سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(66)تعزیت پرکھانا

  • 14851
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 810

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں مروج ہے کہ جب کوئی شخص فوت ہوجاتا ہے تواس کے ورثاءاوردوست وغیرہ تعزیت کے لیے آتے رہتے ہیں اوریہ سلسلہ آہستہ آہستہ کئی ماہ تک چلتا رہتا ہے اس لیے لوگ وقت بچانے کی خاطرتین دنوں کے بعدشادی کی طرح دعوت نامے بھیج دیتے ہیں اورکسی خاص مقررہ وقت کھانے کا انتظام کرتے ہیں اورتعزیت کے لیے آنے والے لوگ اس وقت جمع ہوکرکھاناوٖغیرہ تناول کرنے کے بعدکچھ رقم بھی انہیں دے دیتے ہیں اس طرح کرنا کیسا ہے؟اصل میں اس طرح کرنے سے وقت بھی بچ جاتا ہے اورایک ہی وقت میں میت کے ورثاء فراغت پالیتے ہیں ایک مولوی صاحب کہتا ہے کہ  یہ ناجائز ہے آپ تفصیل سےبیان کریں کہ کیا واقعتایہ بات درست ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

معلوم ہونا چاہئے مرنے والے کے پیچھے طعام وغیرہ پکاکرکھلانا یا گھرگھراسےتقسیم کرنا جیسا کہ سوال میں مذکورہے یہ بلاشبہ حرام اورناجائز ہے۔اس کے علاوہ اس غم اورپریشانی کے موقع پر شادی کی  طرح رسوم ورواج کاانعقادبھی ناجائز ہےکیونکہ احادیث نبویہﷺیاسلف یاخلف سےایساکوئی رواج منقول نہیں۔

اس لیے اسے ضروری سمجھنا اوراس کے بعداس کا انعقادکرنا بدعت ہے اوراس کی دعوت عام کرنا بھی غیردرست ہے کیونکہ ایسی دعوت شادی اورخوشی کے موقعہ پر مشروع ہے نہ کہ غمی کے موقعہ پر بلکہ غمی کے موقعہ پر اس طرح کے طعام کے تیارکرنے سے رسول اکرمﷺنے منع فرمایاہے۔

((عن عكرمة عن ابن عباس رضى الله عنه أن النبى صلى الله عليه وسلم نهى عن طعام المتباريين أن يوكل.)) ابوداود’كتاب الاطعمة‘باب فى طعام المتباريين’رقم الحديث:٣٧٥٣ ۔
((وعن ابى هريرة رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم المتباريان لايجابان طعامهما’الامام احمديعنى المتعارفين بالضيافة فخراورياء.))

دونوں حدیثوں کاخلاصہ یہ ہے کہ فخروریاءاورنام کمانے کے لیے طعام کھلانے کےلیے دعوت دی جائے توایسےشخص کی قبول نہ کی جائے۔

مثقی الاخبارمیں ہے:

((عن جريربن عبدالله البجلى رضى الله عنه قال كنانعدالاجتماع إلى أهل الميت وضعة الطعام بعد دفنه من النياحه.))(راوه احمد)

یعنی جریربن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم اہل میت کی طرف لوگوں کو جمع ہونے اورمیت کے دفن کرنے کے بعدطعام تیارکرنے نوحہ شمارکرتےتھے۔’’

فتح القدیرمیں ہے:

((اتخاذالطعام من اهل الميت بدعة مستقبحة لانه شرع فى السرورلافى الشرور.))

‘‘یعنی اہل میت کی طرف سے طعام تیارکرنابہت قبیح بدعت ہے کیونکہ طعام تیارکرکے لوگوں کو جمع کرکے انہیں کھلاناخوشی کے موقع پر مشروع ہے نہ کہ دکھ اورپریشانی اورغمی کے موقع پر۔’’

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اہل میت کے ہاں اس طرح کے طعام تیارکرنےکی استطاعت نہیں ہوتی پھربھی وہ لوگوں کے طعنوں سے بچنے کے لیے قرضہ لےکربھی کھانے کا اہتمام کرتے  ہیں یا کچھ لوگ یتیموں کا مال(اہل میت کے ورثاء جو ابھی بلوغت کو نہیں پہنچےناجائز طریقے سے ضائع کرتے ہیں۔حالانکہ مال الیتیم ظلم سےکھانا حرام ہے:

اللہ تعالی  کا ارشاد ہے:

﴿إِنَّ ٱلَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَ‌ٰلَ ٱلْيَتَـٰمَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِى بُطُونِهِمْ نَارً‌ۭا ۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرً‌ۭا﴾ (النساء: ١٠)

‘‘یعنی بے شک جولوگ یتیموں کا مال ظلم کے ساتھ کھاتے ہیں وہ لوگ حقیقت میں اپنے پیٹوں میں جہنم کی آگ ڈالتے ہیں اوروہ عنقریب جہنم میں داخل ہوجائیں گے۔’’

حاصل مطب یہ ہے کہ یہ ایک غلط رسم ہے اورناجائز ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 383

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ