها له فعلقها فی عنقه،، (ابوداؤد : 3893) ۔ حدیث کے الفاظ نہیں بلکہ راوی کی طرف سے یہ ایک مدرج جملہ ہے۔بلاشبہ حدیث مرفوع صرف اسی قدر ہےکہ آں حضرت ﷺ ’’فزع،،سےمحفوظ رکھنے کےلیے صحابہ کوسونے کےوقت دعا مذکور  پڑھنے کی تلقین وتعلیم فرماتے تھے۔رہ گیا راوی حدیث عبداللہ بن عمرو العاص کااپنے چھوٹے لایعقل بچوں  کےگلے میں دعا ء مذکور کاکسی کاغذ پرلکھ کربطور تعویذ کےلٹکانےکا فعل ، تویہ ان کا اپنا اجتہاد اورذاتی فعل ہے، حدیث مرفوع نہیں ہےبلکہ موقوف ہےاور ان کا یہی فعل دلیل ہےان لوگوں کی جوقرآنی آیت یادعا ئے ماثورہ کاتعویذ باندھنے یاگلے میں لٹکانے کےجواز کےقائل ہیں۔

تیسری علت: خاص اس جملہ موقوفہ کےغیر محفوظ ہونے کی یہ بیان کی گئی ہےکہ خود عبداللہ بن عمروبن العاص (رضی اللہ عنہما)  آں حضرتﷺ سےتعویذ لٹکانے کی برائی کی حدیث روایت کرتے ہیں ،پھر وہ اس کاخلاف کیسے کرسکتے ہیں۔لیکن جو لوگ جواز کےقائل ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہےکہ حدیث ’’ ماابالی ما اتیت ،ان انا شربت تریاقا او تعلقت تمیمة،، الخ میں تمیمہ سےمراد جاہلیت ہواور اسی پر عبداللہ بن عمروبن العاص  رضی اللہ عنہما نےحدیث کومحمول کیا ہو۔

چوتھی علت: اس روایت میں یہ بیان کی گئی ہےکہ اس کے دوراوی محمدبن اسحق اورعمروبن شعیب پرائمہ حدیث نے شدید جرح کی ہےپھر کچھ تفصیل کےساتھ جارحین کےاقوال نقل کردیے گئے ہیں۔

ہمارے نزدیک یہ تعلیل لغواور مہمل ہے۔ جارحین کےاقوا ل عدم واقفیت پر مبنی ہیں۔محمد بن اسحق  ثقہ   ہیں ،اورعمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ یہ سلسلہ سند متصل اور حسن ہے۔تفصیل مرعاۃ(1؍ 189۔2؍ 277۔38 ، نیز تحفۃ الاخوزی 2؍ 20۔ 21،69۔70۔253 میں ملاحظہ کی جائے۔

 اس حدیث کی سند میں اگر کوئی علت ہوسکتی ہے،توصرف یہ ہےکہ محمدبن اسحق مدلس ہیں، اور انہوں نےاپنے شیخ عمروبن شعیب سے سماع کی تصریح نہیں کی ہے،بلکہ عن کےساتھ روایت کرتے ہیں اوراس حدیث  کوعمروبن شعیب سےروایت کرنے میں ان کاکوئی متابع نہیں معلوم ہوتا،لیکن اس کی علت کامتقضایہ ہوگا کہ یہ پور ی حدیث ہی ( مرفوع اورموقوف ) رد کردی جائے۔

پانچویں علت: یہ بیان کی گئی ہےکہ کسی صحابی سےبھی تعویذ باندھنے اورلٹکانے کاقول یا فعل ثابت نہیں ۔حدیث مذکور کےآخرمیں عبداللہ بن عمرو کےمبینہ عمل کےہوتے ہوئے یہ کہنا کہ تعویذ باندھنے اور لٹکانے سےپرہیز کرنا ہی ٹھیک ہے،اگر چہ ان میں قرآنی آیات یا ادعیہ ماثورہ یا غیر ماثورہ ، معلوم المعنی غیر شرکیہ وکفریہ کیوں نہ ہوں ۔احتیاط اورتقویٰ کاتقاضا یہی ہے۔ منع کی روایتیں مطلق ہیں اور پیشاب پائخانہ وغیرہ کی حالت میں تعویذ کےاتارنے کی پابندی نہیں ہوسکتی اور اس لیے بھی کہ بالعموم  عوام کاتعویذ اورگنڈے وغیر ہ کےبارے میں ایسا یقین اور اعتماد ہوتا ہے، جوتوکل کےبالکل منافی بلکہ شرک کی سرحد تک پہنچ جاتا ہے۔

مصنف رسالہ جنوں کےکسی پرسوار ہونے اوراسے تکلیف پہنچانے کےقائل نہیں معلوم ہوتے چنانچہ ص: 10 پرلکھتے ہیں’’ دراصل جنوں کا کسی پرسوار ہوجانا ایک سفید جھوٹ ہے چاہے لاکھوں آدمی اپنا چشم دید واقعہ کہکر ہی بیان کیوں نہ کریں،،۔

شاید مصنف رسالہ اللہ تعالی کےقول :﴿الَّذينَ يَأكُلونَ الرِّبوٰا۟ لا يَقومونَ إِلّا كَما يَقومُ الَّذى يَتَخَبَّطُهُ الشَّيطـٰنُ مِنَ المَسِّ ...﴿٢٧٥﴾...البقرة اورحدیث ابن عباس عندالبخاری:’’ ألا أریک إمرأة من أهل الجنة ، قلت : بلی ،قال هذه المرأۃالسوداء أتت النبی  صلی الله عليه وسلم، فقالت : إنی أصرع وإنی أتکشف :: الخ (کتاب المر ض باب عبادۃ المغمی عليه  / 4)کی وہی  تاویل کرتے ہوں گے جو صرح من الجن کےمنکرین کیا کرتے ہیں، مصنف رسالہ چوں کہ جن کےلگنے اورسوار ہونے کےقائل نہیں ہیں، اس لیے جن اتارنےکےکام کوشیطانی کام کہتے ہیں اورثبوت ودلیل میں حضرت جابر ( رضی اللہ عنہ) کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں:’’ سئل رسول الله صلی الله عليه وسلم عن النشرة؟ فقال :هو من عمل الشیطان ،، ابوداؤد کتاب الطب باب کیف الرقی، ( 3896؍ 3897؍ 3901) 22۔221.حالاں کہ حدیث میں ’’نشرہ ،، کامعنی جادو اتارنے کےمنتر اوردم کےلیے بھی لیے گئے ہیں ، اور ظاہر ہےکہ جن یا سحرکااثر دور کرنے کےلیے جوشرکیہ اورکفریہ جھاڑ پھونک اوردم کیا جائے  ، وہ بہرحال شیطانی کام ہے۔ ہمارے نزدیک کسی پرجن کےسوار ہونے اور ایذا پہنچانے کا انکار صحیح نہیں ہےاور اس کے خلاف کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے۔یہاوربات ہےکہ ہسٹیریا اور دماغ خلل کی بیماری کویا بعض عورتوں کےمکرکوغلطی سے یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ آسیب زدہ ہے۔

مصنف رسالہ پانی پر قرآنی آیات یا ادعیہ ماثور ہ پڑھ کر دم کرنے اورپلانے کوناجائز سمجھتے ہیں ۔چنانچہ عدم جواز کےثبوت میں نہی عن النفخ فی الشراب والی حدیث پیش کی ہے۔افسوس ہےکہ حدیث کامعنی مفہوم اورمصداق سمجھنے کی کوشش نہیں فرمائی گی۔حدیث میں نفخ فی الشراب یافی الاناء کے ساتھ تنفس فی الاناء کی ممانعت بھی کی گئی ہے۔حدیث مقصود کہ پانی پینے کےبرتن میں جس پینے کی کوئی کی کوئی چیز ہوپیتے وقت نہ تو اس میں سانس لی جائے بلکہ برتن کومنہ سےالگ کرکے سانس لی جائے ،اورنہ ہی اس مشروب کوٹھندا کرنے کےلیےیا اس میں پڑی ہوئی کسی ہٹانے اور دور کرنے کےلیے برتن میں پھونکا جائے۔اس حدیث کوعلاج کی غرض سے کسی برتن کےمشروب پرآیات قرآنی یاادعیہ ماثور ہ پڑھ کر دم کرنے سےکیا تعلق؟

مصنف رسالہ کسی پردم کرنے کی اجرت کوناجائز سمجھتے ہیں اورجولوگ اس  پر اجرت دینے کےجواز کےقائل ہیں، ان کی دلیل حدیث ابوسعید خدری (رضی اللہ عنہ) جوبخاری شریف وغیرہ میں مروی ہےاس کی بے جاتاویل کرکے اڑانے کی کوشش کی ہے۔افسوس ہےکہ ان کوحدیث کاآخری مرفوع جملہ :’’ ان الحق ما اخذتم عليه اجرا کتاب الله  ،، یا د نہ رہا۔جوقول مرفوع ہونے کی وجہ سے ایک طرح کا ضابطہ اورقانون ہے۔اسی بنا پرتمام ائمہ رقیہ پراجرت لینے کےجواز کےقائل ہیں ۔مصنف رسالہ نےاس سےزیادہ یہ غضب کیا ہے کہ خارجہ بن الصلت عن عمہ کی رویت کوجو ابوداؤد وغیرہ میں مروی ہے،یہ کہہ کر اڑانے کی کوشش کی ہےکہ خارجہ ضعیف ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون  حالاں کہ خارجہ بن الصلت مقبول  راوی ہیں ۔ ابن حبان نےان کو اپنی ثقات میں ذکر کیا ہے اورکسی نے ان پر کوئی حرح نہیں کی ہے۔

ہمارے نزدیک جائز جھاڑ پھونک پراجرت لینا جائز ہے۔مگر اس کوذریعہ معاش بنانا اور اس کا  کاروبارکرنا صحیح نہیں ہے وللہ علم۔

   املاہ عبیداللہ المبارکفوری 17؍5؍1399ھ مکاتیب شیخ رحمانی  بنام مولانا محمد امین اثری ( ص : 118؍ 121)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 35

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ