سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(102) فوت شدہ نمازوں کی قضائی

  • 1558
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1549

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص کی ۴یا۵ نمازیں قضاء ہو گئیں یا ایک ظہر کی قضاء ہو گئی ہے ، قضاء نمازوں کی سنتیں بھی پڑھنی چاہیں یا صرف فرض ۔ اگر سنتیں پڑھنی ضروری نہیں تو کس دلیل سے ۔ نیز ایک شخص نے ظہر نہیں پڑھی۔ عصر کے وقت آتا ہے اور جماعت عصر کی ہو رہی ہو تو جماعت کے ساتھ ظہر کی پڑھے اور بعد میں عصر کی پڑھے یا عصر پہلے پڑھے جماعت کے ساتھ اور بعد میں ظہر قضاء کرے ۔ کون سا طریقہ ٹھیک ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

فوت شدہ نمازوں کی قضاء میں ترتیب کو ملحوظ رکھا جائے گا ۔ غزوہ خندق کے موقعہ پر رسول اللہﷺ کی نمازیں رہ گئی تھیں تو آپ نے انہیں ترتیب وار پڑھا تھا۔

’’حضرت ابو سعید خدریرضی الله عنه سے مروی ہے کہ ہم (غزوئہ خندق میں) رسول اللہﷺکے ساتھ تھے ہمیں کافروں نے ظہر عصر مغرب اور عشاء نمازیں پڑھنے کی مہلت نہ دی (اور ان نمازوں کا وقت گزر گیا) جب فرصت ملی تو رسول اللہﷺنے بلال رضی الله عنه کو حکم دیا انہوں نے اقامت کہی تو آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی پھر انہوں نے اقامت کہی تو آپ نے عصر کی نماز پڑھائی پھر انہوں نے اقامت کہی تو نبیﷺنے مغرب کی نماز پڑھائی انہوں نے پھر اقامت کہی آپ نے عشاء کی نماز پڑھائی‘‘(مسند احمد ۔ نسائی۔ ترمذی۔ابواب الصلاۃ۔باب ما جاء فی الرجل تفوتہ الصلوات بأیتھن یبدأ)فوت شدہ نمازوں کی قضاء کے وقت ان کی سنتوں کی بھی قضاء دینی چاہیے۔

مشہور واقعہ جس میں رسول اللہﷺ اور آپ کے ساتھی سفر میں فجر کی نماز سے سو گئے تھے اس میں رسول اللہ ﷺ کا فجر کی سنتوں کو پڑھنا بھی ثابت ہے۔(بخاری ۔ مواقیت الصلوة باب الاذان بعد ذہاب الوقت مسلم المساجد ۔ باب قضاء الصلوة الفائتة)   فرض بروقت پڑھ لیے گئے ہوں تو صرف سنتیں رہ گئی ہوں تو ان کو قضاء پڑھنا بھی رسول اللہﷺ سے ثابت ہے۔جیسا کہ ایک حدیث ہے:

ایک دفعہ ظہر کے بعد والی دو رکعتیں آپﷺ سے رہ گئی تھیں تو آپﷺ نے انہیں عصر کے بعد پڑھ لیا تھا۔ (صحیح بخاری ۔ کتاب المواقیت الصلاۃ باب ما یصلی بعد العصر من الفوائت ونحوہا)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

نماز کا بیان ج1ص 108

محدث فتویٰ

 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ