سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(38) خواتین کو پڑھنا لکھنا سکھانا

  • 15112
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 4932

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
علمائے  دین خواتین  کو لکھنا پڑھنا سکھانے  کے سلسلے  میں کیا فرماتے  ہیں؟ آیا جائز  ہ یا نہیں؟ اس سلسلے  میں  راجح  اور فیصلہ  کن رائے  کیا ہے ؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سبحانک اللہ لاعلم لنا الا ماعلمتنا انک انت العلیم  الحکیم  خواتین  کو لکھنا  پڑھنا  سکھانے  کے سلسلے  میں جواز  دونوں  طرح  احادیث  موجودہیں، لیکن عدم  جواز کی احادیث  موجود ہیں، لیکن عدم  جواز کی احادیث  ضعیف  اور موضوع ہیں،انھیں  بطور دلیل  پیش  کرنا درست  نہیں  کیونکہ  شرعی  احکام  اس  طرح  کی ضعیف اور موضوع احادیث  سے ثابت  نہیں ہوتے ۔

خواتین  کو لکھنا پڑھنا  شریعت  کی نگاہ  میں جائز اور درست ہے' اس سلسلے  میں جواز اور عدم  جواز دونوں  طرح کی احادیث  ثابت نہیں ہوتے ۔

خواتین  کو لکھنا پڑھنا  سکھانا  شریعت  کی نگاہ  میں جائز  اور درست ہے ۔اس سلسلے  میں جواز اور عدم  جواز دونوں  طرح کی احادیث  قارئین  کی خدمت  میں پیش کی جاتی  ہیں تاکہ  حقیقت کھل کر سامنے آجائے۔

 تعلیم  نسواں  کے عدم  جواز کے دلائل  کا تنقیدی  جائزہ

عدم جواز کی احادیث  امام ابن حبان  نے اپنی  کتاب "الضعفاء"  امام حاکم  نے اپنی  کتاب "المستدرك" اور امام  بیہقی  نے اپنی  کتاب  "شعب الايمان " میں  روایت  کی ہیں ۔ابن حبان  کےالفاظ  ہٰں۔

عن عائشه  رضي الله عنه  قالت: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم  "لاتسكنوهن  الغرف  ‘ولاتعلموهن  الكتابة  ‘وعلموهن  المغزل  وسورة النور"

حضرت  عائشہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے ۔ نبی  کریم ﷺ نے فرمایا۔ عورتوں  کو محلوں  میں مت رکھو۔ لکھنا مت سکھاؤ ۔سوت  کاتنے  اور سورہ  نور  کی تعلیم  دو۔

اس حدیث  کے رواۃ  پر محدثین  نے بہت  کچھ کلام  کیا ہے ۔اس  کے ایک  راوی  محمد بن ابراہیم  شامی  کو امام  ذہبی   نے اپنی کتاب  "میزان " میں منکر حدیث ،  واضع  حدیث ۔اور امام دارقطنی  نے کذاب  لکھا ہے ،علامہ  ابن حدی  نے ان  کی  عام حدیثوں  کو غیر محفوظ  قراردیا ہے۔امام ابن جوزی  نے اپنی  کتاب "ملل متناھیة" میں لکھا  ہے  کہ وہ  حدیث  وضع  کرتے تھے  اس لیے  ان کی  یہ حدیث  صحیح  نہیں ۔ابن  حبان  نے صرف  بطور  اعتبار  (زیادتی  اسناد)  ان سے  حدیث  روایت  کرنا جائز  قراردیا ہے ۔حافظ  ابن حجر  نے اپنی  کتاب  " تقریب " میں انھیں  منکر  حدیث  لکھا ہے ،

علامہ  خزرجی  نے اپنی کتاب  "خلاصہ " میں لکھا ہے  کہ محمد بن ابراہیم  شامی  کو ابو نعیم  اور دارقطنی  نے کذاب  لکھا ہے۔ابو حاتم  اورامام نسائی  نے ثقہ  قراردیاہے ۔ اور ابن عدی  نے تحریر  کیا ہے  کہ اس عام  حدیثیں  محفوظ  نہیں ۔

علامہ خزرجی کا ابو حاتم  اور امام نسائی  سے اس کی  توثیق نقل کرنا درست نہیں  ۔ کیوں  کہ ان دونوں سے  اسماء الرجل  کے  دوسرے  مؤلفین  توثیق نقل  نہیں کرتے ۔ بلکہ  حافظ  ابن حجر  اپنی  "کاشف " و "میزان" میں صرف  جرح  کے کلمات  نقل  کرتے ہیں ۔اس لیے  یہ علامہ  خزرجی  کا وہم  ہے۔ان  سے اس قسم  کے وہم  کا صدور  متعدد مقامات  پر مذکور ہ کتاب  میں ہوا۔

بالفرض  اگر ابوحاتم  اور امام نسائی  کا محمد  بن ابراہیم  شامی  کو ثقہ  قرار دینا ثابت  بھی  ہوجائے  تو  ان کی  توثیق امام دارقطنی  'ابن حبان " ابن عدی  "اور  نعیم  جیسے  جلیل القدر  علمائے  جرح  کے مقابلے  میں قابل  تسلیم  نہیں ہوگی ۔اس لیے  محدثین  کے  نزدیک  مفصل  جرح  تعدیل  پر مقدم  ہوتی ہے ، جیسا کہ  ابن صلاح  نے اپنی  کتاب" مقدمہ" لکھا ہے۔اگر ایک شخص کے بارے  میں  جرح  وتعدیل  پر مقدم  ہوتی  ہے  جیسا  کہ حافظ  ابن اصلاح  نے اپنی  کتاب "مقدمہ " لکھا ہے ۔اگر ایک شخص کے بارے  میں  جرح  وتعدیل  دونوں  موجود ہوں  تو جرح  تعدیل  پر مقدم  ہوتی ہے ۔ کیوں کہ  معدل  ( توثیق کرنے والا محدث) راوی  کے ظاہر ی حالات  کی خبر  دیتا ہے ۔ جب  کہ جارح  (راوی  کو مجروح  بتانے  والا محدث )  راوی  کے ان پوشیدہ  حالات  کی نشاند ہی  بھی کردیتاہے جس  کی خبر معدل  کو نہیں  ہوتی ۔اگر معدلین  کی تعداد  جارحین  سے زیادہ  ہو جب بھی  جمہور  کے نزدیک  جرح کا  قبول  کرنا  زیادہ  بہتر  ہے، اگرچہ  بعض ائمہ  فن نے  ایسی صورت  میں تعدیل  کو افضل  قراردیا ہے ۔

حافظ ابن صلاح  مزید تحریر فرماتے  ہیں کہ جس  شخص کے بارے میں  محدثین  نے متروک  الحدیث،  کذاب ، ذاہب  الحدیث  کے الفاظ  استعمال  کیے ہیں  اس کی  حدیث  ناقابل  اعتبار  ہوگی  اور احاطہ  تحریر  میں نہیں  لائی جائے گی ۔

امام  سخاوی نے  اپنی کتاب  " فتح  المغیث  " میں لکھا ہے  کہایک راوی  کے سلسلے  میں جرح  وتعدیل  کے کلمات  موجود ہوں  تو جرم  تعدیل  پر  علی الاطلاق مقدم ہوگی ۔اگرچہ  دونوں  کی تعداد  برابر ہو ۔یہی  محدثین  کا مذہب  ہے، ابن صلاح  آمدی  اور  دوسری اصولین  نے بھی  اس کی تصحیح  کی ہے ۔ بلکہ  خطیب  بغدادی  نے تعداد  کی برابری  کی صورت  میں اہل علم کا  اس پر اتفاق  نقل کیاہے ۔ حافظ  ابن صلاح  کے سابقہ  کلام سے  بھی اس کی تائید  ہوتی ہے ۔اور ابن عساکر  نے بھی  اسی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں  کہ  اہل علم کا اتفاق ہے کہ جارح  کا قول  معدل  کے قول پر  مقدم سمجھا جائےگا لیکن  یہاں مناسب  ہوگا کہ اس حکم  کو جرح  مفصل  کے ساتھ  خاص مانا جائے ۔

ملا  اکرم  سندی  نے اپنی کتاب  "شرح  اشرح  النجیہ" میں لکھا ہے کہ  ایک جماعت  نے  مطلقا  جرح  کو تعدیل  پر مقدم  رکھا ہے ۔اس لیے  کہ جارح  کا علم  معدل  کے علم سے  وسیع  ہوتا ہے  معدل صرف راوی کے ظاہری  حالات کی خبر  دیتا ہے ۔جبکہ  جارح  راوی  کے  مخفی  حالات  کی بھی  نشان دہی  کرتا ہے ۔علامہ  بقاعی  نے " شرح الفیة "   کے  حاشیہ  پر تحریر  کیا ہے  کہ جارح  نے اگر جرح  کے اسبا ب  کی تعیین  کردی  تو معدل  کی  تعدیل  خود بخود  باطل ہوگئی

امام حاکم  نے دوسری  سند  سے حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہ  کی مذکورہ  حدیث  روایت کی ہے  اور اس  کی سند کی تصیحیح  فرمائی  ہے ۔امام بیہقی  نے بھی امام  حاکم سے اپنی  کتاب  " شعب الایمان " میں حضرت  عائشہ رضی اللہ عنہ  کی مذکورہ  حدیث  روایت  کی ہے ۔اس کی  سند میں  عبدالوہاب  بن ضحاک  ہیں۔  جن پر   محدثین  نے کلام کیا ہے ۔ حافظ   ذہبی نے  اپنی کتاب  "میزان " میں تحریر  کیا ہے  کہ ابو حاتم  نے عبدالوہاب  بن ضحاک  کو کذاب ۔امام نسائی ۔ دار قطنی  اور دوسرے  ائمہ حدیث  نے متروک  الحدیث  نیز  دار قطنی  نے منکر  حدیث  کہا ہے ۔

امام سیوطی  نے اپنی کتاب  "اللائی  المصنوعۃ "میں ابن حجر  کی کتاب "اطراف " کے حوالہ  سے امام حاکم  کا یہ قول نقل  کیا ہے  کہ  اس کی سند  صحیح  ہے لیکن  عبداللہ بن ضحاک  متروک الحدیث  ہے امام  بخاری  نے اسے عیب  وغریب  حدیث  بیان کرنے والا لکھا ہے ۔اور  ابن حبان  نے حدیث  وضع  کرنے والا  لکھا ہے ۔اورابن حبان  نے حدیث  وضع  کرنے والا بتایا ہے ۔

امام بیہقی  نے دوسری  سند  سے بھی  حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہ  کی مذکورہ  حدیث  روایت کی ہے  اور  اس کی سند  کو منکر  قراردیا ہے  اس کی   سند  میں بھی محمد  بن  ابراہیم  شامی آتے  ہیں  جن پر کلام  گذرچکا ہے ۔ابن حبان  نے اپنی کتاب "ضعفاء "  میں حضرت  ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے روایت کی ہے ۔

عن ابن عباس  قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم  لاتعلموا نساؤكم  الكتابة  ولاتسكنوهن  العلا لي خير  لهرامراة المغزل  وخير  لهوالرجل  السياحة

اپنی  عورتوں  کو خط  وکتابت  کی تعلیم  مت  دو  ۔ان  کو بالاخانوں  میں مت رکھو ۔ عورت  کے لیے  بہترین  تفریح  سوت  کاتنا  اور مرد کے لیے بہترین  تفریح  سیروسیاحت  ہے۔

اس کی سند  میں جعفر  بن نصر آتے ہیں ۔اس محدثین  نے کلام کیا ہے۔  امام ذہبی  نے اپنی کتاب" میزان"  میں اسے مہتم  بالکذب  لکھا ہے ۔اور اس  کی مزید  دو حدیثیں  نقل  کرکے  انھیں  موضوع  قرار دیا ہے،صاحب  "کامل" نے لکھا ہے  کہ وہ  ثقہ  راویوں سے باطل  حدیثیں  بیان  کرتے ہیں ۔ابن جوزی  نے بھی "علل متناھیۃ " اور صاحب  " کشف  الاحوال"  نے اپنی  کتاب میں  صاحب "کلام "کے مذکورہ  قول  کی تائید  کی ہے ۔

مذکورہ  بالاتفاصیل  سے ظاہر  ہوا کہ  عدم جواز  کی مذکورہ   تمام احادیث  ضعیف  اور معمول ہیں ۔ایک بھی  قابل استدلال  نہیں۔

 تعلیم نسواں  کے جواز کے دلائل

اس سلسلہ  کی احادیث  ابوداود ،احمد بن حنبل ' نسائی  اور طبرانی  نے روایت  کی ہیں  سنن ابی داؤد میں ہے۔

عَنِ الشِّفَاءِ بِنْتِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا عِنْدَ حَفْصَةَ فَقَالَ لِي: «أَلَا تُعَلِّمِينَ هَذِهِ رُقْيَةَ النَّمْلَةِ كَمَا عَلَّمْتِيهَا الْكِتَابَةَ»

 شفا بنت  عبداللہ سے مروی  ہے کہ نبی ﷺ تشریف  لائے  اور  ارشاد  فرمایا "مرض نملہ کے  جھاڑ  پھوک  کی تعلیم  حضرت  حفصہ کو تم  کیوں  نہیں دیتی جیسا کہ  تم نے  اس کو خط  وکتابت  کی تعلیم دی ہے ۔

نملہ  ایک قسم  کا پھوڑا ہے  جو پہلوؤں  میں نمایاں  ہوتا ہے ۔انتہائی  تکلیف  دہ ہوتا ہے  اس کامریض  ایسا محسوس  کرتا ہے کہ  اس پر چیونٹیاں  رینگ  رہی ہیں  اور کاٹ  رہی ہیں ۔اس  لے دوسرے  معانی  بھی بیان  کیے گیے  ہیں لیکن   یہی معنی  صحیح اور درست ہے ۔

 اس حدیث  کی سند  میں ابراہیم بن مہدی  آتے ہیں ۔ جن  پر محدثین  نے کلام  کیا ہے ۔ "خلاصہ " میں مرقوم  ہے  کہ ان  کو ابو حاتم نے  انھیں  ثقہ  قرار دیا ہے  ۔عقیلی  نے منکر  الحدیثیں  بیان کرنے  والا کہہ  کر یہ قول  یحی  بن معین  کی طرف  منسوب  کیا ہے ۔

عقیلی  اور یحی  بن معین  کی جرح  سے ابراہیم  بن مہدی  کی ذات  مجروح  نہیں ہوتی ۔ کیوں  کہ ابو حاتم  اور ابو عاصم  نے ان کی توثیق  کی ہے ۔ مزید  برآں  یہ کہ منکر  حدیثیں  بیان کرنے  اور منکر الحدیث  ہونے  کے درمیان  فرق ہے ۔ جس کی تفصیل  میں ذیل درج  ہے۔

 امام سخاوی  نے اپنی کتاب  "فتح  المغیث "  میں اپنے  استاد  کا قول   نقل کیا ہے کہ محدثین  کے نزدیک  متروک  ۔ساقط ۔ فاحش ۔  الغلط  منکر الحدیث  کے الفاظ " لیس  بقوی " اور "فیہ  مقال" کے الفاظ   سے زیادہ سخت  ہیں ۔

حافظ  عراقی  نے :احیاء  العلوم " کی تخریج  میں تحریر کیا ہے  کہ عموما لفظ  " منکر " کا  اطلاق  اس راوی پر ہوتا ہے جس نے  صرف ایک  دو حدیث  کی  روایت کی ہو۔امام ذہبی  نے محدثین  کی وضاحت کرتے ہوئے  تحریر کیا ہے  کہ کسی  راوی کے  بارے میں لفظ منکر  کا اطلاق  اس کی  تمام تر  مرویات  کو منکر نہیں بناتی  بلکہ اس  کی مرویات  کا بعض  حصہ  اس کی زد میں آتا ہے ۔

امام حاکم نے  سلیمان  بن بنت  شرجیل  کے بارے میں دارقطنی  سے دریافت  کیا تو انہوں نے اسے ثقہ  قرار دیا ۔ پھر  امام حاکم  نے عرض کیا  کہ ان  کے پاس  تو منکر احادیث موجود ہیں ، تو انہوں نے  ضعیف  راویوں  سے کی ہے ۔اگرچہ  وہ بذات  خود ثقہ ہیں ۔

علامہ  ابن دقیق العبد نے  اپنی کتاب  " شرح الامام " میں تحریر کیا ہے  کہ محدثین  جب کسی راوی  کے  بارے میں یہ کہیں کہ اس کے پاس  "مناکیر"  (منکر الحدیثیں) ہیں  صرف  اس بنیاد  پر اس راوی  سے ترک  روایت کرنا   مناسب نہیں۔ لیکن  جب اس کے پاس  مناکیر  کی کثرت  ہوجاوے  حتی کہ  اس کے  بارے میں لفظ " منکر  حدیث" استعمال کیاجائے تو  اس سے ترک  روایت کرنا  درست ہے ، صرف  لفظ " منکر  حدیث" استعمال کیاجائے  تو اس سے  ترک روایت کرنا درست ہے ۔ صرف  لفظ منکر  کے اطلاق سے کسی  راوی  سے ترک  روایت  کرنا کیسے  مناسب ہوگا  جبکہ  امام احمد  نے  محمد  بن ابراہیم  تیمی  کے بارے میں  منکر احادیث بیان کرنے  والا کہا ہے اور امام بخاری  ومسلم نے  ان سے حدیث  روایت  کرنے پر اتفاق کیا ہے ۔ نیز حدیث  :انما الاعمال بالنیات" کی سند  دارومدار  محمد  بن ابراہیم  تیمی  پر ہے .

اسی طرح امام احمد نے  زید بن  ابی انیسہ  کی بعض  مرویات کو منکر  مرویات  قرار دیا ہے  حالانکہ  امام بخاری  ومسلم  نے ان کی  مرویات کو بطور حجت پیش  کیا ہے۔

ان تمام باتوں  سے قطع  نظر یہ کہ  اس حدیث  کی اس روایت  میں ابراہیم  بن مہدی  کی متابعت  اور تائیدار  بن یعقوب  جیسے  ثقہ راوی  نے کی ہے جن کی روایت  امام نسائی  کی کتاب "السنن الکبری"  میں موجود ہے ۔اس کا ذکر آئندہ آئے گا۔

اس حدیث  کی سند  میں دوسرے راوی  علی بن  مسہرالقرشی  ہیں، انھیں یحی  بن معین  نے ثقہ  بتایا ہے ۔"خلاصہ "اور "اسماء  الرجال " کی دوسری  کتابوں  میں بھی  ان کی توثیق موجود ہے ۔

اس کی سند  میں تیسرے  راوی  عبدالعزیز بن عمر  عبدالعزیز  بھی ثقہ ہیں ۔ بخاری  ،مسلم۔ابوداود، ترمذی ، نسائی اور ابن ماجہ  جیسے ائمہ  حدیث نے  ان سے روایت  کی ہے ۔یحی  بن معین  اور ابوداود نے ان کی توثیق  کی ہے" میزان" میں مرقوم ہے  کہ محدثین  کی ایک جماعت  نے انھیں  ثقہ قرار دیا ہے ۔ صرف  ابو مہسر نے  ان کی تصنیف  کی ہے۔

حافظ  ابن حجر  نے "مقدمہ فتح الباری" میں تحریر کیا ہے  کہ یحی  بن معین  ابو داؤد ، نسائی ،اور ابو ذرعہ وغیرہ نے انھیں ثقہ بتایا ہے ۔ مزید لکھا ہے کہ  محدثین  کے درمیان  ان کی ثقاہت  میں کوئی  اختلاف نہیں۔خطابی  نے امام احمد کے  حوالہ سے تحریر  کیا ہے  کہ وہ حفاظ  میں سے نہیں ہیں یعنی  ان کے  محفوظات  کا دائرہ  وسیع نہیں ۔ مگر  یحی  بن معین  نے انھیں  "ثبت "(حافظ) کہا ہے ۔ابو حاتم  نے ان سے کتاب  احادیث  کی اجازت  دی  ہے  لیکن ابو مسہری  نے ان کی تصنیف  کی ہے اور ابو یعقوب  بن سفیان نے  ابونعیم  سے ان کی توثیق  نقل کیہے ۔اس تشریح  سے معلوم ہوا کہ جمہور محدثین  کے نزدیک  وہ ثقہ ہیں ۔ بلکہ بعض محدثین  کے بیان  سے معلوم ہوتا ہے کہ  ان کے بارے  میں سرے  سے کوئی اختلاف  نہیں  لہذا ابو مسہرکا  انھیں  بغیر  کسی دلیل  کے ضعیف  قرار دینا  محدثٰن  کرام  کے نزدیک  قابل توجہ نہیں۔

اس حدیث کی سند میں  چوتھے  راوی  صالح  بن کیسانی  کو بھی  یحی  بن معین  ۔امام احمد ار دوسرے محدثین  نے ثقہ کہا  ہے،  امام سیوطی  کی کتاب  "اسعاف المبطا"اور اسماء الرجال" کی  دوسری کتابوں میں بھی  ان کی توثیق  موجود ہے ،

 پانچویں  راوی ابوبکر  سلیمان بن  ابی حتمہ  المدنی  بھی ثقہ  اور علم الانساب  کے ماہر ہیں  جسا کہ "تقریب" میں  مرقوم ہے ۔اور "خلاصہ  "میں ہے  کہ امام زہری نے انھیں  علمائے  قریش  میں شمار  کیا ہے ۔

شفا بنت  عبداللہ جن  سے حدیث  مروی ہے  جلیل القدر  صحابیہ ہیں۔ان کا شمار  اولین  مہاجرات  میں ہوتا  ہے ۔حافظ  مزی  نے اپنی کتاب "تحفۃ الاشراف " میں ان کا شجرہ  نسب بیان کیا ہے ۔جس کا سلسلہ  عبد شمس  سے جا ملتا ہے ۔ یہ سلیمان  بن ابی حثمہ  کی ماں ہیں ۔ احمد  بن  صالح نے  تحریر  کیا ہے  کہ ان کا نام لیلی ہے ۔ شفا  لقب ہے  جواصل نام پر غالب آگیا ،

حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب  "اصابہ" میں تحریر کیا ہے  کہ "شفاء بنت  عبداللہ نے ہجرت  سے پہلے  اسلام قبول کیا۔ شروع  ہی میں ہجرت  کی۔نبی کریم ﷺ سے بیعت  ہوئیں  بڑیعاقلہ اور فاضلہ تھیں۔ نبی  کریم ﷺ ان کے گھر تشریف  لے جاکر  قیلولہ  فرماتے  تھے ،اس لیے  انھوں نے  آپﷺ کے لیے تہمد  اور ایک بستر کا انتظام  کردیاتھا۔، جس  پر آپ آرام  فرماتے تھے ۔ یہ  بستر اور لنگی ان کی اولاد  کے پاس مروان بن حکم  کے زمانی تک موجود رہی ۔ پھر  انھیں  مروان نے لے لیا۔ نبی ﷺ نے مدینہ  میں نگینہ  سازوں  کے علاقے  کے اندر ان کے لیے  ایک گھر خاص کردیا تھاجس میں  اپنے بیٹے  سلیمان کے  ساتھ رہتی  تھیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  ان کے مشورے  کی قدر کرتے  اور ان کا بڑا خیال رکھتے تھے ۔ بسااوقات بازار  کی نگرانی  ک ذمہ داری  سے بھی  سر فراز  فرماتے تھے ۔

امام احمد  نے  اپنی کتاب  "مسند"اور حافظ منذری  نے اپنی  کتاب  "مختصر  سنن ابی داود" میں شفا کی  حدیث روایت کی ہے  ،امام ابوداؤد نے روایت  کرکے سکوت  فرمایا ہے ،امام شوکانی  نے اپنی کتاب  "نیل الاوطار " میں لکھا ہے  کہ امام ابوداؤد اور منذری  نے اس حدیث  کو روایت کرکے سکوت  فرمایا ہے اور اس حدیث  کے تمام راوی  درست  اور ابراہیم  بن مہدی  ثقہ ہیں ،

علامہ (میری  نے اپنی کتاب "حیاۃ الحیوان" میں لکھاہے  کہ امام  ابو داؤد اور حاکم نے اس حدیث  کو روایت  کرکے صحیح  قرار دیا ہے ۔

حافظ  ابن حجر  نے اپنی کتاب  "اصابہ " میں تحریر  کیاہے  کہ ابو  نعیم  نے امام طبرانی  سے شفاء کی  حدیث  روایت  کی ہے ،امام نسائی  نے بھی  اپنی  کتاب  "سنن  کبری " میں ایک دوسری  سند سے  یہ  حدیث  نقل کی ہے ۔ حافظ مزی نے  اپنی کتاب  تحفۃ الاشراف " اور امام شوکانی  نے اپنی کتاب  "نیل الاوطار " میں  یہ حدیث  درج  کرتے ہوئے   نسائی  کا حوالہ  دیا ہے ۔

اس حدیث کی  سند  میں ایک راوی  ابراہیم بن یعقو ب  مشہور  حافظ حدیث  جوزجانی  ہیں امام نسائی  نے انھیں ثقہ بتایا ہے ،دار قطنی  نے کہا ہے  کہ"  وہ حفاظ  مصنفین  میں سے ہیں " اور کہا جاتا ہے  کہ وہ  ناصبی  تھے ۔ جب  ان کا قیام  دمشق  میں تھا تو امام احمد  ان سے  مراسلت  کرتے تھے ۔اور ان کی بہت عزت  کرتے تھے ۔"خلاصہ"  وغیرہ  میں ان کے حالات  موجود ہیں ۔ان کی  ناصبیت  کے انتساب  سے ان  کا مرتبہ  نہیں گھٹتا۔اوران  کیاس حدث  پر اس  کی وجہ  سے  کوئی آنچ  نہیں  آتی ۔ کیوں کہ  اس سے ناصبیوں  کے مسلک  کی تائید  مقصود  نہیں ۔اس مسئلے  کی تفصیل  اصل حدیث  کی کتابوں  میں موجود  ہے جن  کی طرف  رجوع  کیا جاسکتا ہے ۔

اس حدیث  کے دوسرے  راوی  علی  بن المدینی  کو حافظ  ابن حجر  نے اپنی کتاب  "تقریب"  میں ثقہ 'تبت 'امام اور حدیث  وعلل حدیث  کی معرفت  میں تمام معاصرین  سے ممتاز  بتا یا ہے ۔امام  بخاری  فرماتے ہیں  کہ" میں نے  اپنے آپ  کو علی بن المدینی  کے علاوہ  کسی  کے سامنے  کم تر  محسوس  نہیں کیا' ان کے استاد  ابن عیینہ  نے عرض  کیا"  جتنا  وہ میرے  علم سے  مستفید ہوتے ہیں اس سے  زیادہ  میں ان کے  علم سے مستفید  ہوتا ہوں ۔اورامام نسائی  نے فرمایا " گویا  اللہ تعالیٰ نے انھیں  علم حدیث  کی خدمت  ہی کے لیے پیدا کیا ہے ۔

اس حدیث  کی سند میں تیسرے راوی محمد بن بشر  العبدی  حافظ  حدیث  اور عالم  دین  یں یحی بن معین نےانھیں  ثقہ کہا ہے"خلاصہ " اور اسماء الرجال"  کی دوسری  کتابوں  میں ایسا  ہی مرقوم  ہے۔

مذکور ہ بالا بیان  سے واضح  ہوتا ہے  کہ حدیث شفاء  کی صحت  میں کوئی  شبہ نہیں ۔ لیکن  ایک متعصب  اور شکی مزاج  آدمی  سے کوئی بعید  نہیں  کہ اس صحیح  حدیث کو رد  کرتے ہوئے  موضوع وباطل  حدیث  استدلال  کرے۔ منکرین  حق کا  ہمیشہ  یہی شیوہ  دیا ہے ۔ انا لله وانا اليه رجعون

سابقہ  بیان  احادیث کی تحقیق  وتنقید  پر مشتمل  تھا ۔اب ذیل  میں علماء کرام  کے  اقوال  کا جائزہ  لیا جاتا ہے  تاکہ مسئلہ کی  مزید وضاحت ہوسکے ۔

امام خطابی  نے فرمایا ۔ شفا  ء کی حدیث عورتوں  کو لکھنا  پڑھنا سکھانے  کے  بلاکراہت جواز  پر دلالت  جواز پر دلالت  کرتی ہے ،

ابن قیم نے اپنی کتاب  "زادالمیعاد " میں تحریر  کیا کہ  یہ حدیث عورتوں کو  لکھنا  پڑھنا  سکھانے  کے جواز  کی  دلیل ہے ۔

مجد الدین عبدالسلام  ابن تیمیہ  نے تحریر کیا ہے کہ یہ  حدیث  عورتوں  کو لکھنا  پڑھنا  سکھانے پر ایک  واضح دلیل  ہے اور  اس کی تائید حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی  ایک اثر سے ہوتی ہے  جسے  امام  بخاری  بے اپنی کتاب  "الادب  المفرد " میں نقل کیاہے ۔

عن عَائِشَةُ بِنْتُ طَلْحَةَ قَالَتْ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ وَأَنَا فِي حِجْرِهَا وَكَانَ النَّاسُ يَأْتُونَهَا مِنْ كُلِّ مِصْرٍ فَكَانَ الشُّيُوخُ يَنْتَابُونِي لِمَكَانِي مِنْهَا وَكَانَ الشَّبَابُ يَتَأَخَّوْنِي فَيُهْدُونَ إِلَيَّ وَيَكْتُبُونَ إِلَيَّ مِنَ الْأَمْصَارِ فَأَقُولُ لِعَائِشَةَ يَا خَالَةُ هَذَا كِتَابُ فُلَانٍ وَهَدِيَّتُهُ فَتَقُولُ لِي عَائِشَةُ: أَيْ بُنَيَّةُ فَأَجِيبِيهِ

 عائشہ بنت طلحہ  فرماتی ہیں  کہ  میں حضرت عائشہ  کی زیر کفالت  تھی ۔ لوگ  مختلف  ممالک سے ان کے پاس آیا کرتے  ۔ عمر  رسیدہ  مجھے  اپنا نمائندہ  بناتے  نوجوان مجھے  اپنی بہن  کہا کرتے اور  ہدیہ  پیش کرتے  نیز میرے پاس  ہر ملک  سے خط  لکھتے ۔مین حضرت  عائشہ رضی اللہ عنہا سے  کہتی :خالہ جان ! یہ خط  اور ہدیہ  فلاں  نے بھیجا  ہے ۔ تو آپ  رضی اللہ عنہا  مجھ سے  فرماتیں ۔انھیں  جواب لکھو  اور ساتھ  ہی ہدیہ  کے بدلے  میں بھی  کچھ  روانہ  کرو،اگر تمہارے پاس  نہ ہو تو میں دے  دوں گی ۔ چنانچہ  وہ کچھ  دے دیا کرتی  تھیں۔

 جو شخص  بھی تاریخ  کی ورق  گردانی  کرے گا  اسے  معلوم  ہوگا عورتیں  ہمیشہ  لکھنا  پڑھنا  سیکھتی  رہی ہیں  اور کبھی   علماء  نے  اس پر اعتراض  نہیں کیا۔ ان میں  سے بہت  سی عورتیں  خطا طی  اور  کتابت  کے ساتھ ساتھ  علم  وعمل  کی بیش  بہا  دولت  سے بھی مالا مال  تھیں ۔ چنانچہ  ابن خلکان  اپنی کتاب  "وفیات  الاعیان " میں شہدۃ  بنت ابی نصر  کی سانح  عمری  میں لکھتے ہیں : وہ  بغداد کی  کاتبہ  اور عالمہ  خاتون تھیں ۔ نہایت  عمدہ  خط لکھتی  تھیں ۔ ان کی  آواز  بہت  بلند  تھی ۔  اکابر  واصاغر نے  ان سے حدیث  کی سماعت  حاصل کی  ۔ان کی  شہرت  اکناف  عالم  میں دور دور  تک ہوئی  ۔ان کی وفات  90  سال  کی  عمر میں  13 محرم  574ھبروز اتوار  عصر  کے بعد ہوئی  اور بغداد  کے باب "ابرز " میں مدفون  ہوئیں ۔

علامہ مقرری نے اپنی کتاب " نفخ الطیب "میں ابن حیان  کی کتاب  "مقتبس " کے حولے سے لکھا ہے  کہ عائشہ  بنت  احمد  سہرا  ندلس  کی ایک  ذہین  وفطین  عورت  تھیں ۔ علم ودانش  فہم  وادراک  ۔ شعر  وادب ،اور فصاحت وبلاغت میں اپنی  ہم عصر  عورتوں  کی امام تھیں ۔بادشاہوں  کی مدح  سرائی  کرکے  اپنی ضروریات  کی تکمیل  کیا کرتی تھیں ۔نہایت  عمدہ  خط  میں  مصاحف  لکھتی تھیں  400ھ  میں کنوارے  پن کی  حالت  میں وفات  پائی ۔

"المغرب" میں مرقوم  ہے کہ  وہ نادرہ  روزگار  اور یکتائے  زمانہ  تھیں /ابو عبداللہ الطیب  کی بھتیجی  تھیں ۔اگر  کہا جائے  کہ شعر  گوئی  میں اپنے چچا سے آگے  تھیں  تو غلط  نہ ہوگا ۔

گزشتہ  احادیث  میں اس کا ذکر  آچکا ہے  کہ شفا  بنت  عبداللہ نے ام المومنین  حفصہ  کو لکھنا  پڑھنا  سکھا یا تھا اور  رسول اللہ ﷺ نےخود انھیں  اس کی ہدایت  کی  تھی  اور اس سے  مطمئن  تھے ۔یہ حدیث عورتوں  کو پڑھنا  سکھانے  کے جواز  پر ایک  واضح  دلیل  ہے۔ عہد   رسول  عہد  صحابہ  اور اس  کے بعد  بھی عورتوں  کی تعلیم  کا برابر  رواج  رہا  ہے ۔اس کے  برعکس  عدم  جواز کی تمام  احادیث موضوع  اور باطل  ہیں ۔استدلال  کےقابل نہیں۔

امام حاکم  کے علاوہ  کسی محدث  نے اس سلسلے  کی کسی روایت  کو صحیح  نہیں  کہا ہے ۔ تصحیح  حدیث  کے سلسلے  میں ان کا تساہل  ایک  معروف  امر  ہے۔ علم حدیث کا ادنی  طالب  علم بھی  اس  سے واقف  ہے، ان کی تصیحیح  دوسرے  محدثین  کی موافقت  کے   بغیر  قابل  قبول نہیں  ہوتی ۔

 جو لوگ امام  بیہقی اورام  سیوطی  کی  طرف  عدم  جواز  کی حدیث  کی تصیحیح  کا انتساب  کرتے  ہیں  وہ افترا پر دارازی  کے مرتکب  ہیں ۔جس کسی نے بھی  امام سیوطی  کی کتاب "اللالی المصنوعة"کا مطالعہ  کیا ہوگا، وہ مذکورہ  بالا امر کی تصدیق  کرسکتا ہے ۔ رہی  شفاء کی حدییث  تو وہ صحیح  اور  ثابت  ہے۔ ایک  متعصب  اور جھگڑا لوہی  اس حدیث کی  سند پر جرح کرے گا۔جب  کہ اس  کے رواۃ  بخاری  ومسلم  کے رواۃ  اور ثقہ  ومعتبر  ہیں ۔

امام حاکم  نے بھی  شفاء  کی حدیث  کو صحیح  قرادیا ہے ۔امام ابو داؤد اور حافظ  منذری  نے سکوت اختیار  کیا ہے ۔ لیکن  ان دونوں  اماموں  کا سکوت  اس حدیث  کی صحت پر دلالت  کرتا ہے ۔

 مفسرین  کرام  کا  عدم  جواز کی حدیث  کو اپنی  تفسیر  میں بیان  کرنا اس  حدیث  کی صحت  پر دلالت  نہیں کرتا ۔ کیوں کہ  مفسرین  نے اپنی  تفاسیر  میں صحیح  حدیث  بیان  کرنے کا  التزام  نہیں کیا ہے۔ علامہ  بغوی  نے منکر ' شاذ، واہی  ہر قسم  کی روایت  اپنی تفسیر  "معالم التنزیل"  میں بیان  کی ہے ۔ لیکن  راوی  اور روایت پر کسی قسم  کا کلام  نہیں  کیا ہے ۔جوان  کی جلالت  علمی  اور عظت  شان  کے سراسر  خلاف  ہے،ہاں ! ابن کثیر  نے اپنی  تفسیر  میں حدیث  بیان  کرتے  وقت  راوی  و روایت  پر نقد  کرنے کا التزام  کیا ہے ۔اسی  نادر  خصوصیت  کی بناء پر  ان کی تفسیر  دوسری  تفاسیر  سے ممتاز  ہے،امام بغوی  نے شفاء  کی حدیث بعینہ  اسی سند  سے اپنی  تفسیر میں بیان  کی ہے۔  جس کے  رواۃ پر کافی  حد تک  کلام  ہوچکا ہے ۔ پس  ایک طالب  حق  کے نزدیک  اس قسم  کی حدیث قابل حجت  نہیں ہوسکتی ۔

علامہ علاء الدین خازن  نے اپنی  تفسیر  خازن  میں بلاسند  شفا ء کی حدیث  بیان کی ہے۔  پھر اسے  دلیل  وحجت  کا معیار  کیسے  قرار دیا جاسکتا ۔  ہاں ! ابن جریر  ،ابن کثیر ،امام بغوی ،امام سیوطی  اور خازن  جیسے  مفسرین  کرام  اگر عدم  جواز  کی حدیث اپنی  تفاسیر  میں بیان  کرکے  اس کی صحت  پر کلام  کرتے  تو قابل حجت  اور قابل اعتبار  ہوسکتی تھی ۔

ملا علی  قاری  نے اپنی کتاب  "شرح  مشکاۃ" میں حدیث  شفاء  کے تحت  لکھا ہے  کہ یہ  حدیث  عورتوں  کی تعلیم  کے جواز  او عدم  دونوں کا احتمال  رکھتی ہے ۔ کیوں کہ  موجودہ  زمانہ  میں فتنہ  وفساد کا بازار گرم ہے ۔ نیز  بعض  شارحین  حدیث  نے اس حدیث  کو حضرت  حفصہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ  خاص  کرکے دلیل  میں قرآن مجید کی یہ آیت  پیش کی ہے۔ يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ

 نبی ﷺ کی بیویو! تم  عام عورتوں  کی طرح نہیں ہو۔

اور عام  عورتوں  کے لیے  عدم جواز  کی حدیث بطور  دلیل  پیش کی ہے ۔ نیز  محدث عبدالحق  دہلوی  نےاپنی کتاب  "لمعات " میں حدیث شفاء  کے تحت  تحریر کیا ہے  کہ اس حدیث  سے عورتوں  کو لکھنا پڑھنا  سکھانے کا ثبوت ملتا ہے۔ لیکن  دوسری  حدیث  عدم جواز  کی بھی آتی ہے  اور جواز کی حدیث  سے مقدم  ہے ۔

اور دوسرے  علماء  کرام  نے جواز  کی حدیث  کو امہات المومنین  کے ساتھ  خاص کرکے  اسے  ان کے لیے باعث  فضیلت  قراردیا ہے ۔اور  عدم  جواز کی حدیث  کو عام  عورتوں  پر محمول  کیا ہے ،اس لیے  کہ فتنہ  وفساد  کا بازار گرم ہے ۔لیکن  امہات المومنین  کی ذات  عالیہ  اس قسم  کے تصورات سے بالاتر ہے ۔

تعجب  ہے کہ  مشکاۃ  شریف  کے شارجین  حضرات  پر جنہوں نے  جواز  کی حدیث  پر  طرح  طرح  کے احتمالات  کا ایک  طومار جمع  کردیا  ہے۔  کسی نے  اسے حضرت  حفصہ  کے ساتھ  خاص کیا  ہے  تو کسی نے  زمانہ  کی تقدیم وتاخیر کا سہارا  لیا ہے تو  کسی نے فتنہ   وفساد  کا دروازہ  کھل جانے کا۔

 ظاہر  ہے شفاء کی حدیث  کسی قسم  کی خصوصیت  کااحتمال نہیں رکھتی ۔اس لیے کسی امر  کی خصوصیت  کے لیے  قوی  اور محکم دلیل  کا ہونا  لازم ہے ۔ ورنہ  ہر آدمی  کہنا  شروع  کردے  کہ فلاں  حکم فلاں کے ساتھ  خاص  ہے۔ہم  اس حکم  کے مکلف  نہیں۔اس طرح  شریعت  کے احکام  بچوں  کے گھروندے  بن کر رہ جائیں گے ۔

اگر معاملہ  حضرت  حفصہ  کی خصوصیات  کا ہوتا  تو پھر  حضرت  شفاء  بنت عبداللہ  کتابت  کیوں کرتی تھیں  اور دوسروں  کو اس کی تعلیم  کیوں  دیتی تھیں؟ اور نبی  کریم  ﷺ اس  پر کیسے  رضامند  تھے ؟ سلف  کے لیے جائز  اور خلف  کےلیے ناجائز ۔ یہ احتمال  ترجیح  بلا مرجع  ہےت ۔اس لیے  کہ امت  اسلامیہ  کا ہر فرد حرام  اور جائز  وناجائز  کے احکام  میں برابر  کا شریک  ہے۔الا یہ کہ  شارع  علیہ السلام  کی طرف  سے  کسی قسم  کی تخصیص موجود  ہو۔

رہا مسئلہ فتنہ  وفساد  کے بازار گرم  ہونے  کا تو  گزشتہ  زمانہ  میں بھی  یہ احتمال  موجود تھا۔ قرآن مجید  کی یہ آیت  اس پر واضح  دلیل ہے۔﴿وَلَقَد عَلِمنَا المُستَقدِمينَ مِنكُم وَلَقَد عَلِمنَا المُستَـٔخِر‌ينَ ﴿٢٤﴾... سورةالحجر

جو لوگ تم سے  پہلے  ہو گزرے   ہیں  ان کو بھی  ہم نے  دیکھ  رکھا  ہے۔اور بعد کے آنے  والے  والے  بھی  ہماری  نگاہ  میں ہیں۔

سابقہ  تفصیلات  سے یہ حقیقت  روز روشن  کی طرح  عیاں  ہوگئی  کہ  عورتوں کو لکھنا پڑھنا  سکھانے  میں کسی  قسم  کی قباحت  وکراہت  نہیں۔ لیکن  بالغ  خواتین  کی تعلیم  صرف   دوسری  خواتین  یا ان کے محارم  کے ذریعہ  ہی دلاناجائز  ہے، رہی چھوٹی  نابالغ  بچیاں  تو  ان کی تعلیم  وتربیت  کی ذمہ  داری  ان کے  اولیاء کے اختیار  اور حسن  تدبیر  پر موقوف ہے ۔

یاد رہے  کہ خواتین  کی تعلیم  فتنہ وفساد  کا باعث نہیں ۔ کیوں کہ  شارع علیہ السلام  نے اس  کاحکم  دیا ہے۔ اگر  فتنہ  وفساد واقع  بھی ہو تواس کا تعلق خارجی  امور  سے ہوگا نہ کہ  نفس تعلیم  سے۔

علامہ  محمد  طاہر نے  اپنی کتاب"مجمع بحار  الانوار" میں علامہ  طیبی کے حوالہ  سے نبی  کریم ﷺ کا یہ قول  "الاتعلمين  هذه  رقية  النملة  كما  علمتها الكتاب " نقل  كيا ہے  اور لکھا ہے  کہ  اس حدیث  میں حضرت حفصہ  کی طرف  اشارہ  ہے۔نملہ  ایک طرح  کا پھوڑا ہے  جو جھاڑ پھونک  کے ذریعہ خدا کے حکم  سے اچھا ہوجاتا  ہے۔

یا"رقية النملة"  كا  معنی  دلہن ہے  جس  کو آپ ﷺ  نے  حضرت  حفصہ  کے لیے بطور  تعویض  فرمایا ۔ کیوں کہ  حضرت  حفصہ  نے آپ ﷺ کا راز فاش کردیا تھا۔اور "علمتیھا" کی "یا"  اشباع  کی ہے ، کیوں کہ دوسری حدیثوں  میں آپ ﷺ نے جھاڑ  پھونک  سے منع  فرمایا ہے  پھر کیسے اس  کی تعلیم کا حکم دے سکتے  ہیں ۔

آپ ﷺ کا یہ قول  دوسرے  معنی کا بھی احتمال  رکھتا ہے ۔ وہ  یہ کہ  جھاڑ  پھونک  کی تعلیم  سے آپ ﷺ  نے  زجرد  توبیح  فرمائی ہو اور خط وکتابت  کی تعلیم  سے انکار،اس احتمال  کی بنیاد پر نبی ﷺ  کے اس قول  کامعنی  یہ ہوگا  کہ اے شفاء بنت  عبداللہ تم  حضرت  حفصہ کے  شوہر کی نافرمانی  سے بچنے  کی تعلیم کیوں نہیں  دیتی  جیسا کہ  تم  نے اس  اس کو کتابت  کے نقصان  کی تعلیم  دی ہے ۔ پہلے  احتمال  کی بنیاد  پر دونوں  جملہ  کی  نفی  ہوتی  ہے ۔اس لیے  کہ مروج جھاڑ پھونک  اصحاب  توکل  کےحال  کےمنافی  ہے۔

یہ تاویل  مردود  اور باطل  ہے جو قلت  علم ۔ متون  حدیث سے  لاعلمی  اور طرق حدیث سے  ناواقفیت کا نتیجہ ہے  ۔

حافظ  ابن حجر  نے اپنی کتاب "اصابہ " میں ابن مندرہ  کے حوالے  سے "رقیۃ  النملہ "کی حدیث  ایک دوسری سند  نقل کی ہے  جو حضرت  حفصہ  سے مروی  ہے۔

 عن حفصة  رضي الله عنها ان امراة  من قريش  يقال  لها  الشفاء كانت  ترقي  من النملة ّ فقال  النبٰ صلي الله  عليه وسلم  علمها  حفصة’

حضرت  حفصہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی  ہے کہ قریش  کی ایک  عورت  جس  کو  شفاء  کہاجاتا ہے۔ وہ مرض  نملہ کا علاج  جھاڑ  پھونک  سے  کرتی تھی  تو نبی ﷺ نے فرمایا"حفصہ  کو بھی  اس کی تعلیم   دو"

 ابن  مندہ  اور  ابو نعیم  نے ایک  دوسری  سند  سے  بھی اس قسم  کی ایک طویل  روایت  نقل کی ہے ۔جس کا ترجمہ  اختصار  کے طور پر ذیل  میں  درج  کیا جاتا ہے  تاکہ  تاویل  کی تردید کی  مزید وضاحت  ہوسکے ۔

حضرت شفاء جاہلیت  کے زمانہ  میں جھاڑ  پھونک  کرتی تھیں ۔ مکہ میں نبی  کریم ﷺ سے بیعت ہوئیں ، پھر  ہجرت  کرکے  نبی کریم ﷺ کی خدمت  میں مدینہ  طیبہ  حاضر  ہوئیں  اور عرض  کیا۔اے اللہ کے رسول !  میں زمانہ  جاہلیت  میں جھاڑ  پھونک  کرتی تھی ۔آپﷺ  کو اس کے بارے میں  کچھ  بتلانا چاہتی  ہوں۔  آپ نے  اس کی اجازت  دے دی  تو انھوں نے اس  سلسلہ میں  آپ کو کچھ بتلایا  ۔ پھرآپ ﷺ نے فرمایا "جھاڑ پھونک  کرو اور حفصہ  کو بھی  اس کی تعلیم  دو۔"

مذکورہ  روایات  سے علامہ  طیبی  کی تاویل  پاش پاش ہوجاتی ہے ۔اور خواتین  کی تعلیم  کے جواز میں کسی قسم  کے  شبہ  کی گنجائش  باقی  نہیں  رہتی

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ مولانا شمس الحق عظیم آبادی

ص300

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ