سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(47)ربنا ولک الحمد بلند آواز سے یا آہستہ

  • 14832
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1616

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تومقتدیوں کو‘‘ربناولك الحمد حمداكثيراطيبا مباركافيه’’بآوازبلندکہنامستحب وافضل ہے یا آہستہ کہنا بہتر ہے؟عام طورپراہلحدیث اس حدیث سےاستدلال کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺکے عہدمبارک میں ایک صحابی نے سمع اللہ لمن حمدہ کے بعد آنحضرتﷺکےپیچھےبلندآوازسےمذکورہ الفاظ کہے تونمازکے بعد آنحضرتﷺکےپوچھنے پر جس صحابی رضی اللہ عنہ نے یہ الفاظ کہے تھے بتایاکہ انہوں نے یہ الفاظ کہے ہیں توآپﷺنے فرمایاکہ میں نے ٣۰سے بھی زائدملائکہ علہیم السلام  کودیکھاکہ وہ جلدی کررہے تھےکہ کون ان میں سے ان کلمات کو اجروثواب اول لکھے۔’’اس سے جو یہ دلیل پکڑتے ہیں کہ یہ کلمات بلندآوازسےکہنا افضل ہے کیا یہ دلیل لیناصحیح ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگرانصاف کے دامن کو تھام لیا جائے توصحیح یہی معلوم ہوتاہےکہ یہ کلمات مقتدیوں کو آہستہ  کہنے چاہئیں البتہ اگرکسی نے کبھی بلند آوازسےبھی کہہ بھی دیا تواس میں کوئی مضائقہ نہیں دلیل یہ ہےکہ عام طورپرصحابہ کرام سب کے سب ربناولک الحمدالخ آہستہ کہا کرتے تھےجیسا کہ سوال میں مذکورحدیث کا سیاق اس پر دلالت کرتا ہےکیونکہ اس صحابی کےان کلمات کو بلند آواز سے کہنے پر آنحضرت ﷺنے نمازکے بعدپوچھاتھاکہ:

((من المتكلم أنفا؟))

یہ کلمات کس نے کہے ہیں؟اگرپہلے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سب کے سب یا اکثر کوئی ایک بھی یہ کلمات بلند آوازسےکہتا رہتا ہوتا تورسول اللہﷺیہ کیوں دریافت فرماتے؟جوبات عام ہوتی ہے اس کے متعلق تویہ پوچھانہیں جاتا کہ آپ میں سے کس نے یہ کلمات کہے ہیں بہرحال اس سے صاف طورپرمعلوم ہوا کہ عام طورپرکوئی بھی یہ کلمات بلندآوازسےنہیں کہتا تھااس لیے کسی نے یہ کلمات بلندآوازسےکہےتوآپ نے دریافت فرمایا:

اس طرح اس واقعہ کے بعد بھی پورے دفاتراحادیث میں ایک حدیث میں بھی ایسی واردنہیں ہے کہ اس واقعہ کے بعد سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یااکثریہ کلمات بلندآوازسے کہنا شروع کردیاتھابلکہ اس ایک واقعہ کے سواسمع اللہ لمن حمدہ کے بعدان کلمات کو بلندآوازسےکہنا ایک  صحابی رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت نہیں ہے۔

ورنہ اگرایسا ہوا ہوتایعنی اس واقعہ کے بعدکسی ایک صحابی نے بھی یہ کلمات بلند آوازسےکہناشروع کردیئےتھےاورکرتارہتا تھاتوضرورصحیح یا حسن سند سےہم تک یہ روایت منقول ہوتی روایات میں یہ توآیا ہے بلکہ تابعین  کرام رحہم اللہ فرماتے ہیں کہ جب امام سورۃ فاتحہ ختم کرتا تھاتوپیچھے مقتدی آمین اس زورسے کہتے تھے کہ مسجدگونج جاتی لیکن کسی تابعی نےیہ روایت بیان نہیں کی کہ‘‘ربناولك الحمد’’كے کلمات کہنے سے مسجد گونج جاتی تھی بلکہ  کسی ایک صحابی سے بھی یہ روایت نہیں ہے کہ وہ امام کے پیچھے بلند آواز سے کہتا تھا کیا اس سے ایک منصف مزاج آدمی یہ نہیں سمجھ سکتا کہ  یہ الفاظ بلند آوازسےکہنا نہ مستحب ہیں اورنہ ہی افضل کیونکہ جوبات افضل ہوگی اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جیسی ہستیاں کیسے پیچھے رہ سکتی ہیں؟اس حدیث سے جو واضح طورپرمعلوم ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ ان کلمات کا ثواب واجربہت ارفع واعلی تھا،اورصحابی نے کچھ ایسے جزبہ سے یہ کلمات کہے تھے کہ اتنے سارے ملائکہ علیہم السلام اس کے اجروثواب لکھنے کے لیے ایک دوسرے سےسبقت لے جانے کے خواہاں  ہوئے ،باقی اس اجروثواب کاتعلق جہرایا سراکہنے سے کوئی فرق نہیں پرتاورنہ اگریہ ثواب واجربلندآوازکے کہنے کی وجہ سے ہوتا آنحضرتﷺضرورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو ارشادفرماتے کہ آئندہ تم  بھی یہ کلمات بلند آوازسےکہا کرویا وہ خودہی جہراکہنے پر عمل پیراہوجاتے ،کیا یہ دلیل اظہرمن الشمس نہیں؟ہاں اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ اگر کوئی کبھی جہراکہہ بھی دے تواس میں بھی کوئی قباحت نہیں کیونکہ حضورانورﷺنے ان کو اس جہراسےمنع نہ فرمایا۔بہرحال مندوب وافضل یہ کلمات آہستہ کہنے ہیں ہاں اگرکوئی کبھی کبھاربلند آوازسے کہہ دے توکوئی حرج نہیں،اگرکوئی صاحب اس واضح برہان کے بعد بھی اس پر مصر ہےکہ یہ کلمات بلند آواز سے کہنا مستحب وافضل ہیں توپھر میں گزارش کروں گا کہ صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے کہ:

آنحضرتﷺنمازپڑھارہےتھےایک آدمی آیا،اس کا سانس پھولاہواتھا وہ صف میں داخل ہوااوراللہ اکبرکہااوراستفتاح والی دعاکی جگہ یہ الفاظ بلند آوازسےکہے:

‘‘الحمدلله حمداكثيراطيبا مباركافيه’’

پھر جب آنحضرتﷺنمازسے فارغ ہوئے توتین باردریافت فرمایاکہ  یہ کلمات کس نے کہے تھے تیسری بارجس نے یہ الفاظ کہے تھے بتایاکہ اس نے یہ کلمات کہے ہیں توآپﷺنے فرمایا:بیشک میں نے بارہ ملائکہ علیہم السلام کو دیکھا کہ وہ جلدی کررہے تھے کہ کون ان کلمات کو لے کر اوپر جائے ،اب جوآدمی ان کلمات کو ان کے اس اجروثواب یافضیلت سے ان کے جہراکہنے کا فتوی دیتا ہےتوانہیں یہ بھی چاہئے کہ وہ یہ فتوی بھی  دے کہ نماز میں یہ دعااستفتاح بھی بلند آوازسےکہنا مستحب وافضل ہے۔حالانکہ ایک اہلحدیث نے بھی آج تک یہ فتوی نہیں دیا۔فتدبروا!

اسی طرح ترمذی ،ابوداوداورسنن نسائی میں صحیح سند سے حضرت رفاعہ بن رافع سےروایت ہے کہ میں نے حضرت رسول اللہﷺکے پیچھے نماز پڑھی مجھے چھینک آئی تومیں نے یہ کلمات کہے

‘‘الحمدلله حمداكثيراطيبا مباركافيه مباركاعليه كما يحب ربناويرضى.’’

پھر جب آنحضرتﷺنمازسے فارغ ہوئے تودریافت فرمایاکہ  یہ کلمات کس نے کہے توسب خاموش پھر دوسری مرتبہ دریافت فرمایاپھر بھی کوئی نہ بولا پھر جب تیسری بارپوچھاتورفاعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺمیں ہی ہوں یہ کلمات کہنے والا؟آپﷺنے فرمایااس ذات پاک کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تیس سے بھی اوپرملائکہ علہیم السلام ان کلمات کو لینے میں جلدی کررہے تھے کہ کون ان کلمات کولے کر اوپرچڑھ جائے آسمان کی طرف۔

اس صحیح حدیث سے بھی معلوم ہواکہ ایک صحابی نے چھینک آنے پر یہ کلمات کہے اوران کا اجروثواب اورفضیلت وبھلائی اللہ تعالی کے رسول اکرمﷺنے یہ فرمائی کہ تیس سےبھی اوپرملائکہ علہیم السلام ان کلمات کے اوپرلے جانے میں ایک دوسرے سے سبقت کررہے تھےتوکیا یہ اہلحدیث صاحبان یہ فتوی بھی دیں گے کہ آئندہ جس کونماز میں چھینک آئے تووہ یہ کلمات اونچی آوازسے کہے کیونکہ ان کا اونچا کہنا مندوب وافضل ہے؟اب تک کسی حضرت نے یہ فتوی نہیں دیا۔

یہ تین مختلف واقعات ہیں جن میں چند کلمات کو بلند آواز سے کہنے کا ایک ایک  صحابی رضی اللہ عنہ سے ثبوت ملتا ہے لیکن جہاں تک میرامبلغ علم ہے تومجھے تومتقدمین،محدثین اورشارحین حدیث میں سے کسی ایک کا بھی قول دیکھنے میں نہیں آیا کہ انہوں نے اس حدیث  کے تحت یہ فرمایاہوکہ ان الفاظ کو بلند آوازسےکہنا مستحب وافضل ہے ۔صرف آج کل کےاہلحدیثوں نے ا س پر بلاوجہ زوردیا ہے حالانکہ جیسا اوپرگزارش کرآیا ہوں کہ ان احادیث سے صرف ان کلمات کے کہنے کی بھلائی اورفضیلت معلوم ہوتی ہے باقی سرایاجہراکاان میں کوئی پتہ نہیں نہ ہی ا س کی طرف نفس حدیث میں کوئی اشارہ ہے ورنہ اس بھلائی کے حصول کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اولین حقدارتھے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 285

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ