سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(23)کیا کلمہ پڑھنے والا جنتی ہے ؟

  • 14808
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 3741

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیاکلمہ پڑھنے والاجنتی ہے،اگرجنتی ہے توکیا یہ بات حدیث مبارکہ اورقرآن پاک سے مطابقت رکھتی ہے؟اگرہاں توپھر سورت اورآیت کا حوالہ بتائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ یہ حدیث بالکل صحیح ہےیہ حدیث صحیح بخاری وغیرہ میں ہے کہ جو شخص‘‘لا الہ الا اللہ’’دل کے اخلاص کے ساتھ پڑھےگاوہ جنت میں داخل ہوگا خواہ ابتداءیا پھر کبیرہ گناہوں کی سزاپانے کے بعد‘‘لا الہ الا اللہ’’کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان الفاظ مبارکہ کہنے والاپکاموحد ہو اورشرک سے بالکلیہ اجتناب کرنے والا ہواس کی تائید قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات سے ہوتی ہے۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ‌ أَن يُشْرَ‌كَ بِهِ وَيَغْفِرُ‌ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ﴾ (النساء:۴۸)

‘‘یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ شرک معاف نہیں فرمائے گا ہاں شرک کے علاوہ دیگر گناہ(کبیرہ)  جسے چاہےمعاف فرمادے ۔’’

اس  سے معلوم ہوا کہ جو شخص بھی مشرک نہیں وہ اللہ تعالی کی مغفرت سے بالکل مایوس نہیں گناہ کبیرہ کی قیداس لیے لگائی گئی ہے کہ قرآن کریم میں ہے کہ:

﴿إِن تَجْتَنِبُوا۟ كَبَآئِرَ‌ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ‌ عَنكُمْ سَيِّـَٔاتِكُمْ﴾ (النساء:٣١)

‘‘یعنی اگرآپ لوگ ان کبیرہ گناہوں سے جن کے ارتکاب سے تمہیں روکاگیا ہے بچتے رہوگے توہم تمہاری چھوٹی چھوٹی برائیوں کو مٹادیں گے۔’’

اورابتداء یا کچھ سزاپانےکی بات اس لیے کہی گئی اگر﴿وَيَغْفِرُ‌ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ﴾کامطلب یہ لیے جائے کہ شرک کے علاوہ دیگر گناہوں میں کچھ گناہ اللہ سبحانہ وتعالی اصلاکبھی بھ معاف نہیں فرمائے گاتوپھر شرک اوردیگرگناہوں میں کچھ فرق نہ رہا۔یعنی اگرکچھ گنہگاروں کو جہنم میں خلوداورابدی سزاملے گی اورکبھی بھی انہیں اس سے نکلنا نصیب نہ ہوگاتوپھر شرک اوروہ کبیرہ گناہ سزاکے اعتبارسےبرابرہوئے نہ مشرک کی مغفرت اورنہ ہی(مشرک کے علاوہ)دیگرمرتکبین کبیرہ کی مغفرت ان کے لیے بھی ابدی سزااوران کے لیےبھی ابدی سزا۔لہذا﴿وَيَغْفِرُ‌ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ﴾کاصاف اورواضح مطلب ہے کہ شرک کے علاوہ دیگر کبیرہ گناہوں کے مرتکبین میں سے کچھ کو توابتداہی میں معافی مل جائے گی اورکچھ (جن کے لیے اللہ سبحانہ وتعالی کی حکمت وعدل کا تقاضا ہے کہ انہیں سزاملنی چاہیئے)اپنے گناہوں کی سزاپاکربلآخران کی بخشش ہوجائے گی اورانہیں جہنم سے نکال کرجنت میں داخل کردیا جائے گا۔انہیں جہنم کی ابدی سزانہیں ملے گی۔اس بارے میں صحیحین دیگر کتب احادیث میں بے شماراحادیث مروی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بالآخروہ سب لوگ جہنم سے نکالے جائیں گے جنہوں نے کوئی بھی نیکی اصلا نہ کی ہوگی اورایسی روایات حدتواترکوپہنچتی ہیں جن کا انکارنہیں کیا جاسکتا۔

علاوہ ازیں قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت کریمہ بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿إِنَّهُ مَن يُشْرِ‌كْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّ‌مَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ﴾ (المائدۃ:۷۲)

‘‘یعنی جو شخص اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرےگاتواللہ تعالیٰ اس پر جنت کوحرام قراردے دیا ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔’’

اس آیت کریمہ میں بھی اشارہ ہے کہ غیر مشرک کے لیے جنت ہمیشہ کے لیے حرام نہیں اگرچہ مشیت ایزدی کے مطابق کچھ وقت کے  لیے جہنم میں چلا بھی گیالیکن بالآخر اللہ تعالی کے فضل وکرم سے جنت میں داخل ہوجائے گااس کے لیے جنت ہمیشہ کے لیے حرام نہیں۔

بہرحال جنت ہمیشہ کے لیے حرام صرف مشرکین کے لیے ہے۔

یہ حقیقت بھی پیش  نظر رہنی چاہیئے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ﴾  (النحل:۴۴)

‘‘اورہم نے تیری  طرف کتاب اتاری ہے تاکہ لوگوں کو کھول کھول کربیان کرے جوان کی طرف نازل کیا گیا ہے۔’’

یعنی قرآن حکیم کی تبیین اورتوضیح اللہ سبحانہ وتعالی کے رسول اکرمﷺکے سپردکی ہے ۔لہذا مذکوربالااحادیث مبارکہ سورہ نساء اورمائدہ کی آیات کی ہی تشریح وتوضیح ہیں لہذاانہیں قبول کرنا ضروری ولازمی ہے۔باقی رہی یہ بات کہ ‘‘لا الہ الا اللہ’’کا مطلب کیا ہے؟توحید کا مفہوم کیا اورشرک کسے کہتے ہیں یہ بات پوری وضاحت کے ساتھ سمجھنی چاہیئے اس کے لیےذیل  میں کچھ تفصیل سے وضاحت کی  جارہی ہے۔بعون الله سبحانه وتعالي وحسن توفيقه-

‘‘لا الہ الا اللہ’’كا مطلب ہے کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی بھی معبود برحق نہیں اورپوری مخلوق میں کوئی بھی ہستی ایسی نہیں چاہے وہ فرشتہ ہویا نبی یا کوئی اورمخلوق جواللہ سبحانہ وتعالی  کے ساتھ ذات میں صفات میں ،افعال واختیارات میں اورکائنات کے نظام کو چلانے میں شریک وندنہیں اورنہ  ہی اللہ تعالی کا کوئی کفووہم پلہ ہے اورنہ ہی اللہ تعالی کی مثل کوئی چیز ہے۔

﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾ (الشوری: ۱۱)

‘‘اس کے مثل کوئی چیز نہیں وہ سننے والا دیکھنے والاہے۔’’

﴿وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ﴾ (الاخلاص:۴)

‘‘اورنہ  ہی اس کا کوئی ہم پلہ ہے۔’’

صحیح معنی میں‘‘لا الہ الا اللہ’’پر کامل ایمان رکھنے والاوہ شخص ہے جو اللہ تعالی پر ایمان اس طرح رکھے کہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنی ذات وصفات واسماء وافعال کے اعتبارسے وحدہ لاشریک لہ ہے،یعنی خالق مالک رازق اولا عطاکرنےوالابیماری سے شفایاب کرنے والا،عالم الغیب ،ہرشے پر قادرجس کا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔کسی چیز کو حرام یا حلال قراردینے کا اختیاررکھنے والا،بندوں کی دعاوں کو قبول کرنے والا،عبادات کی جمیع انواع واقسام کا مستحق ،مرادیں پوری کرنے والا،نفع ونقصان اورزندگی وموت کا مالک ،ہر لمحہ اپنی مخلوق کی ہر ضرورت کو پوراکرنےوالا،ان کا محافظ ونگہبان وغیرہ وغیرہ صفات صرف اورصرف اللہ تعالی کے ساتھ ہی خاص  ہیں کوئی بھی ہستی اس کائنات میں ان صفات میں اللہ  تعالی کی شریک وثانی نہیں ہے۔اس طرح موحد ہونے اورشرک سے براءت کے لیے یہ بات بھی ضروری ہے کہ وہ موحد اللہ تعالی سبحانہ وتعالی کی تقدیر(یعنی اللہ کو ماضی،حال ،مستقبل،سب کا علم ہے جو کچھ ہوچکا اورجوہورہا ہےاورجو آئندہ ہوگا سب کچھ جانتا ہے اورجوکچھ ہوایا ہوگا سب ہی اس کے بنائے ہوئے منصوبہ کے مطابق عمل میں آرہا ہے۔)پرایمان رکھتاہواسی طرح تمام انبیاءورسل اورکتب سماوی پر ایمان رکھے کہ اللہ تعالی ابتداءہی سے انبیاء ورسل اورکتب کو بھیج رہا ہے اوریہ سلسلہ سیدنا وامامنامحمدرسول اللہﷺاورقرآن کریم پر آکرختم ہوا ہے اسی طرح آخرت کے دن پرایمان بھی ضروری ہے یعنی ایک دن سب انسان زندہ ہوکراللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے اوراپنے اعمال کے مطابق جزوسزاپائیں گے نتیجہ جنت یا جہنم کی صورت میں ان کے سامنے واضح ہوجائے گا۔اسی طرح ایک موحد کو ملائکہ علیہم السلام پر ایمان لانا لازمی امر ہے۔اسی طرح جن اشیاء یا اوامروعبادات کو اللہ تعالی نے فرض قراردیاہے ان کی فرضیت پرایمان رکھتا ہو،مثلا نماز،روزہ وغیرہ اورجن اشیاء کو اس نے حرام وناجائزقراردیا ہے ان کو حرام اورناجائزسمجھتارہے۔یہ سب امورتوحید اورایک موحد کے لیے لازمی ہیں ان میں سے اگرکسی ایک کا بھی انکارکرتاہے یا اللہ تعالی کی صفات جو اس کے ساتھ خاص ہیں ان میں کسی کو شریک سمجھتا ہے۔مثلا اللہ سبحانہ وتعالی کے علاوہ کسی اورکو عالم الغیب یامشکل کشاسمجھتا ہے تووہ مشرک ہے موحد ہرگزنہیں ،اس کا‘‘لا الہ الا اللہ’’پر عمل نہیں۔اللہ تعالی کے ساتھ ذات صفات میں کسی کو شریک کرنے والے کامشرک ہونا توظاہروعیاں  ہے لیکن انبیاء ورسل ،کتب ،ملائکہ علیہم السلام اورتقدیراوربعث بعدالموت،جزاوسزا،جنت وجہنم ان پر ایمان نہ رکھنے والے اورانکارکرنے والے اوراسی طرح فرائض کی فرضیت کا انکارکرنے والے یا حرام کو حلال جاننے والے یا حرام نہ سمجھنے والے کو مشرک اس لیے کہا جاتاہے کہ رسل وپیغمبروں اورکتابوں کے متعلق اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں انہیں بھیجتارہاہوں اوریہ سلسلہ میں نے محمد رسول اللہﷺاورقرآن پر ختم کردیا۔

فرشتوں کے متعلق فرمایا:یہ اللہ تعالی کی ایسی برگزیدہ مخلوق ہیں جہ ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں اورنافرمانی نہیں کرتے ،اسی طرح تقدیر کے متعلق بے شمارآیات واحادیث وارد ہوئی ہیں لیکن یہاں ایک ہی آیت پر اکتفاکیا جاتا ہے۔

اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿إِنَّا كُلَّ شَىْءٍ خَلَقْنَـٰهُ بِقَدَرٍ‌﴾ (القمر:٤٩)

‘‘بے شک ہم نے ہرچیز کو ایک مقرراندازے پر پیداکیا ہے۔’’

اورآخرت کے متعلق بھی پورے قرآن مجید میں جابجاوعظ ونصیحتیں موجود ہیں بعینہ اسی طرح نماز،روزہ وغیرہ کے متعلق قرآن کریم میں موجود ہے کہ یہ فرائض ہیں۔حرام اشیاءکی مکمل توضیح قرآن کریم اوراحادیث مبارکہ میں موجودہے اب اگرکوئی شخص ان کو ماننے سےانکارکرتا ہے تواس کا صاف مطلب ہےکہ وہ اللہ تعالی کو (معاذاللہ ثم معاذاللہ)جھوٹا سمجھتاہےاورجھوٹ نقص،عیب وخامی ہے اوراللہ سبحانہ وتعالی ہرعیب ونقص سےقطعاپاک ہےاسماء الحسنی میں ایک اسم‘‘السلام’’ہےاورایک اسم مبارک‘‘القدوس’’بھی ہےجن کا مطلب ہے کہ اللہ تعالی ہرعیب ونقص سے باعتبارذات وصفات پاک ہے۔عیب اورنقص مخلوقات کاخاصہ ہے لہذا جوشخص

اللہ تعالی کو نعوذ باللہ جھوٹا سمجھتا ہے تو اس نے واضح طورپر اللہ تعالی کومخلوق کے ساتھ مشابہ قراردیا اوریہی توشرک ہے اس پر خوب غوروتدبرکریں۔ہاں جو شخص مذکورہ بالاصفات وغیرہ وغیرہ سب پر ایمان رکھتا ہے اورفرائض کی فرضیت بھی تسلیم کرتا ہے اورتمام ممنوعات وناجائز کاموں کو حرام وناجائز جانتا ہے لیکن بتقاضائے بشریت فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی وسستی کاارتکاب کرتا ہے یا محرمات میں سے کسی حرام کام ارتکاب کربیٹھتاہے یہ مشرک نہیں بلکہ موحد ہی ہے ،البتہ اسے فاسق وگنہگارکہا جائے گااورایساشخص اگرتوبہ نصوحہ کرتا ہے اوراپنے کیئے پر نادم ہوتا ہے اورآئندہ بازرہتا ہے اورمزید اپنی اصلاح کرتاہے تو اس کا وہ گناہ اللہ تعالی کے ارشادموجب معاف ہوجاتا ہے لیکن اگرکوئی شخص بغیر معافی طلب کیے اس دنیا سے رخصت ہوگیا توپھراللہ تعالی کی مشیت کے ماتحت رہے گا چاہے اسےاپنے فضل عظیم سے معاف کردے اورجنت میں داخل کردے یا چاہے اسے گناہوں سےپاک صاف کرنے کے لیے کچھ وقت جہنم میں داخل کرے پھر اپنی نظر کرم سے معاف کرکےجنت میں داخل کردے۔یہ ہے صحیح مطلب ‘‘لا الہ الا اللہ’’کا اوریہی ہے صحیح وحقیقی موحد اورشرک سے بیزاراوربری باقی عوام بلکہ کچھ خواص بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اس حدیث شریف کا مطلب ہے کہ صرف زبان سے یہ الفاظ ‘‘لا الہ الا اللہ’’اداکردینے سے آدمی پکاموحد بن جاتا اوراس کے لیے جنت میں جانے کے لیے بھی الفاظ ادااکردینے کافی ہیں‘‘لا الہ الا اللہ’’کا زبان سے ورد کرنے کے بعدچاہے وہ پیروں کی پوجا کرے اورقبوں قبروں کاطواف کرتا پھرے اوران پرسجدہ کرتا رہے اورمردوں سے مرادیں مانگتا پھرے نماز وغیرہ کی فرضیت کا انکارکرتا رہے،محرمات،زنا،چوری ،شراب نوشی،جوا،سود،رشوت وغیرہ وغیرہ کوحلال سمجھتا رہے اورایمان کے اجزاءکاانکارکرےپھر بھی وہ موحد ہے اورجنت کا ٹھیکیدارہےتویہ احمقوں کی دنیا میں رہتا ہے آج کل کے نام نہاد مسلمان بزرگوں کی قبروں کی پوجاکرنےکے بعد بھی اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں۔حالانکہ مکہ مکرمہ کے کفاربتوں کی پرستش کرتےتھے اورجن بتوں کی پوجاکرتے وہ صلحاء وبزرگان دین کے مجسمےتھے وہ ان کے پوجنے سےیہ سمجھتے تھے کہ ان مجسمین کی ارواح خوش ہوکراللہ تعالی کے ہاں ہماری سفارش کریں گے۔

﴿وَيَقُولُونَ هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّـهِ﴾ (یونس:۱۸)

‘‘اوروہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔’’

یعنی اس وقت کے کفارصالحین کے مجسموں کی پرستش کرتے تھے اورآج کل کےمسلمان انہی صالحین کی قبروں کو پوجتے ہیں خداراسوچیں کہ ان دونوں میں آخر کیا فرق ہے؟

لیکن وہ کفاراوریہ مسلمان فیاللعجب،اس کے برعکس اگران الفاظ (یعنی جس نے‘‘لا الہ الا اللہ’’کہا وہ جنت میں داخل ہوگا)کا مطلب یہی ہے کہ صرف زبان سے یہ الفاظ اداکردیئے جائیں باقی جومن میں آئے کرتا پھرے وہ مسلمان ہے اورپکا موحد ہے اورجنت کی ٹکٹ اس کے ہاتھ لگ گئی ہے توپھر سوچنے کی زحمت کی جائے کہ پھر ایسے آسان وسہل اسلام لانے سے ابولہب ،ابوجہل اوردیگر کفارکوکیا چیز مانع تھی جب کہ وہ انہیں تویہی الفاظ اداکردینے تھے باقی من مانیاں کرنے سے کوئی چیز انہیں مانع نہ تھی بلکہ جو کچھ بھی کرتے پھرتےان کے اسلام پر ذرابھربھی کوئی اثرنہ پڑتابلکہ جنت میں جانا بھی ان کے لیے آسان تھا پھرآخر وہ یہ الفاظ کہہ کردائرہ اسلام میں کیونکر داخل نہ ہوئے؟اصل حقیقت یہ ہے  کہ ان کی زبان عربی تھی ‘‘لا الہ الا اللہ’’کے معنی ومفہوم کو خوب جانتے تھے اوران کے تقاضوں کو بھی سمجھتے تھے کہ صرف یہ الفاظ کہنے کافی نہیں بلکہ ان الفاظ کے کہنے کے بعد ان کے معنی ومفہوم پر کام یقین واعتقادرکھنا ہوگااوراپنی زندگی انہی کلمات کے معنی ومفہوم پر عمل کرتے ہوئے اوران کی تقاضائے ومتمنات کو پوراکرتے ہوئے گزارنی پڑے گی اوریہی وہ بات تھی جو ان کے لیے مشکل تھی جو وہ نہ کرسکے اس وجہ سے وہ اسلام وایمان سے محروم رہے آخر ہمارےآج کل کے مسلمان نے جنت کو اتنا سستا کس بناپرسمجھ رکھا ہے ۔هَاتُوا۟ بُرْ‌هَـٰنَكُمْ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ!

خلاصہ کلام:۔۔۔۔۔۔کہ ایک موحد کا جو صحیح طور پر توحید پر مستقیم ہے وہ خواہ صالح ہویاگنہگارلیکن جنت میں بہرحال ضرورداخل ہوگا خواہ ابتداءبغیر کسی سزاوعذاب کے بھگتنے کے خواہ بالآخر مقررہ مدت کے عذاب بھگتنے کے بعد لیکن یہ بات ہرسچے مومن کو ذہن میں رکھنی چاہیئےکہ جہنم کی آگ کی حرارت وتپش اس

دنیا وی  آگ سے کئی گنا زیادہ ہے ارشادربانی ہے:

﴿قُلْ نَارُ‌ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّ‌ۭا﴾ (التوبه:٨١)

‘‘یعنی آپ کہہ دیں کہ جہنم کی آگ سخت گرم ہے۔’’

اس کی تشریح صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں مروی ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایاکہ تمہاری یہ دنیا والی آگ جہنم کی آگ کا ستروں حصہ ہے۔ صحيحبخاري:كتاب بدءالخلق’باب صفة الناروانهامخلوقة’رقم الحديث٢٣٦٥.

یعنی جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے اونہتر درجے زیادہ گرم ہے پھر جب اس دنیا کی آگ میں آدمی ایک منٹ بھی نہیں رہ سکتا توپھر اس آگ میں جواونہترمرتبہ زیادہ گرم ہے کس طرح رہ سکتا ہے کہ وہ اپنے گناہوں کے سبب اس میں داخل ہوگا اگرچہ اس میں رہنے کی مدت کتنی کم کیوں نہ ہو؟اس لیے نفس کو دھوکے میں رہنے نہ دیا جائے بلکہ اس زندگی میں اللہ سبحانہ وتعالی کی بارگاہ میں اپنے گناہوں پر پشیمان ہوکر پکی وسچی توبہ کرکے اعمال صالحہ کے ذریعےاپنی اصلاح کی جائے تاکہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنے فضل وکرم سے اسے نواز دے اوراپنی مغفرت میں اسے داخل کردے اوربغیر کسی عذاب کے اسے جنت میں داخل کردے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 160

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ