سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(56)دعا میں طرز لگانا

  • 14841
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1083

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اکثرطورپردیکھنے میں آیا ہے کہ نہ صرف عوام بلکہ کچھ علماء دین بھی دعانظم میں مانگتے ہیں اورکچھ ایسی ادعیہ مطبوع بازارمیں بھی ملتی ہیں۔کس حد تک درست ہے۔

میرے خیال میں ایسی دعا مانگنااعتداء فی الدعاہےاوردرست نہیں نیزاحادیث میں دعامیں تک بندی سے منع کیا گیا ہے۔جب محض تک بندی دعامیں اختیارکرنادرست نہیں توپھرپوری دعانظم میں مانگناکہاں تک درست ہوگی ۔کیونکہ نظم میں تک بندی اورقافیہ بندی دونوں سمائی ہوئی ہوتی ہیں کیا سلف صالحین میں سے کسی نے دعابشکل نظم مانگی ہے،اگراس طرح کاثبوت موجود ہے توحوالہ اورصحت سند سے آگاہ فرمائیں اوراگراس طرح نہیں تومتبعین کتاب وسنت کافرض ہے کہ اس  کی اصلاح کی پوری پوری کوشش کریں تاکہ‘‘نب رائ منكم منكرافليغيره بيده......الخ اور‘‘مامن نبى بعثه فى أمته  قبلي الاكان فى امته حواريون واصحاب ياخذون بسنته......فمن جاهدهم بيده......وليس وراءذالك من الايمان حبة خردل’’(مسلم)جیسی احادیث پر عمل پیراہوسکیں۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

راقم الحروف اس مسئلہ کے متعلق جوکچھ سائل محترم نے فرمایاہے اس سےمتفق نہیں بشرطیکہ اسے عمومی معمول نہ بنایاجائے اورماثورہ عربی دعاوں کو ترک نہ کیا جائے ۔ہاں اکثر طورپرکسی مرض میں یا کسی مشکل میں انسان کے اندرونی جذبات اوردلی احساسات منظوم صورت میں زبان سےاداہوجاتے ہیں اوریہ اعتداء فی الدعاکے زمرہ میں داخل نہیں ۔تک بندی مطلق یا فی الدعاء ممنوع نہیں۔قرآن کریم میں سیدناموسی علیہ السلام کی دعااس طرح منقول ہے:

﴿قَالَ رَ‌بِّ ٱشْرَ‌حْ لِى صَدْرِ‌ى ﴿٢٥﴾ وَيَسِّرْ‌ لِىٓ أَمْرِ‌ى ﴿٢٦﴾ وَٱحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِى ﴿٢٧﴾ يَفْقَهُوا۟ قَوْلِى ﴿٢٨﴾ وَٱجْعَل لِّى وَزِيرً‌ۭا مِّنْ أَهْلِى ﴿٢٩﴾ هَـٰرُ‌ونَ أَخِى ﴿٣٠﴾ ٱشْدُدْ بِهِۦٓ أَزْرِ‌ى ﴿٣١﴾ وَأَشْرِ‌كْهُ فِىٓ أَمْرِ‌ى ﴿٣٢﴾ كَىْ نُسَبِّحَكَ كَثِيرً‌ۭا ﴿٣٣﴾ وَنَذْكُرَ‌كَ كَثِيرً‌ا ﴿٣٤﴾ إِنَّكَ كُنتَ بِنَا بَصِيرً‌ۭا ﴿٣٥﴾ (طه:٢٥تا٣٥)

یہ دعاتک بندی کابہترین نمونہ ہے۔اگرہم یہ دعا﴿يَفْقَهُوا۟ قَوْلِى﴾تک پڑھیں توکیاآن محترم اسےناجائزقراردیں گے؟

سیدنا نوح علیہ السلام کی دعا بھی قرآن مجید میں مذکورہے:

﴿وَقَالَ نُوحٌ رَّ‌بِّ لَا تَذَرْ‌ عَلَى ٱلْأَرْ‌ضِ مِنَ ٱلْكَـٰفِرِ‌ينَ دَيَّارً‌ا ﴿٢٦﴾ إِنَّكَ إِن تَذَرْ‌هُمْ يُضِلُّوا۟ عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوٓا۟ إِلَّا فَاجِرً‌ۭا كَفَّارً‌ۭا ﴿٢٧﴾ رَّ‌بِّ ٱغْفِرْ‌ لِى وَلِوَ‌ٰلِدَىَّ وَلِمَن دَخَلَ بَيْتِىَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتِ وَلَا تَزِدِ ٱلظَّـٰلِمِينَ إِلَّا تَبَارً‌ۢا ﴿٢٨﴾ (نوح:٢٦تا٢٨)

سیدنا نوح علیہ السلام کی یہ دعا بھی تک بندی ہےقرآن عزیزکےبعداحادیث کو دیکھاجائےتووہاں بھی اسی طرح تک بند کے ساتھ ادعیہ بھی واردہوئی ہیں ذیل میں میں صرف تین پراکتفاکرتا ہوں۔

(1):۔۔۔۔۔۔سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺیہ دعاپڑھاکرتے تھے:

((أللهم إنى أعوذبك من جهدالبلاءوردرك الشقاءوسوءانقضاء وشماتة الاعداء.))

کیایہ صحیحین کی دعاتک بندی کا بہترین نمونہ نہیں ہے؟

(٢):۔۔۔۔۔۔نسائی،صحیح ابن حبان،مستدرک حاکم میں معتبرسند کے ساتھ سیدنا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ نبی کریمﷺنے مجھ سےارشادفرمایاکہ آپ دعامانگیں آپ کودیاجائے گامیں نے یہ دعامانگی:

((أللهم إنى اسئلك إيمانا لايرتدونعيمالاينفدومرافقة نبينامحمدصلى الله عليه وسلم فى أعلى درجة الجنة جنة الخلد.))

یہ دعابھی اعلی درجہ کی تک بندی کامرقع ہے اوررسول اکرمﷺنے اسے ثابت رکھاہےاورنقدنہیں فرمایا،اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی شخص خودہی صحیح الفاظ کے ذریعے جوشریعت مطہرہ کے مخالف نہ ہوں اگرچہ ماثورنہ بھی ہوں پھر بھی دعامانگ سکتا ہے،کیونکہ سیدناا بن مسعودرضی اللہ عنہ نے یہ دعارسول اکرمﷺسےسن کرنہیں مانگی تھی بلکہ  اپنی طرف سے یہ دعائیہ الفاظ کہے تھے اوراس کا مفہوم ومعنی ومطلب آپﷺکے لائے ہوئے دین کےعین مطابق تھا۔لہذا آپﷺنے اسے ثابت رکھا۔(یعنی اسے برقراررکھا)

اورصحیح مسلم میں سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی  ہے کہ نبی ﷺنمازمیں سجدہ کی حالت میں یہ دعاپڑھاکرتے تھے:

((أللهم اغفرلى ذنبى كله وجله وأوله آخره وعلانية وسره.))

کیایہ دعاجونماز میں بحالت سجدہ پڑھی گئی ہے کیا یہ تک بندی نہیں ہے؟

بہرحال تک بندی مطلقاممنوع نہیں خواہ وہ دعائیہ کلمات میں ہی ہو۔

ہاں وہ تک بندی ممنوع ہے جس میں بےجاتکلف ہواوروہ کسی حق بات کے معارض ومخالف ہو،چنانچہ صحیح بخاری ،ابوداودوغیرہ میں یہ واقعہ مذکورہے کہ دوعورتیں آپس میں لڑپڑیں ایک نے دوسری کو پتھراٹھاکردےماراجس کی وجہ سے ا س کا حمل ضائع ہوگیاتورسول اکرم ﷺنے اس ضائع شدہ حمل (بچہ)کی دیت ایک غلام یا ایک لونڈی کا فیصلہ فرمایاتومارنے والی عورت کے ولی نے  کہا:

((كيف أغرم يارسول الله من لاشرب ولاأكل ولانطق ولااستهل فمثل ذالك بطل.))

تواس پررسول اللہﷺنے فرمایا:

((إنماهذأمن إخوان الكهان.))

اورابوداودمیں اسی واقعہ کے متعلق سیدنامغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ اس شخص  کی تک بندی کے متعلق آپﷺنے فرمایاکہ:

((إسجع كسجع الأعراب.))

اورابوداودہی میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں آپﷺکے یہ الفاظ مروی ہیں:

((إسجع الجاهلية وكهانتها.)) (الحديث)

الغرض ان الفاظ مبارکہ سے محترم بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ کیسی تک بندی ممنوع ومعیوب ہے۔

دعائیہ کلمات اشعارمیں بھی واردہوئے ہیں مثلا:

سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اصحاب الرجیع کا مرثیہ پڑھتے ہوئے یہ  دعائیہ کلمات فرماتے ہیں:

((صلى إلاله على الذين تتابعوايوم الرجيع فاكرمواواثيبوا.)) دیوان حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ'ص١٨.

اس شعرمیں‘‘ﷺ’’دعائیہ کلمہ جس طرح ہم کہاکرتے ہیں،غفراللہ لہ ورحمۃ اللہ علیہ،وغیرہ ۔

لیجئے جناب!صحیح بخاری میں‘‘كتاب المغازي باب غزوة الخندق الاحزاب’’میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ حدیث لائے ہیں:

((عن البراء رضي الله عنه قال:كان النبى صلى الله عليه وسلم ينقل التراب يوم الخندق حتى اغمربطنه اواغبرطنه’يقول:والله لولاالله مااهتدينا’ولاتصدقناولاصلينافانزل سكينة علينا’وثبت الاقدام ان لاقيناان......قدبغواعلينا’اذاارادوفتنة ابيناويرفع بهاصوته ابينابينا.))

اس کے ساتھ متصل براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت لائے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ  یہ رجز عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے کہے ہوئے تھے،جوآپﷺاپنی زبان مبارکہ سےادافرمارہےتھے۔عروض کاعلم رکھنے والے حضرات جانتے ہیں کہ‘‘رجز’’یہ شعرکی ایک قسم اور اس کے ابحورمیں سے ایک بحرہے ۔اوران رجزیہ اشعارمیں اللہ سبحانہ وتعالی کی توحید کےساتھ ساتھ اللہ سبحانہ وتعالی سےانزال سکنیت اورتثبیت اقدام کی دعابھی ہے۔

یہ کلمات اگرچہ عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے ہیں،لیکن رسول اکرمﷺکا ان کلمات کواپنی زبان مبارکہ سے اداکرنایہ اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اکرمﷺنے بھی اشعارکےذریعے اللہ تعالی سے دعامانگی ہے جب آپﷺسےاشعارمیں دعامانگنے کاثبوت مل گیا توپھران کی صحت میں کوئی شک نہ رہا۔بلکہ اس صحیح احادیث سے معلوم ہواکہ اشعارمیں دعامانگنا یا اللہ تعالی سے مناجات کرنا رسول کریمﷺکی سنت مبارکہ ہے ۔لہذا اس کے مندوب ومستحب ہونے میں کوئی کلام وشک نہ رہااوریہ بھی بالکل واضح ہے کہ سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ رسول اکرمﷺکی مدح وتعریف میں جواشعارپڑھے تھے ان میں دوشعریہ   بھی تھے۔

يارب فاجمعنامعاونبينا

فى جنةتشفي عيون الحمد

فى جنةالفردوس واكتبهالنا

ياذالجلال وذالعلاوالسودد

(ديوان حسان بن ثابت:ص٥٨)

بہرحال اس سوال کےجواب میں میرےخیال میں کافی لکھاجاچکاہے۔لہٰذااسےاب ختم کرتاہوں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 317

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ