سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(153) منگیتر کا لڑکی کو ملازمت سے روکنا

  • 15671
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1028

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری تین برس سے منگنی ہوچکی ہے۔ان تین برسوں میں میرے اور منگیتروں کے درمیان اختلافات بڑھ چکے ہیں حالانکہ ان میں سے غالب تو بہت ہی چھوٹی باتیں ہیں لیکن ایک مشکل جس پر  ہمارا ہمیشہ آپس میں جھگڑا رہتاہے وہ شادی کے بعد میری ملازمت ہے۔میرا خاوند اس پر مصر ہے کہ شادی کے بعد بغیر کسی ضرورت کے صرف ملازمت کی رغبت سے عورت کا ملازمت کرنا حرام ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال کرنے والی بہن کو ہم ایک تنبیہ کرنا چاہیں گے کہ  تین برس سے اس کی منگنی ہوچکی ہے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے منگیتر کے ساتھ اٹھتی بیٹھتی ہے اور بات چیت بھی کرتی ہے اور ہوسکتا ہے وہ اس سے خلوت بھی کرتی ہو اور اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ شادی کے بعد ملازمت کے بارے میں اس کا منگیتر سے جھگڑا بھی ہوتا رہتاہے آج کل لوگوں میں یہ بات عام ہوچکی ہے کہ جن کی منگنی ہوجائے وہ شادی سے قبل ہی آپس میں بات چیت کرتے ہیں اور اکھٹے گھومنے پھرنے کے لیے بھی نکل جاتی ہیں۔اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ ایسا کرنا حرام ہے شادی کرنے والے مرد کو منگنی کے وقت اپنی منگیتر کو  صرف دیکھنے کی اجازت ہے اس سے زیادہ کسی چیز کی اجازت نہیں۔

اس کے ساتھ خلوت اور مصافحہ کرنا حرام ہے کیونکہ صرف منگنی کے بعد وہ لڑکی ابھی اس کے لیے اجنبی (یعنی غیر محرم) ہے اور شریعت نے لڑکی کو دیکھنا بھی صرف اسی لیے جائز قرار دیا ہے  تاکہ وہ منگنی کا عزم کرسکے۔

تاہم بعض لوگ منگیتر کا لفظ ایسے شخص کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں جس کے ساتھ عقد نکاح تو ہوچکاہو لیکن رخصتی  نہ ہو۔اگر تو آپ کی بھی یہی  حالت ہے تو پھر آپ دونوں میاں بیوی ہیں اور آپ کےخاوند کے لیے آپ سے مصافحہ کرنا خلوت کرنا اور آ پ کے ساتھ سفر کرنا جائز ہے لیکن اگر ابھی آپ دونوں کا عقد نکاح نہیں ہوا اور بات صرف منگنی تک ہی محدود ہے تو پھر آپ کی ملاقاتیں حرام ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ عورت کے لائق اور اس کی طبیعت کے مناسب کا م تو یہی ہے کہ وہ  گھر میں ٹھہرے اور گھریلو ضروریات سے نبردآزما ہو۔خاوند اور جب اللہ تعالیٰ اسے اولاد سے نوازے تو وہ اس کی ضروریات پوری کرے اور ان کا خیال رکھے یہ کام بہت عظیم ہے کو ئی آسان اور معمولی کام نہیں۔

رہا مسئلہ گھر سے نکل کر عورت کی ملازمت اور کام کرنے کا تو اصل بات یہی ہے کہ یہ اس کی طبعیت کے مناسب نہیں اور نہ ہی اسے زیب دیتا ہے لیکن اگر اسے ایسا کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو پھر اسے ایسا کام کرنے کی اجازت ہے جو اس کی طبعیت کے مناسب اورحال کے لائق ہو۔مگر اس میں میں بھی یہ شرط ہے کہ شریعت اسلامیہ کی پابندی کی جائے یعنی باپردہ رہے آنکھوں کی حفاظت کرے اور  غیر مردوں سے میل جول نہ رکھے وغیرہ۔

شیخ عبدالعزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں:

یہ بات تو عام معلوم ہے کہ عورت کا ملازمت کرنے کے لیے نکلنا مردوں کے ساتھ اختلاط میل جول اور خلوت کا باعث بنے گا جو کہ بہت ہی خطرناک معاملہ ہے ا س کے نتائج بھی بہت خطرناک اس کا پھل بہت ہی کڑوا اور انجام بہت ہی برا ہوگا اور  پھر یہ تو شرعی نصوص کے بھی برعکس ہے کیونکہ شریعت میں عورت کو گھر میں ہی رہنے اور گھریلو کام کاج کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس ذریعے سے وہ مردوں کے ساتھ اختلاط اور خلوت سے بھی بچی رہے گی۔اجنبی عورت کے ساتھ خلوت اور اسے دیکھنے کی حرمت کے متعلق شریعت میں صریح اور صحیح دلائل موجود ہیں جن میں چند ایک کا ذکر یہ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

"اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ سنگھار کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکواۃ دیتی رہو،اللہ  تعالیٰ اوس اس کے  رسول کی اطاعت کرتی رہو،اللہ تعالیٰ تو یہی چاہتا ہے کہ اے نبی پاک کی گھر والیو! تم سے وہ(ہرقسم کی) گندگی کو دور کردے اور تمھیں خوب پاک کردے۔اورتمہارے گھروں میں جو آیتیں اور رسول کی جو احادیث پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو یقیناً اللہ تعالیٰ مہربانی کرنے والا خبردار ہے۔"( الاحزاب۔33)

ایک دوسرے مقام پر  فرمایا کہ:

"اے نبی ! اپنی بیویوں ،بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں س کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہوجایا کرے گی  پھر وہ ستائی نہ جائیں گی اور اللہ تعالیٰ  بخشنے والا مہربان ہے۔"( الاحزاب۔59)

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ کا فرمان کچھ اس طرح ہے کہ:

"اور مومن مردوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں یہ ان کے لیے زیادہ بہتر اور  پاکی کا باعث ہے یقیناً اللہ تعالیٰ جو کچھ وہ کررہے ہیں جاننے والا ہے اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔اور ا پنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے  اور اپنے گریبانوں پر اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زیب وزینت کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا ا پنے سسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے۔۔۔"( احزاب۔30۔31)

اسی طرح اور بھی بہت سی آیات واحادیث صریحاً اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ عورتوں کے لیے مردوں سے میل جول نہ کرنا واجب ہے کیونکہ یہ میل جول فساد اور معاشروں کے بگاڑ کاباعث بنے گا۔مگر جب ہم اسلامی ممالک میں عورت کی حالت دیکھتے ہیں تو عورت کو گھر سے نکل کر غیر طبعی کام کرنے کی وجہ سے ذلیل ورسوا پاتے ہیں کیونکہ اس نے اپنی ذمہ داری کو چھوڑ کر ایسا کام اختیار کیا ہے جو اس کے لائق نہ تھا۔

ان اسلامی ممالک اور باقی دوسرے یورپی ممالک میں بھی عقل مند حضرات اور دانشوروں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے اور یہ مطالبہ کرنے لگے ہیں کہ عورت کو اس کی طبعی اور فطری حالت پر واپس لایا جائے جس پر اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا فرمایا اور اسے جسمانی اور عقلی طور پر تخلیق کیاہے لیکن یہ سب کچھ بہت ہی وقت گزرنےکے بعد ہو اہے لہذا اگر عورتیں اپنے عملی میدان(یعنی بچوں کی  تعلیم وتربیت گھریلو کام کاج وغیرہ) میں کماحقہ وقت صرف کریں تو یہ چیز انہیں مردوں کے ساتھ مل کر کام کرنے سے مستغنی کردے  گی،۔

اور شیخ محمد بن صالح عثمین  رحمۃ اللہ علیہ  کا کہنا ہے:

عورت کا عملی میدان صرف انہی کاموں تک محدود ہے جو عورتوں کے ساتھ خاص ہوں مثلاً لڑکیوں کی تعلیم وتدریس اور گھرمیں کپڑوں کی سلائی کڑھائی وغیرہ۔لیکن اگر وہ مردوں کے ساتھ خاص کردہ کاموں میں شرکت کرے اور ملازمت کرے تویہ جائز نہیں کیونکہ اس سے مردوں کے ساتھ میل جول ہوگا جو کہ عظیم فتنہ  اور فساد ہے۔جس سے بچنا ضروری ہے۔نیز اس بات کا علم ہونا بھی ضروری ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ"

"میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے بڑھ کر(نقصان دہ) کو ئی فتنہ نہیں چھوڑا۔"( بخاری(5096) کتاب النکاح باب مایتقی من الشوم مسلم(240)

ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کا فرمان ہے کہ:

"فَاتَّقُوا الدُّنْيَا, وَاتَّقُوا النِّسَاءَ, فَإِنَّ أَوَّلَ فِتْنَةِ بَنِي إِسْرَائِيلَ, كَانَتْ فِي النِّسَاءِ"

"دنیا اور عورتوں سے بچ کررہو کیونکہ بنی اسرائیل میں پہلا  فتنہ عورتوں کی وجہ سےپیداہواتھا۔"( مسلم(2742) كتاب الرقاق باب أكثر أهل الجنة الفقراء وأكثر أهل النار النساء وبيان الفتنة بالنساءاحمد(11169)نسائی فی السنن الکبری(5/9269)ابن حبان(3221)

لہذا مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ ا پنی بیوی کو فتنے والی جگہوں اور اس کے اسباب سے ہر حال میں بچا کررکھے۔( دیکھئے فتاویٰ المراۃف المسلمۃ(2/981) (شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص219

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ