سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(79)مقروض پر زكوة

  • 14864
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1421

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مقروض پر زكوة کا کیا حکم ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس آدمی پرقرض ہے اس کے پاس پیسوں میں سے رقم اندزاایک ہزارروپیہ ہے تواس کا 500مثلاقرضہ ہے اس کو اتارکرباقی ایک ہزارسےجوبچےاس پر اس  وقت سے لے کراگلےسال آنے تک قرضہ کے علاوہ باقی بچی ہوئی رقم پرزکوۃ لگےگی۔یعنی ساڑھے باون روپیہ پرزکوۃ لگے گی جوکہ چالیسواں حصہ ہے۔اورساڑھے باون روپیہ کاچالیسواں حصہ1.8ڈیڑھ روپیہ ہے اس طرح اوپرجتنے بھی ہوں گےمثلا ایک ہزارمیں سے پانچ سوقرضہ میں چلے گئے توباقی پانچ سوبچتے ہیں ان کاحساب کرکے چالیسواں حصہ دیا جائے گا۔(جب ہاتھ میں آنے کے بعدان پر سال گزرجائے)لیکن اگر وہ ایک ہزارجواس کےپاس ہے وہ ہے پچاس من گندم کی قیمت یعنی اس پر پانچ سوروپیہ قرضہ توہےلیکن آبادی سے اس کوکنکی(گندم)حاصل ہوئی ہے پچاس من جس کی قیمت فی من 20روپیہ کے حساب سے فقط ایک ہزارہوئی۔اس کا جواب یہ ہے کہ توپھرزکوۃ اول دی جائےگی اورقرضہ یہ علیحدہ ہے باقی لین دین دوقسموں کا ہوگا۔ایک وہ جوزمین کے متعلق ہے مثلابیج کا خرچہ ،بیل کے جوڑے کی  محنت اورخرچہ ھاریوں کا خرچہ اورمزدوری اورکھادوغیرہ کےاخراجات جیسے لین دین اس سےقطعا الگ نہیں کرسکتے البتہ کھیتی کو پانی پلانے کے بارے میں جوخرچہ ہوتا ہے شریعت مطہرہ نے اس کے بارے میں زکوۃ میں کمی وبیشی رکھی ہے یعنی جس زمین کو پلانے میں کم محنت اورکم خرچہ ہے اس کی پیدائش سے‘‘عشردسواں حصہ’’دینا ہے اورجوزمین سخت مشقت کے ساتھ سیرب کی جاتی ہے اس کی پیدائش سے‘‘نصف عشر’’(بیسواں حصہ)ہے۔مثلاجن کی زمینیں بارش کے پانی پرآبادہیں۔

ان کوزمین سیراب کرنے میں کوئی خاص مشقت نہیں اٹھانی پڑتی لہذاان پر‘‘عشر’’(دسواں حصہ ہے)لیکن وہ زمین جن کو پانی کھینچ کراورمشقت کے ساتھ پلایاجاتاہےان کی پیداوارسے20واں حصہ یعنی نصف عشرہے ۔اپنے ملک میں جو زمینیں چھوٹی نہروں ،واٹرکورسوں یاٹیوب ویل کے ذریعے پلائی جاتی ہے ۔وہ ساری کی ساری‘‘نصف عشر’’کی فہرست میں آتی ہیں۔

کیونکہ ا س پانی کے حصول میں اگرچہ اتنی مشقت نہیں ہوتی کبھی کبھی کھدائی کرنی پڑتی  ہے  ۔لیکن اس پر ٹیکس اورآبیانہ وغیرہ لگتا ہے شریعت مطہرہ نے ہمارے لیے یہ سہولت رکھی ہے کہ ایسی صورتوں میں‘‘نصف عشر’’کی ادائیگی ہوگی۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس آدمی کو پچاس من گندم حاصل ہوئی وہ اس کا ‘‘نصف عشر’’کی جوکہ ڈھائی من بنتا ہے وہ اداکرے گا باقی جو بھی بچتی ہے ۔مثلا ساڑھے سینتالیس من وہ  چاہے رکھ دے چاہے خرچ کردےوہ اس کی مرضی ہے ۔مطلب کہ زکوۃ اس پر صرف ڈھائی من ہی ہوگی۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 409

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ