سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(159) منگیتر سے ہم بستری اور اس کے ہاتھ سے مشت زنی

  • 15677
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1407

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا ایک دوست کچھ عرصہ قبل مسلمان ہوا۔دین اسلام قبول کرنے سے پہلے اس کے ایک لڑکی سے تعلقات تھے لیکن قبول اسلام کے بعد اس نے اپنے آپ کو جنسی اسباب سے بچانے کے لیے مشت زنی کرنی شروع کردی میں نے اسے نصیحت کی اور سمجھایا کہ اسلام میں مشت زنی کرنا بھی حرام ہے۔ اب اس نے ایک لڑکی سے منگنی کی ہے لیکن مالی مشکلات کیوجہ سے دو برس تک شادی نہیں کرسکے لیکن وہ اپنی منگیتر سے جنسی تعلقات قائم کیے ہوئے ہے اور دونوں ایک دوسرے سے مشت زنی کرتے ہیں اب وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ ان حالات میں کیا اب اس کے لیے جنسی تعلقات اور مشت زنی جائز ہے اور اگر جائز نہیں تو اسے کیاکرناچاہیے(تاکہ وہ اپنی جنسی رغبت  پوری کرسکے)؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہم اللہ تعالیٰ کی تعریف اور شکر اداکرتے ہیں جس نے آپ کے دوست کو دین اسلام کی ہدایت نصیب فرمائی ہم اللہ تعالیٰ سے اس کے لیے موت تک دین پر ثابت قدمی کی دعا کرتے ہیں۔وہ اپنی زندگی کی سب سے اہم کامیابی حاصل کرنے کی توفیق حاصل کرچکا ہے جو اس کی زندگی کے لیے سب سے بڑی کامیابی ہے کہ کفر وشرک کے اندھیروں سے نکل کر نور اسلام اور اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی طرف آگیا ہے اور اب جوبری قسم کی عادات باقی رہ گئی ہیں اس کے لیے ان کا چھوڑنا توان شاء اللہ بہت ہی آسان ہوگا جبکہ وہ اس  میں اللہ تعالیٰ سے مدد وتعاون کا طلب گار ہو۔کیونکہ جس نے اپنا دین چھوڑ دیا جس پر اس کی پرورش ہوئی اور اسی میں جوان ہوا اور  پھر دین صحیح  میں داخل ہوا اس کے لیے ان عادات کو جو اس نے جاہلیت کے دور میں اپنا رکھی تھی چھوڑنا بھی آسان ہو گا اس لیے کہ مشت زنی اس کے فاعل کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس گندی عادت کو چھوڑے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کی اس وصیت پر  عمل کرے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"اے نوجوانوں کی  جماعت! تم میں سے جسے نکاح کرنے کی استطاعت ہو اسے نکاح کرنا  چاہیے کیونکہ نکاح نظر کو جھکانے والا اور شرمگاہ کومحفوظ رکھنے والا ہے اور جسے استطاعت نہ ہو اس کے لیے روزے کااہتمام وہ التزام ضروری ہے اس لیے کہ روزہ اس کے لیے ڈھال ہے۔"( بخاری (5065) کتاب النکاح باب قول النبی:من استطاع الباءۃ  فلیتزوج مسلم(1400) کتاب النکاح باب استحباب النکاح لم تاقت نفسہ الیہ ابو داود(3046)

رہا اس کا یہ سوال کہ منگیتر کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنا تو اگر منگیتر سے مرد اور عورت ہے جس سے شرعی عقد نکاح ہوچکاہے اور صرف رخصتی باقی ہے تو اس عورت سے اس کے جنسی تعلقات صحیح اور حلال ہیں۔لیکن اگر منگیتر سے مراد یہ ہے کہ ابھی صرف منگنی ہی ہوئی ہے اور عقد نکاح نہیں ہوا تو اس سے جنسی تعلقات حرام ہیں۔ایسا کرنا بدکاری اور قبیح قسم کے افعال میں سے ہے جس سے وہ دونوں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے غضب اور عذاب کامستحق بنارہے ہیں۔

اور یہ کہناکہ مالی مجبوریوں کی وجہ سے وہ شادی نہیں کرسکا بغیر عقدنکاح کے منگیتر سے ایسے برے تعلقات قائم کرنے کے جواز میں کافی نہیں۔اسے یہ علم ہونا چاہیے کہ منگیتر ابھی تک اس کے لیے اجنبی ہے وہ بھی دوسری اجنبی عورتوں کی طرح ہی ہے اس لیے اس سے خلوت کرنا جائز نہیں کیونکہ اس کا نکاح نہیں ہوا۔

نیز اس کے لیےیہ بھی جائز نہیں کہ وہ منگیتر کے ساتھ سے مشت زنی کرائے یا اس کابوسہ لے وغیرہ۔اسی طرح اس سے بلا ضرورت بات چیت کرنا بھی جائز نہیں ہاں اگر کوئی ضرورت ہوتو محرم کی موجودگی میں پردے کی حالت میں بات کی جاسکتی ہے۔

اس جیسی حالت میں اس کے لیے حل یہی ہے کہ وہ اس کے ساتھ عقد نکاح کرلے اس لیے کہ جو بھی عقد نکاح کرلیتا ہے اس کے لیے عورت کی ہرچیز حلال ہوجاتی ہے کیونکہ نکاح سے وہ اس کی بیوی بن جائے گی خواہ رخصتی نہ بھی ہوئی ہو۔اور اگر وہ طاقت نہیں رکھتا تو اسے صبر کرنا چاہیے اور بکثرت روزے رکھے جیسا کہ اوپر حدیث میں مذکور ہے۔(شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص227

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ