سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(15)عمر میں فرق کے باوجود نبی ﷺ کی عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی میں حکمت

  • 15457
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 974

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے ایک عیسائی دوست نے یہ سوال کیا کہ نبی کریم ﷺ کی عائشہ ؓ سے نو برس کی عمر میں شادی کرنے کی کیا حکمت تھی، حالانکہ آپ ﷺ خود ساٹھ برس کے ہونے والے تھے اور کیا نبی کریم ﷺ نے ان سے اس عمر میں ازدواجی تعلقات قائم کیے تھے یا نہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے اس کے رد کا علم نہیں، لہٰذا اس کا ضرور جواب دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی کریم ﷺ نے سودہ بنت زمعہ ؓ سے شادی کرنے کے بعد عائشہ ؓ سے شادی کی اور صرف عائشہ ؓ ہی کنواری تھیں جن سے آپ  ﷺ نے شادی کی اور جب ان سے ازدواجی تعلقات قائم کیے تو ان کی  عمر نو برس تھی۔ عائشہ ؓ کے فضائل میں یہ بھی شامل ہے کہ ان کے  علاوہ آپ ﷺ کی کسی اور بیوی کے لحاف میں وحی نازل نہیں ہوئی، آپ ؓ نبی ﷺ کو سب بیویویں سے زیادہ محبوب تھیں اور  ان کی براءت ساتوں آسمانوں سے نازل ہوئی۔ آپ ؓ سب بیویوں میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھیں، بلکہ مطلقاً امت اسلامیہ کی سب عورتوں میں سب سے زیادہ علم رکھنے والی تھیں۔ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ عائشہ ؓ سے آ کر مسائل دریافت کیا کرتے تھے۔

ان کی شادی کا قصہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ ام المؤمنین خدیجہ ؓ کی وفات سے بہت غمزدہ ہوئے، اس لیے کہ وہ آپ ﷺ کی تائید اور مدد کیا کرتی تھیں اور ہر معاملے میں آپ ﷺ کے ساتھ کھڑی ہوتی تھیں، اسی لیے اس سال کو جس میں وہ فوت ہوئیں  عام الحزن (غم کا سال) کہا جاتا ہے۔ پھر ان کے بعد نبی کریم ﷺ نے سودہ ؓ سے شادی کی، بڑی عمر کی تھیں، اور خوبصورت بھی نہیں تھیں ۔ آپ ﷺنے ان سے صرف غم بانٹنے کے لیے شادی کی تھی کیونکہ ان کا خاوند فوت ہو چکا تھا اور یہ مشرک قوم کے درمیان رہائش پذیر تھیں۔ اس کے چار سال بعد نبی ﷺ نے عائشہ ؓ سے شادی کی۔ اس وقت آپ ﷺ کی عمر پچاس برس سے زیادہ تھی۔ عائشہ ؓ سے شادی کرنے میں مندرجہ ذیل حکمتیں ہو سکتی ہیں:

1۔ نبی کریم ﷺ نے عائشہ ؓ سے شادی کی خواب دیکھی تھی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ عائشہ ۃؓ بیان کرتی ہیں ، نبی کریم ﷺ نے انہیں بتایا:

’’تو مجھے خواب میں دوبارہ دکھائی گئی تھی، میں نے تجھے ریشمی کپڑے میں لپٹی ہوئی دیکھا، کہا گیا کہ یہ تیری بیوی ہے، جب میں نے کپڑا ہٹایا  اور دیکھا کہ تو ہے۔ میں نے کہا کہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو پھر وہ اسے ضرور پورا کرے گا۔ ‘‘

(بخاری: 3895، کتاب المناقب: باب تزویج النبی عائشة وقدومها المدينة)

2۔ نبی کریم ﷺ نے عائشہ ؓ کے بچپن میں ہی وہ ان میں جو ذہانت وفطانت اور عقل وشعور کی علامات دیکھیں، تو اس وجہ سے ان شادی پسند فرمائی، تاکہ وہ آپ ﷺ کےاقوال وافعال کو دوسروں کی بہ نسبت زیادہ اچھے انداز میں نقل کر سکیں۔ پھر حقیقتاً ایسی ہی ہوا کہ عائشہ ؓ بڑے بڑے صحابہ کے لیے علم وفقہ کا مرجع بن گئیں۔

3۔ عائشہ ؓ کے والد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے نبی کریم ﷺ کی محبت، کہ جنہوں نے دعوت حق کے راستے میں بے پناہ اذیتیں برداشت کیں اور پھر ان پر صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا۔ لہٰذا علی الاطلاق انبیاء کے بعد وہ سب لوگوں سے زیادہ پختہ ایمان والے اورسچے یقین والے تھے۔

نبی کریم ﷺ نے جتنی بھی شادیاں کیں اگر ان میں نظر دوڑائی جائے تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آپ کی ازواجِ مطہرات میں کم عمر بھی تھیں، بوڑھی بھی، آپ کے سخت دشمن کی بیٹی بھی اور آپ کے دلی دوست کی بیٹی بھی۔ ان میں ایسی بھی تھیں جو یتیموں کی پرورش کرنے والی تھیں اور ایسی بھی جو نماز، روزے جیسی عبادات میں دوسروں سے ممتاز تھیں۔ وہ ساری انسانیت کے لیے نمونہ و آئیڈیل تھیں، ان کے ذریعہ ہی نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں کے لیے ایسی شریعت کی تکمیل کر دی ہے جو ان کے بغیر ممکن نہ تھی۔

رہا مسئلہ عائشہ ؓ کی صغر سنی کا تم ہم گزارش کریں گے کہ آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ نبی کریم ﷺ ایک گرم علاقے (جزیرہ عرب) میں رہتے تھے اور وہیں پر پرورش پائی تھی اور غالباً گرم علاقوں میں سن بلوغت بھی جلد ہی آ جاتا ہے جس  وجہ سے شادی بھی جلد ہو جاتی ہے۔ جزیرہ عرب میں عہد قریب تک یہی حالت تھی، اور پھر عورتوں میں جسم کی نشوونما کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا  ہے جس میں وہ ایک دوسرے سے بہت زیادہ  مختلف ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے، جب آپ غور کریں گے کہ نبی کریم ﷺ نے عائشہ ؓ کے علاوہ کسی اور کنواری عورت سے شادی نہیں کی، بلکہ ان کے علاوہ باقی سب بیویاں شوہر دیدہ تھیں، تو یہ طعن جو گمراہ لوگ پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کی زیادہ شادیوں کا مقصد صرف شہوانی فائدہ اٹھانا  تھا، زائل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جس شخص کا یہ مقصد ہو وہ تو اپنی ساری بیویاں یا اکثر بیویاں ایسی اختیار کرتا ہے جو کنواری اور خوبصورت ہوں اور ان میں رغبت کی ساری صفات پائی جائیں، جبکہ نبی کریم ﷺ کے عمل میں ہمیں ایسی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔

کفار اور ان کے پیروکار وں کا اس طرح نبئ رحمت پر طعن کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ دین میں طعن کرنے سے بالکل عاجز آ چکے ہیں، اب انہیں کچھ نہیں ملا تو انہوں نے آپ ﷺ کی ذات میں طعن کرنا شروع کر دیا ، لیکن اللہ تعالیٰ تو اپنے دین کو پورا کر کے ہی  رہے گا خواہ کافروں کو یہ برا ہی لگے۔ اور اللہ تعالیٰ ہی توفیق بخشنے والا ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

سلسله فتاوىٰ عرب علماء 4

صفحہ نمبر 53

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ