سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(230) بیوی کا دودھ چوسنے کا حکم

  • 15748
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1825

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دوران جماع میں نے اپنی بیوی کا دودھ پی لیا تو کیا اس کا دودھ میرے لیے حلال ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال کا جواب دینے سے قبل رضاعت کے احکام بیان کرنا ضروری ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ رضاعت کی وجہ سے حرمت کتاب و سنت سے ثابت ہے جیسا کہ قرآن میں ہے کہ "اور تمھاری وہ مائیں (تم پر حرام ہیں) جنہوں نے تمھیں دودھ پلایاہے۔(النساء:23)

اور حدیث میں ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

"رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں۔( مسلم 1444۔کتاب الرضاع باب یحرم من الوضاعۃ مایحرم من الولادۃ)

اور علمائے کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ رضاعت کی وجہ سے نکاح کی حرمت اور اسی طرح محرم اور اس کے ساتھ خلوت ثابت ہوجاتی ہے اور دیکھنا بھی جائز ہو جاتا ہے۔

البتہ رضاعت کے مؤثر ہونے کی کچھ شرطیں ہیں مثلاً یہ کہ رضاعت دو سال کے دوران واقع ہوئی ہو۔ کیونکہ قرآن میں مدت رضاعت دو سال بیان ہوئی ہے۔(البقرة:233)

جمہور علمائے کرام کا یہی مسلک ہے اور اکثر اہل علم اور صحابہ کرام وغیرہ کا بھی اسی پر عمل ہے کہ حرمت اسی رضاعت سے ثابت ہوتی ہے جو دو سال سے کم عمر میں ہواوردوبرس کے بعد حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ اس پر صحابہ کرام سے بھی آثار موجود ہیں۔

ابو عطیہ وداعی رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کے پاس آیا اور کہنے لگا میرے ساتھ میری بیوی تھی۔اس کا دودھ اس کے پستانوں میں رک گیا تو میں نے اسے چوس کر پھینکناشروع کر دیا بعد میں ابو موسیٰ  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کے پاس گیا ابن عباس رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے کہا کہ انھوں نے کیا فتوی دیا؟ اس شخص نے ان کا فتویٰ بیان کردیا۔

حضرت ابن مسعود رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے اس آدمی کا ہاتھ پکڑ کر کہا ابو موسیٰ !کیا آپ اسے دودھ پیتا بچہ سمجھ رہے ہیں؟رضاعت تو وہ ہے جس سے خون اور گوشت بنے تو ابو موسیٰ  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کہنے لگے جب تک آپ لوگوں میں حبرالامۃ یعنی حضرت ابن مسعود رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  موجود ہیں مجھ سے کسی بھی چیز کے بارے میں مت پوچھو۔( مصنف عبدالرزاق463/7۔1389)

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی مؤطا میں حضرت ابن عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے روایت کیا ہے کہ رضاعت تو اس کے لیے ہے جس نے بچپن میں دودھ پلایا اور بڑی عمر کے آدمی کی رضاعت کا کوئی اعتبار نہیں اس کی سند صحیح ہے۔

عبد اللہ بن دینار رحمۃ اللہ علیہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کے پاس آیا اور میں بھی ان کے ساتھ تھا وہ آپ  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے بڑے شخص کی رضاعت کے بارے میں سوال کرنے لگا؟تو آپ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے کہا،ایک  شخص عمر بن خطاب  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کے پاس آکر کہنے لگا کہ میری ایک لونڈی تھی جس سے میں ہم بستری کرتا تھا میری بیوی نے اسے دودھ پلادیا پھر میں جب اس کے پاس جانے لگا تو میری بیوی کہنے لگی اس سے دورہو جاؤ اللہ کی قسم!میں نے اسے دودھ پلادیا ہے عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے کہا اسے (اپنی بیوی کو) سزا دو اور اپنی لونڈی کے پاس جاؤ اس لیے رضاعت تو صرف بچے کی ہے۔ اس کی سند بھی صحیح ہے۔

امام ابن قدامہ  رحمۃ اللہ علیہ  کا کہنا ہے کہ:

تحریم رضاعت میں یہ شرط ہے کہ وہ دوسال میں ہوا اکثر اہل علم کا یہی قول ہے اسی طرح عمر علی ابن عمر  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ ابن مسعود رضی اللہ  تعالیٰ عنہ ،ابن عباس رضی اللہ  تعالیٰ عنہ ، ابو ہریرہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ ،اور ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین  سے بھی روایت ہے صرف عائشہ  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے یہ ثابت نہیں۔

امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ  ،ابن شبرمہ رحمۃ اللہ علیہ ، امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ،امام اسحٰق رحمۃ اللہ علیہ ، امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ ،امام محمد  رحمۃ اللہ علیہ ، امام ابو ثور رحمۃ اللہ علیہ ،بھی اسی کے قائل ہیں اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  سے بھی ایک روایت اسی طرح کی ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ  سے اس مسئلہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو ان کا جواب تھا۔

بڑے آدمی کی رضاعت مؤثر نہیں اس لیے کہ رضاعت وہ مؤثر ہے جو پانچ یا اس سے زیادہ رضعات پر مشتمل ہوادو سال کی عمر سے پہلے پہلے ہو ۔لہٰذا اگر کوئی اپنی بیوی کا دودھ چوستا ہے تو وہ اس کا بیٹا نہیں بنے گا۔

ثابت ہوا کہ بیوی کا دودھ چوسنے سے کچھ بھی حرمت ثابت نہیں ہوتی اور اس کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا۔

یاد رہے کہ حرمت رضاعت کی دوسری شرط یہ بھی ہے کہ رضاعت کی تعداد پانچ ہو۔یعنی بچہ پانچ بار(عورت کا دودھ پی کر) اپنی خوراک پوری کرے۔ مراد یہ ہے کہ بچہ ایک بار ماں کا ڈالے اور پھر پینے کے بعد خود ہی باہر نکال دے تو اس طرح پانچ بار ہونا چاہیے لیکن اگر بچہ سانس لینے یا پھر ایک پستان کو چھوڑ کر دوسرے کو منہ میں ڈالنے کے لیے پہلے منہ سے نکالے تو اسے ایک رضاعت نہیں کہا جائے گا۔ نلکہ ایک رضاعت مکمل تب ہو گی۔جب بچہ خوب سیر ہوکر دودھ پی لے۔ اس کی بھوک مٹ جائے اور پھر پستان اپنی مرضی سے منہ سے نکال دے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کا یہی مسلک ہے اور حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی اسی کو اختیار کیاہے۔

پانچ رضعات کی دلیل کے طور پر یہ حدیث پیش کی جاتی ہے ۔

عائشہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہا   کا بیان ہے کہ پہلے قرآن میں یہ حکم اتراتھا کہ میں دس مرتبہ دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔پھر یہ منسوخ ہو گیااور یہ (نازل ہوا کہ) پانچ مرتبہ دودھ پینا حرمت کا سبب ہے اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات ہوئی۔

تویہ قرآن میں پڑھا جاتا تھا۔( مسلم 1452۔کتاب الرضاع باب التحریم بخمس رضعات مؤطا 608/2۔ابوداؤد2062۔کتاب النکاح باب ھل یحرم مادون خمس رضعات ترمذی 1150۔کتاب الرضاع باب ماجاءلا تحریم المصۃ والا المصتان نسائی 100/6۔ابن حبان 4207۔الا حسان)

یعنی بہت دیر بعد اس کی تلاوت منسوخ کردی گئی حتی کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  وفات پاگئے۔اور کچھ لوگوں کو اس کے منسوخ ہونے کی خبر نہ مل سکی ۔جب اس کی تلاوت کے منسوخ ہونے کا انہیں علم ہوا تو انھوں نےبھی اسے ترک کر دیا اور سب کا اس پر اتفاق ہو گیا کہ اس کی تلاوت منسوخ ہے اور حکم باقی رکھا گیا ہے یعنی حکم کے بغیرصرف تلاوت ہی منسوخ ہے۔ یہ بھی نسخ کی اقسام میں سے ایک قسم ہے۔(شیخ محمد المنجد )

سودی مستقل فتوی کمیٹی سے بھی ایک ایسا ہی سوال کیا گیا جس کی عبارت کچھ یوں ہے۔

میرا دوست مصر میں مقیم ہے اس نے مجھے پیغام بھیجا ہے اور اپنے درج ذیل پیش آمدہ مسئلے کے بارےمیں آپ سے پوچھنے کا کہا ہے۔

اپنی بیوی سے ہم بستری کے دوران بلا قصد وارادہ اس کی بیوی کا کچھ دودھ اس کے منہ میں داخل ہو گیا تو وہ فوراًاٹھا اور اس نے جو کچھ بھی منہ میں تھا تھوک دیا منہ کو دھویا اور اپنے رب سے بہت زیادہ استغفار کیا اور اس وجہ سے وہ اب تک بہت پریشان ہے اور کیا اس وقت جو اس کا بچہ اپنی ماں کا دودھ پی رہا ہے اس کا بیٹا بھی ہے اور (رضاعی) بھائی بھی؟میں آپ سے افادے گا طلب گار ہوں اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

تو کمیٹی نے جواب دیا :

آپ کے دوست پر اپنی بیوی کے پستان سے دودھ چوسنے کی وجہ سے کوئی گناہ نہیں اور اس نے جو دودھ چوسا ہے وہ اس کی بیوی کو اس پر حرام نہیں کرتا ۔(کیونکہ) اس دودھ کا مطلق طور پر کوئی اثر ہی نہیں (اس لیے کہ قابل تاثیر دودھ وہی ہےجو دوسال کی عمر میں پانچ مرتبہ پیا گیا ہو اسی سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔(سعودی فتوی کمیٹی)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص293

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ