سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(33)زکات کی رقم مدرسے میں دینا

  • 15260
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 5455

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اموالِ زکوٰۃ مفروضہ میں سے مدرسۃ العلوم میں دینا بایں طور کہ نقد روپیہ یا کتب حوالہ مہتمان مدرسہ کے کیا جاوے کہ وہ لوگ داخل مدرسہ کرکے نفقہ طلبا و مشاہرہ مدرسین و دیگر مصارف مدرسہ میں صرف کریں اور وہ کتب درس و تدریس میں رہیں۔ از روئے کتاب اللہ تعالیٰ و سنتِ رسول اللہﷺ جائز ہے یا نہیں؟ ائمہ حنفیہ کا اس باب میں کیا مسلک ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حسب تصریح فقہائے حنفیہ اموال زکوٰۃ میں تملیک شرط ہے، یعنی اس مال کو کسی اہل مصرف زکوٰۃ کی ملک گردانے، اس لیے بنائے مساجد و تکفین اموات میں اموال زکوٰۃکو صرف کرنے  سے عند الاحناف زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔

ہدایہ میں ہے:

’’ ولا یبنی بھا مسجد ، ولا یکفن بھا میت، لانعدام التملیک، وھوالرکن، ولا یقضی بھا دین میت، لأن قضاء دین الغیر لا یقتضي التملیک منہ ، لا سیما في المیت ‘‘ انتھی ( الھدایۃ، ص: ۱۱۰) 

’’ اس رقم سے مسجد بنائی جائے گی نہ میت کی تکفین کی جائے گی، کیونکہ یہاں ملکیت ثابت نہیں ہے، جب کہ ملکیت کا ثبوت اہم رکن ہے اور نہ اس کے ذریعہ میت کا قرض چکایا جائے گا، کیونکہ دوسرے کے قرض کو ادا کرنا اس کی جانب سے تملیک ثابت نہیں کرتے بالخصوص میت کے لیے۔‘‘

اور ’’ فتح القدیر شرح الھدایۃ ‘‘ میں ہے:

’’ قولہ : لا نعدام التملیک ، وھو الرکن : فإن اللہ تعالی سماھا صدقۃ، وحقیقیۃ الصدقۃ تملیک المال من الفقیر ، وھذا في البناء ظاھر ، وکذافي التکفین ، لأنہ لیس تملیکا للکفن من المیت ‘‘ انتھی ( فتح القدیر ۲؍ ۲۶۷)

’’ یہ قول کہ تملیک نہیں پائی جاتی، جو اہم رکن ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو صدقے کا نام دیا ہے اور صدقے کی حقیقت فقیر کو مال کا مالک بنانا ہے۔ یہ چیز تعمیر میں ظاہر ہے، ایسا ہی معاملہ تکفین کے سلسلے میں ہے، کیونکہ تکفین میں میت کو کفن کا مالک نہیں بنایا جاتا۔ ختم شد‘‘

’’ البنایۃ في شرح الھدایۃ للعیني ‘‘  میں ہے:

’’ لا یبنی بالزکوۃ مسجد، لأن الرکن في الزکوٰۃ التملیک … (وھو الرکن) وکذا لا تبنی بھا القناطر والسقایات، ولا یحفر بھا الآبار، ولا تصرف في إصلاح الطرقات وسدالثغور ، ونحو ذلک مما لا یملک فیہ‘‘ انتھی ( البنایۃ في شرح الھدایۃ ۳ ؍ ۴۶۲)

’’ زکات کے مال سے مسجد تعمیر نہیں کی جاسکتی، کیونکہ زکات کا اہم رکن فقیر کو مال کا مالک بنانا ہے اور یہ چیز اس میں نہیں پائی جاتی اور نہ اس سے میت کی تجہیز و تکفین کی جاسکتی ہے، کیونکہ یہاں بھی میت کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی، جو ایک رکن ہے۔ اسی طرح سے پل نہیں بنائے جاسکتے اور نہ کنویں کھودے جاسکتے ہیں۔ سڑکوں کی مرمت و درستی اور سرحدوں کی حفاظت وغیرہ کے کام بھی زکات سے نہیں کیے جاسکتے، کیونکہ ان سے تملیک ثابت نہیں ہوتی۔ ختم شد‘‘

اور ’’ البحر الرائق‘‘ میں ہے:

’’ ولا تدفع إلی بناء مسجد  ، وتکفین میت، وقضاء دینہ، وشراء قن یعتق، وعدم الجواز لا نعدام التملیک الذي ھو الرکن في الأربعۃ … والحیلۃ في الجواز في ھذہ الأربعۃ أن یتصدق بمقدار زکاتہ علی فقیر، ثم یأمرہ بعد ذٰلک بالصرف إلی ھزہ الوجوہ ، لیکون لصاحب المال ثواب الزکاۃ ، وللفقیر ثواب ھذہ القرب، کذافي المحیط، وأشار المصنف إلی أنہ لو أطعم یتیما بنیتھا لا یجزئہ ، لعدم التملیک ، إلا إذا دفع لہ الطعام کالکسوۃ إذا کان یعقل القبض وإلا فلا‘‘ انتھی (البحر الرائق ۲ ؍ ۲۶۱)

’’ مسجد کی تعمیر کے لیے زکات کی رقم دی جائے گی نہ میت کی تجہیز و تکفین کے لیے، اور نہ اس کے قرض کی ادائی کے لیے اور نہ غلام کو خرید کر آزاد کرنے کے لیے، کیوں کہ یہ جائز نہیں ہے، اس لیے کہ ان چاروں ہی صورتوں میں فقیر اور مسکین کو مال کا مالک بنانے کی کیفیت نہیں پائی جاتی ہے، جس کا ہونا ان چاروں ہی میں رکن ہے۔ ان چاروں معاملات میں زکات کا مال خرچ کرنے کا حیلہ یہ ہے کہ اپنے مال کی زکات کسی فقیر کو دیدے، پھر وہ زکات دینے والا مال دار شخص اس فقیر شخص سے کہے کہ وہ فقیر اس مال کو ان چاروں معاملات پر یا ان میں سے کسی ایک پر خرچ کردے۔ اس طرح مال دار شخص کو زکات دینے کا ثواب مل جائے گا اور فقیر شخص کو ان چاروں معاملات میں خرچ کرنے کا ثواب حاصل ہو جائے گا۔ یہ بات اسی طرح المحیط (نامی کتاب)  میں لکھی ہوئی ہے۔ مصنف نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر اس نے زکات دینے کی نیت سے کسی یتیم بچے کو کھانا کھلا دیا تو اس طرح کرنے سے زکات ادا نہیں ہوگی، کیونکہ اس میں یتیم بچے کو مال کا مالک نہیں بنایا گیا سوائے اس کے کہ اگر اس نے اس کے لیے کھانے کو کپڑوں کی مانند پیش کردیا، بشرطیکہ وہ یتیم بچہ مال کا مالک بننے کی حقیقت کو سمجھتا ہو، ورنہ نہیں۔ ختم ہوا۔‘‘

اور بھی ’’ البنایۃ في شرح الھدایۃ ‘‘ میں ہے:

’’ ویجمع فی بیت المال من الأموال أربعۃ أنواع : منھا الصدقات ، وھي زکوٰۃ السوائم والعشور ، وما أخذہ العاشر من المسلمین الذین یمرون علیہ من التجار ، ونوع آخر : ما أخذ من خمس الغنائم والمعدن والرکاز ، ویصرف ھذین النوعین في الأصناف التي ذکرھا اللہ في کتابہ ، وھو قولہ  : ﴿  اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ … ﴾  الآیۃ ، وقولہ تعالی : ﴿  وَاعْلَمُوْا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ …﴾ الآیۃ ، فیصرف الیوم إلی ثلاثۃ أصناف : الیتامی والمساکین وابن السبیل ، والنوع الثالث : ھو الخراج والجزیۃ ، وما صولح علیہ مع بني نجران من الحلل ومع بني تغلب من الصدقۃ المضاعفۃ ، وما أخذ العاشر من المستأمن من أھل الحرب ، وما أخذ من تجار أھل الذمۃ ، تصرف ھذہ في عمارۃ الرباطات و القناطیر والجسور وسد الثغور وکری الأنھار العظام التي لا ملک لأحد فیھا کجیحون والفرات ودجلۃ ، یصرف إلی أرزاق القضاۃ وأرزاق الولاۃ المحتسبین والمعلمین والمقاتلۃ و أرزاق المقاتلۃ ، ویصرف إلی رصد الطریق في دار الإسلام عن اللصوص وقطاع الطریق ، والنوع الرابع : ما أخذ من ترکۃ المیت الذي مات ولم یترک وارثا أو ترک زوجا أو زوجۃ ، فمصرف ھذا نفقۃ المرضی في أدویتھم وعلاجھم ، وھم فقراء ، وکفن الموتی الذین لا مال لھم ، ونفقۃ اللقیط ، وعقل جنایۃ ، ونفقۃ من ھو عاجز من الکسب ، ولیس لہ من یقضي علیہ في نفقتہ وما أشبہ ذلک‘‘ انتھی کلامہ مختصرا ( البنایۃ ۳ ؍ ۴۶۰)

’’بیت المال میں چار طرح کے اموال جمع کیے جائیں گے۔ ان میں سے ایک قسم صدقات کی ہے۔ یہ چرنے والے جانوروں اور عشر کی زکات ہے، جو عشر جمع کرنے والے نے مسلمان تاجروں سے حاصل کیا ہے۔ دوسری قسم: غنائم، معادن اور دفینے کا خمس ہے۔ ان دونوں طرح کے اموال کو زکات کے ان آٹھ مستحقین پر خرچ کیا جائے گا، جن کاتذکرہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’’صدقات  صرف فقرا کے لیے ہیں …‘‘ (التوبہ: ۶۰) نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’ اور جان لو کہ تم لوگوں نے مال غنیمت میں جو کوئی بھی چیز حاصل کی ہے…‘‘ (الانفال: ۴۱)  تو آج تین اصناف میں انھیں خرچ کیا جائے گا۔ یعنی یتامیٰ، مساکین اور مسافروں پر۔ تیسری قسم خراج اور جزیہ ہے اور بنی نجران سے جن چیزوں پر مصالحت ہوئی تھی اور بنی تغلب کے ساتھ جس دوگنا صدقے پر مصالحت ہوئی تھی اور جو کچھ غیر مسلم معاہدین سے اور ذمی تاجروں سے وصول کیا جائے گا۔ یہ اموال دفاع، پل اور تعمیرات، سڑکوں کی درستی، بڑی بڑی نہروں کو کرائے پر اٹھانا، جو کسی ایک کی ملکیت نہیں ہے، جیسے جیحون ، فرات ، دجلہ کی نہریں، نیز یہ اموال قضات، ولات، محتسبین، معلمین اور مجاہدین کی تنخواہوں پر خرچ کیے جائیں گے۔ چوروں اور ڈاکوؤں سے دارالاسلام کے راستوں کو محفوظ رکھنے کے انتظامات پر صرف کیے جائیں گے۔ چوتھی قسم وہ اموال جو میت کے ترکے سے لیے جائیں گے، جس کا انتقال ہوگیا ہو اور اس کا کوئی وارث نہ ہو یا اس نے صرف شوہر یا بیوی چھوڑی ہو۔ تو اس کے مال کا مصرف اس کے علاقے کے فقرا، مریضوں پر خرچ کرنا اور ان کا علاج کرنا ہے اور ایسے مردوں کی تدفین کا انتظام کرانا ہے جو مال چھوڑ کر نہ مرے ہوں، لقیط کا خرچہ، قتل کی دیت اور اس شخص کا خرچہ جو روزی کمانے سے عاجز ہو اور اس کا کوئی ایسا مددگار نہ ہو جو اس کے اخراجات کا بار اٹھا سکے اور اس سے ملتی جلتی صورتیں۔ ان کا کلام ختم ہوا۔‘‘

لیکن یہ مسلک ائمہ احناف کا کہ ’’ صدقہ میں تملیک رکن اعظم ہے‘‘ مضبوط و مدلل بالدلائل القویہ ثابت نہیں ہے، بچند وجوہ:

اول : یہ کہ ائمہ احناف کے کلام میں خود تعارض ہے۔ ایک جگہ تو اثبات تملیک کرتے ہیں۔ بایں عبارت کہ :

’’ إن اللہ تعالی سماھا صدقۃ ، وحقیقۃالصدقۃ تملیک المال للفقیر‘‘  (فتح القدیر ، ۲؍ ۲۶۷)

’’ یعنی اللہ نے اس کا نام صدقہ رکھا ہے اور صدقے کی حقیقت فقیر کو مال کا مالک بنا دینا ہے۔‘‘

’’ وقالوا : ولا بینی بھا مسجد لا نعدام التملیک وھو الرکن‘‘(الھدایۃ ، ص: ۱۱۰)

’’ اور انھوں نے کہا ہے کہ اس رقم سے مسجد تعمیر نہیں کی جائے گی کیوں کہ وہاں تملیک پائی نہیں جاتی جو اہم ترین رکن ہے۔‘‘

اور دوسری جگہ ائمہ احناف نے تملیک کی نفی کی ہے۔ اور قولہ تعالیٰ : ﴿  اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ …﴾ ( التوبۃ: ۶۰) میں جو لام ہے، امام شافعی اس کو لام تملیک کہتے ہیں۔ اس کی ائمہ احناف تردید کرتے ہیں اور اس کو لام اختصاص قرار دیتے ہیں۔ عینی کی شرح ہدایہ میں ہے:

’’ ( م) [ ولنا أن الإضافۃ ] (ش) أي إضافۃ الصدقات إلیھم (م) [ لبیان أنھم مصارف ] (ش ) وأن تصیر العاقبۃ لھم (م) [ لا لإثبات الاستحاق] (ش) لأن المجھول لا یصلح مستحقا ، واللام للاختصاص لا للملک کما یقال : الجل للفرس ، ولا ملک لہ ، وکان المراد اختصاصھم بالصرف إلیھم ، ومعاني اللام ترتقي إلی أکثر من عشرۃ ، ولکن أصلھا للاختصاص ، ولم یذکر الزمخشري في المفصل غیر الاختصاص لعمومہ ، فقال : اللام للاختصاص ، کقولک: المال لزید ، والسرج للدابۃ ، واللام في الآیۃ للاختصاص، یعني أنھم مختصون بالزکاۃ ، ولا تکون لغیرھم، کقولھم : الخلافۃ لقریش ، والسقایۃ لبني ھاشم ، أي لا یوجد ذلک في غیرھم ، ولا یلزم أن تکون مملوکۃ لھم ، فتکون اللام لبیان محل صرفھا، وأیضا الفقراء والمساکین لا یحصون لکثرتھم ، فکانوا مجھولین، والتملیک من المجھول محال‘‘ (البنایۃ شرح الھدایۃ ۳ ؍ ۴۵۹)

’’ ہماری دلیل یہ ہے کہ صدقات کی اضافت ان کی جانب اس بات کو بیان کرنے کے لیے ہے کہ وہ زکات وصول کرنے اور اسے استعمال کرنے کے حق دار ہیں اور مال کو بالآخر ان ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ استحقاق کو ثابت کرنے کے لیے نہیں ہے، کیونکہ مجہول مستحق نہیں ہوسکتا۔ اور لام اختصاص کے لیے ہے نہ کہ تملیک کے لیے، جیسا کہ کہا جاتا ہے: ’’ الجل للفرس‘‘  یعنی جل گھوڑے کے لیے ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اس کا مالک نہیں ہوتا، بلکہ ان پر صرف کرنے کی بنا پر اس سے مراد اس کا اختصاص ہوتا ہے۔ لام کے دس سے زیادہ معانی آتے ہیں، لیکن اس کی اصل اختصاص ہے۔ زمخشری نے ’’مفصل‘‘ میں اختصاص کی عمومیت کی بنا پر اختصاص کے علاوہ کوئی مفہوم ذکر نہیں کیا ہے اور کہا ہے کہ لام اختصاص کے لیے ہے، جیسے تمہارا یہ کہنا کہ مال زید کے لیے ہے اور زین جانور کے لیے ہے۔ آیت میں لام اختصاص کے لیے ہے۔ یعنی یہ لوگ زکات کے لیے مختص ہیں، زکات ان کے علاوہ کے لیے نہیں ہوگی۔ جیسے ان کا قول ہے: خلافت قریش کے لیے خاص ہے اور پانی پلانا بنی ہاشم کے لیے مختص ہے۔ یعنی ان کے علاوہ میں یہ نہیں پایا جاتا۔ اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ یہ چیزیں ان کی ملکیت ہو جائیں۔ اس طرح لام زکات کے صرف کرنے کے محل کے بیان میں آیا ہے اور اس لیے بھی کہ فقرا و مساکین کی کثرت کی بنا پر ان کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے وہ لوگ مجہول ہیں اور مجہول کی تملیک محال ہے۔‘‘

پھر جس شے کی نفی ہے، اسی کا اثبات کیا جاتا ہے۔ اور علامہ عینی نے شرح ہدایہ میں دوبارہ رفع ایں تناقض کے جو یہ لکھا ہے:

’’ لأن التملیک رکن ، لأنہ الأصل في دفع الزکاۃ ۔ فإن قلت : أنتم جعلتم اللام في الآیۃ للعاقبۃ ، ودعوی التملیک بدلالۃ اللام، فلم تبق إلا دعوی مجردۃ ؟ قلت : معنی جعل اللام للعاقبۃ أن المقبوض یصیر ملکا لھم في العاقبۃ ، ثم یحصل لھم الملک بدلالۃ اللام، فلم تبق دعوی مجردۃ ‘‘ انتھی (البنایۃ شرح الھدایۃ ۳ ؍ ۴۶۴)

’’ بے شک تملیک رکن ہے، کیوں کہ زکات ادا کرنے میں یہی اصل ہے۔ لیکن اگر تم یہ کہو کہ تم لوگوں نےلام کو آیت کریمہ میں معاقبت کے لیے بنا دیا ہے اور تملیک کا دعویٰ لام کی دلالت سے کرتے ہیں تو یہ صرف دعوی ہی رہ گیا۔ تو میرا جواب یہ ہے کہ لام کو معاقبت کے معنی میں لینے کا مطلب یہ ہے کہ قبضے کی گئی چیز آخر کار ان کی ملک میں ہوگی، پھر لام کی دلالت سے انھیں کی ملکیت حاصل ہوگی۔ لہٰذا یہ خالی دعویٰ نہ ہوا۔ ختم شد‘‘

پس اس تقریر کا ضعف اور محض تاویل رکیک ہونا اہل بصیرت پر مخفی نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔

اور تعریف ’’صدقہ‘‘ کی جو شیخ ابن الہمام نے کیا ہے، صحیح نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت صدقہ کی یہ ہے کہ آدمی اپنے مال کو اللہ تعالیٰ کے واسطے نکالے کہ وہ مال وجوہِ خیر میں صرف کیے جاویں۔ پس جہاں مح تملیک ہوگا، وہ تملیک ہوگا، ورنہ بلا تملیک۔ اور اس کے مصارف کی تصریح حق تعالیٰ نے اپنے قول : ﴿  اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ …﴾ (التوبۃ: ۶۰) میں فرمایا ہے۔

امام راغب نے ’’ مفردات القرآن‘‘ میں لکھا ہے:

’’ والصدقۃ ما یخرجہ الإنسان من مالہ علی وجہ القربۃ کالزکاۃ‘‘ انتھی  ( المفردات في غریب القرآن ۱ ؍ ۵۷۵)

’’ صدقہ وہ ہے جو انسان قرب الٰہی کے حصول کے لیے اپنے مال میں سے نکالتا ہے۔‘‘

دوم یہ کہ بعض صورتوں میں صورت تملیک اصلاً نہیں پائی جاتی ہے اور وہ محل مصرفِ زکات قرار دیا گیا۔ چنانچہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے قول تعالیٰ:

﴿  اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ  وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ  ﴾ (التوبۃ: ۶۰)

’’ صدقے صرف فقیروں کے لیے ہیں اور مسکینوں کے لیے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لیے اور ان کے لیے جن کے دل پر جائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لیے اور اللہ کی راہ میں اور راہ رو مسافروں کے لیے۔‘‘

کے بارے میں امام بخاری نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے:

’’ ویذکر عن ابن عباس رضی اللہ عنھما : یعتق من زکاۃ مالہ ، یعطي في الحج ، وقال الحسن : إن اشتری أباہ من الزکاۃ جاز، ویعطي في المجاھدین والذي لم یحج، ثم تلا : ﴿  اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ …﴾ الآیۃ ‘‘ (صحیح البخاري ۲ ؍ ۵۳۳)

’’ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے ذکر کرتے ہیں: بندہ اپنے زکات کے مال سے آزاد کرسکتا ہے۔ حج میں بھی دے سکتا ہے ۔ حسن نے کہا ہے کہ اگر اس نے زکات کے مال سے اپنے والد کو خرید لیا تو جائز ہے اور مجاہدین کو دے سکتا ہے اور وہ جس نے حج نہیں کیا۔ پھر تلاوت فرمائی: ﴿  اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ … ﴾ ۔‘‘ 

اور فتح الباری میں ہے :

’’ وصلہ أبو عبید في کتاب الأموال من طریق حسان [بن] أبي الأشرس عن مجاھد عنہ أنہ کان لا یری بأسا أن یعطي الرجل من زکاۃ مالہ في الحج ، وأن یعتق من الرقبۃ ۔ أخرجہ عن أبي معاویۃ عن الأعمش عنہ ، وأخرج عن أبي بکر بن عیاش عن الأعمش عن أبي نجیح عن مجاھد عن ابن عباس قال : أعتق من زکاۃ مالک۔ وتابع أبا معاویۃ عبدۃ بن سلیمان ، رویناہ في فوائد یحییٰ بن معین روایۃ أبي بکر بن علي المروزي عنہ عن عبدۃ عن الأعمش عن [ابن] أبي الأشرس ، ولفظہ : کان یخرج زکاتہ ثم یقول : جھزونا منھا إلی الحج ، وقال المیموني : قلت لأبي عبداللہ : یشتري الرجل من زکاۃ مالہ الرقاب فیعتق ویجعل في ابن السبیل ؟ قال : نعم، ابن عباس یقول ذلک ، ولا أعلم شیئا یدفعہ ، وقال الخلال : أخبرنا أحمد بن ھاشم قال : قال أحمد : کنت أری أن یعتق من الزکاۃ، ثم کففت عن ذلک، إني لم أرہ یصح ، قال حرب : فاحتج علیہ بحدیث ابن عباس فقال : ھو مضطرب ۔ انتھی ، وإنما وصفہ بالاضطراب للاختلاف في إسنادہ علی الأعمش کما نری، ولھذا لم یجزم بہ البخاري۔‘‘

’’ وقد اختلف السلف في تفسیر قولہ تعالی :  ﴿  وفي الرقاب ﴾فقیل : المراد شراء الرقبۃ لتعتق ، وھو روایۃ ابن القاسم عن مالک، واختیار أبي عبید وأبي ثور و قول إسحاق ، وإلیہ مال البخاري وابن المنذر ، وقال أبو عبید : أعلی ماجاء فیہ قول ابن عباس، وھو أولی بالاتباع ، وأعلم بالتاؤیل ، وروی ابن وھب عن مالک أنھا في المکاتب، وھو قول الشافعي واللیث والکوفیین وأکثر أھل العلم، رجحہ الطبراني ، وفیہ قول ثالث : إن سھم الرقاب یجعل نصفین : نصف لکل مکاتب یدعي الإسلام، ونصف یشتری بھا رقاب من صلی وصام۔ أخرجہ ابن أبي حاتم و أبو عبید في الأموال بإسناد صحیح عن الزھري أنہ کتب ذلک لعمر بن عبدالعزیز۔‘‘ (فتح الباري ۳؍ ۳۳۲)

’’ اور ابو عبید نے کتاب الاموال میں اسے موصول ذکر کیا ہے حسان بن ابو الاشرس کے طریق سے، انھوں نے مجاہد کے واسطے سے کہ ابن عباس کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ کوئی شخص اپنے مال کی زکات حج میں دے اور یہ کہ گردن آزاد کرے۔ انھوں نے اس کی تخریج کی ہے معاویہ کے واسطے سے، انھوں نے اعمش کے واسطے سے۔ نیز انھوں نے تخریج کی ہے ابوبکر بن عیاش کے واسطے سے، انھوں نے اعمش کے واسطے سے، انھوں نے ابو نجیح کے واسطے سے، انھوں نے مجاہد کے واسطے سے اور انھوں نے ابن عباس کے واسطے سے کہ انھوں نے فرمایا کہ اپنے مال کی زکوٰۃ میں سے آزاد کرو۔ ابو معاویہ کی عبدہ بن سلیمان نے متابعت کی ہے، یحییٰ بن معین کی فوائد میں ہمیں اس کی روایت بیان کی گئی ہے ابوبکر بن علی المروزی کی روایت عبدہ کے واسطے سے، ان کی اعمش کے واسطے سے اور ان کی ابن ابو الاشرس کے واسطے سے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: وہ اپنی زکات نکالتے تھے، پھر کہتے: اس میں سے میرے لیے حج کا سامان سفر تیار کرو۔ میمون نے کہا: میں نے ابو عبداللہ سے کہا کہ کوئی شخص اپنے مال کی زکات سے غلام خریدتا ہے، پھر اس کو  آزاد کردیتا ہے اور اس کو محاذ جنگ پر روانہ کردیتا ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں درست ہے۔ ابن عباس ایسا ہی کہا کرتے تھے اور اس کے علاوہ میں کوئی چیز نہیں جانتا جو اس کے مخالف ہو۔ خلال نے کہا: ہمیں خبر دی ہے احمد بن ہاشم نے کہ امام احمد نے کہا کہ میں سمجھتا تھا: زکات سے آزاد کیا جائے، لیکن پھر میں اس سے باز آگیا، کیونکہ میں اسے صحیح نہیں سمجھتا۔ حرب نے کہا: پھر ان کے سامنے حدیث ابن عباس کو بطورِ دلیل ذکر کیا گیا تو انھوں نے کہا: وہ مضطرب ہے۔ حدیث میں اضطراب کی بات اعمش پر اس کی سند میں اختلاف کی بنا پر ہے، جیسا کہ ہم نے دیکھا اور اسی لیے بخاری نے اسے بالجزم بیان نہیں کیا ہے۔

’’ اللہ تعالیٰ کے قول ﴿  وفی الرقاب ﴾کی تفسیر کے سلسلے میں سلف کے مابین اختلاف رہا ہے۔ کہا گیا ہے کہ اس سے مراد غلام خرید کر اس کوآزاد کرنا ہے۔ یہ روایت ابن قاسم کی ہے مالک کے واسطے سے۔ ابو عبید، ابو ثور، اور اسحاق نے اسی کو اختیار کیا ہے اور اسی کی جانب بخاری اور ابن المنذر مائل ہوئے ہیں۔ ابو عبید نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں جو اقوال ہیں، ان میں ابن عباس کا قول سب سے اعلیٰ ہے اور اس لیے کہ اتباعِ سنت اور تفسیر کے علم میں بھی وہ سب سے افضل ہیں۔ ابن وہب نے روایت کی ہے مالک سے کہ یہ مکاتب کے بارے میں ہے اور یہی قول شافعی، لیث، کوفیوں اور اکثر اہل علم کا ہے اور اسی کو طبرانی نے ترجیح دیا ہے۔ اس میں ایک تیسرا قول ہے کہ غلام آزاد کرانے کے سلسلے میں دو حصے کیے جائیں گے۔ ایک نصف ہر اس مکاتب کے لیے جو اسلام کا دعویٰ کرتا ہے، اور دوسرا نصف اس گردن کو آزاد کرانے کے لیے استعمال ہوگا جو روزے اور نماز کا پابند ہے۔ اس کی تخریج ابن ابی حاتم نے، اور ابو عبیدہ نے الاموال میں کی ہے صحیح اسناد کے ساتھ زہری کے واسطے سے کہ یہ مسئلہ انھوں نے عمر بن عبدالعزیز کو لکھ بھیجا تھا۔‘‘

اور تفسیر در منثور میں ہے:

’’ ابن المنذر عن ابن عباس رضی اللہ عنھما قال : أعتق من زکاۃ مالک۔ وأخرج أبو عبید وابن المنذر عن الحسن أنہ کان لا یری بأسا أن یشتري الرجل من زکاۃ مالہ نسمۃ فیعتقھا ، وأخرج ابن المنذر وابن أبي حاتم عن عمر بن عبدالعزیز قال : سھم الرقاب نصفان، نصف لکل مکاتب ممن یدعي الإسلام، والنصف الباقي یشتری بہ رقاب ممن صلی و صام، وقدم إسلامہ ، من ذکر أو أنثی، یعتقون للہ ، قال أبو عبید : قول ابن عباس أعلی ما جاءنا في ھذاب الباب، وھو أولی بالاتباع ، وأعلم بالتأویل ، وقد وافقہ علیہ کثیر من أھل العلم ‘‘ (الدر المنثور ۴ ؍ ۲۲۴)

’’ ابن منذر رحمہ اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے کہا کہ اپنے مال کی زکوٰۃ سے غلام آزاد کراؤ اور ابو عبید اور ابن منذر نے حسن کے واسطے سے تخریج کی ہے کہ وہ اس امر میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ کوئی شخص اپنے مال کی زکوٰہ سے غلام خریدے، پھر اس کو آزاد کردے۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے عمر بن عبدالعزیز کے واسطے سے تخریج کی ہے کہ انھوں نے کہا کہ گردن کا حصہ دو نصف ہے۔ ایک نصف اس مکاتب کے لیے ہے جو اسلام کا مدعی ہے اور باقی نصب سے اس غلام کو خریدا جائے گا جو نماز پڑھتا ہے اور روزہ رکھتا ہے اور پہلے سے مسلمان ہے، خواہ مرد ہو یا عورت، انھیں اللہ کے لیے آزاد کیا جائے گا۔ ابو عبید کہتے ہیں کہ ابن عباس کا قول سب سے اعلیٰ ہے اور اتباع کے لیے سب سے مناسب ہے۔ کیوں کہ یہی تاویل کے سب سے زیادہ جاننے والے ہیں اور اکثر اہل علم نے انھیں کی موافقت کی ہے۔‘‘

اور تفسیر ابن کثیر میں ہے:

’’ فأما الرقاب فروي عن الحسن البصري ومقاتل بن حیان وعمر بن عبد العزیز وسعید بن جبیر والنخعي والزھري وابن یزید أنھم المکاتبون ، وروي عن أبي موسی الأشعري نحوہ ، وھو قول الشافعي واللیث رضي اللہ عنھما ، وقال ابن عباس والحسن : لا بأس أن تعتق الرقبۃ من الزکاۃ ، وھو مذھب أحمد ومالک وإسحاق، أي أن الرقاب أعم من أن یعطی المکاتب أو یشتری رقبۃ فیعتقھا استقلالا‘‘ انتھی (تفسیر ابن کثیر ۲ ؍ ۴۴۵)

’’ اور رقاب سے مراد حسن بصری، مقاتل بن حیان، عمر بن عبدالعزیز، سعید بن جبیر، نخعی، زہری اور ابن یزید کی روایت کے مطابق مکاتب غلام ہیں۔ ابو موسیٰ کے واسطے سے بھی ایسی ہی روایت بیان کی گئی ہے اور یہی شافعی اور لیث کا قول ہے۔ ابن عباس اور حسن نے کہا ہے کہ کوئی حرج نہیں ہے کہ زکات سے رقاب آزاد کرایا جائے۔ یہی مسلک احمد، مالک، اور اسحاق کا ہے۔ یعنی یہ رقاب عام ہیں اس سے کہ مکاتب کو دیا جائے یا غلام خرید کر اس کو آزاد کیا جائے۔‘‘

پس ﴿  وَفِیْ الرِّقَاب ﴾کی ایک صورت عبداللہ بن عباس و حسن بصری و عمر بن عبدالعزیز نے یہ قرار دیا ہے کہ اموال زکوٰۃ میں سے لونڈی غلام خرید کرکے ادا کیے جاویں اور یہی قول مالک، احمد، ابو عبید و دیگر ائمہ کا ہے۔ پس اس صورت میں ’’تملیک للفقراء‘‘ ( فقیروں کو مال کا مالک بنانے کی کیفیت) اصلاً نہیں پائی گئی، بلکہ وہ متصدق خود بنفسہ اس مال زکوٰۃ سے متولی و مباشر اس کے شراء کا ہوا، پھر اس کو آزاد کیا۔ اور اس کا بیان صاف طور پر صاحبِ ہدایہ نے کیا ہے:

’’ ولا یشتري بھا رقبۃ تعتق خلافاً لمالک رحمہ اللہ حیث ذھب إلیہ في تأویل قولہ تعالی : ﴿  وَفِیْ الرِّقَاب ﴾ ولنا أن الإعتاق إسقاط الملک، ولیس تملیک ‘‘ ( الھدایۃ ، ص: ۱۱۰)

’’ اور نہیں خریدا جائے گا زکات کی رقم سے غلام جس کو آزاد کیا جائے (امام) مالک کے برخلاف جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول ﴿  وَفِیْ الرِّقَاب ﴾ کی تاویل کے سلسلے میں ان کا مسلک ہے۔ ہمارے نزدیک آزاد کرنا ملکیت کو ساقط کرانا ہے نہ کہ مالک بنانا۔‘‘

اور حاشیہ کشاف میں ہے:

’’ إن الأصناف الأربعۃ الأوائل ملاک لما عساہ یدفع إلیھم ، وإنما یأخذونہ ملکا، فکان دخول اللام لائقابھم ، وأما الأربعۃ الأواخر فلا یملکون ما یصرف نحوھم ، بل ولا یصرف إلیھم، ولکن في مصالح تتعلق بھم ، فالمال الذي یصرف في الرقاب إنما یتناولہ السادۃ والمکاتبون والبائعون ، فلیس نصیبھم مصروفا إلی أیدیھم حتی یعبر عن ذلک باللام المشعرۃ بتملکھم ، لما یصرف نحوھم، وإنما ھم محال لھذا الصرف والمصلحۃ المتعلقۃ بہ ‘‘ (حاشیہ الکشاف لابن المنیر ۲ ؍ ۲۸۳)

’’ پہلی چار اصناف کا تعلق ملکیت سے ہے، کیوں کہ اس میں یہ چیز پائی جاتی ہے کہ ان کے حوالے کیا جائے اور وہ اس کو ملکیت کے طور پر لے لیتے ہیں۔ اس طور سے یہاں لازم کا دخول ان کے مناسب ہے۔ رہیں چاروں آخری اصناف تو اس میں وہ لوگ مالک نہیں بنتے ہیں کہ ان پر خرچ کیا جائے اور نہ ان کی طرف خرچ کیا جائے گا، بجز ان مصالح کے جو ان سے متعلق ہیں۔ وہ مال جو گردن آزاد کرنے کے لیے خرچ کیا جائے گا، اس کو صرف سید، مکاتب اور بیچنے والے ہی استعمال کرسکتے ہیں۔ ان کا حصہ ان کے ہاتھوں سے خرچ نہیں ہوتا ہے، یہاں تک کہ اس کی تعبیر ایسے لام سے کی جائے جو ان کی ملکیت کا پتا دیتی ہو اس کا جو کچھ ان کی جانب خرچ کیا جائے گا اور یہ سب محال ہیں، اس مصرف کے لیے اور اس مصلحت کے لیے جو اس سے متعلق ہے۔‘‘

اور مؤیدات سے عدم اعتبار التملیک کی وہ روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہے، جس کو امام بخاری نے روایت کیا ہے:

’’ عن أبي ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال : أمر رسول اللہﷺ بصدقۃ ، فقیل : منع ابن جمیل و خالد بن الولید والعباس بن المطلب، فقال النبيﷺ : ما ینقم ابن جمیل إلا أنہ کان فقیرا فأغناہ اللہ ورسولہ، وأما خالد فإنکم تظلمون خالدا قد احتبس أدراعہ وأعتدہ في سبیل اللہ … ‘‘ الحدیث (صحیح البخاري ، رقم الحدیث ۱۳۹۹)

’’ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے صدقےکا حکم دیا، پس کہا گیا کہ ابن جمیل، خالد بن ولید اور عباس بن عبدالمطلب نے منع کیا ہے تو نبیﷺ نے فرمایا: ابن جمیل کی کیا حیثیت؟ وہ تو فقیر تھا اس کو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے غنی بنا دیا۔ رہے خالد تو تم لوگ خالد کے ساتھ زیادتی کرتے ہو، کیونکہ اس نے اپنی زرہ اور اسلحہ وغیرہ اللہ کی راہ میں وقف کیا ہوا ہے۔‘‘

فتح الباری میں ہے:

’’ وقد استدل بقصۃ خالد علی جواز إخراج مال الزکاۃ في شراء السلاح وغیرہ من آلات الحرب والإعانۃ بھا في سبیل اللہ، بناءا علی أنہ علیہ الصلاۃ والسلام أجاز لخالد أن یحاسب نفسہ بما حبسہ فیما یجب علیہ ‘‘ ( فتح الباري ۳ ؍ ۳۳۴)

’’ خالد کے قصے استدلال کیا گیا ہے کہ زکات کے مال سے اسلحہ اور آلاتِ حرب اور اعانت فی سبیل اللہ جائز ہے۔ اس بنیاد پر آپﷺ نے خالد کو اجازت دی تھی کہ وہ اپنا حسب کریں اس چیز کے ساتھ جو انھوں نے اپنے اوپر عائد واجب کو ادا کرنے میں روک رکھی تھی۔‘‘

اور عینی شرح البخاری میں ہے:

’’ والحدیث فیہ تجیس آلات الحرب والثیاب وکل ما ینتفع بہ مع بقاء عینہ والخیل والابل کالأعبد ‘‘ انتھی (عمدۃ القاري ۹ ؍ ۴۷)

’’ اور حدیث میں اسلحہ وغیرہ اور کپڑوں کو وقف کرنے کی دلیل ہے اور ہر اس چیز کو جس سے فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے اس کی اصل کی بقا کے ساتھ اور گھوڑا اور اونٹ، غلاموں کی مانند ہیں۔ ختم شد‘‘

سوم یہ کہ قولہ تعالیٰ : ﴿ وَفِیْ سَبِیْلِ اللہِ ﴾ بلاشک کہ فرد کامل اس کے غزاۃ و مجاہدین ہیں، مگر لفظ ﴿ وَفِیْ سَبِیْلِ اللہِ ﴾کا عام اور کل وجوہِ خیر داخل فی سبیل اللہ ہے اور سنتِ رسول اللہﷺ نے اس کی تخصیص ساتھ کسی فرد کے نہیں کی ہے۔ ہاں بعض بعض افراد کا ذکر احادیث صحیحہ میں آیا ہے، جیسے روایت ابو سعید خدری:

’’ قا ل : قال رسول اللہ ﷺ : لا تحل الصدقۃ لغني إلا لخمسۃ : لغاز في سبیل اللہ ، أو لعامل علیھا، أو لغارم … الحدیث۔ أخرجہ أبوداود في الزکاۃ ، وابن ماجہ، وسکت عنہ المنذري ، وأخرجہ في الموطأ مرسلا‘‘ ( سنن أبي داود، رقم الحدیث: ۱۶۳۵، سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث ۱۸۴۱، موطأ الإمام مالک ۱ ؍ ۲۶۸)

’’ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ صدقہ غنی کے لیے حلال نہیں ہے سوائے پانچ کے، مجاہد یا عامل یا قرض دار کے لیے … الحدیث۔ اس کی تخریج ابوداود نے الزکوٰۃ میں کی ہے اور ابن ماجہ نے، اور منذری نے سکوت اختیار کیا ہے اور موطا میں اس کی تخریج مرسل روایت کے طور پر ہوئی ہے۔‘‘

پس اس حدیث نے ﴿ وَفِیْ سَبِیْلِ اللہِ  ﴾کے ایک فرد کو بیان کردیا کہ وہ غازی مجاہد فی سبیل اللہ ہے۔ اور جیسے روایت ام معقل :

’’ قالت : کان أبو معقل حاجاً مع رسول اللہ ﷺ ، فلما قدم ، قالت أم معقل : قد علمت أن علي حجۃ فانطلقا یمشیان حتی دخلا علیہ، فقالت : یا رسول اللہ إن علي حجۃ وإن لأبي معقل بکرا، قال أبو معقل : صدقت ، جعلتہ في سبیل اللہ ، فقال رسول اللہ ﷺ : أعطھا فلتحج علیہ، فإنہ في سبیل اللہ، فأعطاھا البکر ‘‘ الحدیث۔ أخرجہ أبو داود في الحج۔ ( سنن أبي داود، رقم الحدیث ۱۹۸۸)

’’ ام معقل نے کہا کہ ابو معقل رسول اللہﷺ کے ساتھ حج کے لیے گئے، پس جب وہ آئے تو ام معقل نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ میرے اوپر حج فرض ہے۔ وہ دونوں چلے یہاں تک کہ رسول اللہﷺ کے پاس آئے، پس انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ مجھ پر حج فرض ہے اور ابو معقل کے پاس ایک اونٹ ہے۔ ابو معقل نے کہا: تو نے سچ کہا، میں نے اسے اللہ کی راہ میں دے دیا ہے، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس کو دے کہ وہ اسی اونٹ پر حج کرے، کیونکہ یہ بھی تو اللہ کی راہ میں ہے۔ تو انھوں نے اپنی بیوی کو اونٹ دے دیا۔ حدیث کی تخریج ابوداود نے کتاب الحج میں کی ہے۔‘‘

کہا خطابی نے ’’ معالم السنن‘‘ میں : 

’’ فیہ من التفقہ جواز إحباس الحیوان، وفیہ أنہ جعل الحج من السبیل، وقد اختلف الناس في ذلک، فکان ابن عباس لا یری بأسا یعطي الرجل من زکاتہ في الحج، وروي مثل ذلک عن ابن عمر، وکان أحمد بن حنبل وإسحاق یقولان : یعطي من ذلک في الحج، وقال أبوحنیفۃ وأصحابہ وسفیان الثوري والشافعي : لا تصرف الزکاۃ إلی الحاج، سھم السبیل عندھم الغذاۃ والمجاھدون ‘‘ انتھی ( معالم السنن ۱؍ ۴۶۶)

’’ اس حدیث میں فقہی مسئلہ یہ ہے کہ حیوان کو وقف کرنا جائز ہے۔ نیز اس میں یہ مسئلہ بھی ہے کہ حج فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔ اس سلسلے میں لوگوں کے درمیان اختلاف ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کوئی حرج نہیں سمجھتے کہ اپنے زکات کے مال میں سے حج کے لیے دے۔ ایسی ہی روایت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی بیان کی جاتی ہے۔ ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب اور شافعی نے فرمایا کہ زکات کا مال حج کے مصرف میں نہیں لایا جائے گا۔ ان کے نزدیک سبیل سے مراد اللہ کی راہ کے غازی اور مجاہدین ہیں۔ ختم شد‘‘

پس اس حدیث نے ﴿ وَفِیْ سَبِیْلِ اللہِ  ﴾کے ایک افراد کو بیان کیا کہ وہ حج بھی ہے۔ اور ممکن ہے استدلال اس پر ساتھ حدیث سہل بن ابی حثمہ کے:

’’ إن النبيﷺ وداہ بمائۃ من إبل الصدقۃ ، یعنی دیۃ الأنصاري الذي قتل بخیبر ‘‘ أخرجہ الأئمۃ الستۃ في کتبھم، واللفظ لأبي داود۔ ( سنن أبي داود، رقم الحدیث ۱۶۳۸)

’’نبی ﷺ نے صدقے کے اونٹوں میں سے سو اونٹ دیت کے طور پر دیے، یعنی اس انصار ی کی دیت جو خیبر میں قتل کیے گئے تھے۔ اس کی تخریج ائمہ ستہ نے اپنی کتابوں میں کی ہے اور مذکورہ الفاظ ابوداود کے ہیں۔‘‘

یعنی رسول اللہﷺ نے واسطے رفع فتنہ و اصلاح بین الناس کے سہل بن ابی حثمہ انصاری کو سو اونٹ زکوٰۃ مفروضہ میں سے دے دیا۔ پس اب مصارف ثمانیہ مذکورہ فی القرآن میں سے کس مصرف میں یہ داخل کیا جائے گا؟ پس امام مالک اور ایک جماعت اس کو ’’غارمین‘‘ میں داخل کرتے ہیں، کیونکہ یہ لوگ ’’غارم‘‘ کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ:

’’ ھو مدین مثل من استدان لیصلح بین الطائفتین في دیۃ أو دین تسکینا للفتنۃ ، وإن کان غنیا ‘‘ ذکرہ الزرقاني۔ ‘‘( شرح الزرقاني ۲ ؍ ۱۶۸) عون المعبود ۵ ؍ ۳۱)

’’ وہ قرض دار ہے، جس نے قرض اس لیے لیا کہ دیت اور قرض کے معاملے میں دو گروہوں کے درمیان مصالحت  کرائے یا فتنے کو رفع کرے، گرچہ وہ غنی ہو۔ اس کا ذکر زرقانی نے کیا ہے۔‘‘

اور کہا خطابی نے ’’ شرح السنن‘‘ میں:

’’ الغارم الغني فھو الرجل یتحمل الحمالۃ ، ویدَّان في المعروف وإصلاح ذات البین، ولہ مال إن بیع فیھا افتقر ، فیعطی من الصدقۃ ما یقضی بہ دینہ ، فأما الغارم الذي یدان لنفسہ وھو معسر فلا یدخل في ھذالمعنی ، لأنہ من جملۃ الفقراء أیضا‘‘

قال الخطابي : ’’ یشبہ أن یکون النبيﷺ إنما أعطاہ ذلک من سھم الغارمین علی معنی الحمالۃ في إصلاح ذات البین ، لأنہ قد شجر بین الأنصاري وبین أھل خیبر في دم القتیل الذي وجد بھا منھم ، فإنہ لا مصرف بمال الصدقات في الدیات‘‘ ( معالم السنن ۱ ؍ ۳۳۳، ۳۳۵)

’’ غارم غنی وہ شخص ہے جو تاوان کا متحمل ہو اور اصلاح بین الناس جیسے معروف کام کے لیے قرض لیتا ہو اور اس کے پاس اتنا ہی ما ہو کہ اگر اس نے اپنے پاس سے دیا تو وہ فقر میں مبتلا ہو جائے گا تو صدقے کے مال سے اس کو اتنا دیا جائے گا جو اس کے قرض کے لیے کافی ہو۔ رہا وہ غارم (مقروض) جو اپنے لیے قرض لیتا ہے اور وہ تنگ دست ہے تو یہ غنی کے حکم میں داخل نہیں ہوگا، کیونکہ وہ عام فقرا کی طرح ہے۔ خطابی نے کہا کہ ممکن ہے کہ نبی ﷺ نے اس کو صرف اس بنا پر غارمین کے حصے میں سے دیا ہوگا کہ اسے اصلاح ذات البین پر محمول کیا ہوگا، کیونکہ انصاری اور اہل خیبر کے درمیان، اس مقتول کے سلسلے میں جو وہاں پایا گیا تھا ، نزاع پیدا ہوگیا تھا، کیونکہ دیتوں (خون بہا) کے لیے صدقات کا مال صرف نہیں کیا جاتا۔‘‘

اور ائمہ احناف اس کو ’’غارمین‘‘ میں داخل نہیں کرتے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک ’’غارم‘‘ کی وہ تعریف ہے جو ہدایہ میں ہے: 

’’ والغارم من لزمہ دین، ولا یملک نصابا فاضلا عن دینہ ، وقال الشافعي : من تحمل غرامۃ في إصلاح ذات البین وإطفاء التاثرۃ بین القبیلتین ‘‘ انتھی (الھدایۃ ۱ ؍ ۱۱۲)

’’ اور غارم وہ شخص ہے جس کے اوپر قرض ہو اور اپنے قرض سے زیادہ فاضل نصاب کا مالک نہ ہو۔ شافعی نے کہا ہے کہ غارم وہ ہے کہ جو شخص آپسی نزاع کے اصلاح کرانے میں قرض دار ہوگیا یا دو قبیلوں کے درمیان جھگڑا ختم کروانے کے لیے قرض دار ہوگیا۔ ختم شد‘‘

’’ عن الزھری أنہ سئل عن الغارمین، قال : أصحاب الدین، وابن السبیل ، وإن کان غنیا ، وقال مجاھد: من احترق بیتہ ، وذھب السیل بمالہ ، وادان علی عیالہ ‘‘ انتھی ( تفسیر الدر المنثور للسیوطي ۴ ؍ ۲۲۵)

’’ زہری سے روایت ہے کہ ان سے غارمین کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا: قرض دار لوگ اور مسافر اگرچہ غنی ہو۔ مجاہد نے کہا کہ جس کا گھر جل کر تباہ ہوگیا اور سیلاب کے سبب مال و اسباب سب ختم ہوگیا اور اس نے اپنے عیال کے لیے قرض لیا۔‘‘

اور لغت میں ’’غریم‘‘ قرض دار کو کہتے ہیں ۔ مفردات القرآن میں ہے:

’’ الغرم ما ینوب الإنسان في مالہ من ضرر لغیر جنایۃ منہ، یقال : غرم کذا غرماً ومغرماً ۔ والغریم یقال لمن لہ الدین ، ولمن علیہ الدین، قال تعالیٰ : والغارمین وفي سبیل اللہ‘‘ انتھی ( مفردات القرآن ۲ ؍ ۱۵۱)

’’ غرم جو انسان کے مال میں بغیر کسی جرم کے آفت آتی ہے اور غریم وہ شخص ہے جس نے قرض دیا ہو اور جس کے اوپر قرض ہو، جیسا کہ فرمایا: غارمین اور فی سبیل اللہ۔ ختم شد‘‘

اور ’’ بنایہ شرح ہدایہ‘‘ میں ہے:

’’ الغرم ھو من الخسران، وکان الغارم ھو الذي خسر مالہ ، والخسران النقصان ، وقال أبو جعفر البغدادي ، الغارم من لزمہ دین، وإن کان في یدہ مال ، ولکنہ لا یکفي لأداء الدین ، فصار کمن لا مال لہ ‘‘ انتھی (البنایۃ شرح الھدایۃ للعیني ۳ ؍ ۴۵۳)

’’ غرم خسران میں سے ہے اور غارم وہ شخص ہے جس کا مال خسارے میں ہو اور خسران نقصان کو کہتے ہیں۔ ابو جعفر بغدادی نے کہا ہے کہ غارم وہ ہے جس کے اوپر قرض ہے، اگرچہ اس کے پاس مال ہو، لیکن وہ مال قرض ادا کرنے کے لیے ناکافی ہو، تو یہ شخص ایسے ہے جیسے اس کے پاس مال نہیں ہے۔‘‘

پس حدیث سہل بن ابی حثمہ کو تحت الغارمین داخل کرنے اور فی سبیل اللہ سے خارج کرنے پر کوئی دلیل قوی نہیں ہے سوائے احتمال اور ظن کے، جیسا کہ خطابی نے بلفظ ’’یشبہ‘‘ ذکر کیا ہے۔ بلکہ ظاہر حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ داخل تحت فی سبیل اللہ ہے، کیونکہ صلح بین الطائفتین اور تسکین فتنہ رفع القتال اعظم امور خیر میں ہے۔ پس فی سبیل اللہ میں اس کو نہیں داخل کرنے کی دلیل قوی چاہیے۔ اس لیے بعض ائمہ نے ’’ سبیل اللہ‘ کو عموم پر رکھا ہے اور سارے امور خیر کو اس میں داخل کیا ہے اور شرط تملیک کو باطل کیا ہے۔

تفسیر کبیر میں ہے:

’’ وعلم أن ظاھر اللفظ في قولہ ﴿  وَفِیْ سَبِیْلِ اللہِ ﴾لا یوجب القصر علی کل الغزاۃ ، فلھذا المعنی نقل القفال في تفسیرہ عن بعض الفقھاء أنھم أجازوا صرف الصدقات إلی جمیع وجوہ الخیر من تکفین الموتیٰ وبناء الحصون وعمارۃ المساجد، لأن قولہ ﴿  وَفِیْ سَبِیْلِ اللہِ ﴾ لعام في الکل‘‘ ( التفسیر الکبیر ۱۶؍ ۸۸)

’’ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ﴿  وَفِیْ سَبِیْلِ اللہِ ﴾ کا ظاہری لفظ صرف غزات پر ہی محمول نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ قفال نے اپنی تفسیر میں بعض فقہا کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ان لوگوں نے جائز قرار دیا ہے کہ صدقات کے مصارف تمام خیر کے کام ہیں، جیسے مردے کی تکفین، قلعوں کی تعمیر اور مساجد کی تعمیر۔ کیونکہ اللہ کا قول ﴿وَفِیْ سَبِیْلِ اللہِ ﴾ ہر ایک کو عام ہے۔‘‘

اور تفسیر خازن میں ہے:

’’وفي سبیل اللہ : یعني وفي النفقۃ في سبیل اللہ، وأراد بہ الغزاۃ، فلھم سھم من مال الصدقات ، فیعطون إذا أرادوا الخروج إلی الغزو، وما یستعینون بہ علی أمر الجھاد من النفقۃ والکسوۃ والسلاح والمؤنۃ فیعطون وإن کانوا أغنیاء ، لما تقدم من حدیث عطاء وأبي سعید الخدري ، ولا یعطی من سھم سبیل اللہ لمن أراد الحج عند أکثر أھل العلم، وقال قوم : یجوز أن یصرف سھم سبیل اللہ إلی الحج، یروی ذلک عن ابن عباس، وھو قول الحسن ، وإلیہ ذھب أحمد بن حنبل وإسحاق بن راھویہ ، وقال بعضھم : إن اللفظ عام، فلا یجوز قصرہ علی الغزاۃ فقط، ولھذا أجاز بعض الفقھاء صرف سھم سبیل اللہ إلی جمیع وجوہ الخیر من تکفین الموتٰی وبناء الجسور والحصون وعمارۃ المساجد وغیر ذلک، قال : لأن قولہ: ﴿وَفِیْ سَبِیْلِ اللہِ ﴾  عام في الکل ، فلا یختص بصنف دون غیرہ‘‘ (تفسیر الخازن ۳ ؍ ۱۱۳)

’’ فی سبیل کا مطلب اللہ کے راستے میں خرچ کرنا ہے اور اس سے مراد غزاۃ ہیں جن کا حصہ صدقات کے مال میں سے ہے۔ اگر وہ غزوات میں جانے کا ارادہ کریں گے تو ان کو دیا جائے گا اور اس سلسلے کے جو بھی اخراجات ہوں گے نفقہ ، کپڑا، اسلحہ اور سامان وغیرہ، سب کچھ دیا جائے گا، گرچہ وہ اغنیا ہوں،  جیسا کہ عطا اور ابو سعید خدری کی حدیث میں گزرا۔ اکثر اہل علم کے نزدیک فی سبیل اللہ کی مدد سے حج کے لیے جانے والوں کو نہیں دیا جائے گا۔ کچھ لوگوں نے کہاہے کہ حج پر جانے والے کو سبیل اللہ کے مد سے دینا جائزہے۔ اس کی روایت ابن عباس کے واسطے سے کی جاتی ہے اور یہی حسن کا قول ہے اور اسی جانب احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ گئے ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ لفظ عام ہے، اس لیے اس کو صرف غزات پر محدود کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لیے بعض فقہا نے اجازت دی ہے کہ سبیل اللہ کا حصہ تمام خیر کے کاموں کے لیے ہے۔ اس میں مردے کی تکفین، پلوں کی تعمیر، قلعوں کی تعمیر، مساجد وغیرہ کی تعمیر شامل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قول ﴿  وَفِیْ سَبِیْلِ اللہِ ﴾ ہر ایک کے لیے عام ہے۔ اس لیے کسی خاص صنف کے لیے اسے مختص نہیں کیا جائے گا۔‘‘

اور بعض فقہا نے بھی ﴿  وَفِیْ سَبِیْلِ اللہِ ﴾کو عام رکھا ہے۔ ’’ البحر الرائق شرح کنز الدقائق‘‘ میں ہے:

’’ قولہ : ومنقطع الغزاۃ ۔ ھو المراد بقولہ تعالی : ﴿  وَفِیْ سَبِیْلِ اللہِ ﴾ وھو اختیار منہ لقول أبي یوسف، وعند محمد : منقطع الحاج، وقیل: طلبۃ العلم، واقتصر علیہ في الفتاویٰ الظھیریۃ ، وفسرہ في البدائع بجمیع القرب ، فیدخل فیہ کل من سعی في طاعۃ اللہ تعالی و سبیل الخیرات إذا کان محتاجا‘‘ (البحر الرائق ۲؍ ۲۶۰)

’’ مجاہدین ہی اللہ تعالیٰ کے قول ﴿  وَفِیْ سَبِیْلِ اللہِ ﴾ سے مراد ہیں۔ ابو یوسف کے قول کے مطابق یہی مختار ہے اور امام محمد کے نزدیک حج کرنے والے بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ طلبہ بھی مراد ہیں، جیسا کہ فتاویٰ ظہیریہ میں اسی پر اقتصار کیا گیا ہے۔ بدائع میں اس کی تفسیر کی گئی ہے کہ تمام تقرب الٰہی کے کام (فی سبیل اللہ میں داخل ہیں) اس طور سے اس میں ہر وہ سعی کرنے والا داخل ہو جائے گا، جو اللہ تعالیٰ کی طاعت کے لیے ہو اور خیر کے راستے میں ہو اگر وہ محتاج ہے۔‘‘

اور تفسیر آلوسی میں ہے:

’’ وفي سبیل اللہ : أرید بذلک عند أبي یوسف : منقطعوا الغزاۃ، وعند محمد : منقطعوا الحجیج، وقیل : المراد طلبۃ العلم، واقتصر علیہ في الفتاوی الظھیریۃ ، وفسرہ في البدائع بجمیع القرب، فیدخل فیہ کل من سعی في طاعۃ اللہ تعالی وسبیل الخیرات، وقال في البحر : ولا یخفی أن قید الفقراء لا بدمنہ علی الوجوہ کلھا‘‘ انتھی (تفسیر روح المعاني للآلوسی ۱۰؍ ۱۲۳)

’’ اور فی سبیل اللہ سے مراد ابو یوسف کے نزدیک غزوات میں شرکت کرنے والے ہیں اور محمد کے نزدیک حج کے لیے رخت سفر باندھنے والے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ اس سے مراد طلبا ہیں۔ فتاویٰ ظہیریہ میں اسی پر اقتصار کیا گیا ہے۔ بدائع میں اس کی تفسیر ہے کہ تمام تقرب الٰہی کے کام اس میں شامل ہیں۔ اس طور سے اس میں ہر وہ سعی کرنے والا داخل ہوگا، جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لیے ہو اور خیر کے راستے میں ہو اور یہ چیز مخفی نہیں ہے کہ تمام صورتوں میں اس کو فقرا کے ساتھ مقید یا مختص ضرور کیا جائے گا۔‘‘

اور ’’ البنایۃ في شرح الھدایۃ ‘‘ میں ہے:

’’ وفي المرغیناني : وقیل : ﴿  وَفِیْ سَبِیْلِ اللہِ ﴾ طلبۃ العلم‘‘ انتھی (البنایۃ شرح الھدایۃ ۳؍ ۴۵۵)

’’اور مرغینانی میں ہے: کہا گیا ہے کہ فی سبیل اللہ سے مراد طلبہ ہیں۔ ختم شد‘‘

پس جن لوگوں نے فی سبیل اللہ کو اپنے عموم پر رکھا ہے یعنی سوائے ان مصارف سبعہ مذکورہ اور کل امورخیر کو مراد لیا ہے، جس میں رضائے حق تعالیٰ مقصود ہو اور کسی حدیث مرفوع صحیح یا اثرصحابہ کی مخالفت لازم نہیں آوے، کلام اس کا اقرب الی الصواب واوفق الی لفظ القرآن ہے اور کل اصناف ثمانیہ میں تملیک کا تحقق نہیں ہے۔ پس شرط تملیک لگا کر اور اس کو رکن قرار دے کر بنائے مسجد وغیرہ کو مصرف زکوٰۃ قرار نہیں دینا غیر صحیح ہے۔ بلکہ جس طرح مجاہد غازی فی سبیل اللہ کو مال زکوٰۃ اس غرض سے دیا جاتا ہے کہ وہ امور متعلق غزوہ میں اس کو صرف کرے اور وہ اس کا محل و مصرف قرار دیا گیا ہے اور محض اس کی ذاتی منفعت کی غرض سےو ہ مال اس کو نہیں دیا جاتا ہے، پس اسی طرح مہتممان مدارس علوم دینیہ کو اموال زکوٰۃ مفروضہ سےدینا بایں غرض کہ وہ انفاق طلبہ و دیگر مصارف مدرسہ میں صرف کریں یا کتب دینیہ خرید کر حوالہ کریں کہ اس میں طلبہ پڑھیں، بلاشک جائز ہوسکتا ہے اور محل و مصرف زکوٰۃ قرار دیا جا سکتا ہے، اور تحت عموم قولہ تعالیٰ ﴿  وَفِیْ سَبِیْلِ اللہِ ﴾ داخل  ہوسکتا ہے۔

ایک فائدہ جلیلہ متعلق اسی مسئلہ کے یہ ہے جو ’’ سبل السلام شرح بلوغ المرام‘‘  میں ہے:

’’ الغارم تحل لہ الصدقۃ ، وإن کان غنیا، وکذلک الغازي تحل لہ أن یتجھز من الزکاۃ، وإن کان غنیا، لأنہ ساع في سبیل اللہ۔ قال الشارح : ویلحق بہ من کان قائما بمصلحۃ عامۃ من مصالح المسلمین کالقضاء والإفتاء والتدریس ، وإن کان غنیا، وأدخل أبو عبیدۃ من کان في مصلحۃ عامۃ في العاملین، ؤشار إلیہ البخاري حدیث قال : باب رزق الحاکم والعاملین علیھا۔ وأراد بالرزق ما یرزقہ الإمام من بیت المال ممن یقوم بمصالح المسلمین، کالقضاء والتدریس، فلہ الأخذ من الزکاۃ فیما یقوم بہ مدۃ القیام بالمصلحۃ، وإن کان غنیا۔ قال الطبري : إنہ ذھب الجمھور إلی جواز أخذ القاضي الأجرۃ علی الحکم، لأنہ یشغلہ الحکم من القیام بمصالحہ، غیر أن طائفۃ من السلف کرھوا ذلک، ولم یحرموہ۔ وقالت طائفۃ : أخذ الرزق علی القضاء إن کانت جھۃ الأخذ من الحلال کان جائز إجماعا، ومن ترکہ فإنما ترکہ تورعا۔‘‘ (سبل السلام ۲ ؍ ۱۴۶)

’’ غارم کے لیے صدقہ حلال ہے، گرچہ وہ مال دار ہو۔ اسی طرح غازی کے لیے حلال ہے کہ زکوٰۃ کی رقم سے اس کے لیے انتظام کیا جائے، گرچہ وہ غنی ہو، کیونکہ وہ اللہ کی راہ میں سعی کرنے والا ہے۔ شارح نے کہا ہے کہ یہی حکم اس سے بھی ملحق کیا جائے گا جو مسلمانوں کے عام مصالح کے کام انجام دے رہا ہو، جیسے قضا، افتا اور تدریس، گرچہ وہ غنی ہو۔ ابوعبید نے اس شخص کو بھی شامل کیا ہے جو عاملین کے مصالح کے کام انجام دے رہا ہو۔ اسی کی جانب بخاری نے اشارہ کیا ہے اور کہا ہے : ’’ باب رزق الحاکم والعاملین علیھا‘‘  یعنی حاکم اور عاملین کے رزق کا بیان۔ رزق سے مراد ان کے نزدیک وہ ہے جو امام بیت المال سے اسے دیتا ہے، جو مسلمانوں کے مصالح کے کام انجام دیتا ہو، جیسے قضا اور تدریس، تو اس کو زکوۃ کی رقم سے لینا جائز ہے، اس کام کے عوض اس مخصوص مدت میں جس میں وہ کام انجام دے رہا ہے، اگرچہ وہ غنی ہو۔ طبری نے کہا ہے: جمہور کا مسلک یہ ہے کہ قاضی کا قضا کے سلسلے میں اجرت لیا جائز ہے، کیونکہ وہ اپنے مصالح کی انجام دہی سے مشغول ہوتا ہے۔ ہاں سلف کے ایک طبقے نے اسے مکروہ کہا ہے، لیکن حرام نہیں قرار دیا ہے اور ایک گروہ نے کہا ہے: قضا پر اجرت (رزق) لینا اگر وہ حلال صورت میں ہے تو بالاجماع جائز ہے اور جس نے اسے چھوڑا ہے تو اس کا چھوڑنا زُہد کی بنا پر ہے۔‘‘

 وقال الآلوسي في تفسیرہ :

’’ ویجوز صرف الزکاۃ لمن لا تحل لہ المسألۃ بعد کونہ فقیراً ، ولا یخرجہ عن الفقر ملک نصب کثیرۃ غیر نامیۃ إذا کانت مستغرقۃ للحاجۃ ، ولذا قالوا : یجوزللعالم وإن کانت لہ کتب تساوي نصبا کثیرۃ إذا کان محتاجاً إلیھا للتدریس ونحوہ أخذ الزکاۃ ، بخلاف العامي‘‘ (انتھی (روح المعانی ۱۰؍ ۱۲۰)

’’ زکات دیناجائز ہے، اس کے لیے جس کے لیے بھیک مانگنا حلال نہیں تھا فقیر ہونے کے بعد۔ فقر سے اس کو نہیں نکال سکتی ملکیت غیر نامیہ یعنی ایسی ملکیت جو بڑھنے والی نہ ہو، جبکہ اس کو شدید حاجت ہو۔ اسی لیے انھوں نے کہا ہے کہ عالم کے لیے جائز ہے، اگرچہ اس کے پاس ڈھیروں کتابیں ہوں، جب وہ تدریس کے لیے ان کتابوں کا محتاج ہو کہ وہ زکات لے، عامی کے برخلاف۔ 

 

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مجموعہ مقالات، و فتاویٰ

صفحہ نمبر 167

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ