سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(174) مہر ییوی کا حق ہے

  • 15692
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 890

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں مہر کے متعلق اسلامی نظریہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کیا اسلام مہر کی اجازت دیتا ہے یا کہ ایک غلطی شمار ہوگی اور جب یہ غلطی ہوتو پھر اس شخص کو کیاکرنا چاہیے جو پہلے مہر حاصل کرچکا ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دین اسلام میں مہر بیوی کا خصوصی حق ہے جو  صرف اور صرف بیوی حاصل کرے گی۔تاہم کچھ ممالک میں یہ معروف ہے کہ مہر میں بیوی کا کوئی حق نہیں،یہ اسلامی شریعت کے خلاف ہے عورت کو مہر کی ادائیگی کے بہت سے دلائل ہیں جن میں سے کچھ ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں:

1۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

﴿وَءاتُوا النِّساءَ صَدُقـٰتِهِنَّ نِحلَةً ...﴿٤... سورة النساء

"عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی ادا کرو۔"(النساء:4)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ    فرماتے ہیں کہ"نحلہ" سے مراد مہر ہے۔حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  اس آیت کی تفسیر میں نقل فرماتے ہیں کہ مرد پر لازم ہے کہ وہ واجبی طور پر عورت کو مہر ادا کرے اور یہ اسے راضی خوشی دینا چاہیے۔اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر کچھ اس  طرح فرمایا ہے:

﴿وَإِن أَرَ‌دتُمُ استِبدالَ زَوجٍ مَكانَ زَوجٍ وَءاتَيتُم إِحدىٰهُنَّ قِنطارً‌ا فَلا تَأخُذوا مِنهُ شَيـًٔا أَتَأخُذونَهُ بُهتـٰنًا وَإِثمًا مُبينًا ﴿٢٠ وَكَيفَ تَأخُذونَهُ وَقَد أَفضىٰ بَعضُكُم إِلىٰ بَعضٍ وَأَخَذنَ مِنكُم ميثـٰقًا غَليظًا ﴿٢١﴾... سورة النساء

"اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا ہی چاہو اور ان میں سے کسی کو تم نے خزانہ بھی دے رکھا ہوتو  بھی تم اس میں سے کچھ نہ لو۔کیا تم اسے ناحق اور کھلا گناہ ہوتے ہوئے بھی لے لوگے تم اسے کیسے لو گے حالانکہ تم ایک دوسرے سے مل چکے(یعنی مباشرت  کرچکے) ہو اور ان عورتوں نے تم سے مضبوط عہدوپیمان لے رکھا ہے۔"(النساء:20.21)

حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:

مراد یہ ہے کہ جب تم کسی بیوی کو چھوڑنا چاہو اور اس کے بدلے میں کسی اور عورت سے شادی  کرنا چاہوتو پہلی کو دیئے ہوئے مہر میں سے کچھ بھی واپس نہ لو خواہ وہ بہت بڑاخزانہ ہی کیوں نہ ہو مہرتو اس ٹکڑے کے بدلے میں ہے (یعنی مہر ہم بستری کے بدلے میں ہے اور وہ تم کرچکے ہو)۔

حدیث میں ہے کہ:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے بیان کیا کہ حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئے تو ان پر زردرنگ کے نشان تھے۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے پوچھا یہ کیا ہے؟تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ایک انصاری عورت سے شادی کی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  فرمانے لگے مہر کتنا دیا ہے؟انہوں نے جواب دیا،ایک کھجور کی گھٹلی کے برابر سونا دیاہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ولیمہ کرو خواہ ایک بکری کے ساتھ ہی۔"( بخاری (5167) کتاب النکاح ۔باب الولیمۃ ولو یشاۃ مسلم(1427) کتاب النکاح باب الصداق وجواز کونہ تعلیم قرآن وخاتم حدید ابو داود(2109)

  یادرہے کہ مہر صرف لڑکی کا حق ہے اس کے والد یا کسی اور کے لیے اس میں سے کچھ لینا جائز نہیں لیکن اگر لڑکی خود ہی راضی خوش کچھ دے دے تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں۔ابو صالح کہتے ہیں کہ مرد جب اپنی لڑکی کی شادی کرتا تو اس کا مہر خود لے لیتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے روکتے ہوئے یہ آیت نازل فرمادی:

"اور عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی اداکرو۔" (تفسیر ابن کثیر)

اس طرح اگر بیوی خاوند کو اپنے مہر سے  کچھ معاف کرتے ہوئے دیتی ہے توخاوند اسے لے سکتاہے اور وہ اس کے لیے حلال ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

"اور عورتوں کو ان کے مہرراضی خوشی دے دو ۔ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہوکر کھالو۔(النساء:4) (شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص247

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ