سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(17)چھوٹے بچوں کی شادی کا شرعی حکم

  • 15459
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1283

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اسلام میں دس برس کی عمر کی بچیوں کی شادی ان کی اجازت کےبغیر کیوں جائز ہے؟ برائے مہربانی بچوں کی شادی کے شرعی حکم کی وضاحت فرما دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 چھوٹی بچی کی بلوغت سے قبل شادی کو اسلامی شریعت جائز قرار دیتی ہے بلکہ اس مسئلے میں تو علمائے کرام کا اجماع بھی منقول ہے اس شادی کے جواز کے دلائل ہیں (جیسا کہ گزشتہ مسئلے میں ذکر کیے گئے ہیں،  یہاں تکرار کی غرض سے حذف کر دیے گئے ہیں۔ (راقم)

لیکن چھوٹی عمر کی بچی کی شادی کے جواز سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس سے ہمبستری کرنا بھی جائز ہے، بلکہ اس  سے ہمبستری اس وقت تک نہیں کی جا سکتی جب تک وہ اس کی اہلیت نہ رکھتی ہو۔ نبی کریم ﷺ نے بھی عائشہ ؓ کی رخصتی میں اسی لیے دیر کی تھی۔

امام نووی رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ چھوٹی عمر کی شادی شدہ بچی کی رخصتی اور اس سے ہمبستری کے وقت کے متعلق مسئلہ یہ  ہے کہ اگر بچی کا ولی اور خاوند کسی ایسی چیز پر متفق ہو جائیں جس میں بچی پر کسی قسم کا ضرر نہ ہو تو اس پر عمل کیا جائے گا اور اگر وہ دونوں اختلاف کریں  تو امام احمد اور ابو عبید کہتے ہیں کہ نو برس کی بچی پر یہ (ہمبستری والا کام) لازم کیا جائے گا اس سے کم عمر والی پر نہیں۔ امام شافعی   اور امام ابو حنیفہ  کہتے ہیں کہ اس کی حد یہ ہے کہ وہ جماع کی طاقت  رکھے، اس (چھوٹی بچی سے ہمبستری کے جواز) کے وقت میں لڑکیوں کی حالت مختلف ہونے کی وجہ سے اختلاف ہے جس میں عمر کی کوئی قید نہیں لگائی جا سکتی۔

یہی قول صحیح ہے کیونکہ عائشہ ؓ کی حدیث میں عمر کی کوئی تعیین نہیں اور نہ ہی ہمبستری کی طاقت رکھنے والی کو نو برس کی عمر سے قبل اس سے منع کیا گیا  ہے اور اسی طرح نہ ہی طاقت نہ رکھنے والی نوبرس کی بچی کو اس کی اجازت ہے۔ داؤدی کہتے ہیں کہ عائشہ ؓ  بہت اچھی جوان ہو چکی تھیں۔

بہتر تو یہ ہے کہ ولی اپنی چھوٹی بچی کی شادی نہ کرے لیکن جب اس میں کوئی مصلحت ہو تو شادی کر سکتا ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

سلسله فتاوىٰ عرب علماء 4

صفحہ نمبر 56

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ