سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(230)مرحوم کے ورثاء ایک بیٹے کے علاوہ اور بھی ڈار بیٹے تھے....

  • 15092
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 688

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتے ہیں علماءکرام اس مسئلہ میں کہ بنام حاجی امام بخش نےاپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹےمانی خان کے نام پرزمین کروادی تھی حالانکہ مرحوم کے4بیٹےتھےاس کےبعدمانی خان فوت ہواجس نےوارث چھوڑےتین بھائی۔بتائیں کہ شریعت محمدی کےمطابق ہرایک کوکتناحصہ ملےگا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یادرہے کہ سب سےپہلےمرحوم  کی ملکیت میں سےاس کےکفن دفن کاخرچہ نکالنے کےبعداگرقرض ہےتواسے ادا کیا جائےتیسرےنمبرپراگرجائزوصیت کی تھی تک کل مال کےتیسرےحصےتک سےپوری کی جائے۔اس کےبعدمرحوم کےبقیہ مال منقولہ خواہ غیرمنقولہ کوایک روپیہ قراردےکر اس طرح تقسیم کی جائےگی۔

مرحوم امام بخش ملکیت1روپیہ

وارث:بیٹا4آنے،بیٹا4آنے،بیٹا4آنے،بیٹا4آنے،

اس کے بعدمانی خان فوت ہوا۔ملکیت کوایک روپیہ قراردیں گے۔

وارث:بھائی5آنے4پائی،بھائی5آنے4پائی،بھائی5آنے4پائی،


نوٹ:......اگرملکیت باپ کی تھی توتقسیم ایسے ہی ہوگی۔

جدیداعشاریہ فیصدنظام تقسیم

اس میں مانی خان کی الگ سےملکیت تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے وارث بھی وہی تین بھائی ہیں لہذاان کےوالداورمانی خان کی کل ملکیت کو100شمارکرکےتینوں بھائی کو ایک ایک حصہ دےدیں۔تقسیم یوں ہوگا۔

3بھائی عصبہ                             100فی کس                                33.333
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 636

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ