سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(138) منگنی سے پہلے لڑکے کے تعارف کے لیے اس کے ساتھ گھومنا پھرنا

  • 15656
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1202

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا سوال ایسے موضوع کے متعلق ہے جس کی وجہ سے مجھے کچھ عرصہ سے بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے تقریباً ایک برس سے مجھے طلاق ہو چکی ہے اور میرا کوئی بچہ بھی نہیں اب اس واقعہ کو ایک برس مکمل ہوا چکا ہے۔میرا سوال یہ ہےکہ:

جس سے میری شادی ہوئی تھی میں ا سے شادی سے پہلے بالکل نہیں جانتی تھی اس سے میں نے صرف اس لیے شادی کی تھی کہ میرے والدین کا خیال تھا کہ وہ میرے لیے مناسب رہے گا۔ جو کچھ میرے ساتھ ہو چکا سوہو چکا۔ میں نے سوچا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ میں جس سے شادی کروں اسے شادی کرنے سے قبل جان لوں میرا یہ کوئی مقصد نہیں کہ میں اس کے ساتھ عہدو پیمان کرتی رہوں اور اس کے ساتھ گھومتی پھروں۔ بلکہ صرف یہ مقصد ہے کہ اس سے بات چیت اور تعارف ہوجائے تاکہ مجھے یہ علم ہوسکے کہ وہ میرے لیے مناسب بھی ہے کہ نہیں؟

میں جس نکتے کی وضاحت کرنا چاہتی ہوں وہ یہ ہے کہ میں اپنے جذبات مجروح نہیں کرنا چاہتی یا پھر یہ نہیں چاہتی کہ ایک بار پھر میرا معاملہ طلاق پر جا کر ختم ہو میرا سوال ہے کہ آیا اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ لڑکی اپنے لیے خاوند اختیار کر کے اس سے شادی کرے؟ مجھے اس موضوع کی وضاحت کی اشد ضرورت ہے آپ کے تعاون پر آپ کی قدر کرتے ہوئے آپ کی مشکور ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی حفاظت میں رکھے ۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلام نے یہ حکم دیا ہے کہ بیٹی کی شادی کے وقت والد اس سے اجازت لے خواہ وہ کنواری ہو یا شوہر دیدہ اور لڑکی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ رشتہ کے لیے آنے والے مرد کے بارے میں معلومات حاصل کرے۔معلومات حاصل کرنے کے لیے مختلف طریقوں سے اس کے بارے میں پوچھا جاسکتا ہے مثلاًلڑکی اپنے قریبی رشتہ داروں کو یہ کہے کہ وہ اس مرد کے دوست احباب  سے اس کے متعلق معلومات حاصل کریں کیونکہ دوسروں کی بہ نسبت اس کے دوست احباب جو اس کے قریب رہتے ہیں اس کے متعلق زیادہ معلومات رکھتے ہوں گے۔اور اس کی ایسی باتوں سے آگاہ ہوں گے۔جو باقی لوگوں کے علم میں نہیں ہوتیں -

عقد نکاح سے قبل لڑکی کے لیے کسی بھی حالت میں لڑکے کے ساتھ خلوت کرنا جائز نہیں اور نہ ہی اس کے سامنے بے پردہ ہوکر آنا جائز ہے اور یہ بھی معروف ہے کہ اس طرح کی ملاقاتوں میں لڑکے کی اصلیت اور طبیعت واضح نہیں ہوتی بلکہ وہ تکلف اور تصنع سے کام لیتا ہے اگر وہ لڑکی اس کے ساتھ خلوت بھی کر لے اور باہر بھی چلی جائے پھر بھی اس کی شخصیت اور حقیقت واضح نہیں ہو سکتی ۔

بہت سی لڑکیاں اپنے منگیتروں کے ساتھ باہر نکلنے کی معصیت کرنے کے باوجود بھی کچھ حاصل نہیں کر سکیں بلکہ ان کے اس کام کا انجام انتہائی تکلیف دہ رہا انہیں سوائے معصیت و گناہ آپ اس کے سامنے پیش کرنے کے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ کتنے ہی شیر یں زبان میں کلام کرنے والے اپنی منگیتر کے جذبات سے کھیلتے اور اسے باہر لے کر نکلتے ہیں جس میں وہ اسے اپنا اچھا پہلو دکھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب آپ اس کے بارے میں لوگوں سے پوچھیں اور اس کے حالات کے بارے میں دوسروں کے احساسات حاصل کریں تو کچھ مختلف قسم کا پہلو سامنے آئے گا۔

اس لے منگیتر کے ساتھ خلوت اور اس کے ساتھ نکلنے سے بھی یہ مشکل حل نہیں ہو گی اگر ہم یہ فرض کریں کہ اس میں یہ فائدہ توہے کہ اس کی شخصیت نکھر کر سامنے آجاتی ہے تو ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس پر گناہ مرتب ہوتے ہیں ان کا نقصان اس فائدے سے بہت ہی زیادہ ہے اسی لیے شریعت اسلامیہ نے اجنبی مرد کے ساتھ خلوت اختیار کرنے سے منع کیا ہے اور منگیتر بھی اجنبی ہی ہے ۔

پھر یہ بھی ضروری ہے کہ ہم ایک بہت ہی اہم معاملہ نہ بھولیں ۔ وہ یہ کہ شرعی عقد نکاح کے بعد رخصتی کے قبل عورت کے پاس بہت وقت ہو تا ہے کہ وہ مرد کی شخصیت کے بارے میں معلومات حاصل کرے اور اس کے بارے میں جس چیز کی تحقیق کرنا چاہے کر لے۔کیونکہ نکاح کے بعد وہ اس سے خلوت بھی کر سکتی ہے اور اس کے ساتھ باہر گھومنے بھی نکل سکتی ہے اگر اس عرصہ میں کسی ایسے معاملے کا انکشاف ہو جا ئے جسے وہ برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتی تو اس سے خلع حاصل کرسکتی ہے لیکن جب عقد نکاح سے قبل اس کے بارے میں اچھے طریقے سے معلومات اکٹھی کر لی جائیں اور اور لوگوں اس کے اقرباء اور دوست احباب سے پوچھ لیاجائے تو پھر غالب طور پر نتیجہ اچھا ہی نکلتا ہے۔

ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ آپ کے لیے اچھائی اور بھلائی اختیار کرے اور آپ جہاں بھی ہوں آپ کے لیے آسانی پیدا فرمائے اور ہمارے نبی محمد  صلی اللہ علیہ وسلم   پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے ۔(آمین)(شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص201

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ