سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(133)منذور لغیراللہ کا حکم

  • 14919
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 695

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتے ہیں علماء کرام اورمشائخ اسلام اس مسئلہ کے متعلق کہ ایک شخص مشرک اورپوجاری بلکہ اپنے آپ کی پوجاکروانے والاہے جس کے پاس نذر(لغیراللہ)کامال مویشی یعنی جس طرح دنبے،بکریاں ،گائیں وغیرہ وغیرہ ہیں اوریہ مذکورشخص اس مال سےگذرسفرکرتاہےاوروقتافوقتافروخت کرکے حوائج دنیوی پوری کرتارہتا ہے اب  یہی شخص بایع ہوکروہ مال فروخت کرتاہےاوردوسراشخص ہمیشہ اس کے مال کاگاہک ہے اب وہ مشرک مذکورہ شخص سےمال منذورلغیراللہ اپنی رقم سےخریدکرکےبازارمیں بیچتاہےاس طریقہ سےہمیشہ تجارت کرتارہتا ہے ۔اب بتایاجائے کہ وہ منذورلغیراللہ مال دنبے،بکریاں وغیرہ میں مشتری کے لیے کیا حکم ہے؟ایک مقامی عالم سےپوچھاگیاہے تواس نے جواب دیاکہ وہ مال مشرک نے خریدکیا ہے اوراس کے عوض رقم دی ہے اس لیے وہ اس کے لیے جائز ہےکیونکہ شریعت میں اصل بات اباحت ہے جب اس اباحت کے لیے کوئی مانع وحائل واقع  نہیں ہوجاتامذکورہ بالاصورت میں مشرک نے اپنی رقم دےکرمال خریداہے جس کا ناجائزمنافع منتقل ہوکربایع کوپہنچے اس لیے اس مال میں شرعی طورپرکوئی بھی قباحت نہیں اگرمجرم ہے تووہ ہی مشرک ہے ناجائز مال لیتا رہتا ہے۔

اس کے علاوہ شریعت میں جوچیزیں حرام ہیں ان میں سے کچھ ذاتی طورپرحرام ہیں جس طرح خنزیراورمیۃ وغیرہمااورکچھ اشیاء ایسی ہیں جن میں حرمت اعتباری ہے اس لیےحرمت ذاتی اورحرمت اعتباری کے فرق کو ملحوظ خاطررکھنا چاہئے۔منذورلغیرمال حرمت اعتباری سےحرام کیاگیا ہے جس طرح چوری کیا ہوامال بھی حرمت اعتباری رکھتا ہے مگرجب وہ مال عیوض دےکرحاصل کیاجائے توا س میں کوئی قباحت نہیں اس طرح اس صورت میں بھی مشتری نے عیوض دےکرمال خریداہےلہذا اس پر کچھ ملامت نہیں اب آپ سےگذارش ہے کہ آپ اس کی وضاحت کریں کہ مولوی مذکورہ کی مذکورابالافتوی درست ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

منذورلغیراللہ مال کی خریدوفروخت اوراکل وشرب سب حرام اورناجائزہےکیونکہ احل بہ لغیراللہ کی حرمت تمام صورتوں کوشامل ہے۔کیونکہ  زمانہ جاہلیت میں بعض صورتوں میں جانوروں کوذبح کیاجاتاتھااوربعض صورتوں میں جانوروں کوبغیرذبح کیےغیراللہ کےنام پرنذرکرکےمجاوروں کے حوالہ کردیاجاتا تھا۔

قرآن کریم نے ان تمام رسومات کوغیرشرعی قراردیاہےاسی طرح منذورلغیراللہ مال کامنافع لینابھی ناجائز ٹھہرےگاجس طرح سورۃ المائدۃ میں ایسے جانوروں کاتذکرہ کیاگیاہے۔اس کے علاوہ منذورلغیراللہ مال کا مالک جوبایع ہے اس کے اس مال کوفروخت کرنےسےمعلوم ہوتا ہے کہ وہ نذرلغیراللہ سےبازآگیاہے تبھی تووہ اپنی ملکیت سمجھ کروہ مال فروخت کررہا ہے وگرنہ جس مال کوغیراللہ کے نام پر کیا جاتا ہے وہ اس کے پاس رہتا ہے مثلابت یاقبروقبےوغیرہ کےگردوہ مال گھومتارہتاہے اس کے مال کی خریدوفروخت نہیں ہواکرتی۔

گذشتہ زمانوں میں بھی مشرکین جانوروں کو بتوں کے نام کرکے ان کوآزادکرکے چھوڑدیتے تھے یاپھرآستانوں پرجاکرذبح کرتےتھےاس سے معلوم ہواکہ مذکورہ بایع شخص کا مال اگرمنذورلغیراللہ ہوتاتووہ مال ضرورکسی جگہ قبر،قبے وغیرہ کے پاس پہنچایاجاتااوراس کےبیچنے کاسوال ہی پیدانہیں ہوتاباقی مشرک سے منذورلغیراللہ کیاہوامال خریدنابالکل ناجائز ہےہاں ان سےذاتی طورپرجوان کا ذاتی مال ہواس کی خریدوفروخت جائز ہے۔جیساکہ احادیث مبارکہ میں مذکورہے کہ رسول اکرمﷺاورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین مال اورمختلف چیزیں مشرکین سےخریدکرتے تھے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 507

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ