سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(71)ميت كو اٹھانے پر وضو کرنا

  • 14856
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 973

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حديث((من حمل الميت فعليه الوضوء ومن غسله فليغتسل))محققین حضرات اس حدیث کے متعلق کیا فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے یاضعیف؟اورآپ کی رائے کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کچھ روایات ایسی واردہوئی ہیں کہ جوشخص میت کو غسل  دے وہ غسل کرےاورجواسےاٹھائے وہ وضوکرے۔لیکن راقم الحروف کے نزدیک یہ سب روایات درجہ ثبوت کونہیں پہنچیں زیادہ سےزیادہ یہ صحابی کاقول ثابت ہوتا ہے۔البتہ مرفوع یعنی رسول اکرمﷺکاقول ثابت نہیں اس کی مختصرتفصیل درج ذیل ہے۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب علل کبیرمیں یہ عنوان قائم کرتے ہیں:

((ما جاءفى الغسل من غسل ميتا.))

پھرفرماتے ہیں:

((قال ابوعيسى سالت محمداعن هذاالحديث من غسل ميتافليغتسل فقال روى بعضهم عن سهيل بن أنى صالح عن إسحق مولى زائدة عن أبى هريرة رضى الله عنه موقوفا.))

‘‘یعنی میں نے محمد(امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ)سےاس حدیث کے متعلق دریافت کیا تو’’ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ یہ روایت اسحاق مولی زائدہ جوکہ ثقہ راوی ہےانھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےموقوفانقل کی ہےیعنی یہ روایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کاقول ہے نہ کہ مرفوع حدیث۔’’

حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ ابوصالح نے یہ روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمرفوعابیان کی ہے لیکن یہ معلول ہے کیونکہ ابوصالح نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےیہ روایت نہیں سنی۔امام ترمذی بحوالہ بالاکتاب میں فرماتے ہیں:

((قال محمدان احمدبن حنبل وعلی بن عبدالله قالالايصح من هذاالباب شئى وقال محمدوحديث عائشه رضى الله عنهافى هذاالباب ليس بذالك.)) علل كبير:ج١ص٤٢’٤٣.

 ‘‘یعنی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مزید فرمایاکہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اورعلی بن عبداللہ بن المدینی دونوں نے فرمایاکہ اس باب میں کچھ بھی ثابت نہیں۔’’امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مزید فرمایاکہ اس سلسلہ میں سیدتناوامناعائشہ رضی اللہ عنہاسےبھی روایت مروی ہے ۔(جوکہ ابوداودمیں ہے)لیکن وہ بھی صحیح نہیں۔’’

خودامام ابوداودرحمۃ اللہ علیہ نے اسے ضعیف قراردیا ہے ۔امام خطابی معالم السنن شرح سنن ابی داودمیں فرماتے ہیں کہ فی اسنادالحدیث مقال یعنی اس حدیث کی سند میں کلام ہے ۔اسی  طرح امام ابن ابی حاتم اپنی کتاب ‘‘العلل:ج١’صفحہ٣٥١)میں اپنے والد امام حاتم رازی سے نقل فرماتے ہیں کہ:

((الصواب عندى ابى هريرة رضى الله عنه موقوف.))

‘‘یعنی میرے نزدیک درست بات یہ ہے کہ یہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کاقول ہے،یعنی موقوف ہے نہ کہ مرفوع۔’’

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ السنن الکبری جلد1صفحہ 302میں لکھتے ہیں:

((الصحيح موقوف على ابى هريرة لأن الروايات المرفوع فى هذاالباب عن ابى هريرة غيرقوية لجهالة بعض رواتها وضعف بعضهم.))

‘‘یعنی صحیح بات یہ ہے کہ یہ روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پرموقوف ہے کیونکہ اس باب کی مرفوع روایات بعض راویوں کے ضعف اوربعض کے مجہول ہونے کی وجہ سے قوی نہیں ہیں۔’’

امام ابن الوزی(العلل المتناهية جلد١’صفحه٣٧٨)میں اس روایت کےمتعلق لکھتے ہیں:

((هذه الأحاديث كلهالايصح.))

یہ سب کی سب احادیث صحیح نہیں ہیں۔’’

بہرحال ائمہ احادیث کی تصریحات سےمعلوم ہواکہ ا س باب میں کوئی بھی مرفوع روایت صحیح ثابت نہیں زیادہ سے زیادہ سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ثابت ہوگا اورصحابی کا قول حجت نہیں۔

لہذاراقم الحروف کی تحقیق یہ ہے کہ نہ تومیت کو غسل دینے والے پر غسل واجب ہے اورنہ ہی اسے اٹھانے والے پر وضو۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 394

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ