سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(15)آگ سے پناہ

  • 14800
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1394

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

((اللهم اجرني من النار))کی تحقیق مطلوب ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

((اللهم اجرني من النار))یہ دعا جس سند سے مروی ہے آپ نے وہ تولکھی ہے اوروہ واقعتا سنن ابی داودمیں ہے لیکن اس سے پہلے اس دعاکےمتعلق جو حدیث سنن ابی داودمیں ہے وہ آپ نے نہیں لکھی۔اس کی سند اس طرح ہے۔

((حدثنا اسحاق بن ابارهيم ابوالنضر الدمشقي نامحمد بن شعيب اخبرني ابو سعيد الفلسطيني عبدالرحمن بن حسان عن الحارث بن مسلم انه اخبره عن ابيه مسلم بن الحارث التميمي عن رسول الله صلي الله عليه وسلم الحديث))

یعنی صحابی  کا صحیح نام مسلم بن الحارث ہے اوران کے فرزند کا نام حارث ہے کتب الرجال سے معلوم ہوتا ہے  کہ امام بخاری ،امام ابوحاتم الرازی،امام ابوزرعہ الرازی،امام ترمذی ،ابن قانع رحمہم اللہ وغیرہ من ائمہ الحدیث نے اسی کو ترجیح دی ہے نہ کہ مسلم بن الحارث بن مسلم  عن ابیہ کو اورمیزان وغیرہ میں امام دارقطنی نے جسے مجہول کہا ہے وہ مسلم بن الحارث بن مسلم ہے نہ کہ حارث بن مسلم ابن الحارث التمیمی اورامام ابن ابی حاتم الجرح والتعدیل میں اس حارث بن مسلم بن الحارث کے متعلق اپنے والد ابوحاتم الرازی سےنقل کرتے ہی کہ انہون نے فرمایا کہ حارث بن مسلم تابعی ہے لیکن اس پر کوئی جرح نہیں فرمائی اورنہ ہی مجہول  کہا ہے اورکسی امام نے بھی اسے مجہول نہیں کہا۔

لہذاامام ابوحاتم الرازی جیسے متشددکی طرف سے اسے تابعی کہنا بتاتا ہے کہ کم ازکم معروف راوی ہے اوراسی حارث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب التاریخ الکبیرمیں بھی ذکرکیا ہے اس میں بھی ترجیح اسی کو دی ہے کہ الحارث بن مسلم بن الحارث ہی راجح ہے لیکن امام صاحب نے بھی ان پر  کوئی جرح نہیں فرمائی۔

لہذا احقرالعبادراقم الحروف کے خیال میں یہ سند کم ازکم حسن ہونی چاہئے یہی وجہ ہے کہ امام نسائی کی کتاب ’’عمل الیوم واللیلة‘‘ کے محقق محشی نے  بھی لکھا ہے کہ یہ حدیث ان شاءاللہ حسن ہے ۔مزید تحقیق فی الحال ہمارے علم میں نہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 108

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ