سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(55)اجتماعی دعا کا حکم

  • 14840
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1192

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فرض نمازوں کے بعداجتماعی،انفرادی دعاکرنا سنت سے ثابت ہے یابدعت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جامع ترمذی میں حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺسےدریافت کیاگیا کہ کون سی دعازیادہ سنی جاتی ہے(مقبول ہوتی ہے)آپﷺنے فرمایارات کاآخری حصہ اورفرائض(پانچوں وقتوں کی نمازوں)کےپیچھےامام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے،اس سے معلوم ہوا کہ فرضی نمازوں کے بعد بھی دعاکی قبولیت کا زیادہ امکان ہوتا ہےاوردعابغیرہاتھ اٹھائے بھی کی جاسکتی ہےاورہاتھ اٹھاکربھی کی جاسکتی ہے،کیونکہ دعامیں ہاتھوں کے اٹھانے کا ذکربہت سی احادیث قولیہ وفعلیہ میں واردہےاورہاتھ اٹھانادعاکےخاص آداب میں سے ہے۔

(1):۔۔۔۔۔۔سنن الكبري للامام البيهقي:٢/١٣٣میں ایک حدیث ہے جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺنے فر مایا:

((وهذاالدعاءفرفع يديه حذومنكبيه......الخ))

یعنی آپﷺنے اپنے کندھوں کے برابراپنے ہاتھ مبارکہ اٹھائے اورفرمایاکہ یہ ہے دعایعنی دعااس طرح مانگنی چاہیے کہ ہاتھوں کوکندھوں کے برابراٹھاناچاہیے۔

معلوم ہوا کہ دعامیں ہاتھ اٹھانا دعاکےآداب میں سے ہے۔اسی طرح صحیح ابن حبان وغیرہ میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا:اللہ تبارک وتعالی  فرماتاہےجب میرابندہ دعاکےلیے ہاتھ اٹھاتا ہے تومجھے حیا آتی ہے کہ میں اس کے ہاتھوں کوخالی لوٹاوں۔بہرحال ہاتھ اٹھانا دعامیں دعاکےآداب میں سے ہے اوروہ مندوب ومستحب ہے اورچندوقائع بھی احادیث صحیحہ میں مروی  ہیں کہ نبی کریمﷺنے دعاءمیں ہاتھ اٹھائے اورصحیح مسلم میں صلوۃ الخوف کے بعد بھی ہاتھ اٹھانے مذکورہیں۔(یعنی آپﷺنے اٹھائے)جب دعامیں ہاتھ اٹھانے مسنون ومستحب ہیں توفرض نماز کے بعداگرکوئی دعاکرنا چاہے تووہ کیوں ہاتھ نہ اٹھائے،حالانکہ  ترمذی والی حدیث سے معلوم ہوا کہ فرض نماز کے بعد بھی دعاء کی قبولیت کا زیادہ موقع ہے۔علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے توابن ابی شیبہ کاحوالہ دے کر لکھا ہے کہ نبی کریمﷺنے نماز فجرکے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ۔یہ روایت ابن ابی شیبہ کے مصنف میں تودیکھنے میں نہیں آئی ہوسکتا ہے کہ ان کے‘‘المسند’’میں ہولیکن وہ اس وقت ہمارے پاس نہیں۔

بہرحال مذکورہ قولیہ احادیث سےاتنا توثابت ہوگیا کہ نماز فرض کے بعد دعاکے لیےہاٹھ اٹھانے مستحب ہیں لہذا انفراداتودعاکےلیے ہاتھ اٹھانا جائز ہواباقی رہا اجتماعی طورپر توصحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ جمعہ کے سن آپﷺخطبہ  دےرہے تھے کہ ایک آدمی آیا اورقحط سالی کا شکوہ کیا توآپﷺنے اپنے ہاتھ مبارک دعاکے لیے اٹھائے اورلوگوں نےبھی اپنے ہاتھ اٹھائے۔الخ

اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ آپﷺنے لوگوں کو کہا تم بھی ہاتھ اٹھاوبلکہ آپﷺکے ہاتھ اٹھاتے ہی انہوں نے بھی ہاتھ اتھالیے اورایسا معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کا معمول تھا کہ جب آپﷺدعاکےلیے ہاتھ اٹھاتے تووہ بھی ساتھ ہی اپنے ہاتھوں کو اٹھا  لیتے تھے۔

اس حدیث میں گوفرض نماز کے بعد اجتماعی دعاکرنے کا بیان نہیں لیکن اس سے فی الجملہ اجتماری دعاکرنااظہرمن الشمس ہے۔

(٢):۔۔۔۔۔ایک حدیث بھی ملاحظہ فرمائیے جوقولی ہے۔یہ روایت امام حاکم رحمہ اللہ نےاپنے مستدرک ٣/٣٤٧میں واردکی ہے۔اس میں یہ ہے کہ حضرت حبیب بن مسلمہ الفیہری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺسےسناکہ فرماتے تھے: ((لايجتمع ملافيدعوابعضهم ويومن البعض إلاأجابهم الله.))

‘‘یعنی کوئی جماعت بھی ایک جگہ جمع ہوکردعاکرے ایک ان میں سے دعامانگے اوردوسرے اس پر آمین کہیں تواللہ تعالی ان کی دعاکو شرف قبولیت بخشتا ہے۔’’

اس حدیث کی سند حسن ہے۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے مستدرک کی تلخیص میں اس روایت کوبحال رکھا اس پر کوئی جرح نہ فرمائی اس کے سب رواۃ ثقہ وصدوق ہیں۔ابن لہیعہ میں کلام ہے لیکن جب ان سے عبداللہ بن المبارک ،ابوعبدالرحمن المقری جیسے تلامذہ روایت کریں تووہ مقبول ہوتی ہے یہاں بھی ان سے ابوعبدالرحمن المقری (عبداللہ بن یزید)راوی ہے،لہذا یہ روایت ان کی صحیح ہے۔

ابن لہیعہ مدلس بھی ہے لیکن اس روایت میں انہوں نے ‘‘حدثني’’کہہ کرسماع کی صراحت کردی لہذا یہ روایت قوی وجید ہے اسی لیے حافظ ذہبی بھی اس پر خاموش رہے ۔واللہ اعلم

اس حدیث سے اجتماعی طورپردعاکرنا مندوب معلوم ہوتا ہے۔اورحدیث میں‘‘ملا’’کالفظ ہے جس سےہرجماعت مرادلی جاسکتی ہے خواہ وہ نمازفرض کی جماعت ہویاعلم وتبلیغ کے لیے اجتماع ہو یاکسی جلسہ کا اجتماع ہویا فوجی جماعت ہوان سب کو یہ لفظ شامل ہے کیونکہ جولفظ عام ہو اس کو بلاقرینہ یابلاخاص دلیل کےکسی ایک فردکے ساتھ مخصوص نہیں کیا جاسکتا اورچونکہ کوئی ایسی دلیل نہیں جس سے معلوم ہوکہ فرض نماز کی جماعت اس سے مستثنی ہے ،لہذایہ بھی اس میں یعنی اس لفظ کے عموم میں شامل رہے گا۔اورکسی حدیث میں اب تک یہ دیکھنےمیں نہیں آیاکہ آپ نے فرض نمازکے بعدہاتھ اٹھاکردعاکرنے سے منع فرمایایاخود کبھی فرض نمازکےبعددعاکےلیے ہاتھ نہیں اٹھائے ۔یعنی نہ یہ واردہے (جتنا کچھ اب تک معلوم ہواہے)کہ آپ نے فرض نماز کے بعدہاتھ اٹھائے اورنہ یہ ہے کہ ہاتھ نہیں اٹھائے۔اورعدم ذکرعدم وجود کو مستلزم نہیں ہے۔

نتیجہ یہ ہواکہ فرض نمازبعداجتماعی طورپردعاکرنانبی کریمﷺکی قولی حدیث کےبموجب مندوب ومستحسن ہے اوراوپرمعلوم ہوچکاہےکہ ہاتھ اٹھانااحادیث کی روسے دعاکےآداب میں سے ہےاورمستحسن ومندوب ہے بہرحال ان دلائل سے راقم الحروف کےنزدیک فرض نماز کے بعد اجتماعی طورپردعاکرناجائز ہے۔بلکہ اس کو مندوب کہہ سکتے ہیں البتہ اس کو نماز کے لوازمات سے سمجھنا اوریہ تصورکرلینا کہ اس کے سوانماز پوری ہی نہیں ہوتی یا جواس طرح دعا نہ کرےبلکہ اٹھ کرچلاجائے اس کو برابھلاکہنا یا س پر طعن وتشنیع کرنایہ ناجائز ہے اگرایساکرلیا جائے توہ بدعت ہوگی اورناجائز ہوگی۔

حضرت مولاناعبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ نے ‘‘تحفۃ الاحوذی شرح الترمذی’’میں بھی تقریبا اسی طرح لکھا ہے یعنی اگراس کو نماز کے لوازمات میں سے تصورنہ کیا جائے اورنہ کرنے والے پر نکیر بھی نہ ہوتویہ ان شاء اللہ جائز ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 313

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ