سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(214) شادی خفیہ رکھنا اور پھر والدین کی رضا کے لیے دوبارہ شادی کرنا

  • 15732
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 932

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری عمر اٹھائیس برس ہے اور دس برس سے ایک لڑکی سے محبت کررہا ہوں۔میں نے اس محبت کا اپنے والدین سےبھی ذکر کیا اور ان سے کہا کہ اس کا رشتہ میرے لیے مانگ لیں لیکن انہوں نے بالکل ہی انکار کردیا کیونکہ ان کے اصول ہم سے مختلف ہیں۔میں نے تقریباً آ ٹھ برس تک کوشش کی کہ میرے گھر والے مان جائیں لیکن مجھے افسوس ہے کہ وہ نہیں مانے۔پھر میں یہ فیصلہ نہیں کرسکا کہ اپنے گھر والوں کوراضی رکھوں یا اس لڑکی سے شادی کروں۔تو بالآخر میں نے نو ماہ قبل اس لڑکی سے اس کے والدین کی موجودگی میں شادی کرلی لیکن اپنے گھر والوں کو نہیں بتایا کہ میں شادی کرچکا ہوں۔

کچھ عرصہ بعد ان کے نظریات میں تبدیلی آگئی اور اچانک وہ اس لڑکی کو پسند کرنے لگے اور انہیں علم بھی نہیں کہ  میں تو اس سے شادی کرچکا ہوں۔اور اب وہ یہ چاہتے ہیں کہ میں اس لڑکی سے شادی کرلوں۔لیکن انہیں یہ علم نہیں کہ ہم تو عرصہ سے شادی شدہ ہیں۔

میں انہیں اپنی شادی کے بارے میں نہیں بتانا چاہتا اس لیے کہ میرے والد محترم دل کے مریض ہیں۔مجھے علم نہیں کہ انہیں یہ خبر کیسے لگے اور وہ اسے برداشت کر سکیں یا نہیں،اب میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ میں اپنی شادی کو خفیہ رکھتے ہوئے د وبارہ اپنی بیوی سے شادی کرلوں؟آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس پر کچھ  روشنی ڈالیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت نصیب فرمائے۔(آمین)

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلامی طریقہ یہ ہے کہ جب میسر ہوتو نکاح کااعلان کیا جائے(یعنی اس میں دف کا ا ستعمال کیا جائے)  تاکہ زنا سےاس کی تمیز ہوسکے کیونکہ زنا ہی ایک ایساامر ہے جوغالباً خفیہ طریقے سے ہوتاہے۔اور جب عقد نکاح میں شرعی شروط اور ارکان نکاح پائے جائیں تو وہ نکاح صحیح ہوگا خواہ اس لڑکے کے گھر والے رضا مند نہ بھی ہوں۔

مسلمان مرد کویہ اجازت ہے کہ وہ کسی کتابی عورت سے شادی کرلے لیکن یہ شرط ہے کہ وہ عورت  پاکدامن ہو۔جبکہ مسلمان عورت صرف مسلمان مرد سے ہی نکاح کرے گی اس کے لیے نہ تو کسی کافر ومشرک سے شادی کرناجائز ہے اور نہ ہی کسی کتابی سے ۔اس لیے اسے چاہیے کہ کسی اچھے اور بہتر اخلاق والے دین دار مسلمان کو تلاش کرے۔

سوال میں بیان کی گئی حالت میں یہ کہنا ممکن ہے کہ:

1۔جب والد خاوند سے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا مطالبہ کرے تو اس پر اپنی بیوی کو طلاق دینا واجب نہیں۔

2۔والد کابیتے پر ایک عظیم حق ہے اور گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا واجب ہے جب والد دل کا مریض ہوتو اور بھی زیادہ حسن سلوک کرنا چاہیے اس لیے بہتر تو یہ ہے کہ یہ شادی والد کے علم میں نہیں آنی چاہیے ۔یہ بعیدہے کہ اس کاموقف بدل چکا ہو کیونکہ اس کا موقف طبقاتی نظریات پر مبنی ہے اور بڑی عمر کے لوگوں میں تبدیلی مشکل ہی ہوتی ہے۔

3۔آپ کے لیے ضروری ہے کہ آپ ا پنے گھر والوں کے آخری موقف کی  تصدیق کرلیں اور اس لڑکی سے ان کی رضا مندی کہاں تک ہے۔ممکن ہے انہوں نے کسی سے یہ سن لیاہو کہ اس لڑکی نے شادی کرلی ہے اور اب وہ آپ کو ر اضی کرناچاہتے ہوں کیونکہ ان کے گمان میں یہ ہو کہ اس لڑکی نے آپ کے علاوہ کسی اور سے شادی کرلی ہے یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے اس کی آپ سے شادی کے بارے میں سنا ہو اور اس کا علم وہ آپ کے ذریعے حاصل کرنا چاہتے ہوں۔جب آپ ان کےموقف کی تصدیق کرلیں(یعنی اس سے شادی کرلیں) تو پھر کوئی مانع باقی نہیں رہے گا۔

اور دوبارہ عقد نکاح کرنے کے بارے میں ہم نے فضیلۃ الشیخ مفتی عبدالعزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ  سے دریافت کیا تو انھوں  جواب دیا۔

پہلےعقد میں جب مکمل شرائط موجود ہوں اور نکاح کے موانع میں سے کوئی مانع نہ پایاجائے تو وہ عقد نکاح صحیح ہے۔لہذا پھر دوبارہ عقد نکاح نہیں کرنا چاہیے تاکہ اسے کھیل تماشہ نہ بنایاجاسکے اور آپ کو چاہیے کہ آپ ہر ذریعے سے اپنے  گھر والوں کو راضی کرنے کی کوشش کریں اورانھیں بتائیں کہ معاملہ مناسب طریقے سےحل ہوچکاہے۔اور اگر آپ کو والد کی زندگی کے متعلق حقیقی طور پرخدشہ ہوتو پھر ضرورت کو دیکھتے ہوئے عقد نکاح دوبارہ بھی ہوسکتاہے۔(واللہ اعلم)(شیخ سعد الحمید)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص277

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ