سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(23)وتر کی رکعات کتنی ہیں؟

  • 15219
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2759

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ تین رکعت وتر پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر آپ یہ جواب دیں کہ جائز ہے تو ابوہریرہ، ابن عباس اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کی حدیثوں کا کیا جواب ہے کہ وہ مرفوعاً ( بہ اختلاف اقوال موقوفاً ) روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: تین رکعت وتر نہ پڑھا کرو، بلکہ پانچ یا سات رکعت وتر پڑھو اور مغرب کی نماز کی مشابہت نہ کرو، وغیرہ وغیرہ۔ اگر آپ کہیں کہ تین رکعت وتر جائز نہیں تو ان حدیثوں کا کیا جواب ہے جو تین رکعت وتر پڑھنے کے متعلق آئی ہیں؟ چنانچہ حضرت علی، ابن عباس، ابو العالیہ، حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ وتر تین رکعت ہیں، مغرب کی نماز کی طرح کہ وہ دن کے وتر ہیں اور یہ رات کے۔ فقہائے سبعہ نے بھی تین رکعت وتر کو اختیار کیا ہے اور حنفیہ تو اس پر اجماع نقل کرتے ہیں۔ اگر مخالفت کی بنا پر اجماع نہ بھی تسلیم کیا جائے تو کم از کم جمہور کا مسلک تو ہوگا۔ اگر آپ کہیں کہ تین رکعت مع الکراہت جائز ہے، جیسا کہ امام شوکانی نے بیان کیا ہے تو پھر اس کا جواب کیا ہے کہ اکثر لوگوں نے اس کو اختیار کرلیا ہے؟ جواب شافی سے مطمئن فرما دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تین رکعت بلا کراہت جائز ہے، کیونکہ صحابہ کی ایک جماعت نے نبی ﷺ سے تین رکعت وتر روایت کی ہے۔ مثلاً حضرت علی، ابن عباس، عمران بن حصین، عبدالرحمن بن ابزی، حضرت عائشہ، ابی بن کعب، ابو ایوب، انس بن مالک، عبداللہ ابی اوفی، عبداللہ بن عمرو، عبداللہ بن مسعود، عبدالرھمن بن سبرہ، نعمان بن بشیر، ابوہریرہ، عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہم۔ یہ پندرہ صحابہ کرام ہیں، جنھوں نے تین رکعت وتر کی روایت کی ہے اور ان کی روایات صحاح ستہ، موطا امام مالک، دارمی، قیام اللیل مروزی، طبرانی، ابو یعلی، حاکم، دارقطنی، بیہقی، ابن حبان، صحیح ابن سکن میں مروی ہیں۔ گو ان میں سے بعض بہت کمزور بھی ہیں، لیکن ایک کو دوسری سے تقویت حاصل ہوتی ہے۔ ان تمام روایت کو نقل کرنا موجب طوالت ہے۔ پھراتنی حدیثیں ہوتے ہوئے تین رکعت کو مکروہ کیسے کہا جاسکتا ہے؟  ( دیکھیں: نصب الرایۃ ۲ ؍ ۷۲، التلخیص الحبیر ۲ ؍ ۱۳ ، تحفۃ الأحوذي ۲ ؍ ۴۴۹)

ابن حبان، دارقطنی، محمد بن نصر مروزی اور حاکم نے جو تین رکعات کی ممانعت روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

’’ تین رکعت وتر نہ پڑھا کرو کہ مغرب کے ساتھ مشابہت کرو، بلکہ پانچ یا سات رکعت  وتر پڑھا کرو۔‘‘ (سنن الدارقطني ۲ ؍ ۲۴، المستدرک ۱ ؍ ۴۴۶، صحیح ابن حبان ۶ ؍ ۱۸۵)

حاکم، دارقطنی، حافظ زین الدین عراقی، حافظ ابن حجر، شیخ مجد الدین فیروز آبادی اور ابن قیم نے کہا ہے کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں، یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔

ہم اس کی تطبیق یوں دیتے ہیں کہ تین رکعت وتر پڑھنے سے جو ممانعت کی گئی ہے، وہ دو تشہد سے ہے، جس سے وتر مغرب کی نماز کے مشابہ ہو جاتی ہے۔ اگر ایک ہی تشہد سے تین رکعت وتر پڑھیں تو پھر مکروہ نہیں ہیں۔ چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے یہی تطبیق دی ہے۔ اس کی تائید حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث سے ہوتی ہے، جس کو حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے کہ نبیﷺ تین وتر پڑھا کرتے تھے اور آخری رکعت میں تشہد کرتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کو زرقانی نے مواہب لدنیہ کی آٹھویں جلد میں اور محمد بن اسماعیل الامیر نے زادالمعاد کے حاشیے پر لکھا ہے اور سلف صالحین کی ایک جماعت کا یہی مسلک تھا۔  ( فتح الباري ، ۲؍ ۴۸۱)، (المستدرک ۱ ؍ ۳۵۴)

عطا بھی تین رکعت وتر ایک تشہد سے پڑھتے۔ ابن حجر عسقلانی، قسطلانی اور زرقانی نے اپنی کتابوں میں اس کی خوب تفصیل بیان کی ہے۔ بعض صحابہ سے جو تین رکعت وتر کی نہی ثابت ہے، وہ بھی اسی پر محمول ہے کہ تین رکعت دو تشہد سے نہ پڑھے جائیں کہ اس سے مغرب کی نماز کے ساتھ مشابہت پیدا ہوتی ہے اور ایک تشہد سے تین رکعت وتر کو وہ مکروہ نہیں سمجھتے۔ مثلاً حضرت عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے تین رکعت وتر کی مخالفت بھی ثابت ہے اور تین رکعت ایک تشہد سے روایت بھی کرتے ہیں۔ ( المستدرک ۱ ؍ ۳۰۱) ، ( مصنف ابن أبی شیبہ ۲ ؍ ۸۹، ۹۰)

مغرب کے ساتھ مشابہت بھی اس صورت میں ہوتی ہے کہ تین رکعت وتر دو سلام سے پڑھے جائیں کہ پہلے دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے اور پھر ایک رکعت پڑھ کر سلام پھیرے۔ اس صورت میں تین رکعت وتر دو تشہد سے ہو جائیں گے۔ چنانچہ بخاری میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہی طریقہ مروی ہے۔ حاصل کلام یہ کہ بالکل مغرب کی طرح تین رکعت وتر دو تشہد اور ایک سلام سے منع ہیں اور ایک تشہد یا دو سلام سے ثابت ہیں۔  ( صحیح البخاري، رقم الحدیث ۹۴۶)

باقی رہا امام شوکانی کا قول کہ ’’ تین رکعت وتر جائز تو ہیں، لیکن کراہت سے، اور بہتر یہ ہے کہ تین رکعت نہ پڑھے۔‘‘ یہ قول صحیح نہیں ہے، کیونکہ آنحضرتﷺ سے بکثرت تین رکعت وتر پڑھنا ثابت ہے۔ گو آپ سے پانچ، سات، نو ، گیارہ رکعت بھی ثابت ہیں۔ اور پھر اس صورت میں بعض   احادیث کا ترک بھی لازم آتا ہے۔ اگر تطبیق کی کوئی صورت ممکن ہو تو تطبیق ہی دینا چاہیے، نہ کہ بعض احادیث صحیحہ کو چھوڑ دیا جائے۔ اور اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ بعض صحابہ سے بالکل مغرب کی نماز کی طرح ایک سلام دو تشہد سے تین رکعت وتر ثابت ہیں تو اس کا جواب یہ ہے ان کو نہی مذکور نہیں پہنچی، لہٰذا وہ اس میں معذور ہیں۔ اور جب نبیﷺ سے ایک فعل یا قول ثابت ہوجائے تو اس کے خلاف کسی صحابی یا تابعی کے قول و فعل کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے؟ اور کسی ایک بھی حدیث سے ثابت نہیں کہ رسول اللہﷺ نے کبھی تین رکعت وتر ایک سلام دو تشہد سے پڑھے ہوں۔ (نیل الأوطار ۳ ؍ ۴۴)

اور دارقطنی کی حدیث سے جو ثابت ہوتا ہے، وہ حدیث ضعیف ہے۔ اس کو مرفوعاً صرف یحییٰ بن زکریا نے روایت کیا ہے اور وہ ضعیف ہے۔ بیہقی نے کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے۔ سفیان ثوری اور عبداللہ بن نمیر نے اس کو موقوفاً روایت کیا ہے۔ اور اسی طرح دارقطنی کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث ہے، جس کو ابن جوزی نے موضوع بتایا ہے۔ ابن معین نے کہا اسماعیل بن مکی کوئی شے نہیں ہے۔ نسائی نے اسے متروک بتایا ہے۔ ( سنن الدارقطني ۲؍ ۲۷) ، ( سنن البیھقي ۳ ؍ ۳۰) ، ( دیکھیں: نصب الرایۃ ۲ ؍ ۷۲)

اور فقہائے سبعہ سے جو تین رکعت وتر ایک سلام سے مروی ہے، وہ ہم تسلیم کرتے ہیں، لیکن ان میں سے کسی ایک سے بھی دو تشہد ثابت نہیں ہیں۔ اور ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ دو صورتوں میں تین رکعت وتر ثابت ہیں۔ یا تو ایک تشہد اور ایک سلام سے پڑھے جائیں اور یا پھر دو سلام اور دو تشہد سے پڑھے جائیں اور فقہائے سبعہ نے پہلی صورت کو اختیار کیا ہے اور وہ بھی صحیح ہے۔

شیخ سام اللہ حنفی نے محلی شرح موطأ میں امام احمد کا مذہب نقل کیا ہے کہ وہ ایک رکعت وتر کو ترجیح دیتے تھے اور تین رکعت ایک سلام اور ایک تشہد سے جائز اور ایک سلام دو تشہد سے مکروہ کہتے تھے۔

باقی رہا طحاوی کا یہ کہنا کہ نبیﷺ سے تو ایک رکعت سے لے کر گیارہ رکعت تک وتر ثابت ہیں، لیکن بعد میں تین رکعت وتر پر اجماع ہوگیا۔ بڑے تعجب کی بات ہے۔ یہ اجماع کب ہوا تھا؟ کہاں ہوا تھا؟ کن لوگوں نے کیا تھا؟ صحابہ اور تابعین سے بکثرت ایک رکعت وتر پڑھنا ثابت ہے۔ (شرح معاني الآثار ۱ ؍ ۲۹۱)

چنانچہ حافظ زین الدین عراقی لکھتے ہیں:

’’ خلفائے اربعہ، سعد بن ابی وقاص، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، ابو موسیٰ اشعری، ابولدرداء حذیفہ، ابن عمر، ابن عباس، معاویہ، تمیم داری، ابو ایوب انصاری، ابوہریرہ، فضالہ بن عبید، عبداللہ بن زبیر، اور معاذ بن حارث القاری رضی اللہ عنہم سب ایک رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔ اور تابعین میں سے سالم بن عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عیاش بن ابی ربیعہ، حسن بصری، محمد بن سیرین، عطا بن ابی رباح، عقبہ بن عبدالغافر، سعید بن جبیر، نافع بن جبیر، جابر بن زید، زہری، ربیعہ بن عبدالرحمن رحمہم اللہ وغیرہ ایک رکعت وتر کے قائل ہیں۔ اور ائمہ میں سے امام شافعی، اوزاعی، احمد، اسحاق، ابو ثور، داود، ابن حزم رحمہم اللہ سب ایک رکعت وتر کے قائل ہیں۔‘‘ امام شوکانی رحمہ اللہ نے اسی طرح نقل کیا ہے۔ ( دیکھیں: نیل الاؤطار ۳ ؍ ۳۹)

اور ابن ابی شیبہ نے حسن بصری سے جو تین رکعت پر اجماع نقل کیا ہے، وہ ضعیف ہے، کیونکہ عمرو بن عبید، حسن بصری رحمہ اللہ پر جھوٹ بولا کرتا تھا۔ زیلعی نے کہا ہے کہ عمرو بن عبید متکلم فیہ ہے۔ علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں کہا ہے کہ عمرو بن عبید معتزلی اور قدری تھا۔ ابن معین نے کہا: اس کی حدیث نہیں لکھنی چاہیے۔ نسائی نے کہا: متروک الحدیث ہے۔ ابن حبان نے کہا: یہ پہلے بڑا پرہیزگار تھا، پھر یہ معتزلی ہوگیا اور حسن بصری کی مجلس سے نکل گیا۔ صحابہ کو گالیاں دینے لگا اور حدیث میں جھوٹ بولنے لگا۔  ( مصنف ابن أبي شیبہ ۲ ؍ ۹۰) ، ( نصب الرایۃ ۲ ؍ ۷۲) ، (میزان الاعتدال ۳ ؍ ۲۷۴)

سطور بالا سے معلوم ہوا کہ حسن بصری سے جو تین رکعت وتر پر عمرو بن عبید نے اجماع نقل کیا ہے ، وہ ساقط الاعتبار ہے۔ اور حسن بصری سے اجماع کیسے نقل کیا جاسکتا ہے جب کہ محمد بن سیرین، جو ایک سچے تابعی ہیں، وہ خود روایت کرتے ہیں کہ صحابہ پانچ رکعت وتر بھی پڑھتے اور تین رکعت بھی اور ایک رکعت بھی اور ہر ایک کو درست سمجھتے تھے۔ ( سنن البیھقي ۲ ؍ ۳۲۳)

حررہ العبد الضعیف الراجى إلی رحمة ربه اللطیف :
أبو الطیب محمد المدعو بشمس الحق۔ عفى عنه۔ العظیم آبادی۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مجموعہ مقالات، و فتاویٰ

صفحہ نمبر 127

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ