سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(225) اگر خاوند کی شہوت بیوی سے زیادہ ہو

  • 15743
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 2385

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہماری شادی چھ ماہ قبل ہوئی ہے اور ہمیں ہم بستری کے بارے میں ایک مشکل ہے جسے ہم ابھی تک منظم نہیں کر پائے کیونکہ خاوند کی رغبت بہت ہی قوی اور شدید ہے میں نے اس کی خواہش پوری کرنے کی کوشش تو کی ہے لیکن نہیں کر سکی اور اب میں بہت ہی تکلیف محسوس کرتی ہوں اور بدنی طور پر مجھ میں اس کی طاقت نہیں رہی۔

میرے خاوند نے اس سے بہت ہی براتاثر لیا ہے اور گھر میں مجھ سے علیحدہ رہنے لگا ہے۔ مجھے یہ تو علم ہے کہ میں اس کی رغبت کو پوری کروں لیکن ہمارے ایک دوسرے کے بارے میں واجبات کیا ہیں ؟اگر طرفین کی رضا مندی کے باوجود ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کے قریب رہنے کی طاقت نہ رکھے تو کیا خاوند کے لیے جائز ہے کہ وہ اس طریقے سے مجھ سے علیحدہ ہو؟اور کیا اسے یہ حق ہے کہ وہ میرے پاس صرف یہ تعلق قائم کرنے کے لیے ہی آئے باوجود اس کے ہم نے ابھی تک اکٹھے بات چیت بھی نہیں کی؟

ان حالات کے باوجود الحمد اللہ ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور بہت ہی خوش ہیں اور ہر ایک دوسرے کا احترام بھی کرتے ہیں لیکن ہم اپنی زندگی کی اس مشکل کا اسلامی حل چاہتے ہیں۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

خاوند پر واجب ہے کہ وہ بیوی سے حسن معاشرت اختیار کرے اور حسن معاشرت میں جماع بھی شامل ہے جو کہ اس پر واجب ہے۔ جمہور علمائے کرام نے ہم بستری کے لیے مدت مقرر کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ چارماہ تک کے لیے جماع چھوڑا جا سکتا ہے اور صحیح تو یہی ہے کہ وہ کوئی مدت مقرر نہ کرے بلکہ بیوی کے لیے جتنا کافی ہو اس سے اتنی ہی ہم بستری کرے ۔

امام جصاص رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں ۔

خاوند پر ضروری ہے کہ اپنی بیوی سے ہم بستری کرے۔( احکام القرآن للجصاص 374/1)

اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں ۔

خاوند اپنی بیوی کی کفایت کے حساب سے ہم بستری کرنا واجب ہے۔( الاخیارات الفقہیۃ ص246)

جب خاوند بیوی کو ہم بستری کے لیے بلائے تو اس پر واجب ہے کہ اس کی بات تسلیم کرے اگر وہ انکار کرے گی تو نافرمان ہوگی ۔کیونکہ حدیث میں ہے کہ۔

"جب شوہر اپنی بیوی کو بستر ی کے لیے ) بلائے اور وہ آنے سے انکار کر دے تو صبح تک فرشتے اس (بیوی) پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔( بخاری 5193کتاب النکاح باب اذا باتت المراۃ مہا جرۃ فراش زوجہا مسلم 1436۔کتاب النکاح باب تحریم امتناعہا من فراش زوجہا)

شیخ اسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں۔

جب خاوند بیوی کو ہم بستری کے لیے بلائے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اس کی اطاعت کرے کیونکہ یہ اس پر فرض اور واجب ہے اور جب بھی وہ اس کے لیے راضی نہیں ہو گی وہ نافرمان ہوگی۔( الفتاوی الکبری145/3)

خاوند کے لیے جائز نہیں کہ وہ بیوی کے ساتھ اس کی طاقت سے زیادہ ہم بستری کرے۔اگر وہ بیماری کی وجہ سے معذور ہو یا پھر کسی اور وجہ سے اس کی برادشت سے باہر ہوتو وہ ہم بستری سے انکار پر گناہگارنہیں ہو گی۔

حافظ ابن حزم  رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں ۔

لونڈی اور آزادی عورت پر فرض ہے کہ جب اس کا مالک اور خاوند اسے ہم بستری کی دعوت دے تو وہ اس کی بات قبول کرے اور انہیں انکار نہیں کرنا چاہیے لیکن جب وہ حائضہ یا مریض ہواور ہم بستری اس کے لیے تکلیف دہ ہویا اس نے فرض روزہ رکھا ہو تو پھر انکار کر سکتی ہے اور اگر بغیر کسی عذر کےانکار کرے تو وہ ملعون ہے۔( المحلی لابن حزم 40/10)

ایسی بیوی جسے خاوند کی زیادہ ہم بستری نقصان یا تکلیف دیتی ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے خاوند سے مصالحت کرے اور اس کے ساتھ اپنی برداشت کے مطابق ہم بستری کی تعداد متعین کرلے اور اگر وہ اس سے زیادہ کرے کہ جس سے اسے تکلیف ہو تو پھر اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا معاملہ عدالت میں لے جائے اور قاضی کو بیان کرے اور قاضی کو حق ہے کہ وہ اس کے لیے تعداد متعین کرےجو خاوند اور بیوی دونوں پر لازم ہو۔

اب جبکہ آپ کے ملک میں شرعی عدالت نہیں تو بیوی کو چاہیے کہ وہ اس معاملہ میں اپنے خاوند کے ساتھ متفق ہو کر اسے حل کرے اور اسے واضح طور پر اپنے خاوند سے بات کرنی چاہیے اور اس کے سامنے وہ آیات اور احادیث بیان کرے ۔جس میں حسن معاشرت کا ذکر ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ خاوند بیوی کے ساتھ حسن معاشرت اختیار کرے۔اور بیوی کو اپنے خاوند کے لیے یہ بھی بیان کرنا چاہیے کہ وہ اس سے انکار تو نہیں کرتی لیکن جو چیز اس کے لیے نقصان دہ ہے اور جس کی وہ محتمل نہیں وہ اس سے انکار کرتی  ہے۔

ہم سوال کرنے والی بہن کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنے خاوند کے معاملے میں صبرو تحمل سے کام لے اور اس معاملے کو حسب استطاعت برداشت کرے اور اسے یہ علم ہونا چاہیے کہ اسے اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب  سے اجرو ثواب بھی ملے گا۔

اور خاوند پر بھی یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی بیوی کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور اس کا خوف اپنے ذہن میں رکھے اور اس پر ایسا کام مسلط نہ کرے جو اس کی برداشت سے باہر ہواور اپنی بیوی کے ساتھ حسن معاشرت اختیار کرے۔اگر اس کی شہوت اتنی ہی زیادہ ہے کہ اسے ایک بیوی کافی نہیں پھر وہ اس کا حل کیوں نہیں تلاش کرتا ۔ہوسکتا ہے یہ مشکل خاوند اور بیوی کے مابین تعلقات میں خرابی اور ناچاقی کا باعث بن جائیں یا وہ اس سے بھی خطرناک کام میں پڑجائے کہ اپنی شہوت کو حرام طریقے سے پوری کرنا شروع کردے۔

اس مشکل کا ایک حل یہ بھی ہے کہ وہ دوسری شادی کرلے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مرد کے لیے ایک وقت میں چار بیویاں رکھنا جائز دیا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ان میں عدل و انصاف کرنے کی طاقت رکھتا ہو بصورت دیگر یہ جائز نہیں ۔ اور اس مشکل کا حل یہ بھی ہے کہ وہ کثرت سے روزے رکھے اس لیے کہ روزے شہوت کو کم کر دیتے ہیں ایک حل یہ بھی ہے کہ شہوت کم کرنے والی ادویات استعمال کرے لیکن اس میں یہ شرط ہے کہ نقصان دہ نہ ہوں ۔میں اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ وہ مسلمانوں کے حالات کی اصلاح فرمائے۔(شیخ محمد المنجد )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص288

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ