سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(3)مرد پر کب شادی واجب ہوتی ہے؟

  • 15381
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1013

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مردوں کے لیے شادی کرنا واجب ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مردوں کے احوال ومعاملات مختلف ہونے کی وجہ سے شادی کا حکم بھی مختلف ہو گا، جو شادی کرنے کی طاقت رکھتا ہو اور اسے حرام کام میں پڑنے کا خدشہ ہو تو ایسے شخص پر شادی کرنا واجب ہے، کیونکہ نفس کو حرام سے  بچانا اور اس کی عفت وعصمت واجب ہے جو کہ شادی کے بغیر ممکن نہیں۔

امام قرطبی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 وہ شخص  جو شادی کرنے کی طاقت رکھتا ہو اور بغیر شادی کے رہنے سے اسے اپنے نفس اور دین میں ضرر ونقصان کا اندیشہ ہو اور اس نقصان سے شادی کے بغیر بچنا ممکن نہ ہو تو ایسے شخص پر شادی کاے وجوب میں کوئی بھی اختلاف نہیں ہے۔

اور مرداوی رحمہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’الانصاف‘ میں کہا ہے:

جسے حرام کام میں پڑنے کا خدشہ ہو اس کے حق میں نکاح کرنا واجب ہے اس میں ایک ہی قول ہے کوئی دوسرا قول نہیں ۔ یہاں پر عنت سے مراد زنا ہے اور صحیح بھی یہی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زنا سے ہلاکت میں پڑنے کو العنت کہتے ہیں۔ دوم اس کا مطلب ہے کہ اسے اپنے حرام کام میں پڑنے کا اندیشہ ہو، جب اسے یہ علم ہو یا اس کا   گمان ہو کہ وہ اس میں پڑ جائے گا (تب اس پر نکاح واجب ہو جائے گا) (الإنصاف: كتاب النكاح : أحكام النكاح)

اور اگر اس میں شادی کی قوت تو ہو لیکن بیوی پر خرچہ کرنے کی سکت نہیں تو پھر اسے اللہ تعالیٰ کا مندرجہ ذیل فرمان کافی ہے:

﴿وَليَستَعفِفِ الَّذينَ لا يَجِدونَ نِكاحًا حَتّىٰ يُغنِيَهُمُ اللَّـهُ مِن فَضلِهِ ... ٣٣﴾...النور

’’اور جو لوگ نکاح کرنے کی طاقت نہیں رکھتے وہ پاکدامنی اختیار کریں حتی کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے  غنی کر دے۔‘‘

اور اسے چاہیے کہ وہ روزے بھی کثرت سے رکھے کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے:

’’جس میں نکاح کی طاقت نہیں وہ روزے رکھے کیونکہ وہ اس کے لیے ڈھال ہیں۔‘‘ ((بخارى (5065) مسلم (1400))

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابو الزائد کو کہا تھا، یا  تو تجھ میں شادی کرنے کی طاقت ہی نہیں یا پھر تو فسق وفجور کی وجہ سے شادی نہیں کرتا۔ (فقہ السنۃ 2/15۔18)

اور شادی کے بغیر رہتے ہوئے (غیر محرم لڑکیوں کو) دیکھنا یا بوس وکنار کر کے گناہوں میں مبتلا ہونے والے  پر بھی شادی کرنا واجب ہے، جب مرد یا عورت کو یہ علم ہو یا اس کا ظن غالب ہو  کہ اگر وہ شادی نہیں کرے گا تو زنا کا مرتکب ہو گا یا پھر کسی اور غلط کام میں پڑے گا یا پھر ہاتھ سے غلط کاری (یعنی مشت زنی) کرے گا تو ایسے مرد وعورت  پر بھی  شادی کرنا واجب ہے۔

 اور ایسے شخص سے بھی شادی کا وجوب ساقط نہیں ہوتا جسے یہ علم ہو کہ وہ شادی کر کے بھی ممنوع کام ترک  نہیں کرے گا، اس لیے کہ وہ شادی کی حالت میں حلال کام کی وجہ سے حرام اور ممنوع کام سےبچا رہے گا، اگرچہ بعض اوقات اس حرام کام کا بھی ارتکاب ہو سکتا  ہے لیکن غیر شادی تو ہر وقت معصیت وگناہ کے لیے  فارغ ہوتا ہے۔

اور اب موجودہ دور کے حالات اور جو کچھ اس میں فسق وفجور اور فحش کام پائے جاتے ہیں ان کو دیکھنے اور غور وفکر کرنے والا تو یقینی طور پر مطمئن ہو گا کہ ہمارے دور میں باقی دوسرے ادوار کی بہ نسبت شادی کرنا  زیادہ واجب ہے۔

ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمارے دلوں کو پاک صاف رکھے اور ہمارے اور حرام کاموں کے درمیان دوری ڈال دے اور ہمیں عفت وپاکدامنی عطا فرمائے اور ہمارے نبی ﷺ پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

سلسله فتاوىٰ عرب علماء 4

صفحہ نمبر 36

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ