سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(76)سونے کی زکوۃ

  • 14861
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1692

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سونے کاصحیح نصاب کیا ہے؟سننے میں آیا ہے کہ مرحوم عبدالستار رحمۃ اللہ علیہ نے 120روپیہ کانصاب مقررکیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سونےکےنصاب کے متعلق صحیح بات یہ ہے کہ اس کانصاب20دیناریا20مثقال ہے باقی جومرحوم عبدالستار رحمۃ اللہ علیہ نےجو 120روپیہ جتنے سونے کونصاب ٹھہرایاہے اس کی دلیل ہمیں نہیں مل سکی ہے۔معلوم نہیں کہ وہ نصاب کس بنیادپرقائم کیا گیا ہے۔ہمارےلکھے ہوئے نصاب پر یہ دلائل ہیں۔

(1):......امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سنن کبری میں یہ حدیث لائے ہیں:

((عن على بن ابى طالب رضي الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه قال هاتوا إلى ربع العشورمن كل اربعين درهمادرهم وليس عليك شىء حتى يكون لك مائتادرهم وحال عليه الحول ففيهاخمس دلاهم وليس عليك شئى حتى يكون لك عشرون دينارا فاذا كانت لك وحال عليه الحول ففيها نصف دينارفمازادفبحساب ذالك’قال ولاأدرى على رضى الله عنه يقول بحساب ذالك أم رفعه’إلى النبى صلى الله عليه وسلم.)) بيهقى:كتاب الزكوة‘باب نصاب الذهب وقدرالواجب فيه إذاحال عليه الحول’جلد٤’صفحه١٣٨’ط:نشرالسنه۔

اس حدیث میں سونے اورچاندی پر زکوۃ کے نصاب کابیان ہے۔چاندی کےمتعلق بعدمیں عرض کیا جائے گا۔سونے کے متعلق آپﷺنے فرمایاکہ اس میں زکوۃ نہیں ہے۔حتی کہ وہ سونا20دینارکے اندازے کوپہنچے(یادرکھناچاہئےکہ دیناراورمثقال ایک ہی بات ہے اس کاوزن بعدمیں عرض رکھاجائے گا۔)پھرجب20دینارہوئےاوران پرسال گزرگیاآدھادیناراداکرناپڑے گا۔اور20دینارسےجتنابھی زیادہ ہوگا اس کا وہی حساب لگایاجائے گایعنی چالیسواں حصہ اورراوی کایہ کہناکہ پتہ نہیں کہ((فمازادفبحساب ذالك))کےالفاظ حضورﷺکے ہیں یاسیدناعلی رضی اللہ عنہ کے ہیں۔

ان الفا ظ سے کوئی خاص واسطہ نہیں ہے وہ الفاظ آپﷺکے ہیں یاسیدناعلی رضی اللہ عنہ کے ہیں مطلب کے سونے کا نصاب ثابت ہوگیا وہ ہے20دیناراس سےکم پرزکوۃ نہیں ہے،اگرچہ کم میں ایک یا آدھاہی کیوں نہ ہو۔

نصب الرایہ میں حافظ زیلعی لکھتے ہیں کہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شارح(مسلم شریف)فرماتےہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے یا حسن ہے۔

(2):......اسی طرح حافظ ابومحمدبن حزم مشہورمحدث ظاہری اپنی مشہورکتاب  المحلی میں تحریرفرماتے ہیں اس حدیث کا راوی جریرثقہ راوی ہے۔انہوں نےسیدناعلی رضی اللہ عنہ سے جودوراوی عاصم بن ضمرہ وحارث بن عبداللہ ہیں ان سے مسندذکرکیا ہے۔چونکہ جریرثقہ راوی ہے اس لیے اس کی حدیث کو مسند کرکے ذکرکرنامعتبرہے،لہذاحدیث میں ارسال وغیرہ کی  علت پیش نہیں کی جاسکتی اورحافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ  نے اس حدیث کی تحسین کی ہے۔

لہذایہ حدیث اس قابل نہیں ہے کہ اس کو ضعیف گرداناجائے۔اسی طرح اس حدیث کو ترمذی نے بھی مرفوع ذکرکیا ہے جو کہ ابوعوانہ کے طرق سے ہے اوروہ ابواسحاق سےروایت کرتا ہے وہ عاصم بن ضمرہ سےوہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سےاورحضرت علی رضی اللہ عنہ نبیﷺسےبیان کرتے ہیں۔

زیادہ سےزیادہ اس حدیث کی علت بیان کی جاسکتی ہے کہ اس کی سند میں ابواسحاق ہےاوروہ  مدلس راوی ہےاوراس حدیث میں عن کے ساتھ روایت کرتا ہے۔‘‘حدثنا’’يا‘‘سمعت’’کےالفاظ نہیں  کہتا۔لیکن اس کاجواب یہ ہے کہ تدلیس کی وجہ سےسندمیں ضعف ضعیف پیداہوتاہے،نہ کہ سخت ضعف اوراتناہلکاضعف کتنی ہی طریقوں سےدورہوسکتا ہے۔مثلا اصول حدیث کے جاننے والوں کو خوب معلوم ہے کہ اگرکسی مرفوع حدیث کی سندمیں ایساخفیف ضعف ہے تووہ دوسری حدیث اگرچہ وہ مرفوع نہیں موقوف ہویعنی صحابی کاقول ہوتواس سے وہ حدیث قوی ہوجاتی ہے اوراس کاہلکاضعف رفع ہوجاتا ہے توبعینہ اسی طرح اس مرفوع حدیث کی  سند میں تدلیس کی وجہ سےہلکاساضعف پیداہواہے۔جس کوحضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول موقوف نے جو کہ صحیح سند کے ساتھ ہے اس نے قوی کردیا ہے۔

لہذاوہ ضعف سے  نکل کرحسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچ جائے گی اورحسن لغیرہ حدیث بھی صحیح حدیث کی طرح قابل حجت ہے۔(کمالا يخفى علی ماھرالاصول)

مگراس صورت  میں ایسی حسن لغیرہ حدیث جو کسی صحیح حدیث کی مخالف ہوتوپھر وہ قابل نہیں ہوتی۔لیکن اس مسئلہ میں دوسری کوئی صحیح حدیث ایسی نہیں ہے جو اس کے مخالف ہواس لیے یہ حدیث امام نووی اورحافظ ابن حزم وغیرہماکے مطابق حسن ہے اورقابل حجت ہے۔

(3):......ابن ماجہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابن ماجہ عبیداللہ بن موسی سےروایت کرتا ہے کہ :

((حدثناابراهيم بن اسماعيل عن عبدالله بن واقدعن ابن عمررضى الله عنه وعائشه رضى الله عنها أن النبى صلى الله عليه وسلم كان ياخذمن كل عشرين دينارافصاعدانصف دينارومن الأربعين دينارا دينارا.)) سنن ابن ماجه’كتاب الزكاة’باب زكوةالورق والذهب’رقم الحديث١٧٩١۔

حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ اورسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ بے شک نبی کریمﷺ20دینارمیں سے نصف دیناراورچالیس دیناروں میں سے ایک دیناربطورزکوۃ لیتے تھے۔’’

اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ سونے کا کم ازکم نصاب 20دینارہے۔اس لیے آپ نے20دینارمیں سے آدھادینارلیا ہے۔

اس حدیث کی سند میں  باقی راوی توصحیح ہیں لیکن ابراہیم بن اسماعیل ایک ایسا راوی ہےجن کے بارے میں حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ضعیف ہے ۔لیکن چونکہ اسی راوی سےامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں اشتہارکیا ہے ۔(باب بدءالخلق)میں پھر کہا جائے گاکہ یہ راوی اتنا ضعیف نہیں ہےبلکہ معمولی ضعف کا حامل ہے ۔ورنہ  شدیدضعف کے حامل راوی کے ساتھ امام محدثین بخاری رحمۃ اللہ علیہ جیساآدمی اشتہارہرگزنہیں لیتا۔بہرحال یہ ساری حدیثیں مل کرکافی قوت اورمضبوطی حاصل کرلیتی ہیں۔حسن سے کم درجہ کی  بالکل نہیں ہیں۔

لہذایہ قابل حجت ہیں اورجوبات ان سے ثابت ہوتی ہے وہی محقق کامسلک ہے جس سے معلوم ہواسونے کا نصاب20دیناریامثقال ہے اب دیکھتے ہیں مثقال کا وزن کیاہے۔مثقال کی تول ہے ۔ساڑھے چارماشہ اس حساب سے 20مثقال کا وزن ہوگا90ماشہ اور90ماشہ معنی ساڑھے سات تولے مطلب کہ جس آدمی کے پاس ساڑھے سات تولے سونا ہوگا کسی بھی صورت میں بنے بنائے زیورات یا خالص تواس پر آدھا مثقال زکوۃ لگے گی یعنی سوادوماشہ اگرخالص ہے بنابنایازیورنہیں ہے تووہ دے اگرزیورات وغیرہ بنےہوئے ہیں توحساب کرکے اس کی قیمت بطورزکوۃ اداکرےگاجوموجودہ ہوگی اوراگروہ سوناساڑھے سات تولہ سے اوپر ہے تو بھی اس کے مطابق حساب کرکے اس کی ادائیگی کرےگا۔اوراس حساب سے جو لکھا گیا ہے وہ بالکل آسان اورقابل فہم ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 404

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ