سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(184)بينکنگ کے حوالہ سے

  • 15005
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1025

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتےہیں علماءدین اس مسئلہ میں کہ حاجی عبداللہ منشی غلام محمدمیں سےہرایک کواپنی اپنی کپاس کی رقم کاچیک سیٹھ عبدالشکورکی طرف سےملادونوں چیک لےکربینک میں آئےاور۔/18000روپےلیےاورغلام محمدمصطفی نے اورحاجی عبداللہ نے۔/1000ایک ہزارروپے لیے۔منشی غلام محمد کے پاس کھلےپیسےتھےجواس  نے ۔/2000دوہزارروپے والی دستیاں حاجی عبداللہ کے رومال میں باندھ دیں ،باقی پیسے اپنے پاس رکھے

اس کے بعددونوں سیٹھ جمیل کی دکان پرآگئے۔عبداللہ کاگاہک حاجی صاحب آیااورحاجی عبداللہ سےپیسے مانگےجس پرحاجی عبداللہ نے رومال میں سےاس کے۔/1000ایک ہزاروالی دستی نکال دی اورباقی بدھےپیسےدےدیےجس پر منشی غلام نے کہا  کہ میں حاجی صاحب کوکھلے پیسےدیتا ہوں منشی غلام محمد نے ۔/5000پانچ ہزارحاجی کودیےجس کے بعددونوں وہیں بیٹھے رہے اوررومال والی رقم جوکہ باندھی ہوئی تھی جس میں۔/4000حاجی عبداللہ کے اور۔/7000منشی غلام محمد کے تھے دونوں کے درمیان سےوہ رومال چوری ہوگیاچھان بین کی گئی مگررقم واپس نہیں مل سکی۔بتائیں کہ شریعت کےمطابق پیسے کس کو دینے پڑیں گے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

معلوم ہوناچاہیےکہ مرحوم نےجومکان ہبہ کیاتھاوہ بحال اوربرقراررہےگاباقی اگرمرحوم نے سامان بھی ہبہ کردیاتھااوراس کی تحریریاگواہ موجودہیں توپھریہ سامان بھی ہبہ میں 

معلوم ہوناچاہیےکہ یہ  ایک امانت تھی اگرامانت چوری ہوجاتی ہے توبھروائی نہیں جاتی ۔((وروي عمروبن شعيب عن ابيه عن جده ان النبي صلي الله عليه وسلم قال من اودع وديعة فلاضمان عليه.))

(رواه ابن ماجه’كتاب الصدقات’بان الوديعة’رقم الحديث : ٠١ ٢٤ )

اس طرح ایک اورحدیث میں ہےجسے امام بیہقی رحمہ اللہ نے بیان کیاہے کہ آپﷺنےفرمایا:((لاضمان علي موتمن.)) (دارقطني’كتاب البيوع) کہ جس کےپاس امانت رکھوائی گئی ہےاس پرکوئی چٹی نہیں اورنہ ہی اس سے بھروائی جائے گی۔

یعنی منشی غلام محمداورحاجی عبداللہ میں سے کسی پر بھی اس رقم کوبھرنالازم نہیں آتا۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 584

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ