سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(80) میں اپنی مسجد کے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہیں پڑھ سکتا

  • 15235
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 644

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جہری نماز اورتراویح میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے فورا بعد ہمارا امام قرات شروع کردیتا ہے اورمیں سورہ فاتحہ نہیں پڑھ سکتا۔کیونکہ وہ اتنا سکتہ نہیں کرتا کہ سورہ فاتحہ کو پڑھا جاسکے اورحدیث میں ہے  کہ (لا صلوة لمن لم يقرا بفاتحة الكتاب)جب کہ ایک دوسری حدیث ‘‘قراة الامام قراة لمن خلفه’’توان دونوں احادیث میں تطبیق کس طرح ہوگی؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مقتدی کے لئے سورہ فاتحہ کی قرات کے بارے میں علماء میں اختلا ف ہے لیکن نبی ﷺکے ارشادگرامی:

«لا صلوة لمن لم يقرا بفاتحة الكتاب»(متفق عليه)

‘‘اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جوسوره فاتحہ نہ پڑھے۔’’

كے عموم کے پیش نظر راجح ترین بات یہ ہے کہ مقتدی کے لئے بھی سورہ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے ،اسی طرح آنحضرت ﷺکا ارشادہے کہ شاید تم اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے جواب دیا‘‘جی ہاں’’توآپؐ نے ارشادفرمایا:

«لا تفعلوا الا بفاتحة الكتاب’فانه لا صلوة لمن لم يقرابها»(مسند احمد ’سنن ابي داود’وصحيح ابن حبان باسنادحسن)

‘‘سوره فاتحہ کے سوا اورکچھ نہ پڑھوکیونکہ جو شخص سورہ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔’’ (ابو داودودیگر محدثین باسنادحسن)

اگرامام جہری نماز میں سکتہ نہ بھی کرے تو پھر بھی مقتدی کو ہر حال میں سورہ فاتحہ پڑھنی چاہئے خواہ ا س وقت ہی کیوں نہ پڑھے ،جب امام قرات کررہا ہو اورپھر سورہ فاتحہ پڑھنے کے بعد خاموش ہوجائے تاکہ دونوں احادیث پر عمل ہوجائے۔اگر مقتدی بھول جائے یا وہ جاہل ہواوراسےسورہ فاتحہ کے پڑھنے کے وجوب کا علم نہ ہو تو اس سے فاتحہ کا پڑھنا ساقط ہوجائے گا۔جس طرح اس شخص سے ساقط ہوجاتا ہے جو امام کے ساتھ آکررکوع کی حالت میں ملے توعلماء کے صحیح قول کے مطابق اس کی یہ رکعت ہوجائے گی ،اکثر اہل علم کا یہی قول ہے کیونکہ حضرت ابوبکرہ ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ‘‘وہ جب مسجد میں آئے تو نبی کریمﷺرکوع فرمارہے تھے توانہوں نے بھی صف میں داخل ہونے سے پہلے ہی رکوع شروع کردیا اورپھر اسی طرح بحالت رکوع صف میں داخل ہوگئے توآنحضرت ﷺنے نماز سے سلام پھیر نے کے بعد فرمایا‘‘اللہ تعالی تمہارے شوق میں اضافہ فرمائے،آئندہ اس طرح نہ کرنا ۔’’لیکن آپ ؐ نے انہیں اس رکعت کے دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا تھا ۔(صحیح بخاری /فتاوی اسلامیہ  میں سماحۃ الشیخ ابن باز حفظہ اللہ تعالی کے اس فتوی کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ من كان له امام فقراءة الامام له قراءةجس کا امام ہو تو اس کی قرات ہوگی ،ضعیف اور ناقابل استدلال ہے ،اگریہ صحیح بھی ہو تو یہ عام ہے اورسورہ فاتحہ کا پڑھنا اس مسئلہ میں وارد صحیح احادیث کے پیش نظر خاص ہوگا/واللہ ولی التوفیق،ملاحظہ فرمائیے فتاوی اسلامیہ ،ج۱ص۲۶۰،جمع وترتیب محمد بن عبدالعزیز المسند ،دارالوطنی الریاض ۱۴۱۴ھ۱۹۹۴ء/مترجم)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مقالات و فتاویٰ

ص232

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ