سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(269) خاوند اور بیوی کا شرعی مسائل میں اختلاف

  • 15807
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1331

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب کسی مسئلے میں علماء کرام کی دو آراء ہوں تو بیوی دینی اُمور میں خاوند سے جھگڑا کرتی ہےہے ایسا کرنا خاوند کےلیے بہت تکلیف دہ ہے ہوسکتاہے معاملہ طلاق تک جاپہنچے۔بیوی خاوند سے کہتی ہے کہ میں آپ سے بحث کرسکتی ہوں اس لیے کہ امہات المومنین  رضوان اللہ عنھن اجمعین   بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   سے بحث ومباحثہ کیاکرتی تھیں۔وہ ہمیشہ یہ چاہتی ہے کہ وہ سب آگے ہو اور اس کے ساتھ ساتھ وہ احترام بھی کم کرتی ہے اور بے ادبی کا عنصر  بھی پایاجاتاہے۔دونوں اور خاص کر بیوی کو آپ کیا نصیحت کرتے ہیں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میری ان دونوں میاں بیوی کو نصیحت ہے کہ بلاشبہ وہ دونوں مخلوق ہیں۔ ان پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے سامنے سر  تسلیم خم کردیں کیونکہ دنیا وآخرت کی سعادت اسی میں ہے۔اور پھر اللہ  تعالیٰ کا بھی فرمان ہے:

"اور ان عورتوں کے بھی حق ہیں جیسے ان مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ۔"

لہذا شوہر اور بیوی دونوں پر واجب ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ حسن معاشرت اختیار کریں اور پھر شادی تو ایک ایسی چیز ہے جو محبت ومودت اور اُلفت پر قائم ہے۔ ناکہ چیلنج پر کیونکہ چیلنج تو دشمنوں کے درمیان ہوتا ہے اور اگریہ چیز دوست احباب کے درمیان پیدا ہوجائے تو پھر یہ بھی دشمنی تک پہنچ جاتی ہے جس میں ان دونوں کے لیے کوئی خیر نہیں۔

اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

"اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لیے  تم میں سے ہی بیویاں  پیدا کی ہیں  تاکہ تم ان سے سکون وراحت حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت ومودت اور رحم دلی اور  رحمت پیدا کردی جائے۔"

تو اس لیے خاوند کے لیے ضروری ہے کہ وہ بیوی کے ساتھ اچھے انداز میں بحث ومباحثہ کرے اور اسے مطمئن کرنے کا اچھا طریقہ اپنائے اور ادب واحترام کو ملحوظ رکھے۔اسے یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ کسی فقہی رائے کو بیوی کے خاص مسئلے میں اس پر فرض کرنا یا ٹھونسنا صحیح نہیں جس کا خود اس کی ذات سے تعلق نہیں  بلکہ اس کی بیوی سے متعلقہ ہے اور وہ کسی اور عالم کی رائے سے متفق ہے تو وہ اگر قرآن وحدیث کے دلائل کے مطابق ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اسے تسلیم کرے۔

اور بیوی کو بھی یہ علم ہوناچاہیے کہ خاوند کا بہت عظیم حق ہے اس کی اطاعت واجب ہے اور اچھے طریقے سے اسے راضی رکھنا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کاباعث ہے۔حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ  تعالیٰ عنہ   بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"إذا صلت المرأة خمسهاإلخ ما معنى الحديث من صامت شهرها وصلت فرضها وأطاعت زوجها وحصنت فرجها دخلت من أي باب من أبواب الجنة شاءت "  

"جب عورت  پانچویں نماز ادا کرے ماہ  رمضان کے روزے رکھے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے تو وہ جنت کے جس  دروازے سے داخل ہونا چاہے داخل ہوجائے(حسن ھدایۃ الرواۃ(3190)(3/300) آداب الذفاف(ص/286)ابن حبان (4163)احمد(1/191)

اور ایک دو سری روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"اگر میں کسی کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ ا پنے خاوند کو سجدہ کرے۔اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد  صلی اللہ علیہ وسلم   کی جان ہے۔ جب تک  عورت اپنے خاوند کا حق ادا نہیں کرتی وہ اپنے رب کےحقوق بھی ادا نہیں کرسکتی اور اگر خاوند اس  سے اس کانفس(ہم بستری وغیرہ کے لیے) مانگے اور وہ (سفر کے لیے) کجاوے پر بھی بیٹھ چکی ہوتو اسے انکار نہیں کرنا چاہیے۔"( صحیح ۔صحیح ابن ماجہ(1533) کتاب النکاح باب حق الزوج علی المراۃ صحیح الترغیب (1938)ابن ماجہ(1853)

 اس حدیث میں بیوی کو شوہر کی اطاعت  پر اُبھارا گیا ہے کہ اگر وہ ایسی حالت میں بھی ہوتب بھی اطاعت کرے تو(آپ خود اندازہ لگائیں کہ) عام حالات میں کس طرح کی اطاعت ہونی چاہیے۔

ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"انسان کے لیے کسی بھی انسان کو سجدہ کرنا صحیح نہیں اور اگر انسان کے لیےکسی دوسرے انسان کے سامنے سجدہ کرنا صحیح ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرتی،ا س لیے کہ اس کاعورت پر بہت عظیم حق ہے اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگراس(شوہر) کے پاؤں سے لے کر سر تک زخم پیپ سے بھرے ہوں اور پیپ رس رہی ہو اور بیوی اس کے پاس آئے اوراسے چاٹ لے پھربھی اس کاحق ادا نہیں کرسکتی۔"( صحیح الجامع الصغیر(7725) مسند احمد(12153)

بیوی جب اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے شوہر کی اطاعت کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس پر اجر عظیم عطا فرماتےہیں۔اسی طرح مرد  پر بھی واجب ہے کہ وہ بیوی کے معاملے میں صبر وتحمل سے کام لے اور اس سے حسن اخلاق کے ساتھ پیش آئےاور اسے شرعی حقوق سکھائے۔

اور آپ کی بیوی کا یہ کہنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کی ازواج مطہرات بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   سے بہت زیادہ گفتگو کیا کرتی تھیں۔ بالکل صحیح نہیں۔وہ تو ایسی باتوں سے یکسر کنارہ کش تھیں۔ان سے تو اگر کوئی ایسی و یسی بات ہوجاتی اور پھر انھیں اس سے روک دیاجاتاتو وہ  پھر وہ زندگی بھر کبھی بھی اس کی طرف دوبارہ نہ پلٹیں۔نہ جانے کس طرح یہ بیوی امہات المومنین  رضوان اللہ عنھن اجمعین   کی  حسنات اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   سے حسن معاشرت سے غافل رہ گئی ہے یاد رہے کہ اس بیوی ن اس معاملے میں ازواج مطہرات کی اقتداء نہیں کی بلکہ ان کی بعض ان غلطیوں سے دلیل پکڑنے کی کوشش کی ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے اصلاح بھی کردی تھی اور پھر بعد میں انہوں نے کبھی بھی ایسا نہیں کیا۔اللہ تعالیٰ آپ دونوں کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا  فرمائے اور آپ کے مابین اتفاق واتحاد پیدا فرمائے۔(واللہ اعلم)(شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص338

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ