سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(16)نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کا حکم

  • 15204
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1481

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کے متعلق حدیث صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے تو حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کے قول ’’سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر صرف مومل بن اسماعیل نے کیا ہے‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ جبکہ مومل بن اسماعیل کو، اگرچہ ابن معین نے ثقہ کہا ہے، لیکن اسے امام بخاری نے منکر الحدیث اور ابو حاتم نے صدوق کثیر الخطا کہا ہے۔ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہاں! سینے پر ہاتھ باندھنے کے بارے میں صحیح حدیث موجود ہے۔ ابن قیم کے قول کا مطلب یہ ہے کہ عاصم بن کلیب والی حدیث کو سفیان ثوری کے شاگردوں میں سے صرف مومل بن اسماعیل ہی روایت کرتا ہے، کیونکہ یحییٰ قطان نے سفیان سے (عاصم بن کلیب والی روایت کے علاوہ ) سینے پر ہاتھ باندھنے کے متعلق روایت نقل کی ہے، جو مسند احمد میں موجود ہے۔ اس کی سند بھی حسن ہے اور اس کے تمام روات معتبر ہیں۔

اس روایت کی سند میں موجود قبیصہ بن ہلب کو امام عجلی اور ابن حبان نے ثقہ کہا ہے۔ امام ابن مدینی اور نسائی نے کہا ہے کہ قبیصہ مجہول ہے ، کیونکہ اس سے صرف سماک نے روایت کی ہے۔

ثابت ہوا کہ قبیصہ بن ہلب امام علی بن المدینی اور نسائی کے نزدیک مجہول العین ہے نہ کہ مجہول العدالہ۔ اصول یہ ہے کہ جب کسی مجہول العین راوی (جس سے روایت کرنے والا صرف ایک راوی ہو) کو ائمہ جرح و تعدیل میں سے کوئی ایک امام ثقہ کہہ دے تو اس کی جہالت ختم ہو جاتی ہے اور اوپر گزرا ہے کہ قبیصہ کو دو اماموں عجلی اور ابن حبان نے ثقہ کہا ہے، تو پھر قبیصہ مجہول کیسے ہوسکتا ہے؟

حافظ ابن حجر شرح نخبہ میں فرماتے ہیں کہ اگر کسی مجہول راوی کو کوئی ایک ثقہ کہہ دے تو اس کی جہالت ختم ہو جاتی ہے۔ یہی بات ابن قطان، سیوطی اور سخاوی نے بھی کہی ہے۔ لہٰذا قبیصہ بن ہلب سے اگرچہ سماک بن حرب اکیلا ہی روایت کرتا ہے، لیکن جب امام عجلی اور امام ابن حبان نے اس کی توثیق کردی تو اس کی جہالت ختم ہوگئی۔

کیونکہ صحیح بخاری و مسلم میں بھی ایسے کئی راوی ہیں، جن سے روایت کرنے والے صرف ایک ایک راوی ہیں، لیکن امام بخاری و مسلم نے ان سے روایت کی ہے، جو ان کی تعدیل و توثیق کے لیے کافی ہے، مثلاً حصین بن محمد، زید بن رباح مدنی، عمر بن محمد بن جبیر، جابر بن اسماعیل حضرمی وغیرہ۔ یہ سب راوی ثقہ ہیں، حالانکہ ان سے روایت کنندہ صرف ایک ایک راوی ہے، لیکن اس کے باوجود ائمہ جرح و تعدیل نے ان میں سے کسی کو ضعیف نہیں قرار دیا۔

خلاصہ یہ ہے کہ امام ابن قطان فاسی اور حافظ ابن حجر کا اختیار کردہ موقف امام بخاری اور امام مسلم کے طریقہ کار کے بھی مطابق ہے اور یہی معتبر ہے۔

امام بیہقی نے بھی سینے پر ہاتھ باندھنے سے متعلق بعض روایات نقل کی ہیں اور امام ابن خزیمہ نے بھی اسے ذکر کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ امام ابن خزیمہ، بزار اور احمد نے سینے پر ہاتھ باندھنے والی روایت ذکر کی ہے۔‘‘ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مجموعہ مقالات، و فتاویٰ

صفحہ نمبر 105

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ