سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(175)فروخت شده زمين كا مسئلہ

  • 14987
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1009

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

: کیافرماتے ہیں علماءکرام اس مسئلہ میں کہ مرحوم  اللہ بچایونےمرض الموت میں اپنی زمین اپنے بھانجوں کوبطورفروخت کردی ریٹ(قیمت)بی طے ہوگیااور2000دوہزارروپےبطورایڈوانس بھی دیئےگئے۔اس وقت زمین کاریٹ زیادہ تھاجبکہ سودےمیں بہت کم لگایاگیااورخریدارکی مصروفیت اوربیچنےوالےکی بیماری کی شدت کی وجہ کھاتا(رجسٹری)منتقل ہونے سےرہ گیاابھی تک کسی قسم کی تحریرات بھی نہیں ہوئیں۔اباللہ بچایوفوت ہوگیااس کی بیوی نے دوہزارروپے سوتی(ایڈوانس)والےواپس کردیےبھانجوں نے واپس لےبھی لیے۔وضاحت درکارہے کہ شریعت محمدی کے مطابق اس زمین کا مالک کون ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

معلوم ہوناچاہیےکہ مرحوم کامرض الموت میں یہ سوداکرناناجائزہےاس طرح سےوارث بعدمیں فقروفاقےکےاندرمبتلاہوکردوسروں کے آگےدست درازی کرنا،اس طرح آخری ایام میں مرحوم کے لیے ایساکرناغیرمناسب ہے۔کیونکہ مرض الموت کے وقت صدقہ وغیرہ کرنابھی ناجائزہےکیونکہ اس طرح کرنے سےپچھلےورثاءکوکچھ بھی نہیں ملےگااس لیے مرض الموت میں ہبہ اوروصیت بھی جائز نہیں ہے۔حدیث مبارکہ میں ہے:

((عن أبيه أنه اشتكى بمكة فجاءه رسول الله صلى الله عليه وسلم فلمارآه سعدبكي وقال يارسول الله أموت بالارض التى هاجرت منهاقال لاإن شاءالله وقال يارسول الله صلى الله عليه وسلم أوصى بمالى كله فى سبيل الله قال لاقال يعنى بثلثه قال لاقال فنصفه قال لاقال فثلثه قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الثلث والثلث كثيرإنك انتترك بنيك أغنياءخيرمن أن تتركهم عالة يتكففون الناس.)) أخرجه البخارى،كتاب الوصايا’باب امايترك ورثته’اغنياء-والنسائى كتاب الوصايا’باب الوصية’بالثلث واللفظ للنسائى.

‘‘سیدناعامربن سعداپنے باپ سےروایت کرتے ہیں کہ وہ مکہ میں بیمارہوئےاسی وقت ان کے ہاں رسول اکرمﷺتشریف  لائے،جب سعدنے آپ کودیکھاتورونے لگےاورکہنے لگے کہ اےاللہ کے رسولﷺمیں مرتا ہوں اسی جگہ جہاں سےہجرت کرچکاتھاآپﷺنےفرمایا:ان شاءاللہ تعالی ایسانہیں ہوگااورکہاسعدنے کہ اے اللہ کے رسولﷺمیں وصیت کرتاہوں میراسارامال اللہ کی راہ میں دیاجائے آپ نےفرمایاسارےمال کی وصیت نہ کرپھرعرض کیادوتہائی اس مال کی پھرآپ نے فرمایانہ دوتہائی بھی نہیں۔پھرپوچھاآدھااس مال کاآپﷺنےفرمایاآدھابھی نہیں۔پھراس نےکہاتہائی مال آپﷺنےفرمایاتہائی مال میں وصیت کرکیونکہ تہائی بھی بہت ہے۔پھرآپﷺنےان کوفرمایاوارث تیرےپیچھےغنی اورآسودہ رہیں یہ بات اچھی ہےیاکہ محتاج اورلوگوں کے دست نگررہیں یہ بات اچھی ہے۔’’

حالانکہ شریعت محمدی کبھی بھی ورثاء کونقصان نہیں پہنچاسکتی جیساکہ حدیث مبارکہ میں ہے:

((عن عبادة بن الصامت أن رسول لله صلى الله عليه وسلم قضى لاضررولاضرار.))

اسی طرح دوسری حدیث میں ہے:

((عن ابن عباس رضی الله عنه قال قال رسول لله صلى الله عليه وسلم لاضررولاضرارا.)) رواة ابن ماجه،كتاب الاحكام’باب من بنى فى حقه مايضربجاره’رقم الحديث:٢٣٤١.
مذکورہ صورت سےمعلوم ہوتا ہے کہ مرض الموت میں کیاہوازمین کاسوداواپس ہوناچاہیےکیونکہ ان دنوں زمین کی قیمت زیادہ تھی توکم قیمت میں کیسےفروخت کردی ہرباشعورانسان مہنگی چیزکوسستاکیسےفروخت کرےگا۔دوسری بات یہ کہ ابھی زمین کی خریدوفروخت کی تحریرات بھی نہیں لکھی گئی اس میں دی گئی رقم بطورایڈوانس بھی بہت کم ہے جوکہ غیرمناسب ہے۔تیسری بات کہ اب تک رجسٹری وغیرہ بھی نہیں ہوئی ،چوتھی بات کہ بیوہ نے ایڈوانس والی رقم واپس کردی اوربھانجوں نےوصول بھی کرلی۔ان وجوہات کی بناپرثابت ہوتا ہے کہ اس سودےکوختم کرکےواپس کیاجائے مرحوم کے لیے مرض الموت میں  یہ فیصلہ کرنابھی ناجائز تھاکہ آخری وقت میں اپنے ورثاکولاوارث چھوڑدےتاکہ دوسرے لوگوں کےسامنےدست درازی کرتے رہیں،لہذایہ زمین اصل ورثاء کی ہی ہوگی۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 574

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ