سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(60)مسجد كو منتقل كرنا

  • 14845
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 1193

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

كسی گاوں میں ایک مسجد ہے وہاں کے باسی اسی مسجد میں نمازاداکرتے ہیں جبکہ اب صورتحال یہ ہے کہ اس گاوں کے لوگ کسی مجبوری کی بناء پر اس گاوں کوترک کرکے کسی اورجگہ منتقل ہوناچاہتے ہیں اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس مسجد کے سامان سےجہاں پر وہ منتقل ہونا چاہتے ہیں نئی مسجد بناسکتے ہیں واضح ہوکہ اگراس مسجد کو اسی حالت میں چھوڑدیتے ہیں تووہ بالکل غیر آبادہوکررہ جائے گی اس کا پوراسامان ضائع ہوجائے گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مساجد تمام مسلمانوں کے لیے وقف ہواکرتی ہیں اوروقف فی سبیل اللہ کا یہ حکم ہوتا ہے کہ اس میں بلاوجہ تغییر وتبدیلی نہ کی جائے اسے ضائع نہ کیا جائے،اس سے وہی کام لیا جائے جس کے لیے اسے وقف کیا گیا ہےلہذا بلاوجہ مسجد میں نامناسب تبدیلی کرنا یا اسے ضائع کرنا یا اسے ختم کرنا اسے غیر آبادکرناناجائز ہے،اس کے متعلق(جہاں وہ مسجد ہے)وہاں کے تمام باسی مسلمانوں پر ایک جتنا حق ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اگر کوئی اضطراری صورت پیش آجائے توبھی اس میں تغیر وتبدل یا اسے ترک کرنا اسے نئی صورت میں تعمیر کرنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں بلکہ اس کے متعلق بھی اللہ  تعالی اوررسول اکرمﷺنے راہنمااصول عطافرمائے ہیں جن سے مذکورہ تمام باتیں جائزہوسکتی ہیں۔

(1):اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرة:۲۸۶)

‘‘ہرکسی بھی شخص کو اللہ تعالی اس کی طاقت وقدرت سےزیادہ احکام لاگونہیں کرتا۔’’

(٢):﴿فَاتَّقُوا اللَّـهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ (التغابن:۱۶)

‘‘لہذااللہ تعالی کی نافرمانی اوراس کےاوامرانحرافی سے اپنی وسعت وطاقت کے مطابق بچیں۔’’

(٣):﴿يَسْـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْخَمْرِ‌ وَٱلْمَيْسِرِ‌ ۖ قُلْ فِيهِمَآ إِثْمٌ كَبِيرٌ‌ۭ وَمَنَـٰفِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَآ أَكْبَرُ‌ مِن نَّفْعِهِمَا﴾ (البقرة:۲١٩)

‘‘آپ سے شراب اورجوے کے متعلق پوچھتے ہیں آپ فرمائیں کہ ان دونوں میں نقصان بھی ہے تولوگوں کے لیے کچھ فوائدبھی ہیں تاہم ان کے نقصانات فوائدسے زیادہ ہیں۔’’

اس مقام پر‘‘اثم’’بمعنی نقصان ہے تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ اضافی فائدےاورنقصان سے کوئی چیز بھی خالی نہیں،حتی کہ محرمات میں بے شمارنقصانات کے ساتھ ساتھ کچھ فوائدبھی ہیں،لہذا اس آیت سے یہ اصول اخذہوتا ہےکہ جب کہ کوئی بھی چیزاضافی نفع ونقصان سےخالی نہیں توپھرہرچیزکےمتعلق حکم معلوم کرنے کے لیے یہ دیکھنا پڑے گاکہ اس کا نفع زیادہ ہے یا نقصان ،اگر نقصان زیادہ ہے توپھرتوتھوڑی منفعت کو کچھ وزن نہیں دیا جائے گابلکہ نقصان کو مدنظررکھتے ہوئے اس چیز سےاجتناب وپرہیز لازمی ہے۔

(٤):﴿وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّ‌مَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِ‌رْ‌تُمْ إِلَيْهِ﴾ (الانعام۶/۱۱۹)

اللہ تعالی نے محرمات (حرام کردہ چیزوں )کو تفصیل سے بیان کیا ہے مگریہ کہ تم مجبورہوجاوکہ تمھیں محرم چیزسےکسی طرح بھی مخرج نظرنہ آئے۔اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ ہرمحرم وممنوع چیز نہایت اضطراری اورانتہائی مجبوری کی حالت میں جائزہوجاتی ہے لیکن وہاں یہ خیال رہے کہ اس کا م یا چیز یاامرکے ارتکاب کے علاوہ کوئی دوسری متبادل صورت نہ ہواگرکوئی متبادل صورت موجودہے توپھرہرگزہرگزاس ممنوع چیز کاارتکاب نہ کیا جائے۔

(٥):الله تعالی نے صلاح ودرستگی(معاشرہ)کاامرفرمایاہےاوراس کےمدمقابل فسادسےمنع فرمایاہےاوراپنے انبیاءکرام علہیم السلام کوبھی اس لیے مبعوث فرمایاکہ انسانوں کے اصلاح احوال کی تحصیل وتکمیل کریں اورمفاسدکوبالکل ختم ونابودکردیں اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل آیت کریمہ کو ملاحظہ کریں۔

﴿وَقَالَ مُوسَىٰ لِأَخِيهِ هَـٰرُ‌ونَ ٱخْلُفْنِى فِى قَوْمِى وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ ٱلْمُفْسِدِينَ﴾ (الاعراف:١٤٢)

اورشعیب علیہ السلام نے فرمایا:

﴿إِنْ أُرِ‌يدُ إِلَّا ٱلْإِصْلَـٰحَ مَا ٱسْتَطَعْتُ﴾ (هود:٨٨)

اورفرمايا:

﴿فَمَنِ ٱتَّقَىٰ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾ (الاعراف:٣٥)

نيز ارشاد ہے:

﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا۟ فِى ٱلْأَرْ‌ضِ قَالُوٓا۟ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ﴾ (البقرة:١١)

مذكوره آيات میں واضح طورپرمصالح کو اختیارکرنے کا امروترغیب دی گئئ ہےاورفسادوبگاڑسےروکاگیاہے۔یعنی جوبات بگاڑفساداورتخریب وضیاع کاسبب بنتی ہواسےترک کرکے وہ کام یا عمل وصورت اختیارکی جائے جس میں ہر طرح سے مصلحت اوربہتری ہو۔

(٦):﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَـٰجِدَ ٱللَّهِ أَن يُذْكَرَ‌ فِيهَا ٱسْمُهُۥ وَسَعَىٰ فِى خَرَ‌ابِهَآ﴾ (البقرة:١١٤)

‘‘اس سے بڑھ کرکوئی بھی ظالم نہیں جو مساجد کی تخریب وضیاع کاسبب بنےکہ وہ ان میں اللہ تعالی کے ذکرسےروکتارہے۔’’

(٧):﴿فِى بُيُوتٍ أَذِنَ ٱللَّهُ أَن تُرْ‌فَعَ وَيُذْكَرَ‌ فِيهَا ٱسْمُهُ﴾ (النور:٣٦)

مومنوں کے دلوں میں اللہ تعالی کی طرف سے نوران گھروں (مسجدوں)میں حاصل ہوگاجن کے متعلق اللہ تعالی نے حکم فرمایاکہ ان کی رفعت وبلندی،تعظیم وتکریم کی جائے اوران میں اللہ تعالی کے نام کا ذکر ہوتا رہے۔الخ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے فرمایا:

((مانهيت عنه فاجتنبوه وماأمرتكم به فاتومنه مااستطعتم......الحديث)) (متفق عليه)

‘‘یعنی میں تمھیں جس چیز سے روکوں اس سے کلی طورپراجتناب کرواورجس چیزکاحکم دوں تواس کی تعمیل اپنی وسعت واستطاعت کے مطا بق کرو۔’’

یعنی نواہی میں استطاعت وغیرہ کی گنجائش نہیں مگر اوامرمیں شریعت نے قدرت اوروسعت کی گنجائش رکھی ہے۔چوری مت کریں اس میں یہ گنجائش نہیں کہ اگر قدرت نہ ہوتو پھرچوری کرلیا کرولیکن حکم ہے کہ نماز کھڑے ہوکر پڑھواگرقدرت نہین توپھرلیٹ کراشاروں کے ساتھ۔وضوکے لیے پانی نہیں یا کسی سبب وضوکرنا صحیح نہیں توتمیم کرلے۔روزے فرض ہیں لیکن بیمارکے ل یے ترک کرنے کی اجازت ہے علی ہذاالقاس ۔دیگر اوامرکوبھی اسی طرح سمجھنا چاہیے۔ان اصولی باتوں کو پوری طرح ذہن میں بڑھانے کے بعد اب آئیے اصل مسئلہ کی طرف کتنے ہی مواقع پر بعض ایسے ناگزیرحالات پیدا ہوجاتے ہیں جن کی وجہ سے وہاں کے باسی اس گاوں کو ترک کرنے پر مجبورہوجاتے ہیں مثلا وہاں بہت زیادہ زمینی سیلاب پھوٹ پڑے جس کی وجہ سے وہاں کے باسی مجبورہوکراس جگہ کو ترک کرکے چلےجائیں اس صورت میں اگر اس گاوں کے باسیوں کو اس کی اجازت نہ دی جائے کہ وہ اس مسجد کو شہید کرکے جاکروہاں مسجد بنائیں جہاں پر وہ رہنے لگے ہیں تو پھر ظاہر ہے کہ اس طریقے سے تویہ بنی ہوئی مسجد غیرآبادہوکررہ جائے گی کی یاتوکتے اوربلیاں آکروہاں گندپھیلاتے رہیں گےیاشیاطین کیاکوئی اورمخلوق وہاں آکراپناآستانہ بنائے گی یا بالآخروہ اس سیلاب کی وجہ سے گرکرنیست ونابودہوجائے گی۔اس طرح مسجد کی تعظیم میں فرق آجاتا ہےہاں اگر اس کی متبادل صورت کی اجازت ہوگی تولوگ باآسانی اپنی مرضی کے مطابق کسی اورجگہ وہ مسجد بنوادیں گے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 326

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ