سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(04)اولی الامرکا مطلب

  • 14789
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 2483

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن کریم میں سورۃ النساء میں آیت کریمہ ہے ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ‌ مِنكُمْ﴾ (النساء:۵۹)اس آیت کریمہ میں‘‘َأُولِي الْأَمْرِ‌ مِنكُمْ’’سے کیا مراد ہے کیا اس آیت سے تقلید شخصی کے لیےاستدلال کیا جاسکتا ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس آیت کریمہ میں’’أُولِي الْأَمْرِ‌ مِنكُمْ‘‘سے مسلمانوں کے حکام مرادہیں کیونکہ وہی صاحب امر’’أُولِي الْأَمْرِ‌ مِنكُمْ‘‘ ہیں پھر چاہے وہ علماء میں سےہوں یاغیرعلماءمیں سے مگر وہ علماء جو صاحب امر نہیں وہ’’أُولِي الْأَمْرِ‌ مِنكُمْ‘‘میں داخل نہیں ہوسکتے۔دیگر الفاظ میں مذکورہ آیت امت مسلمہ کو اپنے امراءکی اطاعت کا حکم فرمارہی ہے اسی طرح کئی احادیث مبارکہ میں بھی امراءکی اطاعت کی تاکید کی گئی ہے،کیونکہ اسلام کا ایک اپنا نظام دستوراورقانون یاآئین ہے اوروہ حکومت میں اقتدارکےبغیرنافذنہیں  ہوسکتا اس لیے کتاب وسنت مسلم میں امراء وحکام کی اطاعت پر زوردیاگیاہے تاکہ وہ امت مسلمہ میں ربانی قانون نافذ کرسکیں۔مگران حکام کی طاعت غیر مشروط ہرگزنہیں بلکہ ان کی اطاعت  تب تک کی جائے گی جب تک وہ اللہ اوراس کے رسول مقبولﷺ کے احکامات اوران کی سنت وطریقہ کی مخالفت نہ کریں ورنہ اگر ان کا کوئی بھی امر یا حکم کتاب وسنت کے خلاف ہوگا تو اس صورت میں ان کی اطاعت ہرگز جائز نہیں یہی سبب ہے کہ جو آیت کریمہ سوال میں تحریر کی گئی ہے اس میں’’أُولِي الْأَمْرِ‌ مِنكُمْ‘‘ کےبعد یہ الفاظ مبارک ہیں:

﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُ‌دُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّ‌سُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِر﴾ (النساء:۵۹)

’’اگرکسی بات میں اختلاف کرو تواس کو اللہ اوراس کے رسول کی طرف لوٹاواگر تمھیں اللہ پر اوریوم آخرت پر ایمان ہے۔‘‘

یعنی تنازعہ اوراختلاف کی صورت میں پوراکا پورامعاملہ اللہ تعالی اوررسول اکرمﷺکی طرف یا کتاب وسنت کی طرف لٹایاجائے گاپھرجس کی بات کتاب وسنت کے موافق ہوگی توصحیح ورنہ غلط۔

اوریہ تنازعہ یا اختلاف تب ہی وجود میں آتا ہے جب کوئی شخص(حاکم یا عالم)کوئی حکم یا مسئلہ بتاتا ہے مگر اس کے برخلاف اوراس کی فتوی کتے مخالف کوئی کتاب اللہ کی آیت ہوتی ہے  یا کوئی حدیث شریف ورنہ اگر حاکم کا حکم یا عالم کی فتوی کتاب وسنت کے خلاف نہ ہو توپھر جھگڑا اوراختلاف پیدا ہوہی نہیں سکتا۔کیونکہ اس صورت میں یہ اطاعت بالآخراللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺکی ہی ہے نہ کہ اس حاکم کی کیونکہ وہ حاکم قانون ساز قطعا نہیں ہےبلکہ اللہ تبارک وتعالی کے قانون کو نافذ کرنے والا  ہے قانون سازی کا اختیار صرف اللہ تعالی کوہی ہے،جیسے فرمایا:

﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ﴾ (الانعام:۵٧)

’’اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں(چلتا)۔‘‘

ایک اورجگہ فرمایا:

﴿أَمْ لَهُمْ شُرَ‌كَاءُ شَرَ‌عُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّـهُ﴾ (الشوری:٢١)

’’کیا ان کے لیے شرکاء ہیں جنھوں نے ان کے لیے دین میں وہ چیزیں مشروع کردی  ہیں جن کی اللہ نے اجازت نہیں دی۔‘‘

اسی طرح حدیث میں ہے  کہ:

((لاطاعة لمخلوق في معصية الخالق))(١)

’’یعنی جس بات یا کام کرنے سے خالق کی نافرمانی لازم آئے اس میں کسی بھی مخلوق کی ’’خواہ‘‘وہ ماں باپ ہوخواہ عالم خواہ کوئی امیریاحاکم’’اطاعت نہیں کرنی۔‘‘

اورظاہر ہے کہ اللہ تعالی اوررسول اکرمﷺکی نافرمانی ان کے ارشادات عالیہ کی خلاف ورزی میں لازم آتی ہے۔لہذا اس صورت میں کسی کی اطاعت نہیں کرنی۔یہی مطلب سیاق وسباق کے موافق ہے اورقرآن وحدیث کے بالکل مطابق ہے۔اس میں تقلید شخصی کانام ونشان بھی نہیں اس کا اثبات تودورکی بات ہےلیکن اگر

‘‘علي سبيل التنزل’’یہ تسلیم بھی کیا جائے تواولی الامرسےمرادعلماء ہیں،یعنی مطلق علماء خواہ وہ صاحب امر ہوں یا نہ ہوں ،توبھی اس سے تقلید شخصی کا اثبات ہرگزنہیں ہوتا کیونکہ آیت کریمہ کا یہ حصہ جواوپرذکرکیا گیا ہے یعنی

﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ الخ﴾ اس سے مانع ہے، اس طرح کہ اختلاف

(١)مسنداحمد جلد٥،صفحهہ٦٦،رقم الحديث: ٢٠٦٨٠

كی صورت میں ربانی ارشاد ہے کہ وہ مکمل معاملہ کتاب وسنت کی طرف لوٹایا جائے آپ دیکھیں کتنے ہی مسائل ہیں جن میں علماء کا اختلاف ہے۔

مثلا ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کسی مسئلہ کے متعلق کچھ فرماتے ہیں توامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اس کے برعکس ارشادفرماتے ہیں اورمالک رحمۃ اللہ علیہ ان دونوں سے مختلف تیسری بات کہتے ہیں اوراحمد رحمۃ اللہ علیہ کاراستہ ان تینوں سے الگ ہے اب اس صورت میں ہمارے ایمان کا تقاضا ﴿إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِر﴾ کےمطابق ہے؟ظاہر ہے کہ  یہی ہے کہ ان چاروں ائمہ کرام کے اختلاف کو نظر انداز کرکے ہمیں پورامعاملہ مسئلہ مختلف فیہا کو کتاب وسنت کی طرف لوٹادینا ہے پھر اس عدالت عالیہ ‘‘سپریم کورٹ’’کی طرف سے جس کی بات یا فتوی کے متعلق صحت کا فیصلہ صادرہوگااس کی بات درست اوردوسری غلط ہوگی اوراگرہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ کتاب وسنت  نے اس مسئلہ کے متعلق یہ فیصلہ دیا ہے تقلید توختم ہوگئی کیونکہ تقلید کی تعریف میں‘‘جو علماء اصول فقہ نے لکھی ہے ’’عدم علم داخل ہے یعنی اصول فقہ کے مطابق تقلید کی تعریف یہ ہے:

((اخذ قول الغير من غيرمعرفة دليله -))(١)

يعنی کسی کی بات اس کی دلیل معلوم کیے بغیر لے لینا ۔پھر اگر اسے اس مسئلہ کی دلیل کاعلم ہوگیا توتقلید ازخود ختم ہوگئی ۔مطلب کہ اختلاف کی صورت میں کسی ایک شخص کی اتباع یاتقلید اس کی دلیل معلوم کیے بغیر کرنا بالکل ناجائز ہے،لیکن اگر وہ مسئلہ مختلف فیہ نہیں بلکہ امت کا اس پر اجماع واتفاق ہے تو اس سے توظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسئلہ کتاب وسنت کے خلاف قطعانہیں کیونکہ

((لاتجمتمع امتي علي ضلالة اوكماقال -))(٢)

حديث شریف  واردہوئی ہے لہذا امت کا اجماع ایسی ہی بات پر ہوتا ہے جو کتاب

(١)شرح جمع الجوامع،جلد٢،صفحہ٢٥١.

(٢)كشف الخفاللعجلوني’جلد٢’صفحه٣١٨بحواله معجم الكبير.

وسنت کے موافق ہوتی ہے نہ کہ مخالف تواس صورت میں بھی تقلید شخصی کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ کسی بھی عالم ربانی اورحق پرست سے دریافت کیا جاسکتا ہے کہ اس مسئلہ کے متعلق اللہ تعالی اوراس کے رسولﷺکا کیا ارشادہے۔

خلاصہ کلام:۔۔۔۔۔۔اگروہ خود عالم ہے اورکتاب وسنت سے استنباط کی لیاقت رکھتاہے تواسے تمام مسائل میں ازخود کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنا چاہیے اوراگروہ خود عالم نہیں توبمصداق:

﴿ فَسْـَٔلُوٓا۟ أَهْلَ ٱلذِّكْرِ‌ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ (النحل:٤٣)

کسی بھی  حق پرست اورکتاب وسنت کا صحیح علم رکھنے والے سے دریافت کرسکتا ہے لیکن اس طرح نہیں کہ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے بلکہ اس طرح کہ اس مسئلہ کے متعلق کتاب وسنت کا کیا فیصلہ ہے تاکہ وہ اہل الذکرفتوی کے لیے دلیل پیش کرے تو اس صورت میں تقلید ختم ہوگئی ۔تقلید تواس وقت باقی رہتی جب اس عالم دین سے اپنی رائے دریافت کی جاتی اوروہ اس مسئلہ کے متعلق  کتاب وسنت سے کوئی دلیل پیش نہ کرتا اورپھر محض اس کی مجردرائے پر عمل کیا جاتا شریعت اسلامی میں اس طرزعمل کی اجازت نہیں یہی وجہ ہے کہ خود امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاہے کہ:’’جس شخص کو بھی ہماری کسی بھی فتوی کی دلیل معلوم نہ ہو تو اس پر ہماری فتوی کے مطابق فتوی دینا حرام ہے۔‘‘

مطلب کہ تقلیدکوتوخودامام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ حرام قراردیتےہیں کیونکہ جب اس مسئلہ کی دلیل معلوم کرنالازم ٹھری توتقلیدختم ہوگئی۔بہرحال کیاکتاب وسنت اورائمہ کرام وسلف عظام رحمہم اللہ کےاقوال صرف اتنی بات کےمحتمل ہیں کہ اگرکوئی شخص جاہل ہےیعنی اسےازخودکتاب وسنت سےمسائل استنباط کرنےکی صلاحیت نہیں تواسےاجازت ہےکہ کسی بھی عالم لاعلی التعین سےپوچھےلیکن اس شرط کےساتھ کہ وہ ساتھ میں کتاب وسنت کی دلیل بھی پیش کرےتوآپ لوگ اگراس کانام تقلیدرکھتےہیں تویہ آپ کےبس کی بات ہےاگرچہ اصطلاحا ’’یعنی علی اصطلاح اصول الفقہ‘‘اسےتقلید کہنا قطعا غلط ہے۔ لیکن مذکورہ آیت کریمہ بلکہ کسی اورآیت میں تقلیدشخصی یعنی معین شخص کی اتباع وتقلیدکواپنےاوپرلازم وضروری قراردینےکاثبوت ہرگزہرگزنہیں ملتاکیونکہ اگراولی الامرسےمرادعلماءوائمہ لیےجائیں تب بھی اس آیت میں اتباع کماحکم لاعلی التعین ہےیعنی خاص کسی عالم یاشخص کی اتباع کاحکم نہیں۔لہٰذااس سےیہ استدلال کرناکیسےدرست ہوسکتاہےکہ تم امام ابوحنیفہ یاامام شافعی رحمہم اللہ کی تقلیدہرمسئلہ میں اپنےاوپرلازم کرلویعنی:

﴿ فَسْـَٔلُوٓا۟ أَهْلَ ٱلذِّكْرِ‌ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ (النحل:٤٣)

’’پس تم اہل علم سےپوچھ لواگرتم نہیں جانتے۔‘‘

میں‘‘إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ’’کی شرط توتقلیدکوناجائزقراردیتی ہےپھریہ جوعلماءاحناف مسندتدریس پربیٹھ کرحدیث وتفسیرفقہ واصول صرف ونحو،معانی وبیان وغیرہ وغیرہ پڑھاتےرہتےہیں اورکتاب وسنت کےنکات بیان کرتےرہتےہیں،فقہ کےمسائل کی موشگافیوں میں مشغول رہتےہیں آخرانہیں تقلیدکرنےکی کیاضرورت ہے؟لیکن اس کےباوجودبھی تقلیدکرتےہیں۔تووہ اتنےعلم کےباوجوداپنےآپ کوغیرعالم یاجاہل قراردیتےہیں اوراللہ تعالیٰ کی عطاکردہ مہربانی ونعمت’’علم‘‘کابھی انکارکرتےہیں اوراحسان فراموش بنتےہیں بہرحال عالم کےلیےتقلیدجائزنہیں باقی رہاجاہل تواسےان آیات کےمطابق صرف کسی عالم سےبمع دلیل مسئلہ دریافت کرنےکی اجازت ہےلیکن‘‘لاعلي التعين والتشخص’’اوراس صورت میں بھی تقلیدباقی نہیں رہتی بلکہ عالم جاہل کومسئلہ کی دلیل پیش کرےگااوروہ دلیل کی اتباع کرےگانہ کہ اس کی مجردرائےکی بہرحال تقلیدکی یہاں بھی جڑاکھڑگئی گویاان آیات سےتومطلق تقلیدبھی ثابت نہیں ہوتی پھراگرکوئی اتباع بالدلیل کوتقلیدکانام دےپھرکھینچ کراسےجاکرتقلیدشخصی تک پہنچادےتووہ اپنےعلم،عقل،صداقت وامانت،سمجھ،انصاف وعدالت کابےدردی سےخون کررہاہے۔

الغرض کہ آیات کریمہ میں تقلیدکی طرف اشارہ تک موجودنہیں چہ جائیکہ ان کوتقلیدشخصی کےثبوت کےلیےپیش کرنےکی جسارت کی جائےعلاوہ ازیں تقلیدشخصی اس وجہ سےبھی ناجائزہےکہ مقلداپنےمتبوع کورسالت کےمنصب تک پہنچاتاہے۔

کیونکہ کسی کویہ سرٹیفکیٹ دیناکہ اس کی تمام باتیں سوفیصدتک درست ہیں اس کی کوئی بات غلط نہیں ہوسکتی یہ عمل اسےنبوت کےدرجہ پرپہنچانےکےمترادف ہےاگرچہ زبان سےہزاربارکہہ دےکہ میں اسےرسول تصورنہیں کرتالیکن یہ اللہ تعالیٰ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہےکہ اس کاہرارشادصحیح ہوتاہےکیونکہ ارشادربانی ہے:

﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ ٱلْهَوَىٰٓ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْىٌ يُوحَىٰ﴾ (النجم٣’٤)

’’وہ اپنی خواہش سےبات نہیں کرتامگروہ جووحی کی جاتی ہے۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےعلاوہ کسی اورکویہ منصب نہیں ملاپھربھی اگرکسی اورکوایساسمجھ کراس کی اتباع وتقلیدکواپنےاوپرلازم قراردینےکایہی مطلب ہےکہ اسےمنصب رسالت پرکھڑاکرناہےکیونکہ عمل انسان کےعقائدوتصورات کاعنوان ہوتاہے۔دوسرایہ کہ تقلیدبدعت سیئہ ہےخیرالقرون میں اس بدعت سیئہ کاکوئی نام ونشان نہ تھاچارسوسالوں کےگذرجاتےہیں لیکن تقلیدشخصی ناپیدہےاورنہ ہی کتاب وسنت میں کوئی ایساارشادموجودہےکہ تم کسی ایک کویعنی‘‘معین شخص کو’’ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ،شافعی رحمۃاللہ علیہ کوہرمسئلہ ومعاملہ میں اپنامتبوع اورمقتدابناناپھربدعت سیئہ کس طورپردین کامرجع بن سکتی ہے؟شایہ کوئی یہ کہےکہ تقلیدشخصی پرامت کااجماع ہوگیاہےلہٰذا((لاتجتمع امتي علي ضلالة))کےمطابق درست قرارپائےگی اورتقلیدشخصی جائزبلکہ لازم ہوگی۔اس کےلیےیہ گذارش ہےکہ اجماع کی دعویٰ صرف وہی کرسکتاہےجویاتوجاہل ہےیاتجاہل عارفانہ سےکام لےرہاہےآخرجس بات کاصحابہ،تابعین،تبع تابعین کےعہدمبارک میں کوئی سراغ نہیں معلوم ہوتاہےاس کےمتعلق بعدکےادوارمیں اجماع کیسےہوسکتاہے۔

علاوہ ازیں اجماع کرنےوالےخودمقلدین ہیں اورمقلدجاہل ہیں پھرکیاکچھ جاہلوں کےکسی بات پرمتفق ومتحدہونےوالی بات اہل علم کےنزدیک بھی قابل عمل بن سکتی ہےآج کل جہاں کئی رسومات کوبجالاتےہیں ان پرسختی سےعمل پیراہوتےہیں گویاان کی طرف سےان پراجماع ہے۔مثلاعرس،گیارہویں،تیجہ،رجب کےکونڈےوغیرہ وغیرہ کیایہ سب بدعتی اعمال جہال کےاجماع کی وجہ سےاب دین حق کےضروری اجزائحصےبن جائیں گے؟ہرگزنہیں اسی طرح تقلیدشخصی پربھی ان مقلدین کااجماع توہولیکن مجتہدین توسب ہی اسےناجائزقراردیتےہیں۔امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کاقول پہلےدرج کرآئےہیں،تقریباباقی تمام ائمہ سےبھی اس طرح کی عبارات منقول ہیں جوکہ طوالت کےخوف سےیہاں درج نہیں کی جاتیں اب خودسوچیں کہ ایسےمقلدین کےاجماع کی کیاوقعت وحیثیت باقی رہ جاتی ہے۔ہم اگرعرض کریں گےتوشکایت ہوگی۔افسوس کہ آج کل حق کوپہچاننےوالی آنکھ بہت مشکل سےکہیں جاکرنظرآتی ہےبہرحال تقلیدشخصی بدعت سیئہ اورناجائزاورکتاب وسنت کی روسےباطل ہےاوراس کاثبوت کتاب وسنت میں قطعاموجودنہیں اورمذکورہ بالاآیت سےاس کاثبوت پیش کتنےکی سعی کرنامذموم جسارت اوربدترین جہالت ہے۔اعاذناالله منها’’

ابھی اس کےمتعلق کچھ مزیدکی گنجائش ہےلیکن اسی پراکتفاءکیاجاتاہےکیونکہ جواب کافی طویل ہوگیاہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 65

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ