سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(77)عورت اور اس کے باپ کی بیوی سے شادی

  • 15585
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 967

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا میرے لیے بیوی اور اس کے والد کی بیوی (یعنی (میری بیوی کے والد کی دوسری بیوی) کو ایک ہی نکاح میں جمع کرنا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مرد کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی بیوی اور سسر کی بیوی جبکہ وہ بیوی کی ماں (یعنی ساس) نہ ہو شادی کر لے اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ اس عورت (سسر کی بیوی) سے شادی کر لے اگرچہ اس کے خاوند کی بیٹی بھی اس کے پاس ہے اس لیے کہ ان دونوں بیویوں کے درمیان کوئی تعلق ہی نہیں یعنی اس کی پہلی بیوی اور اس کے والد کی بیوی کے درمیان ۔بلکہ جو حرام ہے وہ یہ ہے کہ دوبہنوں کو ایک ہی نکاح میں جمع کرلیا جائے۔ یا پھر بیوی اور اس کی خالہ یا پھوپھی کو جمع کرنا حرام ہے اس کے علاوہ باقی سب حلال ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نکاح میں حرام عورتوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:

"اور ان عورتوں کے علاوہ اور عورتیں تمھارے لیے حلال کی گئی ہیں کہ اپنے مال کے مہر سے تم ان سے نکاح  کرنا چاہو۔[1]

اور ماں اور بیٹی کے مسئلے میں تفصیل ہے۔ اگر تو بیٹی بیوی ہو تو اس کی ماں (یعنی ساس ) صرف عقد نکاح کے ساتھ ہی ہمیشہ کے لیے حرام ہو جا ئے گی اور بیوی ماں ہے تو پھر اس میں تفصیل ہے کہ اگر تو خاوند نے اس سے دخول (یعنی جماع) کرلیا ہے تو اس صورت میں اس کی بیٹی اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جا ئے گی اور اگر اس سے دخول نہیں کیا تو پھر (بیٹی ) اس پراس وقت تک حرام ہے جب تک اس کی ماں کو نہیں چھوڑتا ۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے۔

"اور (حرام ہے) تمھاری ساس تمھاری وہ پرورش کردہ لڑکیاں جو تمھاری گود میں ہیں تمھاری ان عورتوں سےجن سے تم دخول کر چکے ہو ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہیں کیا تو پھر تم پر کوئی گناہ نہیں۔"[2](شیخ محمد المنجد)


[1] ۔النساء :24۔

[2] ۔النساء 23۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

سلسله فتاوىٰ عرب علماء 4

صفحہ نمبر 135

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ