سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(64)وتروں کے بعد دو رکعات پڑھنا

  • 14849
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1318

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیاوتروں کےبعدبیٹھ کردورکعات پڑھنابدعت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اخبارالاعتصام کے١٥دسمبر١٩٦٧ءکےپرچےمیں صفحہ٩پر‘‘فتاویٰ’’کےتحت عنوان‘‘کیاوتروں کےبعددونفل پڑھناثابت ہیں؟’’نظرسےگذرااس عنوان کےتحت مولانامحترم عبدالقادرصاحب حصاروی نےیہ ثابت کرنےکی کوشش کی ہےکہ وتروں کےبعددورکعت پڑناثابت نہیں ہیں اوران کومشروع سمجھ کرپڑھنابدعت کےحدودمیں داخل ہوتاہے۔

معلوم ہوتاہےکہ مولانامحترم نےاس مضمون کےتحریرکرنےمیں عجلت سےکام لیاہےاورحدتویہ ہےکہ مولانانےان اہلحدیثوں پربھی‘‘نام نہاداہلحدیث’’کالیبل لگادیاہےجووتروں کےبعددوگانہ بیٹھ کرپڑھتےہیں۔یہ کتنی زبردستی ہےکہ جوبھی ان کےاختیارکردہ مسلک کاپیروکارنہ ہواس کونام نہاداہلحدیث قراردیاجائے۔کیاصحیح معنی مٰں وہی اہلحدیث ہےجومولاناحصاروی صاحب کااختیارکردہ مسلک اختیارکرےاورجواختلاف کرےوہ نام نہاداہلحدیث ہے؟اگرکوئی دلیل کی وجہ سےآپ سےاختلاف کرتاہےتویقینایہ حق آپ کونہیں پہنچتاکہ اس کوآپ موردطعن بنائیں یااس کونام نہاداہلحدیث سمجھیں،اوریہ کہنابھی صحیح نہیں کہ وتروں کےبعددوگانہ بیٹھ کرپڑھنےکاکوئی ثبوت نہیں ہے۔

غالبامولانانےصحاح ستہ کوبھی اچھی طرح نہیں دیکھاورنہ انہیں سنن ابن ماجہ میں ہی حدیث نظرآجاتی۔مولانافرماتےہیں کہ جناب حجرت رسول اللہﷺنےجودورکعتیں وتروں کےبعدنیٹھ کرپڑھی ہیں وہ تہجدکےوقت کےساتھ خاص ہیں اوراس کےعلاوہ وہ آنحضرتﷺکےساتھ مخصوص ہیں۔خصوصیت کاجواب توآگےآئےگالیکن دلیل میں ہم چنداحادیث نقل کرتےہیں جن سےمعلوم ہوگاکہ وتروں کےبعد(مطلقانہ کہ تہجدکےوقت)دورکعتیں نفل بیٹھ کرپڑھناآنحضرتﷺسےثابت ہے۔

(١)۔۔۔۔سنن ابن ماجہ میں ہے:

((حدثنا محمدبن بشارثناحماد بن مسعدةثنا ميمون بن موسى المرثى عن الحسن عن أمه عن أم سلمةرضى الله عنهاأن النبىﷺكان يصلي بعدالوتر ركعتين خفيفتين وهوجالس_)) سنن ابن ماجه:كتاب إقامة الصلوة والسنة فيها‘باب ماجاء فى الركعتين بعدالوتر جالسا’رقم الحديث: ۰ ١١٩۔

 ‘‘ام سلمہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ نبی کریمﷺوترکےبعدپہلی دورکعتیں بیٹھ کرپڑھتے۔’’

اس حدیث کی سندکےسب رواۃثقہ ہیں۔میمون بن موسیٰ المرئی بھی صدوق ہےلیکن وہ مدلس ہیں،اس لیے یہ شبہ ہوتاہےکہ شایدیہاں تدلیس سےکام لیاہولیکن اولاتومولاناحصاروی صاحب اپنےمضامین میں بہت سی احادیث ایسی تحیر فرماتےہیں جن کی اسانیدمیں مدلسین موجودہوتےہیں اورسماع کی تصریح بھی نہیں کرتے۔لیکن مولانامحترم صاحب اس حدیث کی یہ علت پیش کرکےاس کاکوئی جواب نہیں دیتےاس لیےکم ازکم انہیں تواس پراعتراض نہیں ہوناچاہئے۔

آگےایسی حدیثیں آرہی ہیں جن سےاس روایت کی تائیدہوجائےگی۔اوراس حدیث کی سندمیں جوحسن  اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں ان کا نام خبرۃ ہے اوروہ بھی مقبولۃ ہےاورابن حبان کواپنی ثقات میں لائے ہیں كذافى التقريب والتهذيب اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آنحضرتﷺوترکے بعددورکعت بیٹھ کرپڑھتے تھےاس حدیث کے متعلق یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ان دوگانہ سےمرادوہ دورکعتیں ہیں جوتہجدکے

وقت وتروں کے بعدپڑھاکرتے تھے۔کیونکہ اس میں قطعا مطلق بعدالوترکا بیان ہے اوراحادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ آنحضرتﷺعشاءکے بعدرات کے اول حصہ میں رات کے درمیانی حصہ میں اورآخررات میں وترپڑھاکرتےتھےیعنی آپ سےتینوں وقتوں میں رات کے اول ،اوسط اورآخر میں وترپڑھنا ثابت ہے۔

اور‘‘كان يصلي’’كا یہی متقاضی ہے ہمیشہ ورنہ کم ازکم اکثرتوضرورایساکرتےتھے۔مقصدیہ کہ اس حدیث سےمعلوم ہواکہ جب بھی وترپڑھتے تھے(خواہ اول رات میں یااس کے آخری حصہ میں تودورکعت بیٹھ کرپڑھتے تھے۔)

علاوہ ازیں خود مولانا صاحب نے ان دورکعت کے متعلق لکھا ہے کہ بیٹھ کر ان نفلوں کوشروع کرتے جب قراۃ ختم ہوجاتی توکھڑے ہوجاتے اوررکوع کرتے اورسجدہ کرتے اس سے معلوم ہوا کہ وہ  دو رکعتیں طویل ہوتی تھیں اوراس کی وضاحت مسلم وغیرہ کی روایت میں ہےلیکن اس حدیث میں ہے کہ وہ دورکعتیں ہلکی(خفیفتین)ہوتی تھیں(اسی کی وضاحت اگلی حدیثوں میں آرہی ہے)

اس سے معلوم ہو اکہ یہ وہ دورکعتیں نہیں تھیں جو تہجد کے وقت اس مخصوص طریقہ سےپڑھتے تھےاوریہ شبہ نہ کیا جائے کہ پھر تویہ حدیث مسلم شریف والی حدیث کےمتعارض ہوجائے گی کیونکہ مسلم شریف والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دورکعتیں لمبی ہوتی تھیں اوراس حدیث کا مفاد یہ ہے کہ وہ ہلکی ہواکرتی تھیں۔اس لیے کہ مقصود یہ ہے کہ آنحضرتﷺوترکےبعدہمیشہ دورکعت بیٹھ کرپڑھاکرتےتھے اب کبھی تووہ دورکعتیں ہلکی ہوتی تھیں اورکبھی لمبی اس مخصوص طریقہ پر جومسلم شریف کی حدیث میں واردہے اس میں تعارض کی کونسی بات ہے؟

اور دونوں جگہوں پرکان کالفظ وارد ہے اس سے بھی کوئی خرابی لازم نہیں آتی کیونکہ دونوں طریقے آپ سےدوام کےساتھ ثابت ہیں اوردوفعلوں کا اکثری (یعنی کثرت کےساتھ)ہونا کوئی اچھنبے کی بات بھی نہیں ہے کیونکہ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺبعض مرتبہ اتنے روزے رکھا کرتے تھےکہ خیال ہوتاکہ اب افطارہی نہیں کریں گے اوربعض مرتبہ اتنے دن افطارکرتے تھے کہ خیال ہوتا تھا کہ اب ر وزہ نہیں رکھیں گے۔

اس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ روزے بھی بہت دن تک رکھا کرتے تھے اورپھر افطاربھی کافی عرصہ تک ہواکرتے تھے یعنی دونوں فعل مبارک اکثری ہوگئے۔اسی طرح کبھی آپ کافی عرصہ تک ہلکی رکعتیں ہی پڑھتے رہتے جس میں سورہ ﴿إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا ﴿١اور﴿قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْكَـٰفِرُ‌ونَ﴾پڑھاکرتےاورکبھی بہت دن تک وہ دورکعتیں لمبی بھی کرتےرہتے تھے۔اس میں کوئی تعارض وتخالف نہیں ہے۔اورمولاناصاحب نے یہ بھی عجیب بات تحریرفرمائی ہے کہ‘‘جیسے یہ ترکیب آنحضورﷺسےمخصوص ہے’’کیونکہ مسلم وغیرہ میں یہ وضاحت ہے کہ اس طرح آپ اس زمانے میں کرتے تھے جب آپ بڑی عمرکے ہوگئے۔

((فلما اسن وغيرها.))

کےالفاظ آتے ہیں۔لہذا یہ ترکیب آنحضرتﷺکے ساتھ مخصوص نہیں ہے‘‘من يدعى فعليه البيان بالبرهان’’جوبڑی عمروالاہوجائے یابیماری وغیرہ کی وجہ سے چاہتا ہےکہ میں رات کے نوافل میں قرات بھی لمبی کروں اورنوافل کو بھی ترک نہ کروں وہ اسی ترکیب پر عمل کرسکتا ہے۔

یعنی شروع توقرات بیٹھ کرکرےلیکن جب قراۃ ختم ہونے کو آئے تواٹھ کررکوع کرےآخراس میں آپ کے اتباع سےکونسی چیز مانع ہے؟اوراس ترکیب کا آپ کے ساتھ مخصوص ہونا کس دلیل کی بناءپرہے؟خیریہ توضمنی چیز تھی اصل مقصد یہ تھا کہ اس حدیث سے معلوم ہواکہ آنحضرتﷺوترکےبعدبیٹھ کررکعتیں خفیفتین پڑھتے تھے،لہذاوترکے بعددوگانہ بیٹھ کرپڑھنا مسنون ہوا اور جومسنون ومشروع سمجھ کرپڑھتا ہے وہ نام نہاداہلحدیث یابدعتی وغیرہ نہیں ہے بلکہ متبع سنت ہے رہا خصوصیت کا تواس کے متعلق بعد میں عرض کروں گا۔

(٢):۔۔۔۔مسند احمد میں یہ حدیث ہے:

((حدثناعبدالله حدثنى ابى ثناعبدالصمد حدثنى ثناعبدالعزيزيعنى ابن صهيب عن ابى غالب عن ابى امامة أن النبى صلى الله عليه وسلم كان يصليهمابعدالوتروهوجالس يقرافيهما إِذَا زُلْزِلَتِ ٱلْأَرْ‌ضُ زِلْزَالَهَا و قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْكَـٰفِرُ‌ونَ.))

‘‘ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺوترکے بعدبیٹھ کردورکعتیں پڑھتے جن میں سورۃ زلزال اورکافرون کی تلاوت کرتے۔’’

اس حدیث کی سند بالکل بے غبارہےاس میں پہلے حضرت عبداللہ ہے وہ حضرت امام احمد کا فرزند ہے وہ ثقہ ہے پھران کا والد حضرت امام احمد ہے پھرعبدالصمدجوہے وہ عبدالصمدبن الوارث ہے جیسا کہ رجال کی کتب سے پتہ چل جاتا ہے اورجیسا کہ بیہقی کی روایت سے جوانہوں نے سنن میں نقل کی ہے معلوم ہوتا ہے ۔وہ روایت ہے۔

((قال البيهقى فى سننه الكبرى أخبرناابوعبدالله الحافظ وابوبكراحمدبن الحسن القاضى ابوصادق محمد بن احمد الصيد لأنى قالواثناابوالعباس محمد بن يعقوب ثناابوقلابة ثناعبدالصمدابن عبدالوارث ثناابى عندعبدالعزيزبن صهيب عن ابى غالب عن ابى امامة أن النبى صلى الله عليه وسلم يصلى ركعتين بعدالوتروهوجالس يقرافيهما إِذَا زُلْزِلَتِ و قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْكَـٰفِرُ‌ونَ.))

‘‘ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺوترکے بعدبیٹھ کردورکعتیں پڑھتے جن میں سورۃ زلزال اورکافرون کی تلاوت کرتے۔’’

مقصد یہ کہ امام احمد والی سند میں جو عبدالصمدہے وہ ابن عبدالوارث ہے اوروہ ثقہ ہےاسی طرح ان کے عبدالوارث بن سعیدوہ بھی ثقہ ہے اس کے بعد پھر عبدالعزیزبن صہیب وہ بھی ثقہ ہیں،پھرابوغالب ہیں یہ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کے صاحب ہیں ان کے نام میں اختلاف ہےلیکن وہ کنیت سے مشہورہیں۔ان کے متعلق صاحب التقریب حافظ ابن حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں کہ ‘‘صدوق يخطئى’’یعنی وہ سچے ہیں اورخطابھی کرجاتے ہیں۔

یخطی کالفظ راوی کی عدالت میں قادح نہیں ہے اورنہ اس کو احتجاج کے رتبے سےگرادیتا ہے کیونکہ خطااوروہم سے کوئی راوی معصوم نہیں ہے الاماشاءاللہ یہی وجہ ہے کہ رجال کی کتب میں بہت سے ایسے رواۃ ملتے ہیں جن کے متعلق ان کی کتب میں یہی لکھا ہوتا ہے کہ‘‘صدوق يخطئى’’یا‘‘صدوق يهم’’يا‘‘صدوق له اوهام’’حالانکہ وہ صحیحین کےرواہ میں سے ہوتے ہیں۔

مثلا حسن بن ذکوان بخاری کے رجال میں سے ہیں لیکن تقریب میں لکھا ہے کہ‘‘صدوق يخطئى’’اسی طرھ حرمی بن عمارہ بن ابی حفصہ جو بخاری اورمسلم کے رواۃ میں سے ہے ان کے متعلق حافظ ابن حجرؒتقریب میں تحریر فرماتے ہیں

‘‘صدوق يهم’’اسی طرح سعید بن یحیی بن سعیدبن ابان الاموی یہ راوی بھی شیخین کے رواۃ میں سے ہیں اس کےمتعلق حافظ صاحب تقریب میں فرماتے ہیں کہ ثقہ‘‘ربمااخطا’’بہرکیف اوربھی رواۃ ہیں جواگرچہ شیخین کے رواۃ میں سے ہیں لیکن ان کے متعلق رجال کی کتب میں یہی لکھاہوتا ہےکہ يخطئي له’اوهام اورربمااخطالیکن ان الفاظ سے وہ حجیت سےگرنہیں جاتے کیونکہ جہاں ان سے کچھ وہم ہوا ہے یا خطا ہوگئی ہے وہاں ائمہ حدیث اورحفاظ فن نے تنبیہ کردی ہے لہذا یہ نہیں ہوسکتا کہ جہاں پر بھی وہ راوی دیکھیں توکہیں کہ یہاں بھی اس نےخطاکی ہوگی۔

مقصدیہ ہے کہ چونکہ اس حدیث کے متعلق ائمہ حدیث میں سے کسی نے چونکہ یہ نہیں فرمایاکہ اس نے یہاں بھی خطا کی ہے ۔اس لیے اس کی روایت مقبول ہوگی ۔پھر آخر میں حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ  ہیں جو صحابی ہیں۔خلاصہ کلام کہ اس حدیث کی سند کے سب رواۃ ثقات ہیں اوران میں کوئی راوی مدلس بھی نہیں ہے۔

لہذایہ علت بھی نہیں ہے بلکہ یہ روایت دوسری حدیث سےجوآگے آرہی ہے تقویت  پکڑکرصحیح لغیرہ بن جائے گی:

((كمالايخفى على ماهرالأصول.))

اورامام احمد کی مسند احادیث کے ان کتب میں سے ہے جن کی احادیث سے اصلااحتجاج کیاجاسکتا ہے کیونکہ وہ طبقہ ثانیہ میں سے ہیں‘‘كمايشيراليه كلام المحدث الدهلوي في حجة الله البالغه’’خلاصه كلام کہ سندایہ حدیث بالکل بےغبارہے۔اس سے معلوم ہوا کہ  آنحضرتﷺوترکے بعددورکعت بیٹھ کرپڑھا کرتے تھے اوران دورکعتوں میں سورۃ إِذَا زُلْزِلَتِاورقُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْكَـٰفِرُ‌ونَپڑھاکرتے تھےاوریہ حدیث ابن ماجہ والی حدیث کی مئویدبھی ہے کیونکہ اس میں بھی رکعتین خفیفتین پڑھنے کا ذکر ہے۔

اوراس حدیث میں بھی ‘‘كان يصلي’’كے الفاظ ہیں جو دوام یا کثرت پر دال ہیں دوسری بات یہ ہے کہ یہ روایت حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے ہے جس سے ظن غالب یہی ہوتاہےکہ یہ دورکعتیں عشاء کے بعد وترکے بعدآپ پڑھاکرتے تھے،کیونکہ تہجد توآپ اپنے گھرمیں ہی پڑھا کرتے تھے‘‘فتامل’’۔

علاوہ ازیں حدیث کے الفاظ میں‘‘كان يصلي ركعتين بعدالوتر’’اوریہ الفاظ عام ہیں لہذا ان کو بلادلیل صرف تہجدکےوقت کے ساتھ مخصوص کرنا صحیح نہیں ،کیونکہ جب  احادیث صحیحہ سےآنحضرتﷺکارات کے تینوں وقتوں اول،اوسط،آخرمیں وترپڑھناثابت ہے اوراس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہمیشہ وترکےبعددورکعتیں بیٹھ کرپڑھتے تھے توان دورکعتوں کا آپ سےپڑھنے کا ثبوت مل گیا اوروہ بھی دوامالہذا یہ کہنا کہ ان دورکعتوں کاوترکے بعدبیٹھ کرپرھنا بے ثبوت ہے قطعا صحیح نہیں ۔

(٣):۔۔۔۔امام بیہقی سنن کبری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث لائے ہیں:

((حدثناابوالحسن محمدبن الحسين بن داودالعلوى املاءثناابونصرمحمدبن حمدويه بن سهل المروزى ثناعبدالله بن جمادالاملى ثنايزيدبن عبدربه ثنابقية بن الوليدعن عتبة بن ابى حكيم عن قتادة عن انس بن مالك رضى الله عنه أن النبى صلى الله عليه وسلم كان يصلى بعدالوترركعتين وهوجالس يقرافى الركعة الأولى بأم القرآن و إِذَا زُلْزِلَتِ وفى الثانيه قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْكَـٰفِرُ‌ونَ.)) البيهقى‘كتاب الصلوٰة‘باب فى الركعتين بعدالوتر‘جلد٣‘صفحه٣٣_

اس حدیث کی سندمیں اورسب راوی ثقہ ہیں لیکن بقیہ سخت مدلس ہیں اورسماع کی تصریح نہیں کی اورعتبہ بن ابی حکیم کوصدوق ہےلیکن کثیرالخطاءہےاورقتادہ بھی ثقہ ہےلیکن وہ بھی مدلس ہےلیکن ان وجوہ سےسندمیں خفیف ضعف پیداہوتاہے،اس لیےاعتبارواستشہادمیں کوئی قباحت نہیں یعنی جب کہ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ نےصحیح یاحسن لذاتہ سندسےحدیث ثابت ہوگئی تویہ حدیث جوکہ تھوڑی ضعیف ہےاس کی مؤیدبن جائےگی اوراس کوشواہدکی حیثیت سےذکرکرنےمیں کوئی قباحت نہیں۔

بہرکیف اس حدیث سےبھی بخوبی معلوم ہوجاتاہےکہ آنحضرتﷺوترکےبعدہمیشہ بیٹھ کردوگانہ ادافرماتےتھےپہلی رکعت میں

إِذَا زُلْزِلَتِاوردوسری میں قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْكَـٰفِرُ‌ون پڑھاکرتے تھے،جب ایک فعل جناب حضرت رسول اللہﷺکےاسوۂحسنہ سےثابت ہوگیاتواس کےاتباع کی بدعت کہنااوراس کےمتبع کونام نہاداہلحدیث کہنازبردستی اورسینہ زوری ہےیہ بھی صحیح نہیں کہ سلف میں سےکوئی وترکےبعددورکعت نہیں پڑھاکرتےتھےبلکہ امام محمدبن نصرنےقیام اللیل میں لکھاہےکہ:

((وكان سعدبن ابى وقاص رضى الله عنه يوترثم يصلى على اثرالوترمكانه_))

یعنی حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ وترکےبعداسی جگہ پرنمازپڑھاکرتےتھےاسی طرح لکھاہےکہ‘‘وكان الحسن يامربسجدتين بعدالوتر’’یعنی حضرت حسن بصری وترکےبعددورکعت پڑھنےکاامرفرمایاکرتےتھےاورلکھتےہیں:

((وقال كثيربن مرةوخالدبن معدأن لاتدعهماوأنت تستطيع يعنى الركعتين بعدالوتر_))

کثیربن مرہ اورخالدبن معدان دونوں تابعی ہیں نےفرمایاہےکہ جب تک قدرت ہووترکےبعددورکعتوں کونہ چھوڑاکرو۔پھرفرماتےہیں:

((وقال عبدالله بن مساحق كل وترليس بعده ركعتان فهوأبتر_))

(عبداللہ بن مساحق فرماتےہیں کہ جس وترکےبعددورکعتیں نہیں وہ دم کٹاہے)

اس سےمعلوم ہواکہ یہ دورکعتیں کچھ الگ نہیں کہیں بلکہ وترکےساتھ ہی ہیں۔اس لیےیہ دورکعتیں وترکوقیام اللیل کےآخرمیں رکھنےکےمنافی بھی نہیں ہیں،آگےپھرامام محمدبن نصرفرماتےہیں:

((وقال عياض بن عبدالله رايت أباسلمةبن عبدالرحمان أوترثم صلى ركعتين فى المسجد_))

(عیاض بن عبداللہ فرماتےہیں کہ میں نےابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کودیکھاکہ وترکےبعدمسجدمیں ہی دورکعت اداکیں(یہ ابوسلمہ وہی بزرگ ہیں جوحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسےحضوراکرمﷺکےقیام اللیل کی گیارہ رکعات کےراوی ہیں۔)

بہرکیف خیرالقرون میں اورخودصحابہ میں سےبھی وترکےبعددورکعت پڑھنےکاثبوت ملتاہے۔لہٰذااس کوبدعت کےحدودمیں داخل کرناخصوصاجب کہ ان کایہ فعل حضرت رسولﷺکےموافق ہو۔

حضرت مولاناحصاروی صاحب کی ہی جرات ہےباقی مولاناکایہ فرماناکہ‘‘یہ فعل مبارک آنحضرتﷺسےخاص ہےکیونکہ اگرآپ امت کوایک امرفرمائیں اورخوداس سےمخالف کوئی عمل کریں تویہ آپ کی ذات مبارک سےمخصوص ہوگاتویہ کلیتہ صحیح نہیں ہےبلکہ اس میں تفصیل ہے۔

مثلاحدیث میں کھڑاہوکرپینےسےمنع آیاہےاورایسی کوئی حدیث نظرسےنہیں گذری جس میں یہ ہوکہ آپ نےکھڑاہوکرامت کواجازت دی ہےحالانکہ صحیح حدیثوں مٰں آتاہےکہ آپﷺکھڑےہوکربھی پیاکرتےتھےاسی وجہ سےمحققین نےیہی کہاہےکہ کھڑےہوکرپینابھی جائزہےگوبیٹھ کرپینابہترہےایسی اوربھی امثلہ دستیاب ہوسکتی ہیں۔اس لیےیہ کہناکہ جہاں بھی آپ کافعل اس امرکےخلاف ہوجوآپ نےامت کودیاہےتووہ آپ کی ذات مبارک سےمخصوص ہوگاصحیح نہیں ہے۔پھرمولانانےامام شوکافی کاتوقول نقل کردیالیکن اس سلسلہ میں اورائمہ حدیث کےاقوال نقل نہیں کئے۔اوریہ انصاف سےبعیدہےدیکھئے،

امام نووی شرح مسلم میں فرماتےہیں:

((قلت الصوات أن هاتين الركعتين فصلهماﷺبعدالوترجالسابيان جوازالصلوٰةبعدالوتروبيان جوازالتنفل جالساولم يواضب على ذالك_))

‘‘یعنی صحیح بات یہ ہےکہ آپ نے وترکےبعدبیٹھ کرنمازپڑھی ہےتاکہ معلوم ہوجائےکہ وترکے بعدبھی نفل پڑھناجائز ہےاوربیٹھ پڑھنابھی جائز ہے اورآپ نے اس پرہمیشگی نہیں کی۔’’

بہرحال اگراماشوکانی نے تخصیص کا کہا ہے توامام نووی نے اس کے جوازالتنفل بعدالوترکااثبات کیا ہے اب انصاف سے بتائیں کہ کس کی بات درست ہے؟اورجوامام نووی نے کہا ہے کہ آپ نے ا س پر ‘‘یعنی دوگانہ وترکے بعدہی ہمیشگی نہیں کی وہ غالبااس لیے کہ ان کے سامنے حضرت امام احمد کے مسنداورامام بیہقی کی  سنن کبری والی احادیث ذہن میں نہیں تھیں۔

ان کے سامنے صرف وہی حدیث یعنی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا والی حدیث جس کےشرح میں یہ عبارت لکھی ہے ،اس لیے یہ  فرمایاکہ اس پر ہمیشگی نہیں کی اوریہ امام نووی نے اس لیے فرمایاکہ ان کو یہ فعل بظاہر اس حدیث کے متعارض نظرآیاجس میں آپﷺنے حکم دیاتھاکہ وتر کو صلوۃ اللیل کےآخر میں رکھا کرو،حالانکہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا تھا کہ  یہ چیز واردنہیں ہوتی کیونکہ یہ دورکعت کوئی مستقل اورالگ نمازنہیں کہ جس کی وجہ سے یہ اس حکم کے متعارض ہوجائے ،ورنہ اگراس کووترکے بعداس کے ساتھ کی نماز قراردیا جائے جس طرح کہ عبداللہ بن مساحق نے کہا ہے۔(ان کا قول گزشتہ صفحات میں آچکا ہے)یعنی یہ دورکعتیں وتروں کے لیے ایک قسم کی تتمیم کا کام دیتی ہیں توپھریہ اعتراض واردنہیں ہوگااورجوحدیثیں ہم نے اوپرلکھی ہیں ان سےآنحضرتﷺکی ان دورکعتوں پر مواظبت معلوم ہوتی ہے۔

لہذایہ دوگانہ وترکے بعدبیٹھ کرپڑھنامشروع ومسنون ہوانہ کہ بدعت ونام نہاداہلحدیثوں کا فعل باقی رہا مولاناکایہ فرماناکہ بیٹھ کرپڑھنے سےآدھاثواب ملتا ہے اس کےمتعلق میری یہ گزارش ہے کہ اہلحدیث کہ کرائے کے اجیرنہیں ہیں کہ جہاں مزدوری  زیادہ ملےادھرچلےگئےجہاں تک میں سمجھتا ہوں اہلحدیث کا مطمع نظر،منتہی بصراوران کی نسب آرزووں کی تکمیل اسی میں ہے کہ ان کو سرورکونین سیدالبشرجناب حضرت رسول اللہﷺکےاسوہ حسنہ کا اتباع حاصل ہوجائے اگران کے نامہ اعمال میں یہ ثبت ہوجائے کہ انہوں نے حبیب احمدمصطفیﷺکی سنت کی پیروی کی توبس ان کے لیے یہی کافی ہے باقی رہاآدھاثواب تویہ توآدھاہےلیکن اگران کو کچھ بھی نہ ملےتب بھی ان کے لیے یہی کافی ہے کہ انہوں نے اس ذات اقدد کی سنت کا اتباع کیا جس کےمتعلق اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے:

﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ‌ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّـهُ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ﴾ (آل عمران:٣١)

اہلحدیث کوتوسنت الرسولﷺسےشغف ہے۔آخرمیں میں حضرت مولانامحترم حصاروی صاحب کی خدمت میں باادب یہ گزارش کرتا ہوں کہ ہر ایک کے لیے تحقیق کامیدان وسیع کھلاہوا ہے۔ا س لیے جو تحقیق بھی آں محترم نظرآئے بلاخوف لومۃ لائم پیش فرمادیاکریں لیکن اسی کو حرف آخرسمجھ کر جو اس کے مخالف ہواس کوبدعتی بنادیں یا اس کونام نہاداہلحدیث قراردیں،یہ چیزاچھی نہیں ہے کسی کو بدعت کی طرف منسوب کرنے سےپہلے اس بات پرغوروفکرفرمالیاکریں تویہ نہایت بہتررہے گاکیونکہ اگرکسی کواہلحدیث سمجھنے میں غلطی کی تواس کانقصان اتنانہیں ہوگاجتناکسی کوبدعتی سمجھنے میں غلطی کرنے سےہوگااس لیےجس کوہم غلطی سےاہلحدیث سمجھ رہے ہیں اگروہ واقعتااہلحدیث نہیں ہے تواس میں ہماراکچھ بھی نہیں بگڑتالیکن اگرکسی کوہم غلطی سےبدعتی سمجھ  لیں اورپھر اس پر عجلت سے بدعتی ہونے کا فتوی کا لیبل لگادیں توخودہی سوچ لیں اس سے کیا نتائج برآمدہوں گے۔ہرمعاملہ میں احتیاط بہترہے۔

وماعليناالاالبلاغ المبين وآخردعوناان الحمدلله رب العالمين وأناالعبدإلاواه ابوالروح محب الله شاه عفى الله عنه

کافی عرصہ پہلےوترکےبعددوگانہ نفل بیٹھ کرپڑھنے کے متعلق مولاناعبدالقادرصاحب حصاروی کافتوی شائع ہواتھاجس میں مولاناموصوف نے وترکےبعددوگانہ کراداکرنے کوبدعت قراردیاتھابعدمیں بندہ حقیرپرتقصیرراقم الحروف نے اس پرتعاقب کیا جوکہ بفضلہ  تعالی انصاف پسندحلقوں میں نہایت ہی پسندیدہ نظروں سےدیکھاگیا۔بعدمیں تنظیم اہلحدیث میں مولاناحصاروی صاحب نے اس تعاقب پر‘‘سندھی تعاقب پر ایک نظر’’کےعنوان تنقیدفرمائی ۔ہمہ دان کی دعوی تونہ بندہ نے پہلے کیا ہے اورنہ اب ہے اورکسی کی غلطی پراس کومتنبہ کرنایا اس کی لغزش کوظاہرکرنابھی معیوب نہیں بلکہ عین مرغوب ومطلوب امرہےلیکن جب تعاقب محض برائے تعاقب ہوتواس سے بجائے مفید نتیجہ نکلنے کے کدورتیں بڑھتی ہیں اوروقت کا ضیاع اس کے علاوہ ہوتا ہے۔

اس تعاقب پرتعاقب میں بھی حضرت مولانا حصاروی صاحب نے یہی طریقہ اختیارکیاہے اول بہت سی غیرمتعلق باتیں درمیان میں لے آئے ہیں جن سےقطعابحث نہیں تھی اورنہ ہی اہلحدیثوں میں مختلف فیہاہی تھیں ان کوتحریرمیں لانے کی قطعاضرورت نہیں تھی پھرمولاناموصوف نے اصل مسئلہ پرجوتنقیدکی ہے اس کےمتعلق غیرمتعصب اورہرحال میں عدل سےمتمسک متوازن اہل علم یہی رائے قائم کرےگاکہ یہ میرے تعاقب پرتعاقب ہےہی نہیں اورواللہ میں اس کے اوپرقلم ہرگزہرگزنہ اٹھاتالیکن چنداحباب کی غلط فہمیوں کے دورکرنے کے لیے مجھے مجبورااس پرکچھ لکھناپڑرہاہے کیونکہ جوحدیث کا علم کچھ زیادہ نہیں رکھتےوہ شایدمولاناصاحب کے مضمون ہذاسےاورمیری دانستہ خاموشی سے یہی اندازہ فرمائیں گےکہ غالبامیں نے اپنی غلطی تسلیم کرلی ہے اورمولاناصاحب کی تنقید واقعی صحیح اوروقیع ہے یہی وجہ ہے کہ میں اس پر خامہ فرسائی کرنے کے لیے مجبورہواہوں۔

ویسے اس مضمون کی تیسری قسط مولاناصاحب کی تنقید سےبھی پہلے میں دفترالاعتصام کوارسال کرچکاتھالیکن حضرت علامہ احسان الہی صاحب ایڈیٹرالاعتصام کے مشورہ سےاس قسط کواشاعت سےبازرکھالیکن جب مولاناکی یہ تنقید دیکھی تومجبورااس کی اشاعت کے لیےایڈیٹرصاحب موصوف کولکھااورانہوں نے وعدہ فرمادیا کہ جونہی مولاناصاحب کا مضمون پوراہوگاتواس کوشائع کردیاجائے گا۔اللہ تعالی بہترجانتا ہے کہ میں مولاناحصاروی کا بہت معتقدتھااوران کے علمی نکات اورمعقول ابحاث کی دل سے قدرکرتا تھالیکن ان کے اس مضمون کی تیسری قسط کے چند سطورنے میری سب خوش فہمیوں کو ریزہ ریزہ کردیامیں نے یہ کبھی خواب میں بھی نہیں سوچاتھاکہ مولانامحترم صاحب بلاوجہ ذاتیات پر بھی حملہ آورہوتے ہیں اوردوسروں پرغلط الزمات جوڑنے کے بھی عادی ہیں۔ذیل میں ان کے مضمون کی تیسری قسط سے‘‘جوتنظیم اہلحدیث١٦محرم کےصفحہ٦پرشائع ہوئی ہے’’ایک اقتباس نقل کرتا ہوں وہ ملاحظہ فرماکرمولاناکے اندازطبع کی داددیں۔مضمون کے تیسرے کالم میں یہ عبارت ہے:

‘‘پیرجھنڈاموجودہ پیروں کی طرح آل رسل کہلاکریہ فخرکرتے ہیں کہ ہم کوثواب پوراملتا ہے۔’’

ایں           خیال         است        ومحال        است        وجنون

اس سے آگے بھی بہت کچھ گل افشانی فرمائی ہے لیکن اس سے تعرض کی ضرورت محسوس نہیں کرنا،کیونکہ ان کاہرلفظ اورتحریر کی ہرسطراللہ تعالی کی کتاب میں محفوظ ہے﴿مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَ‌قِيبٌ عَتِيدٌ﴾اوروہی رب العالمین اورمالک یوالدین  ان سےحساب لےگا۔

سردست میں باادب ان سے یہ پوچھنے کی جسارت کرنے سے قطعاحق بجانب ہوں کہ جناب نے جویہ اتہام اخبارمیں درج فرمایاہے کیا یہ اتہام جناب نے مجھ سے میرے بھائی صاحب سےیاپھرہمارےدوسرےاقرباءجھنڈے والوں سے سناہے۔اوراگرنہیں اوریقینانہیں توپھران کویہ حق کیسے پہنچتا ہے کہ وہ ہم پر ایسے بے جاالزامات لگائیں؟

کیا ان کےذہن مبارک سے یہ آیت کریمہ اوجھل ہوگئی ہے کہ:

﴿وَمَن يَكْسِبْ خَطِيٓـَٔةً أَوْ إِثْمًا ثُمَّ يَرْ‌مِ بِهِۦ بَرِ‌يٓـًٔا فَقَدِ ٱحْتَمَلَ بُهْتَـٰنًا وَإِثْمًا مُّبِينًا﴾ (النساء:۱١۲)

‘‘جوشخص کوئی خطایاگناہ کرکےکسی ناکردہ گناہ کے ذمہ تھوپ دے اس نے بڑابہتان اٹھایااورکھلم کھلاگناہ کیا۔’’

اوراسی طرح:

﴿وَٱلَّذِينَ يُؤْذُونَ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتِ بِغَيْرِ‌ مَا ٱكْتَسَبُوا۟ فَقَدِ ٱحْتَمَلُوا۟ بُهْتَـٰنًا وَإِثْمًا مُّبِينًا﴾ (الاحزاب:٥٨)

‘‘جولوگ مومن مرداورمومن عورتوں کوایذاء دیں،بغیرکسی جرم کےجوان سےسرزدہوا،وہ بڑے ہی بہتان بازاورکھلم کھلاگناہ گارہیں۔’’

انہوں نے یقینا ہم سے تویہ بیجاءفخراورڈینگ والی بات سنی نہیں بلکہ مولاناسےتومیں بالمشافہ ملاتک نہیں لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے کسی بدخواہ اورمفتری سےایسی باتیں سنی ہوں لیکن اس صورت میں بھی کیا ان کے لیے کتاب وسنت میں رہنمائی نہیں ملتی؟

اللہ تعالی فرماتے ہے کہ:

﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِن جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوٓا۟ أَن تُصِيبُوا۟ قَوْمًۢا بِجَهَـٰلَةٍ فَتُصْبِحُوا۟ عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَـٰدِمِينَ﴾ (الحجرات:٦)

‘‘اے ایمان والو!اگرتمھیں کوئی فاسق خبردے تواس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو،ایسا نہ ہوکہ نادانی میں کسی قوم کو ایذاء پہنچادوپھراپنے کیےپرپشیمانی اٹھاو۔’’

اورپھر حضرت رسول اللہﷺکایہ ارشادگرامی کہ:

((كفى  بالمرءكذباأن يحدث بكل ماسمع.))

ان کےنظروں سےنہیں گذرا؟اورسنی سنائی بات پراعتمادکرکےدوسروں کومہتم کرنایہ اہلحدیث جماعت میں سےصرف مولاناحصاروی صاحب‘‘ہمارےمبلغ علم کی حدتک’’کےحصہ میں آیاہے۔

جی مولانا!ہم نےیہ دعویٰ کب کیاہےکہ ہم آل رسول ہیں،لہٰذاہم کوپوراثواب ملتاہےبلکہ ہم تویہ کہتےہیں کہ اللہ تعالیٰ میدان حشرمیں اگرہمیں جناب حضرت رسول اللہﷺکی امت کےادنیٰ درجہ کےمومنوں میں شامل فرمادےتویہ ہمارےلیےانتہائی خوش نصیبی ہوگی،ہم جناب حضرت رسول اللہﷺکےصحابہ کےسواکسی کوبھی یقینی طورپرناجی نہیں کہتے،صرف حسن ظن ہی ہوتاہےجوایک مسلم کےلیےرکھناپڑتاہے۔

اب آپ نےجوبلاوجہ یہ افتراءپردازی کی ہےتویادرکھئےقیامت کےدن اللہ تعالیٰ کےسامنےمیراہاتھ ہوگااورجناب کی دامن اورمیں رب العالمین کی عدالت میں یہ مقدمہ دائرکروں گاکہ حضرت مولاناسےدریافت فرمائیےکہ کیونکرہم پرایساالزام تھوپاتھا۔بس پھروہیں جواب دہ ہونااس سےزائدمیں نہیں لکھ سکتا،باقی رہاثواب تومیں نےیہ بات اپنےمضمون میں بھی نہیں لکھی تھی کہ یقیناوترکےبعددوگانہ بیٹھ کرپڑھنےوالےکوپوراثواب ملےگابلکہ اس کےبرعکس آخرمیں میں نےیہ لکھاتھاکہ یہ توبیٹھ کردوگانہ اداکرنےسےآدھاثواب ملتاہے،لیکن اگرکچھ بھی نہ ملتاتب بھی ہمارےلیےیہی کافی وافی ہےکہ ہم نےجناب حضرت رسولﷺکی سنت اداکی،اب ثواب کامعاملہ اللہ تعالیٰ کےہاتھ ہےوہ جوچاہےدے،ہمیں صرف یہ دیکھناہےکہ یہ کام آنحضرتﷺکی سنت ہےاورہراہلحدیث سنت پرعمل کرنآپناایمان سمجھتاہے۔

ایک اورمثال مولابناکےافتراءپردازی اوربیجااتہامات کاملاحظہ فرمائیے!تنظیم اہلحدیث مجریہ٧صفرکےصفحہ١۰کالم ہےتیسرےپررقمطرازہیں:

‘‘لیکن پیرصاحب اوران کےمریدوں کااس کےخلاف عمل ہےکہ وہ ہمیشہ مغرب کی سنتیں مسجدہی میں پڑھتےہیں اوریہ بدعت ہے۔’’

مولانا!معلوم ہوتاہےکہ جناب نےدوسروں پربلاوجہ اتہامات لگانےکاٹھیکہ لےرکھاہےاورشایدجناب کویہ خوف بھی نہیں آیاکہ ایک دن جناب کواللہ تعالیٰ کی عدالت عالیہ میں پیش ہوناہےاوروہاں کسی کابس نہیں چلےگا۔کیآپ یہ آیات کریمہ نہیں پڑھتے:

﴿أَلَا يَظُنُّ أُو۟لَـٰٓئِكَ أَنَّهُم مَّبْعُوثُونَ ﴿٤﴾ لِيَوْمٍ عَظِيمٍ ﴿٥﴾ يَوْمَ يَقُومُ ٱلنَّاسُ لِرَ‌بِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ﴾ (مطففين:٤تا٦)

‘‘کیاانھیں اپنےمرنےکےبعدجی اٹھنےکایقین نہیں،اس بڑےبھاری دن کےجس دن لوگ اللہ رب العالمین کےسامنےکھڑےہوں گے۔’’

اورکیاجناب حضرت رسولﷺکایہ ارشادہےکہ:

‘‘میری امت کامفلس وہ ہےجوآئےگاتونمازوں اورروزوں اورصدقات وغیرہ کےساتھ لیکن‘‘جاءشتم هذاواكل مال هذا’’الحدیث۔’’

توکیاجناب کواس بات کاڈرہی نہیں کہ دوسروں پربلاوجہ اوربلاکسی قصورکےایسےایسےاتہامات باندھتےہیں اورایسی افتراءپردازیوں کاارتکاب کرتےہیں میں آپ سےپوچھتاہوں کہ یہ الزام جھوٹااوراللہ جانتاہےکہ بالکل جھوٹاہے،آخرکس گناہ کی پاداش میں مجھ پرتھوپاہےآپ نےمجھےدیکھاکب ہےاورکیسےمعلوم ہواجناب کوکہ میں ہمیشہ مغرب کےبعدسنتیں مسجدمیں ہی پڑھتاہوں۔

حالانکہ جومیرےساتھ رہتےہیں یاجن کامجھ سےواسطہ ہےیاجومجھےجانتےہیں ان کواچھی طرح معلوم ہےکہ میں مولاناکی افتراءپردازی کےبالکل برعکس مغرب کےبعدسنتیں گھرمیں یآپنی جگہ پرہی آکرپڑھتاہوں،الاکبھی کسی ضرورت کی وجہ سےمسجدمیں ہی پڑھ لیں توخیرورنہ یہ سنتیں ہمیشہ گھرآکرہی پڑھاکرتاہوں،پھرآپ نےیہ بدعت کاالزام جھوٹامجھ پرکیوں لگادیاہے۔

پھرجناب نےجوننگےپاؤں نمازپڑھنےکےمتعلق لکھاہےتواس کےمتعلق یہ گذارش ہےکہ میں ننگےپاؤں نماززپڑھتاضرورہوں لیکن جوتی پہن کرپڑھنےکوناجائزنہیں کہتابلکہ اس عمل کومسنون جانتاہوں یعنی حضرت رسولﷺکی سنت سمجھتاہوں اورایسےمواقع بھی گزرےہیں کہ میں نےجوتی کےساتھ نمازپڑھی ہے۔

اللہ تعالیٰ اس کوبہترجانتاہےاوروہ اس پرگواہ ہےباقی رہااسس پرہمیشگی نہ کرناتواس کےلیےاوردلائل پس جن کےتذکرہ کایہ موقع نہیں اورنہ ہی یہ ذیربحث ہے۔اسی طرح مولاناکایہ الزام بھی درست نہیں کہ ہم ہمیشہ ننگےسرنمازپڑھتےہیں مولاناکےپاس اس کاکوئی ثبوت نہیں۔

بالآخران چیزوں کےذکرسےجناب کاکیامطلب ہےمعلوم ہوتاہےکہ جناب دوسروں کی توجہ اصل مسئلہ سےہٹاکردوسری باتوں میں الجھاناچاہتےہیں تاکہ ان باتوں میں کھوکراصلی بات جوذیربحث ہےوہ ختم ہوجائے،لیکن اہل علم وانصاف یقینآپ کی باتوں کوسمجھ جائیں گے۔واللہ!میں توسمجھتابھی نہیں ہوں کہ آخرمجھ سےمولاناکےجناب میں کیاگستاخی ہوگئی ہےجس کی وجہ سےایسےایسےالزام لگانےسےبھی پرہیزنہیں کرتےہاں یہ قصورضرورہواکہ میں نےان کےمضمون پرتعاقب کیاتھالیکن اس تعاقب میں‘‘والله علي مااقول شهيد’’کوئی بری نیت نہیں تھی اورنہ ہی مولاناکی شان کوکم کرنامقصودتھابلکہ محض جوبات سمجھ میں آئی اس کااظہارمطلوب تھا۔

آگےاگرمولاناکواس میں غلطیاں نظرآگئیں توان کااظہاروہ شائستہ الفاظ میں بھی کرسکتےتھےاورمیرےوہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ مولاناجیسی ہستی ایسی زبان استعمال کرنےپرآمادہ ہوگی اوران جیساعالم ایسےالزام لگائے،یہ میں نےخواب میں بھی نہیں خیال کیاتھاشایدمولانااسی خوش فہمی میں مبتلاہیں کہ جووہ تحریرفرماتےہیں بس اسی کوہی حرف آخرتسلیم کرلیاجائےاوراس کےمالہ وماعلیہ کےاظہارکی جرات بھی نہ کی جائے۔

خیران سب باتوں کافیصلہ خالق السموات والارض کی عدالت عالیہ میں ہوگاپھرجوانہوں نےمجھ پرالزامات لگائےہیں اگروہ واقعی صحیح ہوں گےتومیں ہی وہاں ماخوذبصورت دیگروہ اپنی فکرکریں ہمیں حضرت رسولﷺکایہ فرمان مبارک یادہےکہ:

((المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده.))(بخاری ومسلم)

‘‘کامل مسلمان وہ ہےجس کےہاتھ اورزبان سےدوسرےمسلمان محفوظ ہوں۔’’

باقی مولاناکایہ فرماناکہ:

‘‘میں’’‘‘راقم الحروف’’نےان پرالزام لگایاہےکہ وہ مدلسین کی روایات کواستدلال میں پیش کرتےہیں جوصحیح نہیں اگرمیں کوئی مثال پیش کرتاتوجواب دیاجائےگا۔سواس کےبارہ میں یہ گذارش ہےکہ لیجئےدومثالیں توحاضرخدمت کررہاہوں ان کودیکھ کرمولانابھی انصاف کریں اوردوسرےاہل علم بھی فیصلہ کریں کہ واقعی مولانانےمدلسین کی روایات سےاستدلال کیاہےیانہیں۔

ان مثالوں کےپیش کرنےسےپہلےیہ بات واضح کردیناچاہتاہوں کہ ان مثالوں سےمیرامقصدمحض ان حدیثوں پرسندی کلام ہےنہ نفس مسئلہ کیونکہ وہ مسئلہ دوسرےدلائل سےثابت ہےیعنی گونفس مسئلہ تودوسرےدلائل سےثابت ہےلیکن یہ مخصوص دلائل جوہیں وہ مخدوش ہیں کیونکہ ان میں مدلسین ہیں اورروایت عن سےکرتےہیں اورہمارامدعاثابت ہوجائےگاکہ مولانابھی مدلسین کی روایات دلائل کےطورپرذکرکرتےہیں اورمیں نےبھی ان مدلسین کی روایتوں کواصالۃذکرنہیں کیاتھامحض صحیح حدیثوں کی تائیدمیں جن میں سےایک حدیث حسن یاصھیح پھرتوابوامامہ والی ہےجس کومولانانےبیجاتعقب اورزبردستی ضعیف قراردینےکی کوشش کی ہےاورصحیح حدیثیں آگےمزیدتحقیق کےضمن میں آرہی ہیں۔

لہٰذاخلاصہ کلام یہ ہواکہ اگرمولاناذکرکردہ امثلہ کےمتعلق یہ فرمائیں گےکہ یہ روایتیں انہوں نےمحض صحیح احادیث کی تائیدکےلیےذکرکی ہیں تومجھ سےبھی یہی قصورہواہےلہٰذامجھ پران روایتوں(جن مٰں کوئی مدلس راوی ہے)کی وجہ سےاعتراض بالکلیہ فضول ہے۔اس وضاحت کی ضرورت اس لیےپیش آئی کہ مباداان حدیثوں پرمیرےکلام کوبہانہ بناکرمولانامجھےنفس مسئلہ کامخالف قراردےکرمجھ پراعتراضات کی بوچھاڑنہ کردیں۔میرامقصدصرف یہ ہےکہ وہ مدلسین کی روایات دلیل میں پیش کرتےہیں۔لیجئے

مثال نمبر1:

((عن بريدةقال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم بكروابالصلوة فى يوم الغيم فإنه من ترك الصلوة فقدكفر.)) (رواه ابن حبان كتاب الصلوة’باب الوعيدمن ترك ترك الصلوة’رقم الحديث:١٤٦٣)

(تنظیم اہلحدیث مجریہ ١٦شعبان ١٣٨٨صفحہ٨كالم٣)

‘‘پرزیرعنوان اعمال صالحہ ایمان میں داخل ہیں’’

ابن حبان کی اس  حدییث کی سند میں یحیی بن ابی کثیرہےجومدلس ہے۔دیکھئے طبقات المدلسین للحافظ ابن حجروفتح الباری اوروہ ابوقلابہ سےعن کے ساتھ روایت کرتے ہیں کیایہاں مدلس کی روایت سے استدلال نہیں کیاگیا؟

مثال نمبر2:

((لاتزوج المراۃالمراۃ ولاتزوج المراة نفسها)) (رواه ابن ماجه والدارقطنى ورجاله ثقات بلوغ المرام’ تنظیم اہلحدیث مجریه ٢٦ذوالقعده ١٣٨٨صفحہ٥كالم٣تحت عنوان‘‘الاعتصام’’کےایک فتوی پرتبصرہ)

اس  حدیث کو ابن ماجہ نے ذکرکیا ہےلیکن اس کی سندمیں ہشام بن حسان ہیں جومدلس ہیں اوراس کی تدلیس مرتبہ ثالثہ میں سے ہے اورایسے مدلسین کی روایت جب تک سماع کی تصریح نہ کریں محدثین قبول نہیں کرتے۔

(أنظرالطبقات للحافظ ابن حجر رحمة الله عليه)

اوروہ‘‘ہشام’’محمد بن سیرین سےعن کے ساتھ روایت کرتے ہیں،اس طرح اس حدیث کو دارقطنی بھی اپنے سنن میں لائے ہیں اوراس کی چند سندیں ذکرفرمائی ہیں لیکن سب میں یہی ہشام بن حسان ہیں اورمحمد بن سیرین سے عن کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔

مولانا نے یہ تولکھ دیا کہ ورجالہ ثقات لیکن یہ دیکھنا گوارانہیں کیا کہ رجال کے ثقہ ہونے کے باوجودبھی کوئی علت ہوسکتی ہے جو حدیث کو ضعیف کردیتی ہے ۔بہرحال اس حدیث کی سند میں مدلس ہے اورسماع کی تصریح نہیں کی ،تاہم مولانا اس کو دلیل میں پیش  کرتے ہیں،پھر بھی فرماتے ہیں کہ یہ میں نے ان پر الزام لگایا ہے ۔مولانا اللہ تبارک وتعالی نے اس بندہ حقیر کو ایسی بدخصلت سے اپنے فضل وکرم سے محفوظ رکھا ہے یہ  جناب والا کی یہ بابرکت عادت ہے کہ دوسروں پربلاوجہ خرافات فرماتے ہیں۔

یہ یادرہے کہ  میں نے جو یہ مثالیں پیش کی ہیں ان سے مرادوحدیثیں ہیں جو ان کتابوں میں مذکورہیں جن کا نام مولانا نے تحریرفرمایاہے۔مثلامثال اول میں ابن حبان کی صحیح اوردوسرے میں ابن ماجہ ودارقطنی اس لیے یہ قطعا مناسب نہ ہوگا اگروہ کسی دوسری کتاب سے ایسی ہی حدیث نکال کربیجاطول کلام پر آمادہ ہوجائیں۔مولانامیں نے تواپنی بات کا ثبوت دے دیااب وہ محض الزام نہیں رہی۔

اب آپ اپنے چھوٹے الزامات کا ثبوت پیش کریں۔میرے دلائل میں سے دوسری دلیل پربحث کرتے ہوئے مولانالکھتے ہیں:

‘‘اس کے علاوہ وہ مجہول العدالت ہے اس کی ثقات کتب اسماء الرجال میں پائی نہیں گئی۔’’(تنظیم اہلحدیث مجریہ ٧صفر١٣٨٨ كالم٢)

میں حیران ہوں کہ مولانا جیسامتبحرعالم ایسی بات کیسے تحریر کرگیا جہاں تک میراخیال ہے میں تویقینا مولاناکوایساتصورنہیں کرتاکہ وہ علم اسماءالرجال سےایسے ناواقف ہوں گےپس اگرمیرا یہ خیال صحیح ہے تومولاناکوجانتے ہوئے بھی ایسی عبارت لکھ دینا قطعامناسب نہیں لیکن اگرخدانخواستہ  وہ اس علم سےپوری طرح واقف نہیں ہیں تواس صورت میں انہیں اس پرقلم اٹھانے کابھی یقیناحق نہیں تھا۔

اولاتوگزارش یہ ہے کہ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ نے تقریب التہذیب میں ابوغالب کےمتعلق لکھاہےکہ:

‘‘صدوق يخطئى’’

اورحافظ صاحب نے تقریب کےابتدامیں رواۃ کے مراتب ذکرکرتے ہوئے یہ تحریرفرمایاہےکہ:

((الخامسة من وصرعن درجة الرابعة قليلاواليه الاشارة لصدوق سئي الحفظ اوصدوق يهم اوله اوهام اويخطئى......!الخ))(تقريب التهذيب’ص:٣)

اس عبارت سے ہراہل علم جان سکتا ہے کہ یہ روای(ابوغالب)ثقہ ہے نہ کہ مجہول العدالت اسی لیے حافظ صاحب نے اس کوصدوق لکھا ہے اگر مجہول العدالت ہوتا تواس کوحافظ صاحب قطعا نہ لکھتے بلکہ مستوراومجہول الحال وغیرہماکے الفاظ سےیادفرماتےجیساکہ ابتدامیں تحریرفرماتے ہیں۔

((السابعه من روى عنه اكثرمن واحدولم يوثق واليه الإشارة بلفظ مستوراومجهول الحال.)) (تقريب التهذيب’ص:٣)

ليكن حافظ صاحب نے ان کوصدوق لکھا ہے لہذا وہ ثقہ ہیں۔

ثانیا:ذیل میں تہذیب التہذیب سے ایک اقتباس نقل کیا جاتا ہے اس کو ملاحظہ فرماکرپھراندازہ کریں کہ مولاناکایہ ارشادکہ وہ مجہول العدالت ہے اس کی ثقاہت کتب اسماءالرجال میں پای نہیں گئی کہاں تک درست ہے۔

حافظ صاحب تہذیب التہذیب ج١٢میں ابوغالب کے نام کے متعلق اختلاف ذکرکرنے کے بعدلکھتے ہیں کہ:

((قال اسحاق بن منصورعن ابن معين صالح الحديث وقال ابوحاتم ليس بالقوى وقال النسائى ضعيف وقال الدارقطنى ثقه وقال ابن عدى قد روى عن أبى غالب حديث الخوارج بطوله وهومعروف به ولم أرى أحاديثه حديثامنكرأو أرجوأنه لاباس به وحسنه الترمذى بعض أحاديثه وصح بعضهاقلت وقال ابن حبان لايجوزالاحتجاج به إلافيماوافق الثقات وقال ابن سعدكان ضعيفاوقال البرقانى عن الدارقطنى ابوغالب حزوربصرى يعتبربه ووثقه موسى بن هارون كمامضى فى الذى قبله إنتهى.))(تهذيب ج١٢،ص:٢١٦)

اس اقتباس سےیہ معلوم ہواکہ اس راوی‘‘ابوغالب’’کوامام یحیی بن معین،دارقطنی،ابن عدی،موسی بن ہارون اورترمذی نے ثقہ قراردیاہے۔

اورابوحاتم،نسائی،ابن حبان اورابن سعدنے غیرقوی اورضعیف قراردیاہےلیکن نسائی،ابوحاتم اورابن سعدکوتضعیف اس لیے قابل قبول نہیں کہ ان کی جرح غیر مفسرہےاوراصول حدیث میں یہ بات مقررہوچکی ہے کہ جرح مبہم غیرمفسرراوی کے متعلق مقبول نہیں ہوگی جس کی عدالت وثقات دوسرے ماہرفن سےثابت ہوچکی ہواوریہی معاملہ اس جگہ پرہے کیونکہ ابوغالب کی ثقاہت اس فن کے امام یحیی بن  معین سےمنقول ہے اس کے علاوہ امام دارقطنی اورابن عدی وغیرہماسےبھی عدالت ثابت ہوچکی ہے۔

لہذاان کے مقابلہ میں ابوحاتم یانسائی کی تضیعف تب ہی قابل قبول ہوتی جب وہ مفسرہوتی۔باقی رہی ابن حبان کی تضعیف تواول تووہ غیرمفسرہے ،لہذاقابل قبول نہیں۔ثانیااس نے لکھا ہے کہ‘‘لايجوزالاحتجاج به الافيماوافق الثقات’’ كامفادیہی نکلتاہےجوحافظ صاحب نے تقریب میں لکھا ہے کہ

‘‘صدوق يخطئى’’اورحافظ صاحب نےتقریب کےابتدامیں یہ تحریرفرمایاہےکہ:

((إنى أحكم على كل شخص منهم بحكم يشمل أصح ما قيل فيه وأعدل ماوصف به بالخص عبارة وأخلص إشارة.))

علاوه ازیں ابن حبان کا تساہل توثیق میں اورتجریح میں مشہورومعروف ہے،اگرکسی کواعتبارنہ آئے تولسان المیزان،میزان الاعتدال،تہذیب التہذیب اورفتح الباری کےمختلف مقامات کو ملاحظہ کرلے تومیری بات اس کو صحیح نظرآئے گی،لہذاان کی تجریح ان نقادجیادوجہابذفن خصوصا امام ابن معین اوردارقطنی جیسے ماہرین کے مقابلہ میں اگرمفسربھی ہوتب بھی قبول نہیں ہوسکتی چہ جائیکہ جہاں مبہم ہو۔اس جگہ پر ہم دوتین امثلہ نقل کرتے ہیں جس سے اہل انصاف کو میری بات صحیح نظرآئے گی۔

(1):۔۔۔۔۔۔حافظ ذہبی میزان الاعتدال میں سویدبن عمروالکلبی(جوکہ صحیح مسلم کے رجال میں سے ہے)کے ترجمعہ کے تحت امام ابن معین وغیرہ سےاس کی توثیق نقل کرنے کے بعدلکھتے ہیں:

((اماابن حبان فاسرف واجترافقال كان يقلب الاسانيدويضع على الاسانيدالمصحاح المتون الواهية.))

(ميزان الاعتدال جلد٢’صفحه:٢٥٣)

اورحافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ تقریب میں اس کے ترجمے میں فرماتے ہیں کہ:

((ابن حبان القول فيه ولم بدليل.))

(٢):۔۔۔۔۔۔حافظ ذہبی اپنے میزان میں عثمان بن عبدالرحمن الطرائفی کے ترجمعہ میں رقمطراز ہیں:

((واما ابن حبان فانه يتقعقع كعادته فقال فيه يروى عن الضعفاءشياءويدلسهاعن الثقات فلماكثرذالك فى اخباره فلايجوز عندى الاحتجاج بروايته بكل حال.))

(٣):۔۔۔۔۔۔حافظ ذہبی اپنے میزان میں محمدبن الفضل اسدوسی عارم امام بخاری کےشیخ کے ترجمعہ میں دارقطنی سے اس کی توثیق نقل کرنے کے بعد تحریرفرماتے ہیں:

((قلت فهذاقول حافظ العصرالذى لم يات بعدالنسائى مثله’فاين هذاالقول من قول ابن حبان الحساف المتهورفى عارم فقال اختلط في آخرعمره وتغيرحتي كان لايدري مايحدث به فوقع فى حديثه المناكيرالكثيرة فيهنب التنكب عن حديثه فيمارواه المتاخرون فاذالم يعلم هذامن هذاترك الكل ولايحتج بشئ منها(قلت)ولم يقدرابن حبان ان يسوق له حديثامنكرافاين مازعم؟))(ميزان الاعتدال جلد٤’صفحه٨’ط:مكتبه الاثريه)

ان عبارات سے آپ معلوم کرسکتے ہیں کہ ابن حبان صحیحین کے رواۃ پر بھی بسااوقات ایسی جرح کرجاتے ہیں جوقطعاصحیح نہیں اسی وجہ سے نقادفن نے ان کی جرح پرردکی اوراس کی تضعیف کودوسرے جہابذفن کی توثیق کے مقابلہ میں کوئی وزن نہیں دیا۔

یہ تومیں نے تین مثالیں ذکر کی ہیں اگراوربھی مثالیں دیکھنی ہوں توفن رجال کی کتب کومطالعہ فرمائیں بہت سی مثالیں اوربھی مل جائیں گی۔

لہذا چونکہ زیربحث راوی (ابوغالب)کو دارقطنی ابن معین وغیرہماجیسے نقادجیادنے ثقہ قراردیا ہے،لہذاابن حبان جو کہ مسرف ہے اس کی جرح مقبول نہیں ہوگی کیونکہ  یہ اصول  حدیث کے معیاری کتب میں طے ہوچکا ہے کہ جس راوی کی توثیق ائمہ فن کے لیے ثابت ہوچکی ہواس پر اس جارح کی جرح مقبول نہیں ہوگی جورجال کی جرح میں  متعنت ہوجیساکہ ابن حبان خصوصاکوئی دلیل بھی اپنی جرح میں پیش نہ کی ہو،جیسا کہ اس مسئلہ میں ہے اب آپ انصاف  سے کہیں کہ مولانا حصاروی کا یہ تحریرفرماناکہ اس کی ثقاہت کتب اسماء رجال میں نہیں پائی جاتی کہاں تک صحیح ہے؟کیا مولاناکی نظروں سے یہ اسماء الرجال کی کتب گزری؟

((فإن كنت لاتدرى فتلك مصيبة.إن كنت تدرى فالمصيبة اعظم.))

آگے پھر مولانالکھتے ہیں:

‘‘کیونکہ جس کے نام کاکوئی مستقل پتہ نہیں تواس کے حالات سے کیا آگاہی ہوسکتی ہے۔’’

یہ مولانا کی عجیب منطق ہے کہ جس راوی کے نام میں اختلاف ہواس کے حالات بھی معلوم نہیں ہوسکتے۔کیا مولانا اس حقیقت سےآگاہ نہیں کہ صحیحین میں بھی ایسے رواۃ پائے  جاتے ہیں جن کے ناموں میں کثیر اختلاف ہے لیکن وہ اپنی کنیتوں سےمشہورہیں توکیا اس وجہ سے مولانا صحیحینکے رواۃ کے متعلق بھی یہی ارشادفرمائیں گے کہ چونکہ ان کے نام کا بھی پتہ نہیں لہذا ان کے حالات کیسے معلوم ہوسکتے ہیں اورنتیجہ یہ کہ  یہ رواۃ مجہول العدالت ٹھہرے علی زعم مولانا الحصاروی کیا مجھے ان رواۃ کے ذکرکرنے کی بھی ضرورت ہے؟

درحقیقت بہت رواۃ کسی نہ کسی وجہ سے اپنی کنیت سے مشہورہوجاتے ہیں بعدمیں رفتہ رفتہ اختلاف پڑجاتا ہے دیکھئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سب کے سب عدول ہیں لیکن بعض صحابہ اپنی کنیتوں سےمشہورہوگئے تھےبعدمیں ان کے  ناموں میں شدید اختلاف ہوگیا۔حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ تہذیب التہذیب میں سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ترجمہ کی ابتدامیں تحریرفرماتے ہیں:

((واختلف فى اسمه وإسم أبيه اختلافاكثيرا.))(تهذيب التهذيب:ج:١٢)

کم ازکم میری نظرسےتومتقدمین خواہ متاخرین میں سے کسی کا بھی ایسا قول نہیں گزراکہ جس راوی کے نام میں اختلاف ہووہ مجہول العدالت بن جاتا ہے۔یہ مولاناکی ہی طبع زادایجادہے۔واللہ الموفق

باقی مولانا نے جو یہ لکھا ہے کہ:

‘‘اب اگردورکعت بیٹھ کرپڑھی جائیں  ..وترنمازکے آخرمیں نہیں ہوسکتے۔’’

(تنظیم اہلحدیث مجریہ1٤صفر١٣٨٩ھ صفحہ٨كالم١)

تویہ بھی صحیح نہیں کیونکہ یہ دورکعتیں وترکے ساتھ نہیں ،اس لیے یہ ساری رکعات وترہوگئیں ملاحظہ فرمایئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی یہ حدیث جومسلم کی جلداول میں مذکورہے یہ طویل حدیث ہے جو سعدبن ہشام سےمروی ہے جس میں ہے کہ:

((قال قلت ياام المومنين انبئي عن وتررسول الله صلي الله عليه وسلم فقالت كنانعدله سواكه وطهوره فيبعثه الله مايشاءان يبعثه من الليل فيتسوك يتوضاويصلي تسع ركعات لايجلس فيهاالافي الثامنه:فيذكرالله ويحمده ويدعوه ثم ينهض ولايسلم ثم يقول فيصلي التاسعه ثم يقعدفيذكرالله ويحمده ويدعوه ثم يسلم تسليمايسمعناثم يصلي ركعتين بعدمايسلم وهوقاعدفتلك احدي عشرة ركعة يابني فلمااسن نبي الله صلي الله عليه وسلم واخذه اللحم اوتربسبع وصنع في الركعتين مثل ضيعه الاول افتلك تسع ركعات.)) صحيح مسلم’كتاب الصلوة’باب جامع صلوة الليل ومن ناح عنه اومرض’رقم الحديث:١٧٤٩.

اس صحيح حديث سے واضح ہوگیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے ان دورکعتوں کووتر کےساتھ  ہی معلق سمجھااورقراردااس لیےتوفرمایاکہ((فتلك احدي عشرة ركعت))اور((فتلك تسع))اوریہ بالکل واضح ہے اب ہم حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہاکے فہم پر اعتبارکریں یامولاناحصاروی کے فہم پر؟یہ اہل انصاف خودفیصلہ کریں۔

پھرمولاناحصاروی صاحب قسط٩تنظیم اہلحدیث مجریہ ٦ربيع الاول صفحہ٦کالم اول میں لکھتے ہیں۔

‘‘(حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت)ابوداودطیالسی جلداول ص١٩میں حدیث ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺسےروایت کرتے ہیں۔’’

 ((كان يوترعندالاذان ويصلي ركعتين عندالاقامة.)) مسنداحمدابوداودطبالسي جلد١’صفحه ٧٨’رقم الحديث:١٢٨’بيروت

‘‘پھرترجمہ لکھا ہے اوراس کے بعدلکھتے ہیں کہ اس حدیث میں((كان يوتر))دوام پردلالت کرتا ہے جس سے پیرجھنڈاصاحب کوکوئی  سبیل انکارنہیں ہے۔’’

میں حیران ہوں کہ مولاناجیسے علماء جن کو محقق شہیرجیسے القاب سے یادکیا جاتا ہے آخرایسے واہی دلائل پیش کرنے کی جرات کیسے کرتے ہیں ۔پھر مولاناکوغالبایہ یادنہیں رہا کہ وہ پہلے تحریرفرماچکے ہیں کہ میں نے کوئی ایسی مثال پیش نہیں کی جس میں مولانانے مدلسین کی روایات سے استدلال کیا ہو۔حالانکہ اس پیش کردہ روایت میں ابواسحاق سبیعی ہیں جو مدلسین میں سے ہیں اوران کی تدلیس مرتبہ ثالثہ میں سے ہے اورروایت بھی عن سے کرتے ہیں گویاجس مضمون میں مجھ پر اعتراض کیا اورمیرے لکھنے کو محض الزام قراردیا:

‘‘فسبحان من لايضل ولاينسى.’’

اورپھراس کی سندمیں ابواسحاق کاشیخ حارث اعورہے جوضعیف بلکہ کذاب ہے اگرچہ طبع میں حارث کی جگہ پر ابوالحارث چھاگیاہےجوغلط ہےابواسحاق کی روایت حارث اعورسے ہی مشہورہےورنہ مولانابتادیں کہ یہ ابوالحارث کون ہے؟بہرحال نتیجہ صاف ہے اگریہ حارث ہےتویہ ضعیف ہے۔لہذاسندضعیف ہوگئی اوراگرابوالحارث ہے جیساکہ مطبوع میں موجودہے توپھریہ کوئی مجہول راوی ہیں پھربھی یہ روایت ضعیف اورناقابل استدلال بن جاتی ہے،لہذااس روایت کو لے کرمعرض استدلال میں آنامولاناکی فقاہت اوران کی محققیت کا ہی حصہ ہے۔

ادھرخودتواسی ضعاف احادیث پیش فرمادیتے ہیں اوروہ بھی بے دھڑک لیکن ہم اگرکوئی حدیث صحیح یا حسن بھی پیش کرنے کی جرات کرتے ہیں جو  ان کے مسلک کے خلاف ہوتوفورااس کی تٖعیف پرآمادہ ہوجاتے ہیں۔کسی نے کیا خوب کہا ہے:

ہم آہ بھی کرتے ہیں توہوجاتے ہیں بدنام

وہ قتل بھی کرتے ہیں توچرچانہیں ہوتا

پھراس کےمتن سےدوام کی دلیل لینااوربھی عجیب بات ہے گویاا س کا مطلب یہ ہواکہ ہمیشہ ہی وترفجرکی اذان کے وقت پڑھاکرتےتھےجوقطعاغلط ہے اس سے تویہی نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ وترہمیشہ دن میں پڑھتے تھے رات کو نہیں پڑھتے تھے کیونکہ فجرکے بعدشرعی رات نہیں ہےہاں اگرمطلب یہ ہوکہ آپ جب کبھی رات کو کسی وجہ سے وترپڑھ نہیں لیتے تھے اورصبح ہوجاتی تھی تواذان کے وقت بھی پڑھ لیتے تھے توصحیح جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی روایت سے پتہ چلتا ہے لیکن اس صورت میں مولانا کا یہ الزام جوانہوں نے ہمیں کان کی وجہ سے دیا ہے ھباءمنثورابن جائے گا،غورفرمائیں!

پھر آگے اسی پرچہ تنظیم اہلحدیث میں کالم ٢میں رقمطراز ہیں:

‘‘ابوداودالطیالسی کےاسی صفحہ میں ہے:

((عن ابى سعيد قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اوترواواقبل الفجر......)) مسندابوداودطيالسي جلد٢’صفحه٥٥٨’رقم الحديث:٢٢٧٧’ط:بيروت

یہ حدیث قولی ہے جس میں صبح سے پہلے وترپڑھنے کا ارشادہے جس میں وتروں کےبعددوگانہ پڑھنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔’’

اس کے متعلق اولا تویہ گزارش ہے کہ یہ حدیث ابوسعید کی ابوداودطیالسی میں اسی صفحہ  میں تونہیں ہے اورنہ ہی اس صفحہ کے پہلے صفحہ میں اورنہ اس کے بعدکےصفحہ میں موجودہےاورمولانا نے یہ خیال نہیں فرمایاکہ اس صفحہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مسانیدذکرہورہی ہیں۔

لہذا وہاں حضرت ابوسعید کی روایت کا آخرکون ساموقع تھا غالبایہ عجلت میں لکھ گئے ہیں اورچونکہ اپنے تحریرکئے ہوئے سطورکو حرف آخرہی سمجھتے ہیں لہذا اس پر نظرثانی کی بھی ضرورت  محسوس نہیں کرتے ۔

ثانیا:اس حدیث میں وہ بات تو ہے  ہی نہیں جو مولانا نے اس میں حاشیہ کے طورپرلگادی ہے۔اس میں تومحض آنحضرتﷺکے یہ ارشادمبارک ہے کہ فجرسےپہلے وترپڑھ لیا

کروآپ نے‘‘قبل الفجر’’کےالفاظ فرمائے ہیں‘‘قبيل الفجر’’نہیں فرمایاپھراس سےیہ بات کہاں سے نکلتی ہے کہ اب وتروں کے بعد دوگانہ کی گنجائش ہی نہیں ہے۔کیا قبل الفجراس بات کو مستلزم ہے  کہ وتربالکل ہی فجرسےتین یا چارمنٹ ہی پہلے پڑھ لیا جائے آخریہ مطلب دلالت ثلاثہ میں سےکس دلالت پر مبنی ہے؟

اس  ارشادگرامی کا واضح مطلب یہی ہے کہ وتر کو فجر سے پہلے پڑھ لیا جائے تاکہ وتروں کو نہ پڑھناپڑے ہاں اگرنیندیاکسی اوروجہ سے صبح ہوجائے توپھر بھی پڑھ لینا چاہیئے لیکن اس صورت میں پھر وترکےبعددورکعت نہ پڑھنا اس وجہ سے ہے  کہ اب رات تورہی ہی نہیں اورفجرکے بعدآنحضرتﷺدورکعت(سنت الفجر)کے سوائے کچھ نہیں پڑھتے تھے اس لیے وہ دورکعتیں نہیں پڑھی جائیں گی صرف وتر ہی پڑھا جائے گاکیونکہ اس کی اجازت دوسری احادیث سے آچکی ہے لیکن اس سے ی بات کہاں نکلتی ہے کہ وترصبح سےبہت پہلےبھی اگر پڑھ لیا جائے تواس صورت میں بھی اس کے بعد دوگانہ ادانہ کرے اس قسم کا استدلال مولانا کی فہم مبارک کا ایجاد ہے۔

آگے پھراسی کالم میں لکھتے ہیں:

((عن زيدبن اسلم قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من نام عن وتره فليصل اذاصبح.)) (رواه الترمذى)

مولانازید بن اسلم توتبع تابعی ہیں ان کا یہ کہنا کہ قال رسول اللہﷺکیسے درست ہوسکتا ہے یہ تو تابعی بھی نہیں کہ یہ حدیث مرسل ہوتی(گووہ بھی محققین کے نزدیک ضعیف ہے)لیکن یہ تومنقطع ہے ایسے منقطعات کو معرض استدلال میں لانا آپ کو مبارک ہوتاہم اس سے بھی ان کا مزعومہ مقصد پورانہیں ہوتا۔یعنی ایک آدمی رات کو نیندکی وجہ سے وترپڑھ نہیں سکااس لیے صبح کو پڑھ لے آخر اس سے یہ نتیجہ کیسے نکلتا ہے کہ اگر وہ رات کو پڑھے تواس کے بعد دوگانہ ادانہ کرے۔کیا مولانا وترکوہمیشہ صبح کے بعداداکرنے کے قائل ہیں؟اگرنہیں توپھران جیسے دلائل کو پیش کرنے کی زحمت آخرکیوں اٹھاتے ہیں ۔اسی طرح مولانانےجوحضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسےمسنداحمد کی روایت نقل فرمائی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ :

((فانتهى وتره إلى السحر.))

اس سے بھی ان  کی مزعومہ دعوی کا ثبوت ملتاہے اس کاواضح اورصاف مطلب یہ ہے کہ گوآنحضرتﷺنے رات کے اول حصہ اوراوسط حصہ میں بھی وترپڑھاہے لیکن آخرالامرآپ کا وتررات کے آخری حصہ میں منتہی ہوگیا کیونکہ سحرکے معنی آخراللیل ہے نہ کہ فجرکے بعدوالاوقت پھراس سے یہ نتیجہ کیسے نکلاکہ سحرکے وقت وترکے بعدآپ دوگانہ نہیں پڑھتے تھے؟یہ دورکعتیں وترکے ساتھ ہی کہیں اسی وجہ سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ فرمایاتھا کہ:

((فتلك تسع وتلك عشرة.))

جیساکہ گزشتہ صفحات میں مسلم شریف سے یہ روایت نقل کی جاچکی ہے تواب مطلب یہ ہوا کہ اخیر عمرمیں آپ وترکو رات کے آخری حصہ میں ادافرماتے تھے اوریہ دورکعتیں بھی ان کے ساتھ ہوتی تھیں۔لہذا ہم یہ سمجھنے سےقطعی قاصرہیں کہ یہ حدیث ان کے مفروضہ پرکیسے دلیل بن سکتی ہے ۔پھرمولانا نے جواحادیث پیش کی ہیں ان سے زیادہ سےزیادہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺنےچندباروترکے بعددوگانہ رکعت بیٹھ کرنہیں پڑھیں اس سے ان کی مواظبت اورمداومت پرحرف نہیں آتاکیونکہ نوافل ومندوبات میں  مداومت عرفی ہوتی ہے جواکثریت کے مترادف ہے ورنہ اگرکسی فعل سےچندبارکومستثنی کرنے سےمواظبت بالکل نہیں رہتی توپھرمولانا سوائے فرائض کے دوسرے اکثر افعال میں مواظبت ثابت نہیں کرسکتے اوراس طرح سلف سےخلف تک جوکسی فعل میں مواظبت ومداومت کاذکرکرتے آئے ہیں وہ سراسربے معنی ہوکررہ جاتاہے۔

ایسادعوی(ان دورکعتوں کے متعلق)نہ توہم نے کیا ہے اورنہ ہی کرسکتے ہیں ہمارادعوی تواکثریت کے بارہ میں ہے اوراس کو ہم مواظبت یا ہمیشگی سےتعبیرکرتے ہیں کیونکہ ہرکام میں کتنی مداومت بھی کی جائےلیکن پھر بھی اس سے چندمستثنیات ہوہی جاتے ہیں۔اورمولانا نے اس (اکثریت)کی نفی پر کوئی دلیل ٹھوس ومعقول ابھی تک پیش نہیں فرمائی باقی مولانا نے جو آخری قسط میں تحریرفرمایاہےکہ:

اوران(دوگانہ)کو نبیﷺہمیشہ پڑھتے تھے یہ آنحضورﷺپرجھوٹ باندھنا ہے جس کی سزابڑی سخت ہے۔’’

اس عبارت میں انہوں نے اشارۃ گویامجھے اس کا متہم بنایاہے کہ  میں نے ذات اقدس حضرت سرورکائناتﷺپرجھوٹ باندھاہےاس کے متعلق میں کیا عرض کروں دوسروں پربیجاالزامات تھوپنااوران کی طرف ناکردہ گناہ منسوب کرنایہ مولاناکی طبیعت ثانیہ بن چکی ہے۔

چنانچہ گزشتہ صفحات میں مولاناکی گل افشانیاں ذکرکرچکاہوں،اللہ تبارک  وتعالی بہترجانتا ہے کہ میں نے آنحضرتﷺپرقطعاجھوٹ نہیں باندھامحض ایک بات صحیح سمجھ میں آگئی تھی(اوراب بھی اس کو صحیح سمجھ رہا ہوں)وہ عرض کردی تھی اوراس کے باوجود بھی  اگروہ مجھے ایسے عظیم گناہ کامرتکب سمجھ رہے ہوں گے تواس کا فیصلہ ان شاء اللہ رب العالمین،مالک یوالدین کی عدالت میں ہوگاپھروہاں ان کو جواب دہ ہونا پڑے گا،میں اس سے مزید اس پر کچھ بھی لکھنا نہیں چاہتا۔

آگے مولانافرماتے ہیں کہ:

‘‘میں کہتا ہوں کہ پھروتروں کے بعدیہ دورکعتیں چھوڑدی گئیں صرف وترپرنمازکوختم کیاگیا۔’’

میں پوچھتا ہوں کہ ایسی حدیث کس کتاب میں ہےکہ پھرآپ نے ان دورکعتوں کوچھوڑدیاتھا؟ایسی حدیث ابھی تک توآپ نے پیش فرمائی ہی نہیں صرف ایسی احادیث پیش فرمائی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ چند بارآپ نے ان کو نہیں پڑھا تھالیکن یہ ترک بعدتھا یا ابتدامیں اوراس کے بعد پھر ہمیشہ دورکعت پرھتے رہتے تھے،اس کے متعلق ان احادیث میں کوئی تعرض نہیں یہ‘‘پھروتروں کے بعدالخ’’مولاناکی ہی حاشیہ آرائی ہےوہ دوسروں کو توایساالزام دینے سےبھی نہیں گھبراتےکہ وہ حضوراکرمﷺپرجھوت باندھتے ہیں لیکن خودایسی حاشیہ آرائیاں اپنی طرف سے احادیث میں کردیتے ہیں اوران کو کوئی کہنےوالانہیں۔لہذاان پر یہ فرض ہےکہ اپنے اس اضافےکوصراحتا حدیث سےثابت کریں ورنہ وہ خودفیصلہ کریں کہ انہوں نے کس چیز کاارتکاب کیاہے۔

دراصل ان احادیث میں یہ بات ہے ہی نہیں کہ یہ ترک(دوگانہ)پہلے تھااب صاف بات تو(محدثین کے تطبیق کےطریقہ پر)یہ ہے کہ دونوں احادیث کو اپنی جگہ پررکھا جائےجن جن احادیث سےآپ کی ان دورکعتوں پرمداومت ہوتی ہے اس کو اغلب احوال پرمحمول کیا جائے اورترک والی حدیثوں کو جوازکے لیے گاہے گاہے چھوڑنے پر محمول کیا جائےآخر اس میں کون سی خرابی ہے؟آگے مولانا فرماتے ہیں:

‘‘یہ سنت بالکل نہیں ہے اس کی تین وجوہات ہیں۔یہ کہ یہ خاصہ نبوی ہےاور خاصہ نبوی امت کے لیے سنت نہیں۔’’

مولانا صاحب خاصہ نبوی احتمالات سے ثابت نہیں ہوتااس کے لیے ٹھوس دلیل چاہئےورنہ بہت سی باتوں کے متعلق یہ دعوی کیا جاسکتا ہے اورپھر اس سے بہت سےکاہل اورسنت سےتغافل کرنے والوں کو ایک بہانہ ہاتھ آجائے گااوریہی کہیں گے کہ جناب یہ توخاصہ نبوی ہے ہم کو اس پر عمل کرنا نہیں ہے۔باقی آگے چل کرجومولانا نے اس کی دلیل یہ دی ہے کہ آں حضرتﷺنےفرمایاکہ:

((لست كأحدمنكم.))

تواس کے متعلق یہ گزارش ہے کہ یہ فرمان نبویﷺتوثواب کے متعلق تھایعنی ثواب کے سلسلہ میں آپ جیسانہیں ہوں بلکہ مجھے بیٹھ کرنماز پڑھنے میں بھی پوراثواب ملتاہےاوریہ بات مختلف فیہ ہے ہی نہیں بلکہ ہم بھی یہ مانتے ہیں کہ بیٹھ کرپڑھنے کا ثواب آدھاہی ہےلیکن آدھے ثواب کو اختیارصرف اس لیے کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺکی سنت ہے لہذایہ دلیل صحیح نہیں رہی۔آگےپھرقمطرازہیں رہی یہ کہ    یہ دوتین دفعہ کا فعل ہے پھراس کے خلاف عمل ہوتا رہا ہے کیونکہ آنحضورﷺآخرمیں وترپڑھتے رہے ہیں جس کے بعدکوئی نمازنہیں پڑھی۔’’

اس وجہ پر بھی دلیل معقول توکوئی پیش نہیں فرمائی آخرسےمراداگروہ حدیث ہے جس میں یہ الفاظ ہیں کہ:

((فانتهى وتره إلى الفجر.))

تواس کے متعلق پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ اس سے ان دورکعتوں کی نفی نہیں ہوتی کیونکہ رات کے آخری حصہ میں ہوکررہ گیا تھایعنی آپﷺرات کے ابتدائی حصہ  میں بھی وترپڑھتے رہے اوروسطی حصہ میں بھی لیکں آخیرعمرمیں آپ اک وتررات کے اخیرحصہ میں ہوتا تھا،اب کوئی اہل علم انصاف سےبتائے کہ اس سے آخران دورکعتوں کی  نفی کیسے ہوتی ہے ؟اوراگراس وجہ سے مولانا کی  مراد یہ ہے کہ جن حدیثوں سے ترک معلوم ہوتا ہے وہ  آخری فعل ہے تو اس کے لیے دلیل کا مطالبہ ہے کہ یہ حدیثیں بعدکی ہیں۔

حالانکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی حدیث جو مسلم شریف میں واردہے جس میں انہوں نے آپ کی آخرعمررات کی نماز کا جوذکرکیا ہے (حدیث کے الفاظ بالکل واضح ہیں کہ  یہ اخیرکا فعل ہے)اس میں ان دورکعتوں کا بھی ذکر ہے اوران سب کو ملاکر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانےاس کو نوشمارکیا ہے‘‘فتلك تسع’’اب آپ ہی فرمائیں کہ آپ کےاحتمال کوصحیح سمجھیں یاسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کو اوردوسرے کسی مردصحابی کی بات زیادہ وزنی نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ نماز(اکثرآپ گھرپرہی پڑھتے تھے۔یہ وجہ بھی معقول ہےآگے بیان کرتے ہیں۔

(1):۔۔۔۔۔۔تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ نفل تہجدکے وقت پڑھے گئے ہیں،عشاءکے وقت پڑھنے کا کوئی ذکرہی نہیں ہے صرف ثوبان  رضی اللہ عنہ کی روایت میں ذکر ہے تو وہ مسافرکے بیان میں ہے الخ مولاناآپ جیسے محقق شہیرسےوفوق کل ذی علم علیم والاربانی ارشادمبارک قطعااوجھل نہیں ہونا چاہئے تھااگرجناب کو ایسی حدیث نہیں ملی تواس کا یہ مطلب نہیں کہ فی الواقع ایسی حدیث ہی موجود نہیں ہے بلکہ ایسی صریح حدیث بھی ہے جو مزیدتحقیق میں آرہی ہے لہذایہ تیسری وجہ بھی‘‘لايسمن ولايغني من جوع’’ہے۔

پھر آگے چل کرمولانااس طرح گوہرافشانی کرتے ہیں:

‘‘پانچواں امرتنقیح طلب یہ تھا کہ ان نفلوں کو اگرکوئی تہجدکے وقت وتروں کے بعدپڑھےتواس طرح پڑھنے چاہئیں کہ بیٹھ کر شروع کرےجب قراۃ پوری ہوجائے توکھڑاہوجائے پھررکوع کرےاورسجدہ کرکے رکعت پوری کرےاسی طرح دوسری رکعت پڑھے اس طرح پڑھنے کا پوراثواب ملے گا۔’’

مولانا عجیب بات فرماتے ہیں پہلے تویہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وترکے بعددوسری نماز بالکل نہ پڑھی جائے کیونکہ یہ فرمان نبوی:

((اجعلوااخرصلوتكم بالليل وترا.))اوكماقال

کے خلاف ہے اوروترکے بعددورکعت جوآپ نے پڑھی ہیں وہ آپ کا خاصہ تھا اورخاصہ امت کے لیے سنت نہیں ہے ۔اورپھر اس جگہ یہ فرماتے ہیں کہ اگرکوئی تہجد کے وقت پڑھے تواس طریقہ پڑھے توپوراثواب ملے گاجس کاصاف مطلب یہ ہے کہ تہجد کے وقت وتروں کے بعد وہ بھی دورکعت پڑھنے کے جوازکے قائل ہیں لیکن ان کے تحریرکردہ طریقہ پرلہذابجاطورپریہ ان سےدریافت کیا جاسکتا ہے کہ اگروہ امت کے لیے سنت سے ہی نہیں تہجدپڑھی ہی کیوں جائیں اورپھران کا ثواب کیسے پوراملے گا۔کیا سنت کی مخالفت میں بھی ثواب ملتا ہے؟بہرحال اس تناقض کو وہ خود ہی رفع کرسکتے ہیں ہم جیسے ہیچ مدان تواس کے رفع کرنے سےقاصر ہیں۔

بہرصورت اگروہ تہجد کے وقت وترکے بعددورکعتوں کے پڑھنے کو جائز اورکارثواب سمجھتے ہیں توباقی رہاعشائ کے بعد وتروں کے بعد کے پیچھے دورکعتوں کا اثبات سوہمارے ذمہ ہے ہم ان کو حضرت رسول اللہ ﷺکی حدیث دکھادیتے ہیں پھر دیکھیں گے کہ وہ حق کوتسلیم کرتے ہیں یا نہیں۔

باقی ان دورکعتوں کے پڑھنے کی کیفیت کوجومولانانے بس ایک ہی طریقہ میں بندکردیا ہے وہ صحیح نہیں کیونکہ یہ کیفیت(یعنی مولاناکی بیان کردہ کیفیت)ان دورکعتوں کی اس صورت میں ہے کہ یہ دورکعتیں آپ لمبی کرکے پڑھتے تھ جیسا کہ خود حدیث کا سیاق اس پرشاہد عدل ہے ورنہ ساری نماز دونوں رکعتیں پوری کی پوری بیٹھ کرپرھنا اسی حدیث سے معلوم ہوتا ہے جس میں یہ بیان ہے کہ ان دورکعتوں کو خفیف کرتے تھے اوران میں سورت﴿إِذَا زُلْزِلَتِ﴾اور﴿قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْكَـٰفِرُ‌ونَ﴾پڑھاکرتے تھے اورہرذوانصاف اس کوتسلیم کرے گااوروہ حدیث حسن یا صحیح لغیرہ ہے ،اسی طرح جوآگےہم عشاء کے بعدوترکےپیچھے دورکعتوں کو بیٹھ کراداکرنے والی حدیث پیش کریں گے تواس سے بھی اہل علم وانصاف یہی سمجھیں گے کہ یہ دونوں رکعتیں پوری کی پوری آپ نے بیٹھ کراداکیں۔

آخرمیں مولانانے جوحدیث حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ سےنقل فرمائی ہےاس کےمتعلق اولاتویہ گزارش ہے کہ مولانادوسروں کے دلائل پر فورابیجااعتراضات کردیتے ہیں اوران حدیثوں کی سندوں پرزبردستی جہالت اورضعف کاحکم صادرفردیتے ہیں لیکن خودجوبھی دلیل پیش کرتے ہیں اس کے متعلق اتنی کاوش بھی نہیں کرتے کہ یہ تو معلوم کریں  کہ اس کےرواۃ کا کیا حال ہے۔

اس حدیث کی سند میں ایک راوی عبدالرحمن بن ابی الموالی ہے جس کے متعلق حافظ صاحب تقریب میں فرماتے ہیں صدوق ربمااخطا۔اب غورطلب امریہ ہے کہ مولانانےمیری پیش کردہ حدیث کی  سندکے راوی ابوغالب کو ضعیف قراردیا حالانکہ ضعف کی وجہ کچھ بھی بیان نہ کی اگرضعف کی وجہ یہ تھی کہ ابوغالب کے ترجمہ میں یخطئی کالفظ ہے،تواس راوی عبدالرحمن کے ترجمہ میں ربمااخطاکے الفاظ ہیں جویخطئی سے زیادہ وزنی ہیں کمالایخفی اگرعبدالرحمن کے متعلق حافظ صاحب یہ فرماتے ہیں کہ صدوق(جو حسن الحدیث ہونے پر دال ہے)توابوغالب کے متعلق بھی حافظ صاحب نے یہ فرمایا ہے کہ صدوق۔پھریہ کتنی بےانصافی ہے کہ اپنی پیش کردہ روایات کے رواۃ سےاعراض کرتے ہیں اوراگردوسراکوئی ان کے خیال اوررائے کے برخلاف دلیل پیش کرے توفورااس کی تضعیف  کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔حالانکہ فی الحقیقت وہ قطعا ضعیف نہیں ہوتی۔

ثانیا:اس حدیث میں ان دورکعتوں کا ذکر نہیں توکیا عدم ذکر سےعدم وجودلازم آتاہے بسااوقات رواۃ اختصارسےکام لیتے ہیں۔

ثالثا:یہ احتمال ہے کہ یہ ترک پہلے زمانے کا ہوجیساکہ اس کی دلیل گزشتہ سطورمیں پیش کرچکا ہوں۔

رابعا:یہ ترک وجہ جواز کے لیے کبھی کردیالیکن اس لیے ان دورکعتوں کی نسبت کیوں  باطل پیش کررہے ہیں اس طرح آپ کا دعوی بھی ھباءمنثوراہوجاتا ہے۔

امام احمد کے مسند:ج٦’ص٢٣٦پریہ حدیث ملتی ہے:

((حدثناعبدالله حدثني ابي ثنايزيدقال ثنابهزبن حكيم وقال مرة اناقال سمعت زرارة بن اوفي يقول سالت عائشه عن صلوة رسول الله صلي الله عليه وسلم فقالت كان يصلي العشاءثم يصلي بعدهاركعتين ثم ينام فاذااستيقظ وعنده وضوءمغطي وسواكه استاك ثم توضافقام فصلي ثمان ركعات يقرافيهن بفاتحة الكتاب وماشاءمن القرآن وقال مرة ماشاءالله من القرآن فلايقعدفي شئي منهن الافي الثامنة فانه يقعدفيهافيتشهدثم يقوم ولايسلم فيصلي ركعة واحدة ثم يجلس فيتشهدويدعويسلم تسليمة واحدة السلام عليكم يرفع بهاصوته حتي يوقظناثم يكبروهوجالس فيقراثم يركع ويسجدوهوجالس فيصلي جالساركعتين فهذه احدي عشرة ركعة فلماكثرلحمه وثقل جعل التسع سبعالايقعدالاكمايعقدفي الاولي ويصلي ركعتين قاعدافكانت هذه صلوة رسول الله صلي الله عليه وسلم حتي قبضه الله))

رجال السند:......امام احمد کا شیخ یزیدابن ہارون الواسطی ہے۔حافظ صاحب تقریب میں فرماتے ہیں کہ ثقہ متقن عابداوریزیدکا استادبہز بن حکیم ہے اوروہ صدوق ہے کمافی التقریب اوربھزنےزرارۃ بن اوفی سےسناہے وہ ثقہ ہے کمافی التقریب سندمیں کوئی انقطاع وغیرہ کی علت نہیں  ہے۔

متن الحدیث:......اس حدیث میں جناب حضرت رسول اللہﷺکی رات کی نمازتہجد بیان ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے آنحضرتﷺکو٩رکعتیں وترتہجدقیام اللیل سب ایک ہی چیزکے مختلف اعتبارات کی وجہ سے مختلف نام ہیں۔پڑھاکرتے تھے اوران نورکعات کے بعدآپ بیٹھ کردوگانہ ادافرماتے تھے جن میں رکوع اورسجدہ بھی بیٹھ کرکیاکرتے تھے۔بعدمیں پھرسات رکعات وتراوران کے بعددورکعت بیٹھ کرادافرماتے۔

تواس سے بھی معلوم ہوا  کہ آپ وترکےبعددورکعت بیٹھ کرادافرماتے تھے۔اس  حدیث  میں جویہ آیا ہے کہ آپ ایک سلام کہتے تھے اس سے حدیث کے متن کی نکارت پر استدلال نہ کیاجائے کیونکہ یہ تسمیہ واحدۃ صرف آوازکی اونچائی کے اعتبارسے ہے یعنی ایک سلام آپ آوازسےکہتے تھےتاکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاوترکے لیے اٹھ جائیں باقی دوسرے سلام کا ذکرنہیں ہےتوہوسکتا ہے کہ وہ آپ نے آہستہ کہا ہواس کا انکارحدیث میں قطعانہیں ہے۔فافھم!

دوسری حدیث بھی  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسےمروی ہے جو مسند احمد کے جزءسادس،ص١٥٦میں واقع ہے۔

((حدثناعبدالله حدثني ابي ثناابوالنضرثنامحمديعني ابزراشدعن يزيدبن يعفرعن الحسن عن سعدبن هشام عن عائشه رضي الله عنهاان رسول الله صلي الله عليه وسلم كااذاصلي العشاءدخل المنزل ثم صلي ركعتين ثم صلي بعدهماركعتين اطول منهماثم اوتربثلاث لايفعل فيهن ثم صلي ركعتين وهوجالس يركع وهوجالس ويسجدوهوقاعدجالس.))

رجال السند:......امام احمدکے بعدان کا شیخ ابوالنضرہے ان کا نام ہاشم بن القاسم ہےجوکہ ابوالنضرکی کنیت ہے زیادہ مشہورہیں ان کے متعلق تقریب میں لکھا ہے کہ ثقہ ثبت اس کےبعدمحمدبن راشدجوشامی نہیں اوروہ صدوق ہیں قالہ فی التقریب)اوروہ یزیدبن یعفرسےروایت کرتے ہیں اس کے متعلق حافظ صاحب تعجیل المنفقہ برجال الاءبعہ میں فرماتے ہیں کہ:

((قال الدارقطني يعتبربه.))

یعنی امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ یہ راوی معتبرہے۔

((وذكره ابن حبان في الثقات.))

اورابن حبان نے اس روای کو اپنے(الثقات)میں ذکرکیا ہے ،پھر آگے حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ:

((وقال الذهبى فى الميزان ليس بحجة.))

اورحافظ ذہبی میزان الاعتدال میں فرماتے ہیں کہ یہ راوی حجت نہیں ہے۔’’

بندہ راقم الحروف کہتا ہے کہ حافظ ذہبی کا یہ فرماناکہ ‘‘یہ راوی حجۃنہیں ہے۔’’اس راوی کوثقاہت سے نہیں گراتاکیونکہ یہ جرح غیرمفسرہے حافظ ذہبی صاحب نے اس جرح کا سبب بیان نہیں کیا حالانکہ اس کی توثیق امام دارقطنی جیسے محقق فن اورمعتدل سےموجودہے اورخودذہبی صاحب نے میزان میں تصریح کی ہے کہ امام نسائی کے بعد دارقطنی جیساامام فن اورکوئی نہیں گزرااورپھرامام دارقطنی اس توثیق میں منفردبھی نہیں کیونکہ ابن حبان نے بھی ان کی توثیق کی ہے اس لیے اس کو اپنے (الثقات)میں ذکرکیا ہے۔

اوریہ بات اصول حدیث میں طے ہوچکی ہے کہ تعدیل پر جرح صرف وہ مقدم ہوتی ہےجومفسرہو۔لہذاامام دارقطنی جیسےناقدجیدکے مقابلہ میں حافظ ذھبی کی یہ جرح غیرمفسرغیرمعتبرہے۔علاوہ ازیں یہ بات بھی مسلم نہیں کہ یہ الفاظ

‘‘يس بحجة’’جرح پر قطعی دلالت کررہے ہیں کیونکہ حجت یہ ثقہ ،ثبت وغیرہماکے الفاظ سےبہت اونچاہے اس لیے حجۃ ہونے کی نفی سے ثقاھت کی نفی لازم نہیں آتی۔

اب حافظ ذہبی کا قول بھی ان دواماموں کے قول کے متعارض نہیں رہاکیونکہ حافظ ذہبی نے حجت ہونے کی نفی کی ہے نہ کہ مطلق ثقاہت کی لہذایہ راوی ثقہ ہے گوحجۃ نہیں ہے اورایسامحمل تلاش کرنا جس سے ائمہ حدیث کے اقوال کا آپس میں تعارض رفع ہوجائے حدامکان تک نہایت ضروری ہے۔ہمارامذکورہ بالادعوی ہے ایک ہی راوی ثقہ بھی ہوسکتا ہے اورغیرحجت بھی پرذیل میں ائمہ فن کے اقوال ملاحظہ فرمائیں:

(1):......میزان الاعتدال میں محمد بن اسحاق کے ترجمہ میں حافظ ذہبی امام یحیی بن معین سےنقل فرماتے ہیں کہ قال ابن معین‘‘ثقةوليس بحجة’’یعنی محمد بن اسحاق ثقہ توہیں لیکن حجت نہیں۔(المیزان:ج٣’ص٤٦٩طبع جديد)

آگے چل کرپھرلکھتے ہیں:

((قال ابوزرعة سالت يحيي بن معين عن ابن اسحاق هوحجة؟قال هوصدوق الحجة عبيدالله بن عمروالاوزاعي وسعيدبن عبدالعزيز.)) (الميزان:ج٣’ص٤٧٢)

(٢):......یعنی ابوزرعہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام یحیی بن معین سےپوچھاکہ کیا ابن اسحاق حجۃ ہیں توامام ابن معین نے جواب میں فرمایاکہ ابن اسحاق صدوق ہیں حجۃ توعبیداللہ بن عمراوزاعی،اورسعیدبن عبدالعزیزہیں۔اس عبارت نے مزید وضاحت کردی کہ حجۃ کا لفظ ثقہ صدوق وغیرہماسےکافی ارفع واعلی ہے۔اس طرح سلیمان بن حیان ابوخالدالاحمرالکوفی کے ترجمۃ کے تحت لکھتے  ہیں:

((روي عباس عن ابن معين’صدوق ليس بحجة))(الميزان:ج٢’ص ٣۰۰)

یعنی عباس الدوری ابن معین سے روایت کرتے ہیں کہ سلیمان صدوق ہیں اورحجۃ نہیں ہیں۔اورابن عدی نے بھی اسی بات کو بحال رکھا ہے جیسا کہ اپنے‘‘کامل’’میں فرماتے ہیں  کہ

((هوكمايحيي’صدوق ليس بحجة.)) (الميزان:ج’ص٢۰۰)

یعنی سلیمان الاحمرجیساکہ یحیی نے فرمایاصدوق ہیں اورحجۃ نہیں ہیں۔

(٣):......معاذبن ہشام بن ابی عبداللہ الدستوائی کے ترجمہ میں نقل فرماتے ہیں:

((صدوق ليس بحجة.)) (الميزان:ج٤’ص١٣٣)

یعنی معاذبن ہشام صدوق ہیں اورحجۃ نہیں۔

ان امثلہ سے یہ اندازہ نہ کیاجائے کہ یہ خاص امام ابن معین کی اصطلاح ہے بلکہ اورائمہ فن حدیث سےبھی ایسےبہت امثلہ موجودہیں ایک مثال مزیدملاحظہ فرمائے۔

(٤):......موسی بن عبیدۃ الربذی کے ترجمہ میں حافظ ذہبی لکھتے ہیں:

((قال ابن سعد ثقه وليس بحجة.)) (الميزان:ج٦’ص٢١٣)

ابن نے سعد نے کہا ہے کہ موسی ثقہ ہیں اورحجت نہیں ہیں۔’’

ایسی اوربھی بہت امثلہ مزیدرجال کی کتب میں ملتی ہیں لیکن طوالت کے خوف سے ان کوذکرنہیں کیا جاتا۔ہماری پیش کردہ حقیقت کے ثبوت کے لیے یہ امثلہ بھی کافی اورشافی ہیں۔بہرکیف جب عدم حجیت ثقاہت کے منافی نہیں ہے کیونکہ حجۃ کا لفظ ارفع واعلی ہے لہذاان کی نفی سے اس سے ادنی درجہ کا انتفاء نہیں ہوگا۔توپھرزیربحث راوی یزید بن یعفرکےمتعلق حافظ ذہبی کا یہ فرمانا کہ:

((ليس بحجة.))

اس  راوی کو کوئی ضررنہیں پہنچاسکتااورنہ اس کو ثقاہت وصداقت کے مرتبہ سےگراتاہےکیونکہ اس کی توثیق اس شان کے امام دارقطنی سےثابت ہوچکی ہے۔اس راوی کے بعدالحسن آتے ہیں کہ یہ حسن بصری ہیں جس کے متعلق تقریب التہذیب میں حافظ صاحب ارقام فرماتے ہیں کہ ثقہ فقیہ فاضل مشہوراس کے بعدسعدبن ہشام ہیں وہ بھی ثقہ نہیں تقریب بالجملہ اس حدیث کی سندحسن لذاتہ کے درجہ سے متنزل نہیں ہے بلکہ اگراس کو صحیح لغیرہ کہا جائے توصواب سےبعیدنہیں ہے۔

متن حدیث:......اس حدیث سےواضح طورپرپتہ چلتا ہے ہ آنحضرتﷺاگراول رات میں عشاء کی نماز کے بعدبھی وترپڑھتے تھےتودورکعت بیٹھ کرپڑھاکرتے تھےاب توشارع علیہ السلام سے عشاء کے بعدوترکے پیچھے دوگانہ بیٹھ کرپڑھناثابت ہوگیا اوراس سےقبل ایک عام دلیل(حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے پہلے مقالہ میں پیش کرچکا ہوں)اب ان ادلہ واضحہ کے ہوتے ہوئے بھی اگرکوئی بدعت کا حکم لگاتا ہے توجواب میں ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ۔

بدم گفتی وشورسندم عفافک اللہ نکوگفتی

اس حدیث کے متن میں کوئی نکارت بھی نہیں ہے۔

(١):......اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ نے عشاء کی نماز کے بعدچاررکعتیں پڑھیں یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کیونکہ گوآنحضرتﷺاکثری طورپردورکعت پڑھاکرتے تھےلیکن بعض اوقات چاررکعتیں بھی پرھاکرتے تھے۔چنانچہ عشاءکے بعدان چاررکعات کاثبوت صحیح بخاری میں بھی موجودہے۔یہ جوکہا کہ:

((ثم اوتربثلاث لايفصل فيهن.))

(٢):......یعنی پھر آپ تین رکعات وترادافرماتے تھے جن میں فصل نہیں کرتے تھے (یعنی اکٹھے پڑھتے تھےاوردوپرسلام نہیں پھیراکرتے تھے)یہ بات بھی غیرمعروف نہیں کیونکہ آنحضرتﷺکےتین رکعات کی کیفیتوں میں سے احادیث صحیحہ میں یہ کیفیت بھی واردہوئی ہےیعنی تین رکعات ایک سلام سےپڑھنااوردرمیان میں تشہدکے لیے بھی نہ بیٹھنابلکہ تیسری رکعت میں بیٹھ کرتشہدوغیرہ پڑھ کرسلام پھرتےتھے۔

(٣):......آپ کا اول اللیل میں عشاءکی نمازکے بعدوترپڑھنابھی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے ۔لہذااس حدیث کے  متن میں کوئی نکارت نہیں رہی۔

ایک اورحدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مردی ہے وہ بھی ملاحظہ فرماتے چلئے!

((حدثناعبدالله حدثني ابي ثناازهربن القاسم ثناهشام عن قتاده عن زرارة بن اوفي عن سعدبن هشام عن ابيه عن عائشه رضي الله عنهاان نبي صلي الله عليه وسلم كان اذاوترصلي ركعتين وهوجالس.)) (مسنداحمد:ج٦’ص٢٥٥)

رجال السند:......امام احمد کا شیخ ازہربن القاسم ہےاوروہ صدوق ہے(تقریب)وہ ہشام سے لینے والے ہیں اوریہ ابن ابی عبداللہ الدستوائی ہیں جن کے متعلق تقریب میں لکھا ہے کہ ثقہ ثبت وقدرمی بالقدر(وہ ثقہ ہیں ضابطہ ہیں اوران پر قدریہ ہونے کا الزام ہےاس حدیث میں ان کے اس مذہب کوکوئی تقویت نہیں ہے۔جس کی وجہ سے روایت  میں ضعف آجائے۔کمالایخفی.

ہشام کےاستادقتادہ ہے یہ ابن دعامہ السدوسی ہےجوثقہ ثبت ہیں۔(التقريب)لیکن وہ مدلس ہیں لیکن ان کی تدلیس کےخطرہ سےاس روایت میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتاکیونکہ اس جیسی اورروایات اورصحابہ سےبغیراس علت کے موجودہیں،لہذامتابعات وشواہدمیں ایسی چیزمعتبرہوجاتی ہیں۔(كماتقررفي مقره)قتاده کے بعدزرارہ آتا ہے اس کے متعلق پہلی حدیث کے رجال کے متعلق گزارش کرتے وقت عرض کیا جاچکا ہے اوروہ سعدبن ہشام سےروایت کرتے ہیں اس راوی کا حال بھی دوسری حدیث کی سندپرکلام کرتے وقت گزرچکااورسعداپنے باپ سےروایت کرتے ہیں وہ ہشام بن عامرہیں اورصحابی رضی اللہ عنہ ہیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ اس حدیث کی اسناد بھی صالح ہے گوپہلی حدیث سےکچھ نازل ہےکیونکہ اس حدیث کی سند میں زرارۃ اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکےدرمیان دوواسطے ہیں اوراس میں کوئی جرح نہیں ہے۔

متن الحدیث:......اس حدیث سےمعلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺجب بھی وترپڑھتے تھے اس کے بعد دورکعت بیٹھ کرپڑھتے تھےاورآپ سے وتررات کے اول ،اوسط اورآخرتینوں حصوں میں ثابت ہےلہذا اس حدیث سےبھی معلوم ہوا کہ وترکے بعدہمیشہ آپ کامعمول تھا کہ دورکعت بیٹھ کرپڑھاکرتے تھے۔

((وهذاهوالمرادوالمطلوب.))

اوریہ حدیث حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کی مئویدہے جو پہلے مضمون میں تحریرکی جاچکی ہےاورجس سےبھی یہ ثابت ہوتا تھا کہ آنحضرتﷺجب بھی وترپڑھتے تھےتودورکعت وترکے بعدبیٹھ کرپڑھتے تھےاوران دورکعتوں میں سورۃ﴿إِذَا زُلْزِلَتِ ٱلْأَرْ‌ضُ﴾اور﴿قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْكَـٰفِرُ‌ونَ﴾تلاوت فرماتے تھے۔

ان احادیث سے بحمداللہ یہ اچھی طرح ثابت ہوگیا کہ وترکےبعد(خواہ رات کے اول حصہ میں عشاء کی نماز کے بعدخواہ رات کے آخری حصہ میں تہجد کے بعد’’دورکعت بیٹھ کرپڑھنابدعت نہیں ہے بلکہ مندوب ومسنون ہے کیونکہ سرورکائنات حضرت رسول اللہﷺسےپڑھناعلی الدوام ثابت ہے۔مضمون ہذاسےقبل یہ تحریرکرچکا ہوں کہ نووی نے بھی ان احادیث کو دیکھ کروتر کے بعددورکتعیں پڑھنے کو جائز قراردیا ہے۔اسی طرح حافظ ابن حزم  جوبدعتیوں اورمقلدوں کے لیے شہاب ثاقب ہیں اورسنت کے اتباع کا شدیداہتمام کرتےہیں انہوں نے بھی محلی میں یہ تصریح کی ہے کہ وترکے بعدنفل جائز ہے اوردلیل حضرت   رسول اللہﷺکاوترکے بعدبیٹھ کردورکعت پڑھنے کا فعل پیش کیا ہے۔حالانکہ آپ کا یہ امرکہ وترکورات کی نماز کے آخرمیں رکھوانہوں نے بھی نقل کیا ہے ۔قول اورفعل کے تعارض کے متعلق پہلے مضمون میں کھڑے ہوکرپینے سےمنع اورآنحضرتﷺکاکھڑے ہوکرپینے کا فعل پیش کرچکا ہوں یہاں پرمزیدوضاحت کی جاتی ہے۔

(١):......صحیح مسلم میں انس رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ:

((ان النبی صلى الله عليه وسلم زجرعن الشرب قائما.)) صحيح مسلم:كتاب الاشربة‘باب في الشرب قائما’

اوردوسری روایت میں صحیح مسلم یہ الفاظ ہیں:

((أن يشرب الرجل قائما.))

(٢):......اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےان الفاظ سےروایت مروی ہے۔

((لايشربن أحدكم قائمافمن نسى فليستقى.))

اس حدیث سے تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم امت کے لیے ہے اوراس پر لفظاحدکم واضح طورپردلالت کررہے ہیں۔لہذا اس امراورآپ کے  فعل کھڑے ہوکرپینامیں تعارض نہ ہواکیونکہ بظاہریہ فعل(یعنیالشرب قائما)آپ کی ذات شریف سےمخصوص معلوم ہوتاہےلیکن پھربھی  محققین علماء دونوں میں جمع کی صورت کو اختیارکرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ نہی سےمرادنہی تنزیہی ہے اورآپ کا فعل جوازپردال ہے اوراسی توجیہ کو حافظ ابن حجراولی قراردیتے ہیں جیساکہ علامہ مبارکپوری تحفۃ الاحوذی:ج1میں تحریرفرماتے ہیں :

((ومنهم من قال ان احاديث النهي محمولة علي كراهة التنزيه قال الحافظ (اي ابن حجر) هذاحسن المسالك وسلمهاوابعدمن الاعتراض.))

یعنی حافظ صاحب فرماتے  ہیں کہ یہ توجیہ زیادہ اچھی ہے اوراعتراض سے بھی یہی زیادہ دورہے۔بخلاف اس کے وترکورات کی نمازکے آخیرمیں رکھنے کے متعلق ایک حدیث حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم عام ہے(یعنی آنحضرت ﷺکی ذات گرامی بھی اس میں داخل ہے)اوروہ حدیث یہ ہے۔

((حدثناعبدالله حدثني ابي ثناءمحمدبن جعفروحجاج قالاثناشعبة عن ابي التياح عن ابي مجلز عن ابن عمر رضي الله عنه ان النبي صلي الله عليه وسلم قال الوترآخرركعة من الليل.)) مسنداحمد:ج٢’ص٤٣.رجال السند:......امام احمد کےدوشیخ میں ایک محمدبن جعفریہ مدنی بصری ہیں جو غندکے لقب سے معروف ہیں یہ ثقہ ہیں۔(تقريب)دوسراحجاج ہے اوروہ حجاج ابن محمد المصیصی الاعوابومحمد الترمزی الاصل ہیں۔اس کے متعلق حافظ صاحب تقریب میں فرماتے ہیں کہ ثقه ثبت لكنه اختلط في آخرعمره لماقدم بغدادقبل موته’’

مطلب یہ ہے کہ یہ راوی ثقہ ہیں باقی رہا ان کا اختلط تواس سے آخذ حضرت امام احمدہیں جوآپ نے اختلاط سے قبل اخذکرچکاتھا۔لہذا اس اختلاط سے حدیث کی سند میں کوئی خرابی واقع نہیں ہوسکتی ۔امام احمد کے دونوں شیخوں کا استادشعبہ ہے اوروہ ابن الحجاج ابوبسطام الواسطی ثم البصری ہے اوراس کے متعلق تقریب میں مرقوم ہے۔

((ثقه حافظ متقن كان الثوري يقول هواميرالمومنين في الحديث وهواول من فتش بالعراق عن الرجال وذب عن السنة وكان عابدا.))

اس عبارت پرمزید حاشیہ آرائی کی کوئی ضرورت نہیں ۔امام شعبہ ابوالتیاح سے روایت کرتے ہیں(ان کا نام یزیدبن حمیدہے اوریہ ثقہ ہیں)(تقریب)پھرابومجلزہے(ان کانام لاحدبن حمیدہے یہ بھی ثقہ ہیں (تقریب)اس حدیث کی سند ان شاء اللہ بےغبارہے۔

متن الحدیث:......اس حدیث میں جناب سیدالمرسلینﷺ عمومی حکم بیان فرماتے ہیں کہ وتر رات کی  نماز کی آخری رکعت ہے ۔سیاق حدیث کا اس بات کی طرف اشارہ کرتاہے کہ حکم عام ہے یعنی آپ کی ذات مقدسہ بھی اس میں داخل ہے ۔یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ علماء‘‘لاصلوة بعدالعصر’’کےمتعلق فرماتے ہیں کہ اس حکم میں آپ کی ذات مبارکہ بھی  داخل ہے اس لیے آپ کافعل (یعنی عصرکے بعددورکعت پڑھنا)اس سےمتعارض ہے اس لیے یا تواس کی نہی یا فعل کو متاخرہونے کی وجہ سے اس نہی سے مخصوص ماناجاتا ہے ۔(‘‘انظرحصول المامول’’پھرنوع جب ایسے قول کہ جس میں آپ کی ذات گرامی داخل نہ  ہو(جیساکہ)نهي عن الشرب قائما)اورفعل متعارض میں بھی محققین جمع کاطریقہ ہی اختیار کرتے ہیں توپھر اس صورت میں کہ قول میں آپ کی ذات والابھی شامل ہواورفعل اس سے بظاہر متعارض ہوتووہاں بطریق اولی جمع ہی مناسب ہے باقی رہا جمع توایک صورت اس کی وہ ہے جو امام نووی وغیرہ نے اختیار کی ہے اورایک وہ ہے جو یہ بندہ ناچیز راقم الحروف پہلے مضمون میں عرض کرچکا ہے ان میں سے کوئی صورت بھی اختیارکی جاسکتی ہے باقی اس قول کےبدعت قراردینا یا جوان کو مسنون سمجھ کر پڑھتا ہے اس کو بدعتیوں کے زمرہ میں شامل کرناقطعا ساقط عن الاعتبارہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 335

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ