سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(228)مرحوم کے ورثاء دو بیٹیاں

  • 15088
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 685

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیافرماتے ہیں علماءکرام اس مسئلہ کےبارے میں کہ  ایک شخص بنام محمدعلی سنجرانی نے اپنی زندگی میں  ہی ایک وصیت نامہ لکھاجس میں باورکروایاکہ اس کی اولادصرف دوبیٹیاں حکیماں اورملکاں ہیں ان دوکےعلاوہ اورکوئی اولادنہی،لہذامیری وفات کےبعدمیری ساری جائیدادمیری ان دوبیٹیوں کوہی دی جائے ۔جب محمدعلی فوت ہواتواس نےدرج ذیل ورثاء چھوڑےدوبیٹیاں،ایک بیوی مسمات سیانی اورایک بھتیجا ولی محمد۔اب عرض یہ ہے کہ مرحوم کی تحریرکردہ وصیت نامے ی حیثیت شریعت کے مطابق وصیت نامہ کی ہےیاہبہ کی،نیزمرحوم کی جائیدادکوورثاءمیں کس طرح تقسیم کیاجائے گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذکورہ صورت میں مرحوم محمدعلی کی وصیت اپنی بیٹیوں کے حق میں بالکل باطل اورناقابل مردودہےکیونکہ دونوں بیٹیاں وارث ہیں اوروارث کے لیےوصیت نہیں کی جاسکتی:((لاوصية لوارث.)) (الحديث)اس لیے اس وصیت کی  کوئی حیثیت نہیں،بتائی ہوئی صورت میں مرحوم کی ملکیت میں سےپہلےکفن دفن کاخرچہ،دوسرےنمبرپرقرضہ کی ادائیگی کی جائےگی اگرقرضہ ہےتوپھربعدمیں باقی ملکیت کوایک روپیہ تصورکرکےمیت کےورثاء میں  اس طرح سےتقسیم ہوگی۔

بیوی مسمات سیانی2آنے،دوبیٹیوں کو10آنے8پیسےباقی بچے3آنے4پیسےوہ بھتیجےکودیےجائیں گےاس طرح کی تقسیم قرآن مجیداورحدیث مبارکہ میں وضاحت سےبیان ہوئی ہے۔

مندرجہ بالاسوال کی موجودہ اعشاری نظام میں یوں بھی تقسیم کیاجاسکتا ہے کہ اگرمیت کاترکہ100روپےشمارکیاجائےتوہروارث کاحصہ یہ ہوگا۔

بیوی             8/1/=12.5

دوبیٹیاں      3/2/=66.66    فی کس33.33

بھتیجا20.84
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 635

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ