سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(57)ھدایۃ النجدین في حکم المعانقۃ والمصافحۃ بعد العیدین

  • 15324
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1664

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ھدایۃ النجدین

في

حکم المعانقۃ والمصافحۃ بعد العیدین

( تنقیح المسائل (مخطوطہ اردو، زیر رقم ۲۲۹ خدا بخش لائبریری پٹنہ، ورق ۶ ب۔ ۸ب) یہ فتویٰ مطبع احسن المطابع محلہ گو بند عطار (پٹنہ) سے چھوٹے سائز کے سولہ صفحات پر شائع ہوا تھا، اس پر سنہ طباعت درج نہیں۔ [ع، ش]

الحمد للہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ محمد وآلہ وأصحابہ وأزواجہ أجمعین۔

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مصافحہ و معانقہ کے بارے میں جو خاص کرکے عیدین میں بعد نماز کے ہوتا ہے؟ اور مصافحہ اور معانقہ کا ایک ہی حکم ہے یا کوئی فرق ہے؟ اور ان دونوں کا کون سا وقت اور موقع ہے؟ جواب اس کا حدیث اور فقہ سے دیا جائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

﴿ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ﴾ (یوسف: ۴۰)   ’’ حکم صرف اللہ عظیم ہی کا چلتا ہے۔‘‘

جاننا چاہیے کہ مصافحہ کرنا وقت ملاقات کے احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ پس جب اور جس وقت دو مسلمان ملاقی ہوں، دونوں بعد سلام کے مصافحہ کریں۔ سنن الترمذی میں ہے:

’’ عن البراء بن عازب قال قال رسول اللہﷺ : ما من مسلمین یلتقیان فیتصافحان إلا غفر لھما قبل أن یتفرقا‘‘ قال الترمذي: ’’ حدیث حسن‘‘ ( سنن الترمذي، رقم الحدیث ۲۷۲۷)

’’ براء بن عازب کے واسطے سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کی علاحدگی سے قبل ان کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔‘‘

’’ وعن حذیفۃ بن الیمان عن النبيﷺ قال : إن المؤمن لقي المؤمن فسلم علیہ، وأخذ بیدہ تناثرت خطایاھما کما تتناثر ورق الشجر۔‘‘ رواہ  الطبراني في الأوسط ، وسندہ حسن۔(المعجم الأوسط ۱؍ ۸۴)

’’ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺ کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: مومن، مومن سے ملاقات کرتا ہے اور اس کو سلام کرتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑتا ہے تو ان دونوں کے گناہ اس طرح سے جھڑتے ہیں، جیسے درخت کے پتے جھڑتے ہیں۔ اس کی روایت طبرانی نے اوسط میں کی ہے اور اس کی سند حسن ہے۔‘‘

’’ وعن سلمان الفارسي أن النبيﷺ قال : (( إن المسلم إذا لقي أخاہ فأخذ بیدہ تحاتت عنھما ذنوبھما کما یتحات الورق عن الشجرۃ الیابسۃ)) رواہ الطبراني بإسناد حسن، قالہ المنذري۔(المعجم الکبیر ۶؍ ۲۵۶) الترغیب والترھیب ۳؍ ۲۹۱)

’’ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے واسطے سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان جب اپنے بھائی سے ملتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑتا ہے تو ان دونوں کے گناہ جھڑتے ہیں، جیسے خشک درخت کے پتے جھڑتے ہیں۔ اس کی روایت طبرانی نے حسن سند کے ساتھ کی ہے، جیسا کہ منذری نے کہا ہے۔‘‘

اور سلام و مصافحہ وقت رخصت کے بھی بعض روایات میں آیا ہے۔

’’ عن أبي ھریرۃ قال قال رسول اللہﷺ : (( إذا انتھی أحدکم إلی المجلس فلیسلم فإذا أراد أن یقوم فلیسلم فلیست الأولٰی بأحق من الآخرۃ )) رواہ أبوداود والترمذي، وحسنہ، والنسائي، ولفظ ابن حبان في صحیحہ : إذا جاء أحدکم إلی المجلس فلیسلم فإن بدا لہ أن یجلس فلیجلس، وإن قام فلیسلم فلیست الأولی بأحق من الآخرہ))۔ (سنن أبي داود، رقم الحدیث (۵۲۰۸) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۷۰۶) سنن النسائي الکبری (۶؍ ۱۰۰) صحیح ابن حبان ۲؍ ۲۴۷)

’’ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مجلس میں جائے تو سلام کہے اور جب مجلس سے کھڑے ہونے کا ارادہ کرے تو بھی سلام کہے، کیونکہ پہلی سلام دوسری سے زیادہ حق دار نہیں ہے۔ اس کی روایت ابوداود اور ترمذی نے کی ہے اور اس کو حسن کہا ہے۔ نسائی نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ صحیح ابن حبان کے الفاظ ہیں کہ جب کوئی شخص مجلس میں آئے تو سلام کرے، جہاں جگہ ملے وہاں بیٹھ جائے اور اگر کھڑا ہو تو سلام کرے، کیونکہ پہلی سلام دوسری سے زیادہ حق دار نہیں ہے۔‘‘ 

’’ وعن ابن مسعود عن النبيﷺ قال : من تمام التحیۃ الأخذ بالید‘‘ رواہ الترمذي ۔ ( سنن الترمذي، رقم الحدیث ۲۷۳۰)

’’ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺ کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: مکمل سلام و تحیہ ہاتھ کا پکڑنا ہے۔ اس کی روایت ترمذی نے کی ہے۔‘‘ 

اور معانقہ کرنا حضر میں ثابت نہیں، بلکہ منع ہے، ہاں جو سفر سے آئے، اس سے معانقہ کرنا مستحب ہے اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔

’’ عن أنس قال قال رجل: یا رسول اللہﷺ الرجل منایلقی أخاہ أو صدیقہ أینحني لہ؟ قال : لا، قال : أفیلتزمہ ویقبلہ؟ قال: لا، قال: فیأخذ بیدہ و یصافحہ؟ قال: نعم‘‘ رواہ الترمذي وابن ماجہ، قال الترمذي: ’’ ھذا حدیث حسن‘‘ ( سنن الترمذي، رقم الحدیث ۲۷۲۸، سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث ۳۷۰۲)

’’ انس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول: ہم میں سے کوئی اپنے بھائی یا دوست سے ملتا ہے تو کیا وہ اس سے جھک کر ملے؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں۔ اس نے پوچھا: کیا وہ اس کو چمٹا لے اور اس کا بوسہ لے؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں۔ پھر اس نے پوچھا کہ اس کا ہاتھ پکڑے اور مصافحہ کرے؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں۔ اس کی روایت ترمذی اور ابن ماجہ نے کی ہے۔ ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔‘‘

’’ وعن عائشۃ قالت: قدم زید بن حارثۃ المدینۃ، ورسول اللہﷺ في بیتي، فأتاہ فقرع الباب، فقام إلیہ رسول اللہﷺ عریانا یجر ثوبہ، واللہ ما رأیتہ لا قبلہ ولا بعدہ عریانا فاعتنقہ وقبلہ۔‘‘ رواہ الترمذي۔ ( سنن الترمذي، رقم الحدیث ۲۷۳۲)

’’ عائشہ رضی اللہ عنہا کے واسطے سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا: زید بن حارثہ مدینے آئے تو رسول اللہﷺ میرے گھر میں تھے، وہ میرے گھر آئے اور دستک دی تو رسول اللہﷺ اسی حالت میں اپنے کپڑے کو گھسیٹتے ہوئے کھڑے ہو کر ان کے پاس گئے۔ بخدا میں نے اس کے پہلے یا اس کے بعد آپﷺ کو اس حالت میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ آپﷺ نے ان کو گلے لگایا اور ان کا بوسہ لیا۔ اس کی روایت ترمذی نے کی ہے۔‘‘

’’ وعن أنس قال : کان أصحاب النبيﷺ إذا تلاقوا تصافحوا وإذا قدموا من سفر تعانقوا‘‘ رواہ الطبراني، قال المنذري في الترغیب: ’’ ورواتہ کلھم محتج بھم في الصحیح۔‘‘ (المعجم الأوسط ۱؍ ۳۷، الترغیب والترھیب ۳؍ ۲۹۰)

’’ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے روایت ہے کہ اصحاب نبیﷺ جب آپس میں ملتے تو مصافحہ کرتے اور جب سفر سے لوٹتے تو معانقہ کرتے۔ اس کی روایت طبرانی نے کی ہے اور مندری نے ’’الترغیب‘‘ میں کہا ہے کہ اس کے تمام راوی صحیح میں حجت پکڑے گئے ہیں۔‘‘

امام نووی نے شرح صحیح مسلم اور کتاب الاذکار میں لکھا ہے:

’’ والمعانقۃ وتقبیل الوجہ لغیر القادم من سفر ونحوہ مکروھان، نص علی کراھتھما أبو محمد البغوي‘‘ انتھی ( شرح صحیح مسلم للنووي ۱۵؍ ۱۹۳، الأذکار ص: ۳۳۶)

’’ ایسے شخص کا معانقہ اور چہرے کا بوسہ لینا جو سفر وغیرہ سے واپس نہیں آرہا ہو، مکروہ ہے۔ اس کی کراہت کی صراحت ابو محمد بغوی نے کی ہے۔ ختم شد۔‘‘ 

وھکذا قال الطیبي في شرح المصابیح، وعلي القاري في المرقاۃ شرح المشکاۃ۔ ( شرح الطیبي ۱۰؍ ۳۰۵۹، مرقاۃ المفاتیح ۴۶۷۷)

’’ ایسی ہی بات طیبی نے ’’ شرح المصابیح‘‘ میں کہی ہے اور ’’المشکاۃ‘‘ کی شرح ’’المرقاۃ‘‘ میں علی القاری نے کہی ہے۔‘‘

اور شیخ عبدالحق دہلوی، شرح فارسی مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں:

’’ مختار مذہب ہمیں است کہ معانقہ و تقبیل در قدوم از سفر جائز است بے کراہت۔‘‘ انتھی ( أشعۃ اللمعات ۴؍ ۲۵)

’’ پسندیدہ مسلک یہ ہے کہ سفر سے آتے وقت بوسہ اور معانقہ بغیر کراہت کے جائز ہے۔‘‘

اور فتاویٰ قاضی خان میں ہے:

’’ یکرہ المعانقۃ‘‘ انتھی ( فتاویٰ قاضی خان ۱؍ ۱۰۰)

’’ معانقہ مکروہ ہے۔ ختم شد۔‘‘ 

اور مدخل شیخ ابن الحاج مالکی میں ہے:

’’ وأما المعانقۃ فقد کرھھا مالک۔‘‘ انتھی ( المدخل لابن الحاج ۲؍ ۲۸۸)

’’ رہا معانقہ تو اس کو مالک نے مکروہ کہا ہے۔‘‘

پس علماء حنفیہ و شافعیہ و مالکیہ کے نزدیک معانقہ کرنا ایسے شخص سے جائز ہے، جو کہ سفر سے آتا ہو اور سوائے اس کے مکروہ ہے۔

باقی رہا مصافحہ و معانقہ بعد نماز عیدین کے، پس اس کا جواب یہ ہے کہ معانقہ و مصافحہ کرنا بعد نماز عیدین کے ناجائز و بدعت ہے اور یہ بدعت اگرچہ مدت قدیمہ سے جاری ہے، مگر زمانہ قرون ثلاثہ میں اس کا وجود نہیں تھا، بعد قرون ثلاثہ کے یہ بدعت حادث ہوئی ہے۔ اور لوگوں کی یہ حالت ہے کہ مصلیٰ یا مسجد میں عیدین کے دن نماز کے لیے جمع ہوتے ہیں اور سارے لوگ ایک جا موجود رہتے ہیں اور ایک کو دوسرے سے ملاقات ہوتی ہے، مگر وقت ملاقات کے سلام اور مصافحہ کچھ بھی نہیں کرتے، گویا وقت ملاقات کے یہ مسنون ہی نہیں ہے، پھر جہاں نماز سے فرصت ہوئی، ہر شخص نے مصافحہ یا معانقہ کرنا شروع کیا، گویا وقت مسنون اب آیا اور اس مصافحہ و معانقہ کو لوگ سنت صلوٰۃ عیدین کی سمجھتے ہیں۔ پس یہ مصافحہ و معانقہ جو اس خصوصیت کے ساتھ بعد نماز عیدین کے ہوتا ہے، بلاشک بدعت و محدث فی الدین ہے۔ اور معانقہ کا حال تو اوپر معلوم ہوا کہ وقت قدوم مسافر کے مسنون ہے اور سوائے اس کے مکروہ ہے۔ پس معانقہ بعد صلوۃ العیدین یہ بھی مکروہ ہوگا اور اس تخصیص کے ساتھ علاوہ کراہت کے بدعت بھی ہوگا۔

شیخ احمد بن علی حنفی رومی نے ’’ مجالس الأبرار و مسالک الأخیار‘‘ میں لکھا ہے:

’’ المجلس الخمسون في بیان المصافحۃ وفوائدھا وبدعیتھا في غیر محلھا۔ قال قال رسول اللہﷺ : (( ما من مسلمین یلتقیان فیتصافحان إلا غفر لھما قبل أن یتفرقا) فیثبت شرعیۃ المصافحۃ عند لقاء المسلم لأخیہ فینبغي أن توضع حیث وضعھا الشرع۔ أما في غیر حال الملاقاۃ مثل کونھا عقیب صلوۃ الجمعۃ والعیدین کما ھو العادۃ في زماننا فالحدیث ساکت عنہ فیبقی بلا دلیل، وقد تقرر في موضعہ أن ما لا دلیل علیہ فھو مردود لا بجوز التقلید فیہ، بل یردہ ما روي عن عائشۃ أنہ علیہ السلام قال : (( من أحدث في أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد)) أي مردود۔ فإن الاقتداء لا یکون إلا بالنبي علیہ السلام، إذ قال اللہ تعالی: ﴿ وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا ﴾  ( الحشر: ۷) وقال فی آیۃ أخری: ﴿ فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِيْبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ يُصِيْبَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ﴾   (النور: ۶۳) علی أن الفقھاء من الحنفیۃ والشافعیۃ والمالکیۃ صرحوا بکراھتھا وکونھا بدعۃ۔‘‘ (خزینۃ الأسرار ترجمۃ مجالس الأبرار ص: ۳۱۶)  

’’ یعنی اور بدون وقت ملاقات کے جیسے بعد نماز جمعہ اور عیدین کے جو اس زمانے میں عادت جاری ہے، سو حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ پس یہ بلا دلیل ہے اور اپنی جگہ میں یہ ثابت ہے کہ جس امر کی کچھ دلیل نہیں ہوتی تو وہ مردود ہوتا ہے، اس میں پیروی جائز نہیں۔ بلکہ یہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے ہی رد ہوتا ہے کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا جس نے کچھ نئی بات نکالی ہمارے اس دین میں جو دین سے نہیں ہے سو وہ سب رد ہے۔ یعنی مردود ہے، کیونکہ پیروی سوائے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کسی کی نہیں۔ اس واسطے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’ اور جو دے تم کو رسول لے لو اور جس سے منع کرے اس کو چھوڑ دو‘‘ اور ایک آیت میں فرمایا:’’ سو ڈرتے رہیں جو لوگ خلاف کرتے ہیں اس کے حکم کا، کہ پڑے ان پر کچھ خرابی یا پہنچے ان کو عذاب درد دینے والا‘‘۔ علاوہ یہ ہے کہ فقہا حنفی اور شافعی اور مالکی مذہبوں نے اس مصافحہ کو صاف مکروہ کہا ہے اور بدعت بتایا ہے۔

قال في الملتقط: ’’ یکرہ المصافحۃ بعد الصلوۃ بکل حال، لأن الصحابۃ ما صافحوا بعد الصلوۃ، ولأنھا من سنن الروافض۔‘‘(دیکھیں: ردالمحتار ۶؍ ۳۸۱)

’’ ملتقط میں ہے کہ مصافحہ بہرحال نماز کے بعد مکروہ ہے، اس واسطے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے نماز کے بعد مصافحہ نہیں کیا اور اس لیے کہ یہ طریقہ رافضیوں کا ہے۔‘‘

وقال ابن حجر من الشافعیۃ: ’’ ما یفعلہ الناس من المصافھۃ عقیب الصلوات الخمس بدعۃ ممکروھۃ، لا أصل لھا في الشعریۃ المحمدیۃ، ینبہ فاعلھا أولا بأنھا بدعۃ مکروھۃ، ویعزر ثانیا إن فعلھا۔‘‘

’’ ابن حجر مکی شافعی نے کہا ہے کہ یہ جو لوگ پنج گانہ نمازوں کے بعد مصافحہ کیا کرتے ہیں، بدعت مکروہہ ہے، شریعت محمدیہ ﷺ میں اس کی کچھ اصل نہیں۔ مصافحہ کرنے والے کو پہلے بتلانا چاہیے کہ یہ بدعت مکروہ ہے اور اگر ترک نہ کرے تو پھر تعزیر دینی چاہیے۔‘‘

وقال ابن الحاج من المالکیۃ في المدخل: ’’ ینبغي أن یمنع الإمام ما أحدثوہ من المصافحۃ بعد صلوۃ الصبح، وبعد صلاۃ الجمعۃ، وبعد صلوۃ العصر، وبل زاد بعضھم فعل ذلک بعد الصلوات الخمس، وذلک کلہ من البدع، وموضع المصافحۃ فی الشرع إنما ھو عند لقاء المسلم لأخیہ لا في أدبار الصلٰوت، فحیث وضعھا الشرع یضعھا، وینھی عنھا ویزجر فاعلھا لما أتی من خلاف السنۃ، وھذا التصریح منھم یشعر بالإجماع فلا یجوز المخالفۃ، بل یلزم الاتباع لقولہ تعالیٰ: ﴿ وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُ الْہُدٰى وَيَتَّبِـعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ۰ۭ وَسَاءَتْ مَصِيْرًا﴾ (النساء: ۱۱۵) ولو لم یصرح الفقھاء بکراھتھا بل کانت مباحۃ في نفسھا لحکمنا في ھذا الزمان بکراھتھا، إذا واظب علیھا الناس، واعتقدوھا سنۃ لازمۃ بحیث لا بجیزون ترکھا، حتی وصل إلینا من بعض من اشتھر بالعلم أنہ قال : ھي من شعائر الإسلام، فکیف یترکھا من کان من أھل الإیمان؟ فانظروا یا أھل الإنصاف إذا کان اعتقاد الخواص ھکذا فاعتقاد العوام ماذا یکون؟ وکل مباح أدی إلی ھذا فھو مکروہ۔‘‘ انتھی (المدخل ۲؍ ۲۱۹)

’’ اور ابن الحاج مالکی نے مدخل میں لکھا ہے: امام کو لازم ہے کہ مصافحہ سے جو بعد نماز صبح کے اور بعد نماز جمعہ کے اور بعد نماز عصر کے منع کردے، بلکہ پنجگانہ نماز کے بعد کرنے لگے ہیں، یہ تمام بدعت ہے، کیونکہ شرع میں مصافحہ کا مقام صرف وقت ملاقات مسلم کا ہے بھائی مسلمان سے، نمازوں کے بعد نہیں ہے۔ پھر جس جگہ شرع نے مقرر کیا ہے اسی جگہ قائم رکھنا چاہیے، اور مصافحہ سے منع کرنا چاہیے اور مصافحہ کرنے والوں کو زجر کرنا چاہیے جبکہ خلافِ سنت کرنے لگیں۔ اور ان کی اس تصریح سے اجماع معلوم ہوتا ہے، جس کی مخالفت جائز نہیں ہے، بلکہ اتباع لازم ہے، واسطے قول اللہ تعالیٰ کے: ’’ اور جو کوئی مخالفت کرے رسول کی جب کھل چکی اس پر راہ کی بات اور چلے خلاف سب مسلمانوں کی راہ سے، سو ہم اس کو حوالہ کریں جو اس نے پکڑے اور ڈالیں اس کو دوزخ میں، اور بہت بری جگہ پہنچا‘‘۔ اور اگر فقہا اس مصافحہ کو صاف مکروہ نہ کہتے، بلکہ فی نفسہ مباح ہوتا تو بھی ہم اس زمانے میں کراہت کا حکم کرتے۔ اس لیے کہ لوگ اس پر جم گئے ہیں، اور اسے سنت لازمہ جانتے ہیں کہ اس کا ترک کرنا جائز نہیں رکھتے۔ یہاں تک کہ ہم کو یہ خبر پہنچی ہے ایک شخص سے جو صاحب علم مشہور ہے، کہتا ہے کہ یہ مصافحہ اسلام کی نشانیوں میں سے ہے، جو ایمان والا ہے اس کو کیوں کر چھوڑ سکتا ہے؟ اب اے انصاف والو! دیکھو تو جب خواص کا یہ اعتقاد ہو تو عوام کا کیا ہوگا؟ اور جو امر مباح اس نوبت کو پہنچ جائے تو پھر وہ بھی مکروہ ہے۔‘‘ 

اور کہا حافظ ابن القیم نے ’’ إغاثۃ اللھفان‘‘ میں:

’’ إن العمل إذا جری علی خلاف السنۃ فلا اعتبار بہ، ولا التفات إلیہ، وقد جری العمل علی خلاف السنۃ منذ زمن طویل فإذن لا بدلک أن تکون شدید التوقي من محدثات الأمور، وإن اتفق علیہ الجمھور، ولا یغرنک إطباقھم ما أحدث بعد الصحابۃ بل ینبغي لک أن تکون حریصا علی التفتیش عن أحوالھم وأعمالھم فإن أعلم الناس وأقربھم إلی اللہ تعالی أثبتھم وأعرفھم بطریقھم إذ منھم أخذ الدین، وھم الحجۃ في نقل الشریعۃ عن صاحب الشرع، ینبغي لک أن لا تبال بمخالفتک لأھل عصرک في موافقتک لأھل عصر النبي علیہ الصلوۃ والسلام۔‘‘

’’ یعنی عمل جب خلاف سنت ہونے لگتا ہے تو اس کا کچھ اعتبار نہیں اور نہ اس کی طرف کچھ التفات ہے۔ اور بے شک عمل برخلاف سنت مدت دراز سے جاری ہو رہا ہے، سو اب تجھ کو ضرور ہے کہ محدثات یعنی نئی نئی باتوں سے بہت ہی ڈرتا رہے، اگرچہ اس پر جمہور متفق ہوگئے ہوں۔ سو تجھ کو ان کا اتفاق نئے امور پر جو بعد صحابہ کے ہوگئے ہیں، فریب نہ دیدے، بلکہ تجھ کو یہ لائق ہے کہ بہ حرص تمام ان کے احوال و اعمال کو ڈھونڈتا رہے۔ کیونکہ تمام لوگوں میں بڑا عالم اور بڑا مقرب خدا تعالیٰ کا وہ ہے جو صحابہ سے بہت مشابہ اور ان کے طریقے سے خوب واقف ہے، کیونکہ دین ان ہی سے حاصل ہوا ہے اور نقل شریعت میں وہی اصل ہیں۔ سو تجھ کو لائق ہے کہ اس کی کچھ پرواہ نہ کرے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے موافقت کرنے میں اپنے زمانے کے لوگوں سے مخالفت ہوگی۔‘‘

اور ’’ رد المحتار حاشیۃ در مختار‘‘ میں ہے:

’’ ونقل في تبیین المحارم عن الملتفط أنہ تکرہ المصافحۃ بعد أداء الصلوات بکل حال لأن الصحابۃ رضي اللہ عنھم ما صافحوا بعد أداء الصلوۃ، ولأنھا من سنن الروافض۔‘‘ انتھی (ردالمحتار ۶؍ ۳۸۱)

’’ تبیین المحارم میں ملتقط کے واسطے سے منقول ہے کہ نماز ادا کرنے کے بعد مصافحہ کرنا مکروہ ہے، کیونکہ صحابہ کرام نے نماز ادا کرنے کے بعد مصافحہ نہیں کیا اور اس لیے بھی کہ یہ (مصافحہ) روافض کی سنتوں میں سے ہے۔ ختم شد۔‘‘ 

اور شیخ عبدالحق نے ترجمہ مشکوٰۃ میں لکھا ہے:

’’ آنکہ بعضے مردم مصافحہ میکنند بعد از نماز یا بعد از نماز جمعہ چیزے نیست و بدعت است از جہت تخصیص وقت‘‘ انتہی ( أشعۃ اللمعات ۴؍ ۲۲)

’’ جو لوگ نماز کے بعد یا نماز جمعہ کے بعد مصافحہ کرتے ہیں، یہ دین میں نہیں ہے اور وقت کی تخصیص کی وجہ سے بدعت ہے۔‘‘

اور کتاب مدخل شیخ ابن الحاج مالکی کی جلد دوم ’’ فصل في المصافحۃ خلف الصلٰوۃ‘‘ میں اس کی پوری بحث ہے اور عبارت اس کی اوپر گزری۔ اور بھی مدخل دوم ’’ فصل في سلام العیدین‘‘ میں ہے:

’’ وأما المعانقۃ فقد کرھھا مالک، وأجازھا ابن عیینۃ، أعني عند اللقاء من غیبۃ کانت، وأما في العیدین لمن ھو حاضر معک فلا، وأما المصافحۃ فإنھا وضعت في الشرع عند لقاء المؤمن لأخیہ، وأما في العیدین علی ما اعتادہ بعضھم عند الفراغ من الصلاۃ یتصافحون فلا أعرفہ۔‘‘ انتھی (المدخل ۲؍۲۸۸)

’’ رہا معانقہ تو اس کو مالک نے مکروہ قرار دیا ہے اور ابن عینیہ نے جائز قرار دیا ہے، یعنی اس وقت جب کہ غیابت کے بعد ملاقات ہو۔ رہا عیدین کے موقع پر معانقہ، تو اس شخص سے جو تمہارے ساتھ نماز میں شریک تھا تو یہ جائز نہیں، کیونکہ شرع نے ایک مومن کے اپنے بھائی سے ملاقات کے وقت کے لیے مصافحہ مشروع کیا ہے اور عیدین کے موقع پر جیسا کہ بعض لوگوں کی عادت ہے کہ نماز سے فراغت کے بعد مصافحہ کرتے ہیں، تو اس سلسلے میں کوئی دلیل میں نہیں جانتا۔ ختم شد۔‘‘

یعنی معانقہ و مصافحہ بعد صلوٰۃ عیدین کے اس کی اصلیت ہم شرع سے نہیں پہچانتے ہیں۔ پھر علامہ ابن الحاج نے بعض علماء فاس ملک مغرب کا حال لکھا کہ

’’ أنھم کانو إذا فرغوا من صلاۃ العید صافح بعضھم بعضا۔‘‘

’’ وہ لوگ جب عید کی نماز سے فارغ ہوتے تو ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے۔‘‘ 

اس کے بعد علامہ ابن الحاج نے ان لوگوں کے اس فعل کو رد کیا اور فرمایا:

’’ فإن کان یساعدہ النقل عن السلف فیا حبذا، وإن لم ینقل عنھم فترکہ أولی۔‘‘ (مصدر سابق)

’’ اگر اس عمل کو سلف کے عمل سے تقویت ملتی ہے تو بہت مبارک ہے، لیکن اگر سلف سے اس بابت کچھ منقول نہیں ہے تو اس کا ترک کردینا اولیٰ ہے۔‘‘

یعنی ان علماءِ فاس کے اس عمل کا ثبوت سلف صالحین صحابہ و تابعین سے ہو تو بہت بڑی عمدہ بات ہے اور اگر ثابت نہ ہو تو اس کو چھوڑ ہی دینا بہتر ہے۔ اور اوپر معلوم ہوا کہ اس فعل کا ثبوت نہیں ہے، پس یہ فعل بدعت ہے اور عمل علماءِ فاس حجت نہیں ہے اور اوپر حافظ ابن القیم کی عبارت سے معلوم ہوا کہ جب عمل خلاف سنت ہونے لگتا ہے تو اس کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔

پس حاصل کلام یہ ہوا کہ مصافحہ و معانقہ عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز کے بعد بدعت ہے۔

 

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مجموعہ مقالات، و فتاویٰ

صفحہ نمبر 468

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ