سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(148) کیا والدہ اور بھائی کو زکوۃ دی جا سکتی ہے؟

  • 15335
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 747

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے  پاس کچھ مال ہے جس پر زکوۃ واجب ہے اوراس میں کچھ حصہ وہ ہے جو میں نے ایک ادارے سےغیر سودی قرض کے طور پر لیا ہوا ہے باقی رقم کے ساتھ اس قرض پر بھی ایک سال گزرچکا ہے توکیا اس رقم میں بھی زکوۃ واجب ہوگی جو میرے پاس بطور قرض ہے؟

کیامیں اپنی والدہ کو کچھ رقم بطورزکوۃ دے دسکتا ہوں جب کہ میرے والد ان پر خرچ کررہے ہیں اورالحمد للہ ان کی مالی حالت اچھی ہے۔اسی طرح میرا ایک بھائی بھی ہے جو کام کرسکتا ہے لیکن ابھی تک غیر شادی شدہ ہے ،اللہ تعالی اسے ہدایت بخشے نماز کی بھی پابندی نہیں کرتا کیا میں اسے زکوۃ میں سے کچھ حصہ دے سکتا ہوں،براہ کرم رہنمائی فرمائیں،اللہ تعالی آپ کو اپنی حفظ وامان میں رکھے!

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سال گزرنے پر آپ کو اس تمام مال کی زکوۃ اداکرنا ہوگی جوآپ کے پاس موجودہو،علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق آپ کو اس مال پر بھی زکوۃ اداکرنا ہوگی جو کسی  ادارے سے قرض لیا ہوا ہے لیکن اگرسال مکمل ہونے سے پہلےپہلے آپ اپنے پاس موجود مال میں سے قرض اداکردیں توبطورقرض اداکی گئی رقم پر زکوۃ نہ ہوگی بلکہ زکوۃ صرف اس مال پرہوگی جو قرض اداکرنے کے بعد آپ کے پاس وہوگا بشرطیکہ وہ نصاب کے مطابق ہواوراس پر ایک سال گزرگیا ہو۔

چاندی یا اس کے قائم مقام اشیاء کا نصاب سعودی عرب میں مروجہ کرنسی کے مطابق چھپن ریال ہے ،آپ کے لئے اپنی والدہ کو زکوۃ  دینا جائز نہیں اس لئے کہ والدین کو زکوۃ ادانہیں کی جاسکتی اور پھر آپ کے والد کے خرچ کرنے کی وجہ سے ویسے زکوۃ سے بے نیاز ہیں۔

آپ کا بھائی جب تک نماز کا تارک ہے ،اسے زکوۃ نہیں دی جاسکتی کیونکہ شہادتین کے بعد نماز اسلام کے ارکان میں سب سے عظیم رکن ہے اورعمداسے ترک کرنا کفراکبر ہے اورپھر وہ طاقتور اورکمانے کے قابل بھی ہے اوراگر اس پر خرچ کرنے کی ضرورت بھی ہو توآپ کی بجائے آپ کے والد کو اس پر خرچ کرنا چاہئے کیونکہ نفقہ وخرچہ کے اعتبار سے وہ مسئول ہیں بشرطیکہ انہیں اس کی استطاعت ہو۔۔۔۔اللہ تعالی اسے ہدایت عطافرمائے،حق کی طرف رہنمائی فرمائے اوراسےاپنے نفس ،شیطان اوربرے ساتھیوں کے شر سے محفوظ رکھے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مقالات و فتاویٰ

ص266

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ