سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(54)تسبیح کےدانوں پرذکر اذکار کرنا

  • 14839
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1744

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تسبیح کےدانوں پرذکراذکارکرنےکی شرعی حیثیت کیاہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
الحمدلله رب العالمين والعاقبةللمتقين والصلوٰةوالسلام على سيدالانبياءوالمرسلين محمدواله واصحابه اجمعين۔۔۔۔۔امابعد!

تسبیح کےساتھ اذکارواورادکوگننےکےمتعلق مجھےہمارےدوست کرم فرماعلامہ ابومحموداللہ بخش صاحبؒ علامہ البانی رحمۃاللہ علیہ کےتنقیدی مضموں کی طرف توجہ دلائی۔جیساکہ علامہ البانی نےاسی مضمون(جوسلسلہ احادیث صحیحہ)میں لکھاہےجس میں انھوں نےتحقیق سےکام نہیں لیاہےبلکہ بیجاتنقیدسےکام لےکرےسبیح سےاذکارگننےکوبدعت قراردیاہےاس لیےاپنےدوست عزیزترین حضرت مولاناموصوف کےایماءپرچنداوراق اس کےقلمبند کررہاہوں بعدمیں اصل مسئلہ کےمتعلق عرض رکھوں گا۔بعون العلام وهويهدى لتحقيق الكلام وهوحسبى ونعم الوكيل!

‘‘فاقوله وله استعين(اخطاالعلامه(البانى)فى الكتاب المذكور_’’

(١)۔۔۔۔علامہ صاحب مذکورہ کتاب کےصٖحہ نمبر١١٢رقم الحدیث نمبر٨٣میں عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کاایک اثرنقل کرتےہوئےفرماتےہیں کہ(وسنده’الي الصلةصحيح)وهوثقةمن اتباع التابعين(سطرنمبر٥)تعجب تویہ ہےکہ جب صلت بن بہرام اورحضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ کےدرمیان انقطاع ہےجیساکہ خودعلامہ صاحب نےلکھاہےکہ وہ اتبع التابعین میں سےہیں لہٰذاان کاابن مسعودرضی اللہ عنہ سےملناناممکن ہےلہٰذایہ روایت منقطع ہوئی اورمنقطع روایت بھی ضعیف روایات کی اقسام میں سےہےپھرایسی ضعیف روایات کومیدان استدلال میں لاناعلامہ جیسےمحقق کوقطعامناسب نہیں ہےتعجب تواس بات پرہےکہ اس واضح ضعف کےباوجودعلامہ صاحب اس کوجزماویقیناحجت ودلیل لینےکےقابل تصورکرتےہیں۔

اس کےدوصفحےآگےلکھتےہیں:

((ولوكان ذالك ممااقره النبىﷺلماخفى على ابن مسعودرضى الله عنه۔))

یعنی ابن مسعودرضی اللہ عنہ کےاثرکوصحیح تصورکرتےہیں حالانکہ یہ اثرضعیف ہےلہٰذااس سےدلیل لیناکس طرح درست ہوگا؟

(٢)۔۔۔۔حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سےایک حدیث روایت ہےکہ وہ صحابی حضوراکرمﷺکےساتھ ایک عورت کےگھرگئےجس کےآگےگٹھلیاں یاچھوٹی چھوٹی کنکریاں رکھی ہوئی تھیں الحدیث۔

اس حدیث کوبھی لاکرعلامہ البانیؒ نےعلتیں پیش کی ہیں ایک تواس کی سندمیں خزیمہ راوی غیرمعروف ہےاس کےمتعلقین اولایہ گذارش ہےکہ مستدرک حاکم میں سعیدبن ابی ہلال اورعائشہ بنت سعدکےدرمیان خزیمہ کاواسطہ نہیں ہے۔(دیکھئےمستدرک الحاکم:ج١،ص٥٤٨)

جبکہ حاکم کی روایت میں غیرمعروف راوی ہےہی نہیں توپھرحاکم کااس کوصحیح کہنااورحافظ ذہبی کی موافقت بالکل صحیح ہےعلامہ صاحب کااس پراعتراض کرنابالکل بےجاہے۔

ملحوظہ:۔۔۔۔سعیدبن ابی ہلال مدلس بھی نہیں ہےکہ کہاجائےکہ حاکم کی روایت میں اس نےتدلیس کی ہےاورخزیمہ کاواسطہ گرایاہےمطلب کہ یہ راوی ثقہ ہےمدلس بھی نہیں ہے۔عائشہ بنت سعدسےاس کاسماع ممکن ہے،لہٰذایہ روایت صحیح ہے۔

ثانیاعلامہ صاحب فرماتےہیں کہ:

((سعدبن ابى هلال مع ثقةحكى الساجى عن احمدانه اختلط فانى الحديث الصحةاوالحسن۔))

یہ بات علامہ صاحب نےعجیب لکھی ہےسعیدبن ابی ہلال ثقہ ہےاورجماعت نےان سےحجت لی ہے۔بخاری،مسلم وجمیع صحاح ستہ وغیرہاکےمصنفین نےان سےاحتجاج کیاہے۔ایسےراوی کےنام ساجی کی حکایت نقل کرکےاس کی تضعیف کااظہارانتہائی تہتک وتصرف ہےسب کوپتہ ہےکہ امام بخاری جس راوی سےحجت لیں،یعنی اس راوی کی روایت کواصولاواحتجاجانہ کہ تبعاواستشہاداذکرکریں وہ راوی بالکل ثقہ ہوتاہےاورسعیدبن ابی ہلال بھی ایسےراویوں میں سےہے۔

لہٰذاعلامہ صاحب کایہ قول ساقط ہے۔حافظ ابن حجررحمۃاللہ علیہ ہدی الساری مقدمہ فتح الباری مع تحقیق ابن بازرحمۃاللہ علیہ ص٤۰٦میں تحریرفرماتےہیں:

((سعيدبن أبى هلال الليثى ابوالعلاءالمصري اصله من المدينةوتشابهاثم سكن مصروثقه ابن سعدوالعقيلى وابوحاتم وابن خزيمةوالدارقطنى وآخرون وشذالبانى فذكره فى الضعفاءونقل عن احمدبن حنبل أنه قال ماادرى أى شيى حديثه يخلط فى الأحاديث وكيع ابومحمدبن حزم البانى وضعف سعيدبن أبى هلال مطلقاولم يصب فى ذالك والله أعلم إحتج له’الجماعة۔))

اس اقتباس میں دیکھومعلوم ہوگا کہ ابوحاتم جیسے متشددنے بھی اس کی توثیق بیان کی ہے ۔حافظ ابن حجررحمہ اللہ علیہ التہذیب میں فرماتے ہیں کہ‘‘صدوق لم أرلابن حزم فى تضعيفه سلفا الاان الساجى مكى عن احمد أنه اختلط.’’ تهذيب التهذيب’ جلد٤،صفحه٨٣.

لیکن ساجی کے نقل وحکایت میں نظرہے ،کیونکہ ساجی نے اس نقل کے ناقل اورحکایت کے حاکی کا نام نہیں لیاہے۔لہذا یہ معلوم نہیں ہے کہ امام احمد سے یہ کس نے سنا ہے۔لہذاایسی غیر معتمدجرح کا کیا اعتبارہوسکتا ہے جب کہ اس کو ماہرفن مئوثق قراردےچکے ہیں۔

خصوصا اس صورت میں کہ امام محدثین بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے احتجاج کیا ہے ۔لہذا یہ راوی(جاوزالقنطره)کےمصداق ہے۔

علاوہ ازیں علامہ صاحب کی ترمذی کی تحسین پر اعتراض بھی منظورکیا ہے اس لیے کہ خزیمہ کے متعلق حافظ ذہبی اورحافظ ابن حجررحمہ اللہ علیہ نے(لایعرف)لکھا ہےلہذا یہ مجہول الحال  ہوانہ کہ مجہول ہے اس صورت میں جوروایت حضرت صفیہ رضی اللہ عنہاسےہے جس کی سند میں ہاشم بن سعید ہے اس سے قوت حاصل کرکے حسن لغیرہ تک پہنچاجاسکتا ہے ۔کیونکہ ہاشم کے متعلق حافظ صاحب نے (ضعیف )لکھا ہے یہ لفظ جرح شدیدمیں سے نہیں ہے ۔لہذایہ اس روایت میں تقویت کا باعث بن سکتا ہے ،لہذا ترمذی اگرچہ متساہلین میں لکھے جاتے ہیں لیکن یہاں پر ان کی تحسین ہے حسن لغیرہ حدیث کو اگرچہ کچھ محدثین مطلق حجت سمجھتے ہیں۔(بشرط ہے کہ  وہ بھی صحیح یا حسن لذاتہ کی مخالف نہ ہو)لیکن مجھے ان محدثین کی بات ٹھیک نظرآتی ہےجوکہتے ہیں کہ یہ حسن لغیرہ عقائد یااحکام مثلا حلال وحرام فرائض وواجبات کے باب سے نہ ہوتووہ بیشک (صحیح سےمخالف نہ ہونے کی صورت میں )معتبرہے۔

(كماذكره’الحافظ فى الكنت)

اوریہ حدیث جوحصی وغیرہ سے گننے کے بارے میں ہے وہ بھی فرائض وواجبات یاحلال وحرام یاعقائد کے باب سے نہیں ہے بلکہ یہ محض کسی ثابت شدہ بات کے حصول کا وسیلہ  وذریعہ ہے ایسی باتوں کے اثبات کے لیے حسن لغیرہ بالکل کافی ہے ورنہ دوسری صورت میں حسن لغیرہ روایت کو اصول حدیث سےبالکل خارج کردیناچاہئے۔بہرحال یہ حدیث حسن لغیرہ ہے لہذا امام ترمذی کی تحسین محل نہیں بلکہ علامہ صاحب کا مئواخذہ بھی محل نظر ہے۔

حضرت صفیہ رضی اللہ عنہاکی روایت نقل کرتے ہوئے اس  پرکلام  کرتے ہوئے علامہ صاحب  نے ایک توہاشم بن سعید پر کلام کیا ہے جس کے متعلق پہلے عرض کرچکے ہیں دوسراراوی کنانہ ہے جس کے متعلق فرماتے ہیں کہ‘‘مجهول الحال يوثق غيرابن حبان’’حالانکہ اس طرح نہیں ہے بلکہ نیچے خودعلامہ صاحب نوٹ میں لکھتے ہیں کہ حافظ ذہبی اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ (وثق)باقی اس کوتضعیف کی طرف اشارہ کہنا یہ علامہ صاحب کا بےجاتشددہےاورحافظ ابن حجررحمہ اللہ علیہ کے متعلق بھی علامہ صاحب کا لکھنا کہ اس کی تقریب میں اس کے(لین الحدیث )ہونے کااشارہ کیا گیا ہےیہ قطعاصحیح نہیں ہے۔حافظ صاحب نے ان کےمتعلق مطلقا(لین الحدیث )نہیں لکھا ہےتقریب موجود ہےملاحظہ کریں۔

((كنانه مولى صفيه مقبول ضعفه الأزدى بلاحجة.)) تقريب التهذيب:صفحہ٤٣١طبع نشرالسنة لاهور.

اس سے ظاہرہواکہ اس راوی کی صرف ازدی نے بلاحجت تضعیف کی ہےورنہ واقعتا وہ مقبول ہے اورلفاظ مقبول کے متعلق حافظ صاحب نے مقدمہ میں وضاحت کی ہے کہ ایساراوی جس کے متعلق مقبول کہوں اوراس کی کہیں پرمطابقت نہ ہوتووہ لین الحدیث ہے۔لیکن یہاں پر تواس کی پہلی روایت کے ساتھ مطابقت بھی ہےلہذاوہ صحیح معنی میں مقبول ہے نہ کہ لین الحدیث۔

بہرحال علامہ صاحب کا ان کے متعلق یہ کہنا کہ حافظ صاحب نے اس کے لین الحدیث ہونے پر اشارہ کیا ہے وہ اس وقت صحیح ہوتا جب اس کی مطابعت نہ ہوتی لیکن جب مطابعت موجود ہے تو وہ مقبول ہے اور حافظ ذہبی نے بھی اس کے متعلق (وثقہ9کہا ہے،اس لیے صرف ابن حبان کی توثیق  نہیں رہی بلکہ حافظ ذہبی نے بھی اس کی تائید کی ہے ،لہذا وہ مجہول الحال نہیں رہا۔

(٢)۔۔۔۔حضرت جویریہ رضی اللہ عنہ کی صحیح روایت کے لکھنے کےبعد علامہ صاحب فرماتے ہیں کہ:

((قول هذاالحديث الصحيح على أمرين الاول أن صاحبة القصة هى جويرية لاصفية‘كمافى الحديث الثانى))

یہ بھی نہایت ہی عجیب بات ہے کیوں کہ اس کی سند دوسری اوراس کی سند دوسری یہ روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ سےہےاوروہ کنانہ عن صفیۃ ہے اوردونوں کو ایک بناکریہ کہنا کہ صاحب القصۃ جویریہ رضی اللہ عنہ ہے نہ کہ صفیۃ یہ توسینہ زوری ہوئی۔یہ بات محدثین کرام اس وقت قبول

کریں گےجب مخرج ایک ہویہاں مخرج ایک نہیں ہے۔لہذادونوں کو ایک بناکرپھر صحیح روایت کی سند لے کریہ کہنا کہ صاحبۃ القصہ جویریہ ہیں نہ کہ صفیہ یہ توایک نئے اصول کی ایجادہوئی جس کا مسلم اصول الحدیث میں کوئی پتہ نہیں ہے ۔پھر فرماتے ہیں کہ: ((الثانى أنه ذكرالحصى فى القصة منكر.))

مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ آخرکیوں علامہ صاحب جیسا محقق اتنی بڑی تکلیف وتعسیف بلکہ تعصب کا ارتکاب کررہے ہیں جب کہ دونوں حدیثیں ایک بھی نہیں ہیں دونوں کے مخرج الگ الگ ہیں توپھر اگر ایک حدیث میں کسی بات کا ذکر نہیں ہے  توپھر اس سے یہ کس طرح لازم آتا ہے کہ جس بات یا امر کا ذکر دوسری حدیث میں ہے وہ بھی ذکر ہے ؟

علاوہ ازیں حصی کے ذکر کے لیے صرف حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی ہی روایت نہیں ہے بلکہ دوسری روایت حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ والی بھی ہے جوامام ترمذی کے طرق سے حسن لغیرہ اورحاکم کی روایت سے صحیح ہے جس کا بیان اوپر گزرچکا ہے ۔بہرحال ان دونوں حدیثوں میں سے(جن میں سے ایک صحیح ہے)میں حصی کا موجو دہونا معلوم ہوالہذا اگردوسری روایت میں جودوسری صحابیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اس میں اس کا ذکر نہیں ہے تواس کاان حدیثوں پر کیسے اثر ہوگا؟

(٥):۔۔۔۔آگے علامہ فرماتے ہیں کہ:

((ولوكان ذالك ممااقره النبى صلى الله عليه وسلم.))

خفی علی ابن مسعودان شاءاللہ یہ بھی عجیب العجب ہے ۔افسوس!علامہ صاحب کے ذہن سے وہ ساری حقیقتیں غائب ہوچکی ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی جلالت قدرکےباوجود کتنی ہی باتیں مخفی رہیں اوران سے نسیان ہوگیا۔دیکھئے رکوع میں تطبیق وغیرہ یہ حدیث صحاح وغیرہ میں موجود ہے۔جب ا بن مسعود رضی اللہ عنہ سے رکوع کی ہیئت جیسامسئلہ مخفی رہ سکتا ہے ۔حالانکہ رکوع کا تعلق نماز سے ہے جو کم ازکم پانچ دفعہ تودن ورات میں ہر مسلمان اداکرتا ہے ۔کیا ا بن مسعود رضی اللہ عنہ ہمیشہ باجماعت نماز ادانہیں کرتے تھے،اس کا جواب ایک ہی ہوسکتا ہے ۔یعنی یقینا بنیﷺکے ساتھ باجماعت ہی نماز پڑھتے ہوں گے توپھر جب پانچ وقت کی نماز باجماعت اداکرنے کے باوجودان سے رکوع کی ہیئت مخفی رہی حتی کہ نبیﷺکی وفات حسرت آیات کے بعد بھی وہ اس تطبیق پر عامل رہا۔توکیا ان سےوہ معاملہ جوصحابیات رضی اللہ عنہا یا کسی محرمات مطہرات سےپیش آیا ہواوروہ اس وقت (برعکس نمازکے)وہاں حاظر بھی نہ ہوکیایہ معاملہ نماز سے بھی اہم  ہے جوان سے مخفی ان شاءاللہ نہ رہتا ،يالعجب وضية الادب۔

(٦):۔۔۔۔اسی سلسلہ میں علامہ صاحب آخر میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ اذکاروغیرہ کااندازہ مقررکرنابھی بدعات میں سے ہے حالانکہ حضرت سعدبن ابی وقاص کی صحیح روایت سے معلوم ہوتا ہے یہ صحابیہ رضی اللہ عنہاکنکریوں وغیرہ پرکچھ اذکارپڑھ رہی تھی ظاہرہے کہ یہ خودایک اندازہ مقررکیاہوگا،پھرکیا آپ نے ان پراذکار نہیں کیااوران پرپڑھنے سے منع کیوں نہیں فرمایا۔

علاوہ ازیں بالکل صحیح روایت میں وارد ہے صحابی رسول جس نے ڈسے ہوئے آدمی پرسورت فاتحہ کا دم کیا تھآپﷺکے پوچھنے پربتایاکہ میں نے سات بارسورت فاتحہ پڑھ کردم کیا جس پرآپﷺنے فرمایاکہ آپ کس نے کہا کہ سورت فاتحہ رقیہ ہے تواس نے کہا کہ (شى القى فى روحى)جس پر آپﷺنے کوئی انکارنہیں کیا۔

اس سے دوباتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ اگرانسان کے دل میں یہ بات آجائے کہ کس طرح فلاں سورت میرے دردمرض کے لیے مفید ثابت ہوسکتی ہے توبلاشبہ پڑھ سکتا ہے اوردل میں آیا ہوااندازہ بھی قبول کرسکتا ہے کیونکہ آپ نے جس طرح فاتحہ کو رقیہ سمجھ کردم کرنےوالے صحابی رضی اللہ عنہ کے فعل کو بحال رکھا اسی طرح ان کے درست اندازے کو بھی برقراررکھا اورآپﷺکا سکوت(غیرنفی)بھی حجت شرعیہ ہے بہرکیف اس طرح کے  دوسرے ثبوت تتبع کرنے سے مل جائیں گے جن سے معلوم ہوگا کہ اپنی آسانی یا مصروفیت یاکسی بھی سبب اندازاکیا ہوا وردیا ذکریا کسی قرآنی سورت کا اندازہ قدرکرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے ۔لہذااس کوبدعت کہنامیرے خیال میں صحیح نہیں ہے۔

(٧):۔۔۔۔علامہ صاحب فرماتے ہیں کہ اس طرح (یعنی تسبیح کومستعمل کرنے سے)انگلیوں پر گننے والی سنت متروک ہوجاتی ہےحالانکہ اس طرح قطعانہیں ہےہم سارے ہروقت،ہرنمازکے بعد دوسرے اوقات میں انگلیوں پر  بھی پڑھتے ہیں اوراس کے ساتھ تسبیح کوبھی استعما ل کرتے ہیں ۔باقی علامہ صاحب فرماتے ہیں کہ اندازہ ایک سوتک ثابت ہےزیادہ نہیں اس لیےوہ انگلیوں پرآسانی سےپڑھاجاسکتا ہے۔اس لیے ایک سوکے اندازےتک محدودہونے کے ثبوت کا قائل ہونا بھی اگرچہ ایک سوکے اندازہ پر بولاجاتا ہے تویہ ایک ہاتھ سے قطعا ادانہیں ہوسکتی بلکہ دوسرے ہاتھ کی انگلیوں سےمددلینی پڑے گی۔

حالانکہ علامہ صاحب  اسی مضمون میں ایک صحیح حدیث بھی ابوداودسےذکرکی ہے جو کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سےمروی ہے جس میں ہے کہ

((رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم بعض التسبيح بيمينه.))  سنن ابى داود’كتاب الوتر،باب التسبيح بالحصى،رقم الحديث:٢ ١٥٠.

پھراگر دوسرے ہاتھ سے مددلی جائے گی توعلامہ صاحب کے طریقہ کے مطابق دائیں ہاتھ والی سنت متروک ہوجائے گی یا اگرصرف دائیں ہاتھ پراکتفاکیاجاتا ہے توایک سوپڑھی نہیں جاسکے گی اس سوکوکس طرح پوراکریں ۔رہی یہ بات کہ علامہ صاحب فرماتے ہیں  کہ تسبیح کے عادی لوگ ساتھ باتیں بھی کرتے رہتے ہیں تویہ  جس کی عادت ہے ہی جانے  اس کا کام جانے پوری دنیا کو ایک ہی (لاٹھی)عصا سےمت ہانکوایسے بےخیالےلوگ توانگلیوں کو ہلاتے ہوئے بھی باتیں کرتے رہتے ہیں توکیا ایسے لوگوں کو دیکھ کرانگلیوں پرتسبیح پڑھنا بھی چھوڑدیں۔

احادیث میں  درودشریف کو کثرت کے  ساتھ پڑھنے کی بہت زیادہ فضیلت واردہے پھراگرکائی آدمی دن یارات میں کوئی وقت مقررکرتا ہےمثلا ایک ہزاریا سے زائدہ جتنی میسروقت کی تقاضا ہے یا وہ اپنی آسانی خاطراندازہ مقررکرتا ہے اورروزانہ مقررہ صلوۃ وسلام

پڑھتاہےتوآخر وہ تسبیح کے بغیرکس طرح اندازہ مقررکرسکتا ہے۔

بہرحال تسبیح کو بدعت قراردینادلائل کے مطابق صحیح نہیں ہےہاں اگرکوئی اس کو فرض واجب یا سنت سمجھ کرکام کرتا ہے تویقیناوہ مذموم کام کرتا ہے لیکن اگرکوئی صرف گننے کے لیےکام میں لاتا ہے تواس میں کون سی قباحت ہے۔آگے اس سلسلہ میں وسائل وذرائع کی بدعت اورمباح ہونے کی بحث شروع کررہاہوں۔

یہاں پر ایک اصولی بحث کو چھیڑنانہایت ہی موزوں ومناسب ہوگا کہ آیا وسائل وذرائع اگرکسی ثابت شدشرعی امرکےلیے اختیارکئے جائیں توکیا ان کے یہ بھی ضروری ہےکہ وہ بھی قرآن وحدیث میں نص واردہوں۔یا ان وسائل کا قرآن وحدیث میں نص ہوناضروری نہیں ہے ؟البتہ یہ ضروری ہے کہ اس وسیلہ یا ذریعہ کے بارے میں کتاب وسنت میں منع وارد ہو۔میرے خیال میں دوسراقول ہی صحیح ہے۔

یعنی شرعی امورکےاختیارکے لیے وسائل کا ثبوت کتاب وسنت میں نص واردہونا ضروری نہیں ہے ۔ذیل میں چند مثالیں رکھتا ہوں جوتمام امت محمدیہ میں رائج ہیں۔حالانکہ ان کاثبوت بطورکتاب وسنت میں نہیں ہے ،مقلد ،غیر مقلد،اصحاب الحدیث ،اصحاب الرائےنے ان کے متبادل وسائل عمل میں لائے ہیں مگرکوئی بھی ان کو بدعت قرارنہیں دیتا۔مگرسبب صرف یہ ہے کہ یہ وسائل ہیں وذرائع زمانہ کے موافق تبدیل ہوتے  رہتے ہیں۔

(1):......کتاب وسنت کی تعلیم کا ثبوت ملتا ہے مگرموجودہ ہیئت میں مدارس کے قیام کاثبوت نہیں مل سکتا ۔حالانکہ مدارس کی جو حیثیت ہے وہ ہرکسی کو معلوم ہے یہی وجہ ہے مسلمان ان اداروں کو (فی سبیل اللہ)کی مدمیں شامل سمجھ کر،خیرات ،صدقات،زکوۃ وغیرہ کے ساتھ مددکرتے رہتے ہیں پھرکیوں نہ ان کو بدعت قراردیاجائے؟یاتوان کا خصوصی ثبوت کتاب وسنت سے پیش کیاجاتاتوان کو کتاب وسنت تک پہنچنے کے ذرائع میں شامل کیا جائے کیوں کہ کتاب وسنت تک پہنچناتمام مسلمانوں پر لازم ہے کیوں کہ یہی ادارے دینی سرچشمہ تک پہنچنےکے ذرائع ہیں لہذا ان کوصحیح کہا جائے گانہ بدعت اگرچہ موجودہ ہیئت خیرالقرون تک زمانے  میں ان کاوجود ہی نہیں تھا۔

(٢):......اصول حدیث ومتعلقاتہافن الرجال العلل والتاریخ وغیرہاتماما اصولوں کےثبوت (یعنی جوحدیث شریف کی صحت وسقم صحیح وضعیف موضوع وغیرہاکے متعلق وضع کئے گئےہیں وہ سارےبعدمیں محدثین کرام نے وضع کیے ہیں)قرآن وحدیث میں نہیں ہیں لیکن پوری امت ان اصولوں کو صحیح مانتی ہے اورحدیث کے متعلق ان کو تصورکرتی ہے پھرکیوں نہیں ان کو بدعت قراردیا جاتا۔خودعلامہ البانی صاحب ان اصولوں سے جابجاکالیتے رہتے ہیں۔

حالانکہ اول توان پر لازم ہے کہ اپنے طریقہ کے مطابق ان کا ثبوت قرآن وسنت سے پیش کریں پھر ان کا استعمال کریں مگرہمارے ہاں تووہ بدعات ہرگزنہیں ہیں بلکہ

اللہ تعالی کے ہاں قرب کے ذرائع ہیں کیونکہ ان ہی کی وجہ سے ہم جناب رسول اللہﷺکی احادیث مبارکہ اوران کی اسوہ حسنہ تک علی وجہ البصیرہ پہنچ سکتے ہیں اوران ہی کی وجہ سے آپﷺپرجھوٹ اورافتراءسےمحفوظ رہ سکتے ہیں۔دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجاتاہے۔وضاعین اورمبتدعین کا مکرووفریب پاش پاش ہوجاتا ہے،بہرحال چونکہ ذرائع دین خالص تک پہنچنے کے وسائل ہیں لہذا ہمارے ہاں وہ دین ہیں نہ کہ بدعت کیونکہ دین تک پہنچانے والاذریعہ بھی دین ہے اگرچہ مخصوص علیہ نہ ہو۔

(٣):......علم النحووالصرف وغيرهامن العلوم:

یہ علوم بھی مدارس میں پرھائے جاتے ہیں حالانکہ یہ علوم بھی محدث (نئے)ہیں۔

کتاب وسنت میں کہاں ہے کہ کتاب وسنت کے حصول کے لیے نحووصرف پڑھو؟پھران کودینی مدارس میں کیوں پڑھایاجاتا ہے ؟جب کہ ان ہی اداروں پرباقی صدقات وخیرات توچھوڑوزکوۃ بھی صرف کی جاتی ہے ۔کیا یہ جائز ہوگا کہ ایک بدعت پر زکوۃ کا پیسہ خرچ کیاجائے ۔اگرکہا جائے کہ یہ علوم بھی کتاب وسنت کو سمجھنے کے ذرائع ہیں جن کے بغیر ان کو نہیں سمجھ سکتے توپھرذرائع کے مخصوص ہونے کا قول بالکل فضول ہے۔کیااللہ تعالی یااس کےرسولﷺکوپتہ نہیں تھاکہ عرب کے علاوہ عجمی لوگ بھی اسلام پرآئیں گے جن کی عربی زبان نہ ہونے کی وجہ سےاسلام کے سرچشمہ تک پہنچنے کے لیے بہرحال کچھ ذرائع کی ٖضرورت پڑے گی۔پھرکیوں نہیں اللہ تعالی نے اس کے پیغمبرﷺنے ان کی طرف رہنمائی فرمائی۔

حالانکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:﴿وَمَا كَانَ رَ‌بُّكَ نَسِيًّا﴾ان حضرات کے خیال کےمطابق لازمی تھاکہ اس کی طرف کوئی اشارہ کردیا جاتالیکن حقیقت یہ ہے کہ ان علموں کی طرف تصریح توکیا اشارہ بھی نہیں ہے۔لیکن ہمارے لیے کوئی مشکلات نہیں ہےکیونکہ ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کو پتہ تھا کہ انسان کو یہ ضروریات پیش آئیں گی اوریہ بھی پتہ تھا کہ وہ وسائل وذرائع زمانہ کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ بدلتے رہیں گے اوراللہ تعالی نے انسان میں ایسا مادہ یاایسی قدرت رکھی ہے کہ وہ بوقت ضرورت کسی چیز کے حصول کے لیے وسائل بھی تلاش کرلیتا ہے جس طرح کہا جاتا ہے ۔ضرورت ایجادکی ماں ہے،لہذا ایسازمانہ ہی نہیں آیاہے کہ انسان کو کوئی ضرورت پیش ہوئی ہووہ اس کے حصول کے لیے وسائل ڈھونڈنے میں ناکام رہا ہو۔لہذا اللہ تعالی نے ہمیں کتاب وسنت کے ساتھ چمٹ جانے کا حکم فرمایاہے۔باقی ان تک پہنچنے کے وسائل کے بارے میں بھی علم تھا کہ جب ان کو ضرورت پڑے گی توانسان خود ان وسائل کو تلاش کرے گااوروقت کے موافق اس کی تقاضاکوپوراکرسکے گا۔لہذا ان وسائل کے لیے نص کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی یہ چیز انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ ضروری وسائل کوخودبخودحاصل کرلیتا ہے۔

اورمیری سمجھ کے مطابق یہ حقائق بھی۔﴿وَعَلَّمَ ءَادَمَ ٱلْأَسْمَآءَ كُلَّهَا﴾اور﴿إِنِّىٓ أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾میں دداخل ہیں۔یعنی اللہ تعالی نے انسان کو ازل سے ہی یہ علم دےدیاتھا کہ جب بھی اس کو کوئی ضرورت پیش آئے تواس کےحصول کے لیے کس طرح راستہ ڈھونڈے‘‘فتدبرواوتفكروا’’کچھ حضرات یہ کہتے ہیں کہ علم النحو حضرت علی رضی اللہ عنہ سےمنقول ہے لہذابموجب فرمان:

((عليكم بسنتى وسنة الخلفاء الراشدين المهديين.))

یہ علم بھی بدعت نہیں ہوا۔اول تواس کاثبوت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے صریحا ملنابہت مشکل ہےاگرچہ نحوکی کتابوں میں اس علم کی تاریخ کرتے ہویہ اقوال نقل کئے جاتے ہیں مگران کی سند کاملنانہایت مشکل ہے۔لیکن اس کے باوجودبھی حضرات یہ بات کہتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ وہ سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کی جمعہ کے دن کی پہلی اذان کوبدعت کہتے ہیں کیا سیدناعثمان رضی اللہ عنہ خلفائے راشدین میں سے نہیں تھے؟

اوراس سے بڑھ کریہ بات کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ فعل تمام کتب احادیث میں باسندموجودہےاورخودصحیح بخاری میں اس روایت کےآخرمیں‘‘وثبت الامرعلي ذالك.’’كے الفاظ موجود ہیں سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کا یہ فعل پورے عالم اسلام میں متفقہ طورپرثابت رہااورسبھی اس پر عامل بھی رہے ،جیسا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اورحضرت معاویہ رضی اللہ عنہ میں سے بھی کسی نے اس کام کو نہ بندکیا اورنہ ہی اس کو تبدیل کیا تودیکھیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کاکتنااتفاق ہے خلفائے راشدین میں سے ایک جلیل القدرصحابی ذوالنورین ذوالحرمین عشرہ مبشرہ میں سے ایک اگرکوئی کام کرتا ہےتوصحابہ اورعالم اسلام اس پر متفق ہےلیکن آج کل  یہ مفتی اس پر فتوی جاری کرتے ہیں کہ یہ کام بدعت ہے۔

پھرعلم النحوکواگرتسلیم کیا جائے گاکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے تووہ کس طرح بدعت سےبچ سکتا ہے کیادونوں میں تمہیں کوئی تفاوت نظرنہیں آتاایسے لوگوں کو سمجھانامشکل بلکہ محال ہے۔کچھ حضرات یہ طریقہ اختیارکرتے ہیں کہ علم  النحو وغیرہ جیسے علوم صرف عربی زبان سیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں،لہذا ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے یہ(في امرنا)میں داخل نہیں ہیں لہذا بدعت نہیں کہلائیں گے ۔ان لوگوں کے لیے یہ مثال ہے کہ اگراس طرح ہے توپھران کومدارس میں کیوں پڑھایاجاتا ہے؟محض کسی زبان کے سیکھنے کےلیے اس کی ضرورت تھی توپھراسکولزاورکالجزمیں اس کو پڑھایاجاتا جس طرح پاکستان یا دوسرے یورپی ممالک میں کچھ عربی پڑھائی جاتیں ہیں۔ظاہرہے کہ وہ اس کو مذہبی زبان سمجھ کرنہیں پرھاتے بلکہ وہ اس زبان کو سیکھنے اورسمجھنے کے طورپرپڑھاتے ہیں کہ یہ ایک عالمگیرزبان ہےدنیاوالوں کے کتنے ہی کام اس سے وابستہ ہیں۔لہذا وہ محض دنیاوی امورکی خاطراس زبان کی تعلیم دیتے ہیں۔لہذا ہم پاکستانیوں کو دینی مدارس میں اس زبان کی کیا ضرورت ہے۔حالانکہ محض دنیاوی نقطہ نظرسے ہمارے لیے عربی سے زیادہ انگریری زبان سیکھنے کی ضرورت ہے جو دفتری زبان ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت کا پوراکاروباراسی زبان میں ہے۔پھرکیوں ہم اس طرح آٹھ سال مدارس میں ایسے علوم کے حصول  کے لیے فضول ضائع کریں جب کہ ہماری دنیاوی ضرورتیں اس سے وابستہ بھی نہیں ہیں،حالانکہ ہم سب ان علوم کو حاصل کرنے میں ثواب سمجھتے ہیں اللہ اوراس کے رسولﷺکے تقرب کاذریعہ اوران کی خوشنودی تصورکرتے ہیں کیونکہ یہ علوم ہمیں کتاب وسنت تک پہنچاتے ہیں۔

یہی سبب ہےکہ پوری امت ان مدارس پر صدقات وخیرات کی بارش برساتی رہتی ہےاگران امدادکرنے والوں کو یہ بتایاجائےکہ یہاں پر جوکچھ ہم پڑھاتے ہیں وہ محض زبان دانی کے لیے ہے دین سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے توپھر کوئی ایک دانہ دینے

کے لیے بھی تیارنہیں ہوگا۔کیونکہ اس صورت میں ان کو اپنی امدادسےثواب کی کوئی امیدباقی نہیں رہتی باقی فضول پیسہ کا زیاں کوئی دیوانہ ہی کرسکتا ہے ۔صاحب عقل اورحواس قائم رکھنے والاکبھی بھی یہ کام نہیں کرے گا بلکہ کہے گاکہ اس سے توبہتر ہے اسکول وکالج میں دوں تاکہ کم ازکم میری مشہوری توہویاحکومت سےکوئی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے کیا یہ سچ نہیں ہے؟

بہرحال یہ علوم اس دین ہی کی خاطر پڑھائےجاتے ہیں اوردین ہی کی خاطر ان کوضروری سمجھاجاتا ہےاوراسی لیے ہم مدارس کو قائم رکھنے کے لیے اپنی طاقت کے مطابق کوئی کسرنہیں چھوڑتے بہرحال مختصرکلام یہ کہ علوم ان لوگوں کے ہاں ضرورت کی بناپریاوسائل کی بناپربدعت نہیں ہیں بلکہ ضروری ہیں۔

(٤):......لاوڈاسپیکرکواس وقت مقلدخواہ غیرمقلدسارے اپنی مساجدمیں اذان ونمازاوراجتماعات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔حالانکہ اسی آلہ کی بناپرآپﷺکے زمانے کی ایک سنت متروک ہوچکی ہے کیونکہ آپﷺکے زمانے میں موذن اوپرچڑھ کراذان دیتاتھایہی سبب ہے کہ صحیح حدیث میں ابن ام مکتوم اوربلال رضی اللہ عنہما کی اذان کے متعلق اس طرح ہے کہ:

((وماكان بين اذان كل منهم الاان يرقى هذأوينزل هذا.))(اوکماقال مسند احمد)

یہ الفاظ اس بات پردلالت کرتے ہیں کہ اذان اوپرچڑھ کردی جاتی تھی،اس لیے عالم اسلام میں اذان کے لیے (اونچی جگہ)بنائی جاتی تھی مگرآج کل چندجگہوں کے علاوہ ہرمسجدمیں اسپیکرکےسامنےاذان دی جاتی ہے۔لیکن اس پر توعلامہ صاحب بھی اعتراض نہیں اٹھاتاکہ اس کام کی وجہ سے مبارک زمانہ کی سنت متروک ہوگئی ہے۔لہذا یہ بدعت ہے تسبیح کےلیے توفرماتے ہیں کہ اس کی وجہ سے سیدھے ہاتھ پر پڑھنے والی سنت متروک ہوجائے گی لیکن حقیقت قطعاایسے نہیں ہے۔بلکہ تسبیح پرپڑھنے والے بھی کافی ذکراذکارہاتھوں کی انگلیوں پربھی پڑھتے ہیں لیکن زیادہ وظائف پڑھتے وقت تسبیح کو استعمال کیا جاتا ہے ۔لہذا یہ سنت بالکلیہ متروک نہیں ہوئی۔

لیکن آلہ مکبرالصوت نے تواس مشہورسنت کا بالکل خاتمہ کردیا ہے،پھراس کے خلاف کیوں آوازنہیں اٹھائی جاتی۔اسی طرح تبلیغی اجتماعات کوبھی دینی حیثیت حاصل ہے اس میں آلہ مکبرالصوت کواستعمال میں نہیں لانا چاہئے۔نبی کریمﷺکے ساتھ حجۃ الوداع کےموقع پراتنے صحابہ تھے کہ حضرت جابررضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق ذوالحلیفہ میں جب آپ نے دیکھا تولوگ ہی لوگ نظرآئے لوگوں کے اتنے جم غفیرکوآپ نے وعظ ونصیحت بھی کیااوراس کے سننے کا کوئی نہ کوئی انتظام ضرورکیا ہوگااورظاہرہے اس وقت آپﷺکےاتنے صحابہ ہوں گے کہ جتنے ہمارے آج کل کےاجتماعات میں قطعا نہیں ہوتے ہوں گے۔

مگرآپﷺ نے آلہ مکبرالصوت استعمال نہیں کیا ۔پھرکیا ہم بھی ایسے موقع پروہ طریقہ اختیارکریں۔۔خواہ مخواہ لاوڈاسپیکرکی بدعت کو اختیارکررہے ہیں۔

کیاتبلیغی اجتماعات دنیاوی امورہیں؟اگرہیں توان میں کون ایسا ہےجویہ کہے کہ اس سے آپﷺکی وہ سنت متروک ہوگئی۔ہم یہ منطق سمجھنے سے قاصر ہیں۔

(٥):......نماز اوراذان کے ٹائم کے لیے چھوٹی بڑی گھڑیاں استعمال کی جاتی ہیں،پھران گھڑیوں کے ٹائم پر ہی نمازوں وغیرہ کے اوقات تبدیل کئے جاتے ہیں۔حالانکہ آﷺکےزمانہ میں تودوسایوں اورطلوع آفتاب وغروب آفتاب اورغروب شفق سے کام لیاجاتاتھاپھرسوچیں کےان مصنوعی چیزوں نےآپﷺسنت پرجگہ نہیں لےلی ہے؟اہلحدیث وغیراہلحدیث سارے کےسارے گھڑیوں کودیکھتے ہیں اوراذانیں دیتےہیں اورسایہ وغیرہ کا کوئی خیال نہیں کیاجاتامگراس پرکوئی اعتراض نہیں کرتاکہ آپﷺکی سنت متروک ہوگئی ہے۔

لہذاان کوبھی بدعت کہاجائےلیکن کیاکریں یہ چیزیں ان کے خیالات اوردل سےمناسبت رکھتی ہیں،اس لیے بدعت نہیں باقی جوچیزان کے خیالات کے موافق نہیں ہوگی وہ ایک دم بدعت کی بدگوئی کاشکارہوجائے گی کچھ دوست کہتے ہیں کہ یہ لاوڈاسپیکراورگھڑیاں وغیرہ دنیاوی امورسےتعلق رکتھی ہیں۔جناب عالی!ان چیزوں کوبیشک آپ رکھیں ان سےمددلیں بےدھڑک ان کواپنی استعمال میں لائیں مگردنیاوی امورمیں۔لیکن دینی امورمیں اوردینی کاموں میں ان کو استعمال میں کیوں لاتے ہو۔خصوصا اس صورت میں جب وہ سنت کے متبادل کے طورپراستعمال ہورہی ہیں اوروہ سنتیں ان کی وجہ سےمتروک ہورہی ہیں۔لہذآپ کے اصول اورطریقہ کے مطابق یہ بدعت ہیں لیکن تمہارے پاس سوائے تکلف وتعصب علمی یا سینہ زوری کے اورکوئی جواب نہیں ہے۔ورنہ اگرتسبیح کے ساتھ کوئی آدمی دنیاوی باتیں مثلا رقوم وغیرہ کی گنتی کرتا توآپ بھی اس کو بدعت نہ  کہتے اورآپ اس کو بدعت اس لیےکہتے ہیں کہ ہم اس کے ذریعے ذکرواذکارکرتے ہیں جن کادین سے تعلق ہے آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ اسکولوں اوراسٹیشنری کی دکانوں پر بچوں کے پہاڑے یادکرانے کے لیے(سلیٹین)ہوتی ہیں جن میں لوہے کی میخوں کے اندرمنکے پروئے ہوتے ہیں جن پر بچوں کوپہاڑے یادکرائے جاتے ہیں کیا یہ بھی بدعت ہے!ہرگزنہیں یعنی مقصد یہ ہواکہ تسبیح کےمنکوکوکوئی اگراس طرح اوستعمال میں لائے تویہ بدعت نہیں ہوگی۔

بلکہ بدعت قراردینے والوں کے ہاں بدعت تب ہوگی جب اس سےوظائف واذکارشمارکیےجائیں۔لہذا اگران کے اصول کے مطابق لاوڈاسپیکروغیرہ کو اگردینی کاموں میں لایاجائے تویہ بدعت ہوں گے اوران کو لامحالہ بدعت کہا جائے گا۔بہرحال اس قسم کی کئی اوربھی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جن سے معلوم ہوگا کہ سنت کی جگہ متبادل چیزیں لائی گئی ہیں مگراس وقت یہ حضرات خاموش رہیں گے ہم تواس بات کوکوئی خاص وزن اس لیے نہیں دیتے کہ یہ وسائل کے باب سے ہیں ۔اوروسائل کے باب میں شریعت نے کوئی تنگی نہیں رکھی ہے۔

کیونکہ یہ زمانے کےانقلابات اورتبدیلیوں کی وجہ سے بدلتے رہتے ہیں۔ہاں ان وسائل میں سے کسی وسیلے کے متعلق منع ونہی مخصوص ہے توپھرتوقصہ ہی ختم!ورنہ وسائل میں تنگی کرنا صحیح نہیں ہےمگرجولوگ وسائل کے متعلق بھی اتنے تنگ ظرف ہیں کہ ان کے متعلق بھی نص صریح کے مطالبہ کے لیے مقید ہیں ان کے ہاں یہ اموراوراس طرح کے دوسرےوسائل وذرائع زبردست باعث اعتراض ہیں اوران کے ہاں اس کا کوئی جواب بھی نہیں ہے۔ہم تسبیح کو کوئی فرض یا واجب یا سنت یالازم نہیں  کہتے ۔ہاں اس کو گننے کاایک ذریعہ یاوسیلہ شمارکرتے ہیں۔

لہذااس وجہ سے یہ ذرائع مباحات کے اصول کے ماتحت ہیں؟چونکہ اذکارگننےکےذرائع ہیں لہذاان کو مباح بھی کہا جائے توکیوں نہیں!اوراس کے ساتھ سنت بھی متروک نہیں ہے ۔لہذا اس کو بدعت کہناتعصب کا مظاہرہ ہے ۔باقی علمی دلائل تویہ حضرات آج تک قائم نہیں کرسکےہیں۔

علامہ صاحب اپنی کتاب میں‘‘كتاب البدع والنهي عنها’’کاحوالہ دیا ہےوہ کتاب ہمارے پاس موجود ہےاس کے اندر میں نے خود دیکھا ہے کہ تسبیح وغیرہ کےساتھ اذکارپڑھنے کی ممانعت یا اس کی بدعت کے بارے میں جودوروایتیں یاآثارپیش کئےگئے ہیں(عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے آثار)وہ سب کے سب سند کے اعتبارسےضعیف ہیں۔ان میں کوئی بھی صحیح نہیں ہے۔دونوں ضعیف ہیں مگرعلامہ صاحب فرماتے ہیں(جس طرح اوپرگزرا)کہ اگران کا اقرارصحیح ہوتاتوابن مسعودرضی اللہ عنہ سے مخفی نہ رہتا۔یاللعجب

جب کوئی اثران سے صحیح سند کے ساتھ ہے ہی نہیں تویہ سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔

پھر ہمارے ہاں ہماری تحقیق کے مطابق امام ترمذی کی روایت حسن لغیرہ نہیں ہے،پھربھی  ایک روایت مستدرک حاکم میں ہے وہ صحیح ہے۔(کمامرمفصلا)لہذا ہمارے پاس توکم از کم ایک ثبوت تو ہےلیکن علامہ صاحب کی دعوی کے لیے توکوئی ثبوت نہیں ہے۔ اللہ فرماتے ہیں:

﴿وَلَا يَجْرِ‌مَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَ‌بُ لِلتَّقْوَىٰ.....﴾ (المائدۃ:۸)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 297

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ