سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(101)نکاح شغار(وٹہ سٹہ کی شادی) کا حکم

  • 15609
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1489

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں ایک قبیلہ ہے جس میں نکاح کی صورت یہ بھی ہے کہ آدمی اپنی بیٹی کا نکاح کسی دوسرے سے اس شرط پر کرتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کرے گا اور پھر دونوں لڑکیوں کی رضا مندی کے بغیر ایسا کیا جاتا ہے۔اور مہر بھی یہ تبادلہ ہی ہوتا ہے تو آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ نکاح جس کا سائل نے ذکر کیاہے حرام وباطل ہے یہ نکاح شغار ہے کہ جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے منع فرمایا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"لا شِغَارَ فِي الإِسْلامِ"

"نکاح شغار اسلام میں نہیں۔"[1]

عورت کے ولی پر واجب ہے کہ وہ اس کی رضا مندی کے بغیر اس کانکاح نہ کرے اور کامل مہر کے ساتھ اس کا نکاح کرے جو صرف اس عورت کا حق ہو ،نہ اس کے بھائی کو دیا جائے اور نہ ہی اس کے والد کو۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

"وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا"

"اور عورتوں کو ان کی مہر  راضی خوشی دے دو ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہوکر کھالو۔"[2]

اللہ تعالیٰ نے(اس آیت میں ) مہر عورتوں کے لیے مقرر فرمایا  ہے اور انہیں ہی اس میں تصرف کا حق دیا ہے۔اور بعض قبائل میں رواج ہے جیسا کہ سائل نے ذکر کیا ہے وہ انتہائی قبیح عادت اور حرام ہے،اس طریقے سے عقد نکاح صحیح نہیں ہوتا اوردونوں عورتیں دونوں مردوں میں سے کسی ایک کے لیے بھی حلال نہیں ہوتیں کیونکہ نکاح ہی صحیح نہیں۔اللہ تعالیٰ ہی توفیق دینے والاہے۔(شیخ ابن عثمین  رحمۃ اللہ علیہ )

شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ  رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی اس طرح کا فتویٰ دیا ہے۔


[1] ۔مسلم۔(1415) کتاب النکاح باب تحریم نکاح الشغار وبطلانہ نسائی(2335) کتاب النکاح اب داود (2581) کتاب الجھاد  ترمذی(1123) کتاب النکاح مسند احمد(4/429)

[2] ۔النساء۔4۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

سلسله فتاوىٰ عرب علماء 4

صفحہ نمبر 161

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ