سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(59)جانوروں کو خصی کرنے کے مسئلے پر تحقیقی بحث

  • 15330
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 5767

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حلال جانوروں کا خصی کرنا، گوشت کو لذیذ اور بہتر بنانے کی غرض سے جائز ہے یا نہیں؟ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سلف صالحین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اس باب میں بڑا اختلاف ہے۔ ایک گروہ اسے مطلقاً ناجائز قرار دیتا ہے، خواہ حلال جانوروں کا خصی کرنا ہو یا حرام جانوروں کا۔ جبکہ ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ حلال جانوروں کا خصی کرنا جائز ہے اور حرام جانوروں کا خصی کرنا منع ہے۔

فریق اول کے چند دلائل حسب ذیل ہیں:

۱۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللہِ ﴾ (النساء: ۱۱۹)

’’ اور البتہ  انہیں میں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں رد و بدل کریں گے۔‘‘

امام محی السنہ بغوی رحمہ اللہ اپنی تفسیر ’’ معالم التنزیل‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ قال عکرمۃ وجماعۃ من المفسرین: فلیغیرن خلق اللہ بالخصاء والوشم وقطع الآذان حتی حرم بعضھم الخصاء ‘‘ انتھی مختصرا (معالم التنزیل ۲ ؍ ۲۸۹)

’’ عکرمہ اور مفسرین کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب خصی کرنا، گودنا اور کان کاٹنا ہے، حتی کہ اسی لیے بعض نے خصی کرنا حرام قرار دیا ہے۔ ختم شد۔‘‘

امام حافظ عماد الدین ابن کثیر اپنی تفسیر میں کہتے ہیں:

﴿ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیّرُنَّ خَلْقَ اللہِ ﴾قال ابن عباس : یعني بذلک خصی الدواب، وکذا روي عن ابن عمر وأنس وسعید بن المسیب وعکرمۃ وأبي عیاض وقتادۃ وأبي صالح والثوري، وقد ورد في الحدیث النھي عن ذلک ‘‘ انتھی ( تفسیر ابن کثیر ۲ ؍ ۴۱۵)

’’ ابن عباس کے نزدیک اس آیت سے جانوروں کا خصی کرنا مراد ہے۔ ابن عمر، انس، سعید بن مسیب، عکرمہ، ابو عیاض، قتادہ، ابو صالح اور ثوری کی بھی یہی رائے ہے۔ نیز حدیث میں اس کی ممانعت بھی آئی ہے۔ ختم شد۔‘‘

۲۔ ومنھا : ما أخرجہ البزار بإسناد قال الشوکاني : صحیح، عن ابن عباس ’’ أن النبي ﷺ نھی عن صبر الروح وعن إخصاء البھائم نھیا شدیدا۔‘‘ ( نیل الأوطار ۸ ؍ ۱۶۷)

’’ دوسری دلیل حضرت ابن عباس کی حدیث ہے جسے امام بزار نے اپنی سند سے روایت کیا ہے اور بقول شوکانی صحیح ہے کہ نبی کریمﷺ نے زندہ جانورکو باندھ کر مارنے اور جانوروں کو خصی کرنے کی سختی سے ممانعت کی ہے۔‘‘

علامہ شوکانی نے اپنی کتاب ’’ نیل الأوطار شرح منتقی الأخبار‘‘ میں فرمایا ہے:

’’ فیہ دلیل علی تحریم خصی الحیوانات‘‘( مصدر سابق)

’’ اس میں جانوروں کے خصی کرنے کی حرمت کی دلیل ہے۔‘‘

۳۔ ومنھا : ما أخرجہ الطحاوي في شرح معاني الآثار : ’’حدثنا أبو خالد یزید بن سنان قال : ثنا أبوبکر الحنفي قال : ثنا عبداللہ بن نافع عن أبیہ عن ابن عمر أن رسول اللہﷺ نھی أن یخصی الإبل والبقر الغنم والخیل، وکان عبداللہ بن عمر یقول : منھا نشأۃ الخلق ولا یصلح الإناث إلا بالذکور۔‘‘( شرح معاني الآثار ۵ ؍ ۴۷۵ )

’’ تیسری دلیل ابن عمر کی حدیث سے ہے، جسے امام طحاوی نے شرح معانی الآثار میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اونٹوں، گایوں، بھیڑ، بکریوں اور گھوڑوں کے خصی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ افزایش نسل کا دار و مدار اسی پر ہے اور کوئی بھی مادہ نر کے بغیر اپنے فرائض انجام نہیں دے سکتی۔‘‘

۴۔ ومنھا ما أخرجہ الطحاوي أیضا : ’’ حدثنا محمد بن خزیمۃ قال : ثنا یحییٰ بن عبداللہ بن بکیر قال : ثنا مالک بن أنس عن نافع عن ابن عمر مثلہ، ولم یذکر النبيﷺ ۔‘‘ ( شرح معاني الآثار ۵ ؍ ۴۷۵)

’’ چوتھی دلیل امام طحاوی ہی کی وہ روایت ہے جس میں صرف ابن عمر کا مذکورہ بالا قول نقل کیا گیا ہے، رسول اللہﷺ کی طرف اس کا انتساب نہیں۔‘‘

بعد ازاں امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ فذھب قوم إلی ھذا، فقالوا : لا یحل إخصاء شيء من الفحول، واحتجوا في ذلک بھذا الحدیث، وبقول اللہ عزوجل : ﴿ فَلَیُغَیّرُنَّ خَلْقَ اللہِ﴾ قالوا: وھو الإخصاء‘‘ انتھی ( مصدر سابق)

’’ اسی بنا پر ایک جماعت نے نر جانوروں کو خصی کرنا حرام قرار دیا ہے۔ انھوں نے اس حدیث اور فرمان الٰہی ﴿ فَلَیُغَیّرُنَّ خَلْقَ اللہِ﴾ سے استدلال کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے خصی کرنا مراد ہے۔‘‘

۵۔ ومنھا :ما أخرجہ ابن أبي شیبۃ في مصنفہ : ’’ ثنا أسباط بن محمد و ابن فضیل عن مطرف عن رجل عن ابن عباس قال : خصاء البھائم مثلۃ، ثم تلا : ﴿ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیّرُنَّ خَلْقَ اللہِ﴾‘‘ (مصنف ابن أبي شیبۃ ۷ ؍ ۵۷۴)

’’ پانچویں دلیل: ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں ابن عباس کی ایک روایت نقل کی ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ جانوروں کا خصی کرنا مثلہ کے حکم میں ہے اور دلیل میں آیت ﴿ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیّرُنَّ خَلْقَ اللہِ﴾ پیش کرتے ہیں۔‘‘

وأخرج عبدالرزاق في مصنفہ في کتاب الحج عن مجاھد وعن شھر بن حوشب : ’’ الخصاء مثلۃ ‘‘ کذافي نصب الرایۃ في تخریج أحادیث الھدایۃ للإمام الحافظ المحقق جمال الدین الزیلعي۔ (نصب الرایۃ ۴ ؍ ۳۱۸)

’’ عبدالرزاق نے اپنی مصنف کے کتاب الحج میں مجاہد اور شہر بن حوشب سے نقل کیا ہے کہ خصی کرنا مثلہ ہے، جیسا کہ امام زیلعی کی ’’ نصب الرایہ‘‘ میں مذکور ہے۔‘‘

۶۔ ومنھا ما في الھدایۃ: ’’قالت عائشۃ رضي اللہ عنھا : الخصاء مثلۃ‘‘ انتھی  ( الھدایۃ ۴ ؍ ۸۷)

’’ ہدایہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی یہی منقول ہے کہ خصی کرنا مثلہ کرنے کے مترادف ہے۔ ختم شد۔‘‘

ان دلیلوں کے جواب میں دوسرے فریق کا کہنا ہے کہ ﴿ فَلَیُغَیّرُنَّ خَلْقَ اللہِ﴾کی تفسیر میں جانوروں کے خصی کرنے کی بات کسی صحیح یا ضعیف روایت سے مرفوعاً ثابت نہیں۔ جہاں تک سلف صالحین کے اقوال کا تعلق ہے تو اس میں ایک جماعت نے اس کی تفسیر میں جانوروں کا خصی کرنا بتایا ہے، جبکہ مجاہد ، عکرمہ، ابراہیم نخعی، حسن بصری، قتادہ، حکم، سدی، ضحاک اور عطاء خراسانی، ایک روایت کے مطابق خود عبداللہ بن عباس اور سعید بن مسیب نے بھی ﴿ خَلْقَ اللہِ﴾سے اللہ کا دین مراد لیا ہے۔

چنانچہ امام محی السنہ رحمہ اللہ تفسیر معالم میں کہتے ہیں:

’’ قال ابن عباس والحسن و مجاھد وقتادۃ وسعید بن المسیب والضحاک : دین اللہ، نظیرہ قولہ تعالیٰ : ﴿لا تبدیل لخلق اللہ ﴾أي دین اللہ، تحلیل الحرام وتحریم الحلال۔‘‘ انتھی مختصرا (معالم التنزیل ۲ ۔ ۲۸۹)  

’’ ابن عباس، حسن بصری، مجاہد، قتادہ، سعید بن المسیب اور ضحاک نے اس کی تفسیر دین اللہ سے کی ہے اور اس کی نظیر میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ﴿ لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللہِ ﴾ پیش کیا ہے اور ’’ خلق اللہ‘‘ کا مطلب ’’ دین اللہ‘‘ بتایا ہے، یعنی حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرانا۔ ختم شد۔‘‘

امام حافظ عماد الدین ابن کثیر اپنی تفسیر میں کہتے ہیں:

’’ وقال ابن عباس، في روایۃ عنہ ، ومجاھد وعکرمۃ و إبراھیم النخعي والحسن وقتادۃ والحکم والسدي والضحاک وعطاء الخراساني، في قولہ : یعني ﴿ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیّرُنَّ خَلْقَ اللہِ ﴾ یعني دین اللہ عزوجل، وھذا کقولہ : ﴿  فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا فِطْرَتَ اللہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللہِ ﴾علی قول من جعل ذلک أمرا أي لا تبدلوا فطرۃ اللہ، ودعوا الناس علی فطرتھم‘‘ انتھی (تفسیر ابن کثیر ۲ ؍ ۴۱۵)

’’ ابن عباس ایک روایت کے مطابق اور مجاہد ، عکرمہ، ابراہیم نخعی، حسن بصری، قتادہ، الحکم، السدی، الضحاک اور عطا خراسانی نے آیت ﴿ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیّرُنَّ خَلْقَ اللہِ ﴾کی تفسیر دین اللہ سے کی ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا فِطْرتَ اللہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللہِ﴾جس نے اسے امر بنایا ہے۔ یعنی اللہ کی فطرت کو نہ بدلو اور لوگوں کو اپنی فطرت پر چھوڑ دو۔ ختم شد۔‘‘

جب سلف صالحین کے اقوال دونوں طرح کے موجود ہیں تو آیت کی تفسیر میں جانوروں کو خصی کرنے کی بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی، ہاں اگر سنت نبویہ سے اس کا ثبوت ہوتا تو پھر یہ ہمارے سر اور آنکھوں پر ہوتا۔ وإذ لیس فلیس ۔ بلکہ آیت کریمہ ﴿لَا تَبْدِیْلَ  خَلْقَ اللہِ ﴾اسی معنی کی تائید کرتی ہے کہ آیت کریمہ ﴿ فَلَیُغَیّرُنَّ خَلْقَ اللہِ ﴾میں لفظ ﴿ خَلْقَ اللہِ ﴾سے ’’ دین اللہ‘‘ ہی مراد ہے اور یہ ظاہر بات ہے۔

رہی طحاوی کی پہلی روایت تو وہ ضعیف ہے، لہٰذا قابل استدلال نہیں۔ اس کی سند میں ایک راوی عبداللہ بن نافع مولی ابن عمر ہے، جو اپنے باپ سے روایت کرتا ہے اور وہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔

’’ قال ابن المدیني : روی مناکیر، وقال البخاري: یخالف في حدیثہ، وھو منکر الحدیث، وقال یحییٰ : ضعیف، وقال النسائي : متروک‘‘ کذافي میزان الاعتدال في نقد الرجال للحافظ شمس الدین الذھبي۔ ( میزان الاعتدال ۲؍ ۵۱۳ )

’’ ابن المدینی نے کہا ہے کہ اس نے مناکیر روایت کی ہیں۔ امام بخاری نے بھی اسے منکر الحدیث کہا ہے اور فرمایا کہ اپنی حدیث میں مخالف کرتا ہے۔ یحییٰ نے ضعیف قرار دیا ہے اور نسائی نے متروک۔ جیسا کہ ذہبی کی ’’ میزان الاعتدال فی نقد الرجال‘‘ میں مرقوم ہے۔‘‘

طحاوی کی دوسری روایت موقوف ہے مرفوع نہیں۔ اسی طرح مصنف ابوبکر بن ابی شیبہ کی حدیث کی سند میں ایک راوی مجہول ہے۔ علاوہ ازیں وہ روایت ابن عباس پر موقوف ہے، مرفوع نہیں۔ عبدالرزاق کی روایت مجاہد اور شہر بن حوشب کا قول ہے، شارع کا کلام نہیں۔ نیز ہدایہ میں مذکور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت بھی ثابت نہیں۔ امام زیلعی نے تخریج ہدایہ میں فرمایا ہے:

’’ قلت : غریب‘‘ انتھی (نصب الرایۃ ۴؍ ۳۱۸)

’’  میں کہتا ہوں کہ وہ ’’ غریب‘‘ یعنی ضعیف ہے۔ ختم شد۔‘‘

مسند بزار کی روایت جو ابن عباس سے منقول ہے اور جسے امام شوکانی نے صحیح کہا ہے، کتاب نہ ملنے کی وجہ سے اس کی مراجعت اور اس کے سند کے تمام روات کے احوال کی تحقیق نہیں ہوسکی۔ پھر بھی امام شوکانی کے قول پر اعتماد کرتے ہوئے ہم اس کی صحت تسلیم کرتے ہیں۔ اس حدیث سے تمام جانوروں کے خصی کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے خواہ ماکول اللحم ہوں یا غیر ماکول اللحم۔ نیز ابوہریرہ، عائشہ، ابو رافع، جابر بن عبداللہ اور ابودرداء رضی اللہ عنہم کی مندرجہ ذیل احادیث سے شارع کا اس امر میں سکوت ثابت ہوتا ہے۔

ابوہریرہ، عائشہ اور ابو رافع رضی اللہ عنہم کی احادیث کا مدار عبداللہ بن محمد بن عقیل پر ہے اور عبدللہ بن محمد سے سفیان ثوری، حماد بن سلمہ اور شریک جیسے حفاظ ثقہ راویانِ حدیث نے روایت کی ہے۔ ( کشف الأستار عن زوائد مسند البزار ( ۱۵۹۹) میں یہ حدیث بایں سند مروی ہے: حدثنا محمد بن عثمان ابن کرامۃ ثنا عبید اللہ بن موسیٰ حدثنا ابن أبي ذئب عن الزھري عن عبید اللہ بن عبداللہ عن ابن عباس …‘‘ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ رواہ البزار روجالہ رجال الصحیح‘‘ (مجمع الزوائد : ۵ ؍ ۳۱۸ ) نیز دیکھیں: مسند أبي یعلی ( ۴ ؍ ۳۷۶ ) سنن البیھقي ۱۰ ؍ ۲۴)

سنن ابن ماجہ میں ہے:

’’ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَخْیَی حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیلٍ عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ وَعَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ کَانَ اِذَا أَرَادَ أَنْ یُّضَحِّيَ اشْتَرَی کَبْشَیْنِ عَظِممَیْنِ سَمِینَیْنِ أَقْرَنَیْنِ أَمْلَحَیْنِ مَوْجُوئَیْنِ ‘‘ ( سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث ۳۱۲۲)

’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہﷺ جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو بڑے، فربہ، سینگوں والے، سفید ، خصی کردہ دنبے خریدتے۔‘‘

مسند امام احمد بن حنبل میں ہے:

’’ حَدَّثَنَا اِسْحَاقُ بْنُ یُوسُفَ قَالَ أَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیْلٍ عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ أَنَّ عَائِشَۃَ قَالَتْ : کَان رَسُولُ اللہﷺ فذکرہ نحوہ ‘‘ ( مسند أحمد ۶ ؍۲۲۰)

وبھذا السند رواہ الحاکم في المستدرک ، وروی البیھقي أیضا من طریق سفیان الثوري عن عبداللہ بن محمد بن عقیل۔(المستدرک ۴ ؍۲۵۵ سنن البیھقي ۹ ؍ ۲۶۷)

’’ امام حاکم نے مستدرک میں اور بیہقی نے بھی اپنی کتاب میں من طریق سفیان الثوری عن عبداللہ بن محمد بن عقیل سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔‘‘

مسند امام احمد، مسند اسحاق بن راہویہ اور معجم الطبرانی میں مذکور ہے:

’’ عَنْ شَرِیکٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَیْنٍ عَنْ أَبي رَافِعٍ قَالَ : ضَحَّی رَسُولُ اللہ ﷺ بِکَبْشَیْنِ أَمْلَحَیْنِ مَوْجِیّیْنِ خَصِیَّیْن‘‘ ( مسند أحمد ۶ ؍۸ ۔ نیز دیکھیں: نصب الرایۃ ۳ ؍۱۵۳ )

’’ ابو رافع فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے دو چتکبرے خصی کردہ دنبوں کی قربانی دی۔‘‘

مسند ابن ابی شیبہ میں ہے:

’’ حدثنا عفان ثنا حماد بن سلمۃ أنبأ محمد بن عبداللہ بن عقیل عن عبدالرحمان بن جابر بن عبداللہ عن أبیہ أن النبيﷺ أتي بکبشین أملحین عظیمین أقرنین موجوئین فأضجع أحدھما، وقال: بسم اللہ واللہ أکبر، اللھم عن محمد وآل محمد، ثم أضجع الآخر۔ الحدیث۔‘‘ وکذلک رواہ إسحاق بن راھویہ وأبو یعلی الموصلي في مسندیھما۔ ( نصب الراویۃ ۳ ؍۱۵۳ )

’’ جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ کے پاس دو چتکبرے، بڑے، سینگگوں والے خصی کردہ دنبے لائے گئے تو آپ نے ان میں سے ایک کو لٹایا اور کہا: ’’بسم اللہ واللہ أکبر، اللھم عن محمد وآل محمد ‘‘ پھر اسی طرح دوسرے کو ذبح فرمایا۔ اسحاق بن راہویہ اور ابو یعلی الموصلی نے اپنےمسندوں میں بھی اسی طرح یہ روایت بیان کی ہے۔‘‘

پس عبداللہ بن محمد بن عقیل کی یہ حدیث پانچ طریقوں سے بیان ہوئی ہے۔ اگر کہا جائے کہ امام ذہبی میزان الاعتدال میں، حافظ ابن حجر تہذیب تہذیب الکمال میں اور صفی الدین خلاصہ میں کہتے ہیں:

’’ عبداللہ بن محمد بن عقیل أبو محمد المدني ، قال النسائي : ضعیف، وقال أبو حاتم : نین، وروی جماعۃ عن ابن معین : ضعیف، وقال ابن خزیمۃ : لا یحتج بہ، وقال ابن حبان : ردئ الحفظ ، وقال محمد بن عثمان الحافظ : سألت علي بن المدیني فقال : کان ضعیفا‘‘ انتھی ملخصا (میزان الاعتدا ل ۲ ؍۴۸۴ تھذیب التھذیب ۶ ؍۱۳ الخلاصۃ للخزرجي ، س: ۲۱۳)

’’ عبداللہ بن محمد بن عقیل ابو محمد المدنی کو امام نسائی نے ضعیف قرار دیا ہے اور ابو حاتم نے لین کہا ہے۔ ایک جماعت نے ابن معین سے بھی اس کی تضعیف روایت کی ہے۔ ابن خزیمہ کہتے ہیں: وہ قابل احتجاج نہیں۔ ابن حبان کہتے ہیں: اس کا حافظہ کمزور ہے اور محمد بن عثمان نے کہا کہ میں نے امام المدینی سے پوچھا تو انہوں نے اسے ضعیف قرار دیا۔‘‘

چنانچہ میں کہتا ہوں کہ اگرچہ مذکورہ بالا محدثین نے اس کی تضعیف کی ہے، لیکن ان کے مقابلے میں بہت سے محدثین مثلاً احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، حمیدی، محمد بن اسمٰعیل البخاری، ابو عیسیٰ الترمذی اور ابن عدی جیسے ائمہ نے اس کی توثیق بھی کی ہے۔

’’ عبداللہ بن محمد بن عقیل المدني ، روی عنہ السفیانان، قال الترمذي: صدوق ، سمعت محمدا یقول : کان أحمد وإسحاق والحمیدي یحتجون بحدیث ابن عقیل، وقال ابن عدي : روی عنہ جماعۃ من المعروفین الثقات وھو خیر من ابن سمعان، ویکتب حدیثہ، وقال البخاري في تاریخہ : کان أحمد وإسحاق یحتجان بہ ‘‘ کذافي التھذیب والمیزان والخلاصۃ ۔ (میزان الاعتدا ل ۲ ؍۴۸۴ تھذیب التھذیب ۶ ؍۱۳ الخلاصۃ للخزرجي ، س: ۲۱۳)

’’ عبداللہ بن محمد بن عقیل سے سفیان ثوری اور سفیان بن عینیہ نے روایت کی ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: صدوق ہے۔ میں نے امام بخاری سے سنا کہ احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ اور حمیدی ابن عقیل کی حدیث کو حجت بناتے تھے۔ امام ابن عدی فرماتے ہیں کہ معروف اور ثقہ لوگوں کی ایک جماعت نے ابن عقیل سے روایت کی ہے۔ وہ ابن سمعان سے بہتر ہے اور اس کی حدیث کتابت کے لائق ہے۔ امام بخاری اپنی تاریخ میں فرماتے ہیں کہ احمد اور اسحاق اس کی روایت سے حجت پکڑتے تھے، جیسا کہ تہذیب، میزان اور خلاصہ میں مرقوم ہے۔‘‘

اگر کہا جائے کہ ابن ابی حاتم نے کتاب العلل میں لکھا ہے:

’’ سألت أبي و أبا زرعۃ عن حدیث رواہ المبارک بن فضالۃ عن عبداللہ عن أبیہ، ورواہ الثوري عن ابن عقیل عن أبي سلمۃ عن أبي ھریرۃ أو عن عائشۃ عن النبيﷺ ، و رواہ سعید بن سلمۃ عن ابن عقیل عن علي بن حسین عن أبي رافع، فقال أبو زرعۃ : ھذا کلہ من ابن عقیل، فإنہ لا یضبط حدیثہ، والذین رووا عنہ ھذا الحدیث کلھم ثقات۔‘‘ ( العلل لابن أبي حاتم ۲ ؍۴۰ )

’’ میں کہتا ہوں کہ امام بیہقی کتاب المعرفہ میں کہتے ہیں:

’’ وھذا إنما رواہ عبداللہ بن محمد بن عقیل ، واختلف علیہ : فرواہ عن الثوري عن أبي سلمۃ عن عائشۃ أو أبي ھریرۃ ، وقال مرۃ : عن أبي ھریرۃ ، ولم یقل : أو عائشۃ ، ورواہ عنہ حماد بن سلمۃ عن عبدالرحمن بن جابر عن أبیہ، ورواہ عنہ زھیر بن محمد عن علي بن الحسین عن أبي رافع۔ قال البخاري : ولعلہ سمعہ من ھولاء‘‘ انتھی ( معرفۃ السنن والآثار ۱۴ ؍۴۹ )

علاوہ ازیں عبداللہ بن محمد بن عقیل کی روایت کے اور بھی شواہد ہیں، جو اس روایت کو تقویت پہنچاتے ہیں۔

’’ عن ابن إسحاق عن یزید بن أبي عیاش المعافري عن جابر بن عبداللہ قال : ذبح النبيﷺ یوم النحر بکبشین أقرنین أملحین موجوئین‘‘ رواہ أبوداود وابن ماجہ والبیھقي۔ ( سنن أبي داود، رقم الحدیث ۲۷۹۵ ، سنن ابن ماجہ ۳۱۲۲، السنن الکبریٰ للبیھقي ۹ ؍۲۶۷)

’’ ابن اسحاق، یزید بن ابی عیاش المعافری کے واسطے سے جابر بن عبداللہ کی حدیث بیان کرتے ہیں کہ قربانی کے دن نبی کریمﷺ نے دو سفید سینگوں والے خصی کردہ دنبے ذبح کیے۔ یہ حدیث ابوداود، ابن ماجہ اور بیہقی نے روایت کی ہے۔‘‘

’’ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ : ضَحَّی رَسُولُ اللہ ﷺ بِکَبْشَیْنِ جَذَعَیْنِ مُوجِبَیْنِ۔‘‘ رواہ أحمد في مسندہ ، والطبراني۔ ( مسند أحمد ۶؍ ۸ ، المعجم الکبیر للطبراني ۱ ؍۳۱۳)

’’ امام احمد اور طبرانی نے ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے دو خصی کردہ دنبوں کی قربانی کی۔‘‘

’’ وعن ابن وھب حدثني عبداللہ بن عیاش القتباني ثنا عیسی بن عبدالرحمن حدثني ابن شھاب عن سعید بن المسیب عن أبي ھریرۃ نحوما تقدم۔‘‘ رواہ الطبراني في معجمہ الوسط۔ ( المعجم الأوسط للطبراني ۲ ؍۲۵۰ )

’’ ابن وہب سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عیاش القتبانی، عیسی بن عبدالرحمن سے، وہ ابن شہاب سے، وہ سعید بن المسیب سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی طرح روایت کرتے ہیں جیسے پہلے گزرا۔ اسے امام الطبرانی نے معجم اوسط میں روایت کیا۔‘‘

’’ وعن عبداللہ بن المبارک عن یحییٰ بن عبید اللہ عن أبیہ سمعت أبا ھریرۃ یقول : ’’ ضحی رسول اللہ ﷺ بکبشین أملحین موجوئین‘‘ رواہ أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء ، وقال : ’’ مشھور من غیر وجہ، غریب من حدیث یحیٰی‘‘ انتھی ( حلیۃ الأولیاء ۸ ؍۱۷۸)

’’ ابو نعیم نے ’’ حلیۃ الأولیاء‘‘ میں عبداللہ بن المبارک اور یحییٰ بن عبید اللہ کے واسطے سے ابوہریرہ کی یہی روایت نقل کی ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ حدیث مختلف سندوں سے مروی اور مشہور ہے، البتہ یحییٰ کی سند سے یہ غریب ہے۔ ختم شد۔‘‘

حافظ ابن حجر عسقلانی نے ’’ تلخیص الحبیر في تخریج أحادیث الرافعي الکبیر‘‘ میں فرمایا:

’’ حدیث أنہ ﷺ ضحی بکبشین موجوئین۔ أحمد، وابن ماجہ، والبیھقي، والحاکم، من حدیث عبداللہ بن محمد بن عقیل عن عائشۃ أو أبي ھریرۃ، ھذا روایۃ الثوري، ورواہ زھیر بن محمد عن ابن عقیل عن أبي رافع، أخرجہ الحاکم ، ورواہ حماد بن سلمۃ عن ابن عقیل عن عبدالرحمن ابن جابر عن أبیہ، ولہ شاھد من حدیث أبي عیاش عن جابر، رواہ أبوداود والبیھقي ، ورواہ أحمد والطبراني من حدیث أبي الدرداء ‘‘ انتھی ( التلخیص الحبیر ۴ ؍۳۸۴)

’’ وہ حدیث جس میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے دو خصی شدہ دنبوں کی قربانی دی، اسے امام احمد، ابن ماجہ، بیہقی اور حاکم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بواسطہ ابن عقیل نقل کیا ہے اور ابن عقیل سے اس کی روایت کرنے والے سفیان ثوری ہیں۔ زہیر بن محمد نے یہی حدیث ابن عقیل سے نقل کی ہے، جس میں صحابی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بجائے ابو رافع ہیں۔ یہ روایت مستدرک حاکم میں موجود ہے۔ حماد بن سلمہ نے یہی حدیث ابن عقیل سے روایت کی ہے جس میں صحابی جابر بن عبداللہ ہیں۔ اس روایت کی تائید ابو عیاش کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں وہ جابر سے یہی حدیث نقل کرتے ہیں۔ یہ روایت ابو داود اور بیہقی میں موجود ہے۔ احمد اور طبرانی نے یہی حدیث ابوالدرداء سے بھی روایت کی ہے۔‘‘

’’ موجوئین‘‘ کے معنی کے متعلق امام زیلعی ’’ نصب الرایہ‘‘ میں کہتے ہیں:

’’ قال المنذري في حواشیہ : المحفوظ : ’’موجوئین‘‘ منزوعي الانثیین، قالہ أبو موسی الأصبھاني ، وقال الجوھري وغیرہ : الوجاء۔ بالکسر والمد۔: رض عرق الأنثیین، قال الھروي : والأنثیان بحالھما۔ وقال في النھایۃ : ومنھم من یرویہ ’’موجیین‘‘ بغیر ھمزۃ علی التخفیف، ویکون من وجیۃ وجیا نحو موجي، قال : ھذا الذي ذکرہ ھو الذي وقع في سماعنا۔‘‘ انتھی ( نصب الرایۃ ۴ ؍۲۸۲)

’’ امام منذری فرماتے ہیں کہ صحیح لفظ ’’موجوئین‘‘ ہے، جس کا معنی ہے: دونوں خصیے کٹا ہوا۔ یہ بات ابو موسیٰ اصفہانی نے کہی ہے۔ جبکہ جوہری اور دوسرے علما کہتے ہیں کہ وِجاء کے معنی خصیے کی نسوں کو کوٹ دینے کے ہیں۔ الہروی کہتے ہیں کہ دونوں خصیے اپنی جگہ برقرار ہوں۔ النہایہ میں لکھتے ہیں کہ بعض لوگ ’’موجیین‘‘ (بغیر ہمزہ) کے روایت کرتے ہیں اور ہمیں بھی اسی طرح روایت پہنچی ہے۔‘‘

حافظ ابن حجر نے تلخیص الحبیر میں فرمایا ہے:

’’ الموجوئین : المنزوعي الأنثیین ‘‘ انتھی (التلخیص الحبیر ۴ ؍۳۴۸)

’’ موجوئین‘‘ کا مطلب ہے خصیے نکالے ہوئے۔

پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے خصی شدہ نر دنبوں کی قربانی کی ہے، بلکہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ جب رسول اللہﷺ قربانی کا ارادہ فرماتے تو خصی شدہ نر دنبے خریدا کرتے تھے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ خصی شدہ جانور کا گوشت پسند فرماتے تھے اور ظاہر ہے کہ صاحب شریعت صرف جائز اور مباح چیز ہی پسند فرمایا کرتے تھے۔ چونکہ اس طرح کا گوشت اس وقت تک تیار نہیں ہوسکتا، جب تک جانوروں کو خصی نہ کیا جائے، اس لیے اس حدیث سے خصی کرنے کے جواز کی طرف اشارہ ملتا ہے، ورنہ ظاہر ہے کہ اگر خصی کرنا فی نفسہ ممنوع ہوتا تو رسول اللہﷺ خصی شدہ جانوروں کا گوشت کیسے پسند فرماتے؟ بلکہ اس صورت میں تو رغبت کرنے سے ممنوع فعل کی تائید ہوتی۔ اسی لیے حضرت عمر بن عبدالعزیز نے خصی شدہ جانور نہ خریدا اور فرمایا کہ میں جانوروں کو خصی کرنے میں تعاون نہیں کرنا چاہتا۔ چنانچہ شرح معانی الآثار میں ہے:

’’ حدثنا ابن أبي داود قال : ثنا القواریري قال : ثنا عفیف بن سالم قال : ثنا علاء بن عیسیٰ الذھبي قال : أتي عمر بن عبدالعزیز بخصي فکرہ أن یبتاعہ ، وقال : ما کنت لأعین علی الإخصاء‘‘ ( شرح معاني الآثار ۳ ؍۲۷۱)

’’ عمر بن عبدالعزیز کے پاس ایک خصی جانور لایا گیا تو انھوں نے اسے خریدنا ناپسند کیا اور فرمایا: میں جانوروں کو خصی کرنے میں تعاون نہیں کرنا چاہتا۔‘‘

ابو جعفر طحاوی نے ’’ شرح معانی الآثار‘‘ میں دوسری جگہ فرمایا ہے:

’’ ألا تری إلی عمر بن عبدالعزیز أنہ أتي بعبد خصي یشتریہ ، فقال: ما کنت لأعین علی الإخصاء ، فجعل ابتیاعہ إیاہ عونا علی إخصائہ، فکذلک إخصاء الغنائم، لو کان مکروھا لما ضحی رسول اللہﷺ بما قد أخصي منھا، ولا یشبہ إخصاء البھائم إخصاء بني آدم، لأن إخصاء البھائم إنما یراد بہ ما ذکرنا من سمانتھا، وقطع عضھا فذلک مباح، وبنو آدم فإنما یراد بإخصائھم المعاصي فذلک غیر مباح‘‘ انتھی (شرح معاني الآثار ۴ ؍۳۱۷)

’’ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس خصی کردہ غلام فروخت کے لیے لایا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں خصی کرنے کی تائید و حمایت نہیں کرتا۔ گویا انہوں نے اس کی خریداری کو اس عمل کی تائید سمجھا۔ پس اگر جانوروں کا خصی کرنا بھی مکروہ ہوتا تو رسول اللہﷺ خصی شدہ جانور کی قربانی ہرگز نہ کرتے۔ جانوروں کے خصی کرنے کو انسانوں کے خصی کرنے کے مثل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جانوروں کو خصی صرف گوشت کو بہتر بنانے کے لیے کیا جاتا ہے، اس لیے یہ مباح ہے اور انسانوں کا خصی کرنا گناہ ہے، اس لیے ہرگز جائز نہیں۔‘‘

جانوروں کو خصی کرنا اگر ناجائز ہوتا تو رسول اللہﷺ اس پر سکوت نہ فرماتے، بلکہ مرتبہ رسالت کے پیش نظر ممنوع چیز کے ارتکاب پر ناراضی کا اظہار کرتے اور عادت شریفہ کے مطابق فرماتے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اس طرح کے کام کرتے ہیں؟ اس فعل پر حضور ﷺ کی خاموشی اس کے جواز کی دلیل ہے۔ یہ مسئلہ اصولِ حدیث کی کتابوں میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔

علامہ شیخ شمس الدین سخاوی ’’ فتح المغیث شرح ألفیۃ الحدیث‘ ‘ میں فرماتے ہیں:

’’ والحدیث في اللغۃ ضد القدیم، وفي اصطلاحھم : قول رسول اللہﷺ وسلم، وفعلہ ، وتقریرہ ، وصفتہ ، حتی في الحرکات والسکنات في الیقظۃ والنوم ۔‘‘ انتھی ( فتح المغیث ۱ ؍۱۰)

’’ لغت میں لفظ حدیث قدیم کا ضد ہے اور محدثین کی اصطلاح میں رسول اللہﷺ کا قول، عمل، کسی بات پر خاموشی اور آپﷺ کے اوصاف و احوال کا بیان ہے، حتیٰ کہ آپ کے سونے اور جاگنے میں ہونے والی حرکات و سکنات بھی حدیث ہیں۔ ختم شد۔‘‘

قاضی زکریا الانصاری ’’ فتح الباقي شرح ألفیۃ العراقي‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ والحدیث، ویرادفہ الخبر، علی الصحیح ما أضیف إلی النبيﷺ قولا، وفعلا، وتقریرا أو صفۃ‘‘ انتھی مختصرا (فتح الباقي ۱ ؍۹۱، ۱۷۲)

’’ حدیث کا مطلب رسول اللہﷺ کا قول، عمل، کسی عمل پر خاموشی اور آپﷺ کے اوصاف حمیدہ کا بیان ہے۔‘‘

شیخ علی بن صلاح الدین ’’ منھل الینابیع في شرح المصابیح‘‘ کے باب الصلوٰۃ میں فرماتے ہیں:

’’ قولہ : فسکت عنہ رسول اللہ ﷺ، وسکوتہ یدل علی جواز أداء سنۃ الصبح بعد أداء فریضۃ لمن لم یصلھا قبلہ‘‘

’’ حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فجر کی نماز کے بعد فجر کی دو سنتیں ادا کرنے پر سکوت فرمایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس نے پہلے سنت ادا نہیں کی، وہ فرض کے بعد ادا کرسکتا ہے۔ یہ جائز امر ہے اور اس کی دلیل آپﷺ کی خاموشی ہے۔‘‘

امام زینی شرح مصابیح میں فرماتے ہیں:

’’ قولہ : فسکت ۔ یدل علی جواز سنۃ الصبح بعد فریضۃ لمن لم یصلھا قبلہ‘‘ انتھی

’’ آپ ﷺ کی خاموشی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس نے پہلے سنتیں ادا نہ کی ہوں، وہ فجر کی فرض نماز کے بعد انھیں ادا کرلے۔‘‘

پس مسند بزار کی حدیث اور ان حدیثوں کے درمیان تطبیق اس طرح دی جاسکتی ہے کہ ان جانوروں کا خصی کرنا جائز ہے جن کا گوشت کھایا جاتا ہے، مگر جن جانوروں کا گوشت نہیں کھایا جاتا، ان کا خصی کرنا درست نہیں۔ اسی بنا پر ائمہ متقدمین میں طاؤس وعطاء وغیرہ اور اکثر علمائے متاخرین ان جانوروں کا خصی کرنا جائز قرار دیتے ہیں، جن کا گوشت کھایا جاتا ہے۔

’’ شرح معانی الآثار‘‘ میں مذکور ہے:

’’ حدثنا ابن أبي عمران قال : ثنا عبید اللہ قال ثنا سفیان عن ابن طاؤس أن أباہ أخصی جمالہ‘‘ (شرح معاني الآثار ۴ ؍۳۱۸)

’’ طاؤس نے اپنے اونٹ کا آختہ کیا تھا۔‘‘

’’ حدثنا ابن أبي عمران قال : ثنا عبید اللہ قال : ثنا سفیان عن مالک بن مغول عن عطاء قال : لا بأس بإخصاء الفحل إذا خشي عضاضہ‘‘ انتھی ( مصدر سابق)

’’ عطا کا قول نقل کیا گیا ہے کہ اگر نر جانور دانت کاٹنے لگے تو اس کے خصی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ختم شد۔‘‘

تفسیر ’’ معالم التنزیل‘‘ میں ہے:

’’ وقد جوزہ بعضھم في البھائم لأن فیہ غرضا ظاھرا‘‘ ( معالم التنزیل للبغوي ۲؍۲۳۹)

’’ بعض علما نے جانوروں کا خصی کرنا جائز قرار دیا ہے، اس لیے کہ اس کی غرض اور فائدہ معلوم ہے۔‘‘

امام نووی رحمہ اللہ شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں:

’’ فإن الإخصاء في الآدمي حرام، صغیرا کان أو کبیرا، قال البغوي : وکذا یحرم خصاء کل حیوان لا یؤکل ، وأما المأکول فیجوز خصاؤہ في صغرہ، ویحرم في کبرہ، واللہ أعلم۔‘‘ ( شرح النووي علی صحیح مسلم ۹ ؍۱۷۷)

’’ آدمی کا خصی کرنا حرام ہے چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ امام بغوی فرماتے ہیں کہ جن جانوروں کا گوشت حلال نہیں ان کے بارے میں یہی حکم ہے۔ البتہ حلال جانوروں کا خصی کرنا چھوٹی عمر میں جائز ہے اور بڑی عمر میں حرام ہے اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔‘‘

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’ فتح الباری شرح صحیح بخاری‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ قل القرطبي : الخصاء في غیر بني آدم ممنوع في الحیوان إلا لمنفعۃ حاصلۃ في ذلک کتطییب اللحم أو قطع ضرر عنہ، وقال النووي: یحرم خصاء الحیوان غیر المأکول مطلقا ، وأما المأکول فیجوز في صغیرہ دون کبیرہ ، وما أظنہ یدفع ما ذکرہ القرطبي من إباحۃ ذلک في الحیوان الکبیر عند إزالۃ الضرر۔‘‘ انتھی (فتح الباري ۹ ؍۱۱۹)

’’ قرطبی فرماتے ہیں کہ جانوروں کا خصی کرنا بھی درست نہیں، سوائے اس کے کہ اس سے گوشت کو بہتر بنانا یا اس کے ضرر سے محفوظ رہنا مقصود ہو۔ علامہ نووی کہتے ہیں کہ جن جانوروں کا گوشت حرام ہے، ان کا خصی کرنا مطلقاً ممنوع ہے،  البتہ حلال جانوروں کا چھوٹی عمر میں خصی کرنا جائز ہے، بڑی عمر میں نہیں۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ نووی کے اس بیان سے قرطبی کے مذکورہ بالا قول کی تردید مقصود نہیں ہے، جس میں انھوں نے دفع ضرر کے لیے بڑے جانوروں کے خصی کرنے کو بھی جائز قرار دیا ہے۔‘‘

طحاوی ’’ شرح معانی الآثار‘‘ میں کہتے ہیں:

’’ وخالفھم في ذلک آخرون فقالوا : ما خیف عضاضہ من البھائم أو ما أرید شحمہ منھا فلا بأس بإخصائہ، وقالوا : ھذا الحدیث الذي احتج بہ علینا مخالفنا إنما ھو عن ابن عمر موقوف ، ولیس عن النبيﷺ ‘‘ انتھی ( شرح معاني الآثار ۴ ؍۳۱۷)

’’ دوسروں نے اس مسئلے میں خصی جائز نہ قرار دینے والوں سے اختلاف کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ضرر سے بچنے کے لیے یا گوشت کو بہتر بنانے کی غرض سے خصی کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مزید کہتے ہیں کہ جس حدیث سے مخالفین نے استدلال کیا ہے، وہ ابن عمر پر موقوف ہے، رسول اللہﷺ سے مروی نہیں۔ ختم شد۔‘‘

اگر تمہارے ذہن میں اشکال ہے کہ کوئی چیز اسی وقت پسندیدہ ہوسکتی ہے، جب وہ شرعی طور پر ممنوع طریقے سے حاصل نہ ہو، ورنہ اس کی پسندیدگی ممنوع طریقے کی تائید اور اس عمل کے مرتکب کی اعانت تصور کی جائے گی اور کسی شخص کا خلافِ شرع بات میں مددگار ہونا جائز نہیں۔ مثلاً خچر پر سوار ہونا جائز ہے یا نہیں؟ اگر ہم اسےناجائز قرار دیں تو پھر اس کی کیا توجیہ کی جائے گی کہ رسول اللہﷺ اس پر سوار ہوئے اور اگر جائز کہا جائے تو خچر پر سواری کی رغبت اور اس پر سوار ہونے سے گھوڑے اور گدھے کے ملاپ کرانے والے کی اعانت و امداد ہوتی ہے اور چونکہ یہ عمل جائز نہیں، لہٰذا اس خچر پر سواری بھی جائز نہیں ہونی چاہیے۔

اسی طرح اس مسئلے میں کہ شراب سے تیار کیا ہوا سرکہ جائز ہے کہ نہیں؟ اگر اسے جائز مانا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ دوسرے ناجائز عمل میں معین اور مددگار ہے۔ اس لیے کہ شراب سے سرکہ بنانا صحیح حدیثوں کی رو سے ممنوع ہے۔ لہٰذا اس کا استعمال بھی اسی حکم میں داخل ہوگا اور اگر ناجائز مانا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ صحیح حدیث کی رو سے سرکہ بہترین سالن ہے۔ اس عام جملے میں سرکے کی تمام اقسام داخل ہیں۔ شراب سے حاصل شدہ سرکہ گو اس سے الگ نہیں کیا جاسکتا، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ شراب سے سرکہ بنانا تو ناجائز ہے، مگر اس سرکہ کا استعمال جائز ہے، جیسا کہ بعض مجتہدین کا مذہب ہے۔ اسی طرح خصی کردہ دنبوں کی قربانی جائز ہے اور اس کا گوشت بھی مرغوب، مگر خصی کرنا بذات خود ممنوع ہی رہے گا۔

اس کا جواب غور سے سن لو کہ حقیقت تو یہی ہے جو بیان کی گئی ہے کہ جو چیز شرعاً ممنوع طریقے سے حاصل ہو، اس کی طرف رغبت جائز نہیں، اسے جائز قرار دینے سے خرابی لازم آئے گی۔ ایک چور جو مال چوری کے ذریعے حاصل کرتا ہے، وہ مال جس طرح اس کے لیے حرام ہے، اسی طرح اس شخص کے لیے بھی حرام ہے جس کے علم میں یہ بات آجائے کہ اس کا مال چوری کا ہے، اس کے لیے چوری کا مال استعمال کرنا جائز نہیں۔ مگر خچر پر سواری کرنا جائز و درست ہے۔

اللہ تعالیٰ سورۂ نحل میں ارشاد فرماتے ہیں:

﴿وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ لِتَرْكَبُوْہَا وَزِيْنَۃً ﴾ (النحل: ۸)

’’ یعنی گھوڑے، خچر، گدھے سواری کے لیے اور تمہاری زینت کے لیے ہیں۔‘‘

یعنی گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کی پیدایش کا مقصد ہی زینت اور سواری ہے۔ اس کے متعلق کئی حدیثیں بھی معروف ہیں۔

’’ عنِ البراء بنِ عازِب قال : رأیت رسول اللہﷺ وھو علی بغلتہ البیضاء ، وأبو سفیان بن الحارث آخذ بِلجامھا، وھو یقول : أنا النبي لا کذب، أنا ابن عبدالمطلب ‘‘ رواہ البخاري وغیرہ (صحیح البخاري، رقم الحدیث ۲۷۷۲، صحیح مسلم، رقم الحدیث ۱۷۷۶)

’’ براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ سفید خچر پر سوار ہیں اور ابوسفیان بن حارث اس کی لگام تھامے ہوئے ہیں۔ آپﷺ فرما رہے ہیں کہ میں نبی ہوں، یہ کوئی جھوٹی بات نہیں اور میں عبدالمطلب کی اولاد سے ہوں۔ اس روایت کو بخاری وغیرہ نے روایت کیا ہے۔‘‘

’’ وعن العباس بنِ عبدالمطلب قال : شھِدت مع رسولِ اللہﷺ یوم حنینٍ فلزِمت أنا وأبو سفیان بن الحارث بن عبدالمطلب رسول اللہ ﷺ فلم نفارِقہ ، ورسول اللہ ﷺ علی بغلۃ لہ بیضاء‘‘ ( شرح معاني الآثار ۳ ؍۲۷۲ )

’’ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور ابوسفیان بن حارث حنین میں رسول اللہﷺ کے ہمراہ تھے، کسی وقت بھی ان سے الگ نہیں ہوئے اور رسول اللہﷺ سفید خچر پر سوار تھے۔‘‘

’’ وعن قاسم بن عبدالرحمان عن  أبیہ قال : قال عبداللہ بن مسعود : کنت مع رسول اللہﷺ یوم حنین، ورسول اللہﷺ علی بغلۃ۔‘‘( شرح معاني الآثار ۳ ؍۲۷۲ )

’’ قاسم بن عبدالرحمان اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یوم حنین کے موقع پر میں رسول اللہﷺ کے ساتھ تھا اور رسول اللہﷺ خچر پر سوار تھے۔‘‘

’’ وعن سلیمان بن عمرو بن الأحوص عن أمہ قالت : رأیت رسول اللہﷺ یوم النحر عند جمرۃ العقبۃ، وھو علی بغلتہ‘‘( شرح معاني الآثار ۳ ؍۲۷۲ )

’’ سلیمان بن عمرو بن الاحوص اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو قربانی کے دن جمرۃ العقبہ کے پاس دیکھا، آپﷺ خچر پر سوار تھے۔‘‘

’’ وعن عبداللہ بن بشر عن أبیہ أنہ قال : أتی رسول اللہ ﷺ إیاھم، وھو راکب علی بغلۃ ‘‘ (شرح معاني الآثار ۳ ؍۲۷۲)

’’ عبداللہ بن بشر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: رسول اللہﷺ ان کے پاس خچر پر سوار ہو کر آئے۔‘‘

’’ وعن أنس قال کان رسول اللہﷺ علی بغلۃ شھباء فمر علی حائط لبني النجار۔‘‘ (شرح معاني الآثار ۳ ؍۲۷۲)

’’ انس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنے خچر شہباء پر سوار تھے اور اس پر بنی نجار کے علاقے سے گزرے۔‘‘

’’ وعن عبداللہ بن علي بن أبي رافع أنہ رأی بغلۃ النبي ﷺ شھباء، وکان عند علي بن حسین‘‘ (شرح معاني الآثار ۳ ؍۲۷۲)

’’ عبداللہ بن علی بن رافع کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے خچر شہباء کو دیکھا، جب وہ علی بن حسین کے پاس تھا۔‘‘

’’ وعن إیاس بن سلمۃ حدثني أبي قال : غزونا مع رسول اللہﷺ حنینا فزکر حدیثا طویلا، فیہ : فمررت علی رسول اللہﷺ منھزما، وھو علی بغلتہ الشھباء ‘‘ (شرح معاني الآثار ۳ ؍۲۷۲)

’’ ایاس بن سلمہ کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے کہا: ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ غزوہ حنین میں شریک ہوئے۔ پھر اس سے متعلق طویل حدیث بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پھر میں پسپا ہو کر رسول اللہﷺ کے پاس گیا، آپﷺ اپنے خچر شہباء پر سوار تھے۔‘‘

’’ وعن عقبۃ بن عامر قال : رکب رسول اللہﷺ بغلۃ ‘‘ (شرح معاني الآثار ۳ ؍۲۷۲)

’’ عقبہ بن عامر سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ اپنے خچر پر سوار ہوئے۔‘‘

مندرجہ بالا آٹھ حدیثیں امام طحاوی اور دوسرے محدثین نے روایت کی ہیں۔ باقی رہا گدھے اور گھوڑے کے درمیان اختلاط تو وہ ممنوع نہیں، کیونکہ اگر ممنوع ہوتا تو خچر پر سواری بھی جائز نہ ہوتی، جب سواری جائز ہے تو یہ فعل ممنوع نہیں۔ یہ وہ چند دلیلیں ہیں جو ہم نے اس ضمن میں بیان کردی ہیں، جس سے اس کا اثبات ظاہر ہوتا ہے۔

نیز سنن ابوداود اور معانی الآثار میں ہے:

’’ عن أبي رزین عن علي بن أبي طالب قال : أھدیت لرسول اللہﷺ بغلۃ فرکبھا فقال علی : لو حملنا الحمیر علی الخیل لکان لنا مثل ھزہ، فقال رسول اللہ ﷺ : إنما یفعل ذلک الذین لا یعلمون۔‘‘ (سنن أبي داود، رقم الحدیث ۲۵۶۵، شرح معاني الآثار ۳ ؍۲۷۱)

’’ حضرت علی بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کو خچر کا ہدیہ پیش کیا گیا، اسے آپ نے قبول فرمایا اور اس پر سواری کی۔ پھر علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر ہم نے گدھے اور گھوڑے کی جفتی کی ہوتی تو اسی طرح ہمارے پاس بھی خچر ہوتے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ نادان ایسا کرتے ہیں۔‘‘

’’ شرح معانی الآثار‘‘ وغیرہ میں ہے:

’’ وعن ابن عباس قال : ما اختصنا رسول اللہ ﷺ بشيء دون الناس الا بثلاث : إسباغ الوضوء ، وأن لا نأکل الصدقۃ، وأن لا ننزي الحمر علي الخیل‘‘ ( شرح معاني الآثار ۲؍ ۴ )

’’ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں دوسروں سے تین باتوں میں ممتاز بتایا: اسباغ الوضوء ، صدقہ کا مال نہ کھانا اور گھوڑے و گدھے کے درمیان جفتی نہ کرانا۔‘‘

اس کا جواب تین طریقوں سے دیا گیا ہے:

۱۔ علی رضی اللہ عنہ کی روایت میں ممانعت نہیں آئی، بلکہ اتنا کہا گیا ہے کہ یہ وہ لوگ کرتے ہیں جو بے خبر ہیں۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جو بے علم اور جاہل ہیں اور یہ کام اہل علم اور سادات کا نہیں کہ وہ اس کام میں وقت صرف کریں۔

اسی معنی میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت بیان ہوئی ہے، یعنی یہ ایسا کام نہیں جسے ہم ہاشمیوں کے لیے خاص کیا جاتا۔ دوسرے تمام لوگ اس حکم میں شامل نہیں یعنی انھیں رخصت ہے۔ اہل بیت کو صرف تین چیزوں میں دوسروں سے ممتاز کیا گیا ہے۔ ایک اسباغ الوضوء یعنی ہر عضو کو تین تین بار دھوئیں، جبکہ دوسرے اگر ایک ایک دو دو بار بھی دھو لیں تو مضائقہ نہیں۔ دوسرے یہ کہ صدقہ نہیں کھاتے اور گھوڑے گدھے میں جفتی نہیں کراتے۔ یہی حکم ہاشمیوں کے لیے ان کے شرفِ شان کی وجہ سے ہے۔ کسی معصیت کی وجہ سے یہ تخصیص نہیں، اگر اس میں معصیت کو دخل ہوتا تو ہاشمیوں کی تخصیص نہ ہوتی کہ اوامر و نواہی میں امت محمدیہ برابر ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ گھوڑے اور گدھے کی جفتی کرنا اور اسباغ الوضوء نہ کرنا ہاشمیوں کے علو شان کے خلاف ہے، البتہ غیر ہاشمی اس حکم سے الگ ہیں۔ ہاشمیوں کے لیے ان تینوں باتوں کا حکم ان کی شان کی وجہ سے باقی ہے اور یہی ہمارا مدعا ہے۔

۲۔ اگر کوئی کہے کہ رسول اللہﷺ کے اس قول (( إنما یفعل ذلک الذین لا یعلمون )) کا کیا مطلب ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ گھوڑے کے حصول اور اس کے استعمال میں جو اجر اور فائدہ ہے، وہ خچر میں نہیں۔ اسی وجہ سے نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ گھوڑے کے فوائد بہ نسبت خچر کے بہت ہیں، جو گدھے اور گھوڑے کے ملاپ سے نادان لوگ حاصل کرتے ہیں۔ گویا وہ ایسی چیز پر توجہ نہیں کرتے جس میں اجر ہے، بلکہ ایسی چیزوں پر توجہ دیتے ہیں جس میں اجر نہیں۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ اور ابن عمر کی حدیث میں مروی ہے، جسے ائمہ صحاح نے روایت کیا ہے:

’’عن أبي ھریرۃ قال : سئل رسول اللہ ﷺ عن الخیل ، فقال ھي لثلاثۃ: لرجل أجر ، ولرجل ستر، ولرجل وزر، قالوا : فالحمر یا رسول اللہﷺ ؟ قال : لم ینزل علي في الحمر شيء إلا ھذہ الآیۃ الفاذۃ: ﴿ فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَيْرًا يَّرَہٗ۝ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا يَّرَہٗ ﴾ أخرجہ أصحاب الصحاح وغیرہ۔‘‘ ( صحیح البخاري، رقم الحدیث ۲۷۰۵، صحیح مسلم، رقم الحدیث ۹۸۷)

’’ وعن ابن عمر عن النبيﷺ قال : الخیل معقود في نواصیھا الخیر إلی یوم القیامۃ ‘‘ أخرجہ أئمۃ الصحاح وغیرہ۔ (صحیح البخاري، رقم الحدیث ۲۶۹۷، صحیح مسلم، رقم الحدیث ۱۸۷۳)

’’ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے گھوڑوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ تین طرح کے لوگوں کے لیے ہیں۔ کسی کے لیے یہ باعث اجر ہیں اور کسی کے لیے پردہ اور کسی کے لیے وبال جان اور ہلاکت خیز۔ پھر لوگوں نے گدھے کے متعلق پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا: گدھے کے فائدے سے متعلق اس آیت کے علاوہ مجھ پر اور کچھ نازل نہیں ہوا۔ یعنی جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی وہ اس کا اجر پائے گا اور جس نے ذرہ برابر بھی برائی کی اسے بھی دیکھے گا۔ یہ حدیث صحاح ستہ میں مذکور ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: گھوڑے کے ساتھ شغف میں قیامت تک بھلائی ہی بھلائی ہے۔ یہ حدیث بھی صحاح و سنن میں موجود ہے۔‘‘

طحاوی ’’ شرح معانی الآثار‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ فإن قال قائل : فما معنی قول النبيﷺ : إنما یفعل ذلک الذین لا یعلمون ؟ قیل لہ : قد قال أھل العلم في ذلک: معناہ : أن الخیل قد جاء في ارتباطھا واکتسابھا وعلفھا الأجر، ولیس ذلک في البغال ، فقال النبي ﷺ : إنما ینزو فرس علی فرس حتی تکون عنھما ما فیہ الأجر ، ویحمل حمارا علی فرس فیکون عنھما بغل لا أجر فیہ، الذین لا یعلمون أی لأنھم یترکون بذلک إنتاج ما في ارتباطہ الأجر، وینتجون مالا أجر في ارتباطہ‘‘ ( شرح معاني الآثار ۳ ؍۲۷۳)

’’ اگر کہنے والا یہ کہے: نبیﷺ کے اس فرمان کا کیا مطلب ہے کہ یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جو نادان ہیں۔ تو اسے کہا جائے گا کہ اہل علم نے اس کا یہ معنی بیان کیا ہے کہ گھوڑوں کو پالنے، ان کی پرورش کرنے اور انھیں چارہ ڈالنے کے متعلق اجر و ثواب کی بشارت مروی ہے، لیکن خچر کے متعلق ایسی کوئی چیز مروی نہیں۔ گھوڑوں کی باہم جفتی میں اجر ہے اور گدھے کی گھوڑے کے ساتھ جفتی میں کوئی اجر نہیں۔ اس طرح لوگ وہ چیز پیدا کرنا چھوڑ دیتے ہیں جس کی پرورش میں اجر ہے اور اس میں مشغول ہوتے ہیں جس کی پرورش میں کوئی اجر نہیں۔‘‘

۳۔ نبی کریمﷺ کے زمانے میں بنو ہاشم کے پاس گھوڑے بہت کم تھے، اس لیے آپﷺ نے یہ فرمایا تاکہ خچر کے مقابلے میں گھوڑے کی نسل پر توجہ دی جائے اور اس طرح ان کی افزایش ہو۔

طحاوی ’’ شرح معانی الأثار‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ حدثني عبید اللہ بن عبداللہ عن ابن عباس قال : ما اختصنا رسول اللہﷺ إلا بثلاث : أن لا نأکل الصدقۃ ، وأن نسبغ الوضوء، وأن لا ننزي حمارا علی فرس، قال : فلقیت عبداللہ بن الحسن، وھو یطوف بالبیت فحدثتہ فقال : صدق، کانت الخیل قلیلۃ في بني ھاشم فأحب أن تکثر فیھم‘‘ ( مصدر سابق ۳ ؍ ۲۷۵)

’’ عبید اللہ بن عبداللہ کے واسطے سے حضرت ابن عباس کی یہ روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ہمارے لیے تین باتیں خاص کردی ہیں: ہم صدقہ نہ کھائیں، اچھی طرح وضو کریں اور گھوڑے اور گدھے میں جفتی نہ کرائیں۔ راوی کہتے ہیں کہ میری عبداللہ بن حسن سے ملاقات ہوئی، جب آپ بیت اللہ کا طواف فرما رہے تھے۔ میں نے ان سے یہ حدیث بیان کی تو انھوں نے اس کی تصدیق کی اور کہا کہ بنو ہاشم میں گھوڑے بہت کم تھے۔ آپﷺ یہ چاہتے تھے کہ گھوڑے کی نسل بڑھے۔‘‘

امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ فبین عبداللہ بن الحسن بتفسیرہ ھذا المعنی الذي لہ اختص رسول اللہﷺ بني ھاشم أن لا ینزو حمار علی فرس، وأنہ لم یکن للتحریم، وإنما کانت لعلۃ قلۃ الخیل، فإذا ارتفعت تلک العلۃ وکثرت الخیل فی  أیدیھم، صاروا في ذلک کغیرھم، وفي اختصاص النبيﷺ إیاھم بالنھي عن ذلک دلیل علی إباحۃ إیاہ لغیرھم۔‘‘ (مصدر سابق)

’’ عبداللہ بن حسن کی توجیہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے گھوڑے اور گدھے کی جفتی کرانے کو حرام نہیں قرار دیا تھا، بلکہ گھوڑوں کی قلت کی وجہ سے یہ بات کہی تھی، پھر جب یہ علت دور ہوگئی تو اس سے کوئی چیز مانع نہ رہی۔ نیز یہ کہ اس عمل سے صرف بنو ہاشم کو روکا گیا ہے، یعنی دوسروں کے لیے یہ عمل مباح ہے۔‘‘

شراب سے سرکہ بنانے اور اس کے کھانے سے متعلق تحقیق یہ ہے کہ بلاشک و شبہہ یہ حدیث: ’’ نعم الأدام الخل‘‘ ( سرکہ بہترین سالن ہے) صحیح ہے۔ اسے حضرت جابر بن عبداللہ و عائشہ و ام ہانی اور ایمن رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے۔ (صحیح مسلم ۲۰۵۲، سنن أبي داود ۳۸۲۰، سنن الترمذي ۱۸۴۰، سنن النسائي ۳۷۹۶، سنن ابن ماجہ ۳۳۱۶)

فحدیث جابر أخرجہ الأئمۃ الستۃ إلا البخاري، وحدیث عائشۃ أخرجہ الترمذي، وحدیث أم ھانیٔ أخرجہ الحاکم في المستدرک، وحدیث أیمن أخرجہ البیھقي في شعب الإیمان، فمن شاء الاطلاع علی إسنادھا وطرقھا وألفاظ متونھا فلیرجع إلی الکتب الصحاح ونصب الرایۃ للزیلعي ، فإنہ کتاب عدیم النظیر في بابہ۔ (نصب الرایۃ ۴ ؍۳۶۷)

’’ حضرت جابر کی روایت بخاری کے سوا ائمہ ستہ نے نقل کی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ترمذی میں، ام ہانی کی حدیث مستدرک حاکم میں اور ایمن کی حدیث بیہقی کی شعب الایمان میں موجود ہے۔ ان کے اسانید و متون کی تحقیق کے لیے کتبِ حدیث اور نصب الرایۃ کی طرف رجوع کرنا چاہیے ، کیونکہ زیلعی کی ’’ نصب الرایۃ‘‘ اس باب میں بے نظیر کتاب ہے۔‘‘

پھر شراب سے سرکہ بنانے کی ممانعت ثابت ہے۔

’’ عن أنس قال : سئل النبيﷺ عن الخمر تتخذ خلا، قال : لا‘‘ رواہ مسلم والدارقطني ۔ ( صحیح مسلم، رقم الحدیث ۱۹۸۳، سنن الدارقطني ۴ ؍ ۲۶۵)

’’ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ سے شراب سے سرکہ بنانے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے ممانعت فرمائی۔ یہ روایت مسلم اور دارقطنی نے نقل کی ہے۔‘‘

’’ وأخرج مسلم أیضا عن أنس : ’’ أن أبا طلحۃ سأل النبيﷺ عن أیتام ورثوا خمرا ؟ قال : أھرقھا، قال : فلا نجعلھا خلا؟ قال : لا‘‘ (مسند أحمد ۳ ۱۱۹)

’’ مسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے ایسے یتیموں کے متعلق پوچھا جنھیں شراب ورثہ میں ملی تھی۔ آپﷺ نے فرمایا: شراب بہا دو۔ ابو طلحہ نے کہا: ہم اس سے سرکہ نہ بنالیں؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں‘‘

وفي روایۃ الدارقطني عن انس : ’’ أن یتیما کان في حجر أبي طلحۃ فاشتری لہ خمرا فلما حرمت سئل رسول اللہﷺ أنتخذ خلا؟ قال: لا‘‘ انتھی ( سنن الدارقطني ۴ ؍۲۶۵)

’’ دارقطنی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ ایک یتیم ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی تولیت میں تھا، انھوں نے اس کے لیے شراب خریدی۔ جب اس کی حرمت آگئی تو رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا کہ اس سے سرکہ بنالیں؟ تو آپﷺ نے ممانعت فرما دی۔ ختم شد۔‘‘

زیلعی ’’ نصب الرایۃ‘‘ میں کہتے ہیں:

’’ واستدلال الشافعیۃ علی منع تخلیل الخمر بما أخرجہ مسلم عن أنس ، قالوا : ولأن الصحابۃ أراقوھا حین نزلت آیۃ التحریم، کما ورد في الصحیح ، فلو جاز التخلیل لبینہ علیہ السلام کما نبہ أھل الشاۃ المیتۃ علی دباغھا ‘‘ انتھی ( نصب الرایۃ ۴ ؍۳۶۷)

’’ شافعیہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث سے استدلال کیا ہے کہ شراب سے سرکہ بنانا منع ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آیتِ تحریم کے نزول کے بعد صحابہ کرام نے تمام شراب بہا دی، جیسا کہ صحیح بخاری میں مذکور ہے۔ اگر شراب سے سرکے کی کشیدگی جائز ہوتی تو آپﷺ اسے بیان فرما دیتے، جس طرح مردہ بکری کے چمڑے کی دباغت کے متعلق آگاہ فرمایا۔ ختم شد۔‘‘

لیکن ام سلمہ اور جابر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیثیں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث کے خلاف ہیں:

فحدیث أم سلمۃ أخرجہ الدارقطني في سننہ : ’’ حدثنا أحمد بن محمد ابن زیاد القطان ناعبد الکریم بن الھیثم نا محمد بن عیسیٰ بن الطباع نا فرج بن فضالۃ عن یحییٰ بن سعید عن عمرۃ عن أم سلمۃ رضي اللہ عنھا قالت : کانت لنا شاۃ فماتت فقال النبيﷺ : ما فعلت شاتکم ؟ قلنا : ماتت ، قال : أفلا انتفعتم بإھابھا ؟ قلنا : إنھا میتۃ ، قال : یحل دباغھا کما یحل خل الخمر ، رواہ الدارقطني ، وحدیث جابر أخرجہ البیھقي في المعرفۃ ، رواہ المغیرۃ بن زیاد عن أبي الزبیر عن جابر عن النبيﷺ أنہ قال : خیر خلکم خل خمرکم‘‘ (سنن الدارقطني ۴ ؍۲۶۶ ، معرفۃ السنن والآثار ۸ ؍۲۲۶)

’’ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث دارقطنی نے سنن میں روایت کی ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ ہمارے پاس ایک بکری تھی ، وہ مر گئی۔ رسول اللہﷺ نے پوچھا: بکری کو کیا ہوا؟ ہم نے کہا: وہ تو مر گئی۔ آپﷺ نے فرمایا: اس کا چمڑا کیوں نہ نکال لیا؟ ہم نے کہا: حضور وہ تو مردہ تھی، آپﷺ نے فرمایا: دباغت کے بعد اس کے چمڑے کا استعمال جائز ہے، جس طرح شراب سے سرکہ بنانا جائز ہے۔ جابر کی حدیث بیہقی نے اپنی کتاب المعرفہ میں روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: شراب سے کشید کردہ سرکہ سب سے اچھا سرکہ ہے۔‘‘

ام سلمہ اور جابر رضی اللہ عنہما کی مذکورہ حدیثوں کے متعلق جواب دو طرح سے ہے۔

اولاً تو یہ دونوں حدیثیں ضعیف ہیں۔ دارقطنی نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

’’  تفرد بہ فرج بن فضالۃ عن یحییٰ ، وھو ضعیف ، یروي عن یحییٰ بن سعید أحادیث عدۃ، لا یتابع علیھا۔‘‘

’’ اسے فرج بن فضالہ نے یحییٰ سے روایت کیا ہے اور وہ ضعیف راوی ہے۔ اس نے یحییٰ بن سعید سے کئی ایسی حدیثیں روایت کی ہیں، جن کی تائید و متابعت دوسرے راوی نہیں کرتے۔‘‘

بیہقی ’’ المعرفہ‘‘ میں کہتے ہیں:

’’  تفرد بہ المغیرۃ بن زیاد، ولیس بالقوي، وأھل الحجاز یسمون خل العنب خل الخمر۔‘‘

’’ یہ روایت صرف مغیرہ بن زیاد سے مروی ہے اور وہ قوی راوی نہیں۔ نیز اہل حجاز انگور کے سرکے کو شراب کا سرکہ کہتے ہیں۔‘‘

ثانیاً یہ کہ اگر بالفرض یہ حدیثیں صحیح مان لیں جائیں تو اس سے مراد وہ سرکہ ہوگا جو شراب میں کچھ ملاوٹ کے بغیر تیار ہو۔ یعنی اگر اسے دھوپ سے ہٹا کر سائے میں رکھ دیا جائے یا سائے سے دھوپ میں رکھ دیا جائے اور وہ سرکہ بن جائے تو پاک ہے اور اس کا کھانا درست اور جائز ہے، ورنہ جائز نہیں۔ بیہقی کتاب ’’ المعرفۃ‘‘ میں کہتے ہیں:

’’ وإن صح فھو محمول علی ما إذا تخلل بنفسہ ، وعلیہ یحمل أیضاً حدیث فرج بن فضالۃ۔ ‘‘انتھی (معرفۃ السنن والآثار ۸ ؍۲۲۶) 

’’ اگر یہ حدیث صحیح ہو تو یہ اس پر محمول ہے جب شراب خود سرکہ میں تبدیل ہو جائے۔ فرج بن فضالہ کی حدیث بھی اسی پر محمول کی جائے گی۔ ختم شد۔‘‘

امام نووی شرح صحیح مسلم میں کہتے ہیں:

’’ إن النبيﷺ سئل عن الخمر تتخذ خلا؟ فقال : لا۔ ھذا دلیل الشافعي والجمھور أنہ لا یجوز تخلیل الخمر، ولا تطھر بالتخلیل، ھذا إذا خللھا بخبز أو بصل أو خمیرۃ أو غیر ذلک مما یلقی فیھا فھي باقیۃ علی نجاستھا ، ویبخس ما یلقی فیھا، ولا یطھر ھذا الخل بعدہ أبدا، لا بغسل ولا بغیرہ، أما إذا نقلت من الشمس إلی الظل أو من الظل إلی الشمس ففي طھارتھا وجھان لأصحابنا، أصحھما تطھر، ھذا الذی ذکر ناہ من أنھا لا تطھر إذا خللت بإلقاء شيء فیھا ھو مذھب الشافعي وأحمد والجمھور ، وقال الأوزاعي واللیث وأبو حنیفۃ: تطھر ، وعن مالک ثلاث روایات، أصحھا عنہ أن التخلیل حرام، فلو خللھا عصی، وطھرت، والثانیۃ حرام، ولا تطھر، والثالثۃ حلال وتطھر، وأجمعوا أنھا إذا انتقلت بنفسھا خلا طھرت۔‘‘ انتھی (شرح صحیح مسلم للنووي ۱۳ ؍۱۵۲)

’’ نبیﷺ سے شراب سے سرکہ کشید کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپﷺ نے منع فرمایا۔ شوافع اور جمہور کے نزدیک اسی دلیل کی بنا پر شراب میں پیاز، روٹی اور خمیرہ وغیرہ ڈال کر سرکہ بنانا جائز نہیں کہ اس سے شراب کی نجاست ختم نہیں ہوتی۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس شراب یا اس طرح حاصل کردہ سرکہ میں ڈالی ہوئی چیز دھونے یا کسی اور طرح سے ہرگز پاک نہیں ہوتی۔ ہاں اگر شراب کو دھوپ سے ہٹا کر سائے میں یا سائے سے ہٹا کر دھوپ میں رکھ دیا جائے اور اس طرح سرکہ بن جائے تو یہ صحیح قول کے مطابق پاک ہے، البتہ اس میں کوئی چیز ڈال دی جائے تو پاک نہیں ہوتی۔ شافعی، احمد اور جمہور کا یہی مذہب ہے۔ امام اوزاعی، لیث اور ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ وہ پاک ہے۔ امام مالک سے تین روایتیں منقول ہیں۔ صحیح روایت یہ ہے کہ اس طرح سرکہ بنانا ناجائز ہے اور اس کا مرتکب گنہگار ہوگا، البتہ سرکہ پاک ہوگا۔ دوسری روایت ہے کہ اس طرح سرکہ بنانا ناجائز ہے اور سرکہ بھی پاک نہیں رہتا۔ ایک تیسری روایت یہ ہے کہ سرکہ بنانا بھی جائز ہے اور سرکہ بھی پاک ہے۔ البتہ علما کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر شراب خود سے سرکہ بن جائے تو پاک ہے۔ ختم شد۔‘‘

پس صحیح رائے امام شافعی، احمد اور جمہور علما کی ہے کہ شراب سے خاص طور پر سرکہ بنانا ناجائز اور ممنوع ہے اور اس طرح کشید کردہ سرکہ پاک نہیں ہوتا، البتہ اگر کسی چیز کی ملاوٹ کے بغیر شراب خود سے سرکہ میں تبدیل ہو جائے تو پاک اور حلال ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ملاوٹ کے ساتھ سرکہ اتارنا ہی ناجائز ہو تو پھر اس کااستعمال کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ بلاشبہ شراب کا سرکہ بھی سرکہ ہے، مگر شارع نے اسے ناجائز قرار دیا ہے۔ اگر جائز ہوتا تو آپﷺ یتیموں کا مال ہرگز ضائع کردینے کا حکم نہ دیتے، بلکہ یتیموں کو اس مال سے حلال طریقے سے فائدہ پہنچاتے۔ یہ بات ہر وہ شخص سمجھ سکتا ہے، جس کا فہم سلامت ہے۔

ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جن جانوروں کا گوشت نہیں کھایا جاتا، اس کا خصی کرنا جائز نہیں اور جن کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کا خصی نہ کرنا افضل ہے اور عزیمت کا یہی تقاضا ہے۔ ہاں خصی کرنا جائز ہے اور اس کی اجازت ہے۔

بعض علما جانوروں کے خصی کرنے کے حق میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں، جسے امام بخاری نے ’’ باب لا یؤخذ في الصدقۃ ھرمۃ، ولا ذات عوار، ولا تیس إلا ماشاء المصدق‘ ‘  میں نقل کیا ہے:

’’ حدثنا محمد بن عبداللہ قال : حدثني أبي قال : حدثني ثمامۃ أن أنسا حدثہ أن أبا بکر کتب لہ التي أمر اللہ ورسولہ ﷺ : ولا یخرج في الصدقۃ ھرمۃ، ولا ذات عوار، ولا تیس إلا ما شاء المصدق ‘‘ وکذا أخرجہ الإمام أحمد وأبوداود وغیرھما۔ (صحیح البخاري، رقم الحدیث ۱۳۸۷، مسند أحمد ۱ ؍۱۱، سنن أبي داود ۱۵۶۷)

’’ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انھیں اللہ اور اس کے رسول کے احکام لکھ کردیے ہیں، جن میں صدقے کا بیان تھا۔ لکھا تھا کہ صدقہ میں بہت بوڑھا یا عیب دار جانور اور سانڈ نہ لیا جائے الا یہ کہ صدقہ وصول کرنے والا اسے قبول کرلے۔ امام احمد اور ابوداود وغیرہ نے بھی یہ روایت نقل کی ہے۔‘‘

ان کا کہنا ہے کہ حق سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں کو اچھی چیزوں کے کھانے پینے کی اجازت دی ہے اور ان چیزوں کی نشاندہی فرمائی ہے۔ عرب اور عجم کے لوگ اکثر اونٹ، گائے، بکروں اور بھیڑوں کے گوشت استعمال کرتے تھے، ان میں خصی کردہ جانوروں کے گوشت ان کے نزدیک زیادہ لذیذ اور مرغوب ہیں۔ نیز یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ غیر آختہ شدہ بکرے اور بھیڑ (بوتو اور سانڈ وغیرہ) کا گوشت بہت ہی بدبودار اور بد ذائقہ ہوتا ہے۔ اس کی بو بھی ناقابل برداشت ہوتی ہے، نتیجتاً کھانے کے لیے اس کا استعمال مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول ﷺ نے غیر خصی شدہ جانوروں کو زکات میں دینے سے ممانعت فرمائی ہے، اس لیے کہ اس کا گوشت خراب ہوتا ہے۔

چنانچہ قسطلانی ’’ ارشاد الساری شرح صحیح بخاری‘‘ میں کہتے ہیں:

’’ ولا تیس ۔ وھو فحل الغنم، أو مخصوص بالمعز، لقولہ تعالی: ﴿وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ  ﴾‘‘ انتھی (إرشاد الساري للقسطلاني ۳ ؍۴۷)

’’ نہ ’’ تیس ‘‘ لیا جائے۔ ’’ تیس‘‘ بھیڑوں کے نر کو کہتے ہیں، جو افزایش نسل کے لیے بکری سے مخصوص ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قول کے مطابق: خبیث چیزوں کا قصد نہ کرو، جنھیں تم دینا تو پسند کرتے ہو، لینا نہیں۔‘‘

شیخ الاسلام دہلوی صحیح بخاری کی فارسی شرح میں لکھتے ہیں:

’’ نر بکرا جسے فارسی میں تکہ (اردو میں بوتو) کہتے ہیں صدقے میں نہ دیا جائے، کیونکہ اس کا گوشت بہت بدبودار ہوتا ہے اور خرابی سے پاک نہیں، البتہ افزایشِ نسل کے لیے یہ ضروری ہے۔‘‘ ختم شد

’’ تیس تکۃ وتیوس أتیاس جماعۃ ‘‘ (منتھی الأرب ، ص : ۲۰۰)

’’ تیس، بوتو کو کہتے ہیں۔’’ تیوس‘‘ اور ’’ أتیاس‘‘ اس کی جمع ہے۔‘‘

حافظ ابن حجر ’’ فتح الباری‘‘ میں کہتے ہیں:

’’ التیس ھو فحل الغنم ‘‘ انتھی ( فتح الباري ۳ ؍۳۲۱)

’’ التَیس: بھیڑ، بکری کے نر (بوتو) کو کہتے ہیں۔

اس کا اطلاق خصی شدہ بکرے اور دنبے پر نہیں ہوتا، بلکہ صرف غیر خصی شدہ کو ’’تیس‘‘ کہتے ہیں۔

’’ کما في الحدیث الطویل عن أنس مرفوعاً ، وفیہ : ’’ فإذا بلغت ستا وأربعین، ففیھا حقۃ طروقۃ الفحل ‘‘ أخرجہ أبو داود وغیرہ بلفظ الفحل، وأما البخاري فبلفظ الجمل۔ ( صحیح البخاري، رقم الحدیث ۱۳۸۲، سنن أبي داود، رقم الحدیث ۱۵۶۷)

’’ حضرت انس رضی اللہ سے مرفوعاً ایک حدیث مروی ہے جس میں ہے کہ جب اونٹ کی تعداد چھیالیس تک پہنچ جائے تو اس کی زکات ایک حِقّہ (ایسی اونٹنی جو نر کی جفتی کے قابل ہو) ہے۔ اسے ابوداود وغیرہ نے لفظ ’’ الفحل‘‘ کے ساتھ نقل کیا ہے، مگر بخاری نے لفظ ’’ الجمل‘‘ کے ساتھ اسے ذکر کیا ہے۔‘‘

یہاں تک تو ان لوگوں کی دلیل کا ذکر ہوا جو خصی کرنا جائز قرار دیتے ہیں۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ اس سے خصی کرنے کے جواز پر استدلال درست نہیں۔ اس لیے کہ ’’ تَیْس‘‘ کو زکات میں دینے کی ممانعت کا سبب اس کے گوشت کی خرابی نہیں، بلکہ تَیس دو سال کے نر جانور کو کہتے ہیں جو جفتی کے قابل نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس سے افزایشِ نسل کا فائدہ عملاً ناممکن ہے اور زکات میں فائدہ مند چیز نکالنا لازم ہے، چاہے فائدہ دودھ کی شکل میں ہو یا نسل کی افزایش کی شکل میں، اور تَیس میں ان میں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔

قاموس میں ہے:

’’ التَیس : الذکر من الظباء والمعز والوعول، إذا أتی علیہ سنۃ ‘‘ انتھی (القاموس المحیط، ص: ۶۸۹)

’’ یعنی ہرن ، بھیڑ اور پہاڑی بکریوں کے نر کو تَیس کہتے ہیں جب وہ سال بھر کا ہو جائے۔‘‘

’’ مصباح المنیر‘‘ میں ہے:

’’ التَیس الذکر من المعز إذا أتی علیہ حول، وقبل الحول ھو جدي‘‘ انتھی ( المصباح المنیر للفیومي ۱ ؍۷۹)

’’ یعنی تَیس نر بھیڑ اور دنبے کو کہتے ہیں جب وہ سال بھر کا ہو جائے۔ سال سے چھوٹا ہو تو اسے ’’جدی‘‘ کہتے ہیں۔ ختم شد۔‘‘

حافظ ابن حجر ’’ ھدي الساري مقدمۃ فتح الباري‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ تیس ھو الذکر الثني من المعز الذي لم یبلغ حد الضراب‘‘ انتھی ( ھدي الساري ص: ۹۴)

’’ تَیسْ بھیڑ کے نر دو دانتے کو کہتے ہیں جو ابھی افزایشِ نسل کے قابل نہ ہو۔‘‘

زرقانی شرح موطأ امام مالک میں فرماتے ہیں:

’’ ولا یخرج في الصدقۃ تیس، ھو فحل الغنم، أو مخصوص بالمعز، لأنہ لا منفعۃ فیہ لدر ولا نسلٍ، وإنما یؤخذ في الزکاۃ ما فیہ منفعۃ للنسل، قالہ الباجي‘‘ انتھی ( شرح الزرقاني ۲ ؍۱۵۵)

’’ یعنی جانوروں اور بھیڑوں کے نر کو تیس کہتے ہیں۔ چونکہ اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے کہ اس سے نہ دودھ حاصل ہوتا ہے اور نہ نسل کی افزایش ہوتی ہے، اس لیے اسے زکات میں دینے سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ زکات صرف مفید چیز کی صورت میں نکالی جاتی ہے۔ یہ قول امام باجی کا ہے۔ ختم شد۔‘‘

 

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مجموعہ مقالات، و فتاویٰ

صفحہ نمبر 559

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ