سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(177) کتا، شریعت کی نظر میں

  • 14776
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 7074

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے باپ نے گھرکی رکھوالی کے لئے ایک کتا رکھا ہوا ہے۔ مجھے کئی ساتھیوں نے کہا کہ اس کو ماردو۔ سوال آپ سے یہ ہے کہ کیا کتے کا گھر میں رہنا جائز ہے یا    نا جائز؟ اور کیا اگر میں اسے مار دوں تو مجھ پر کوئی گناہ تو نہ ہوگا؟ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگرچہ غیر مسلم اقوام میں کتے کو بہت اہمیت حاصل ہے حتیٰ کہ وہ گھر کے ایک فرد کی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور ان کے ہاں یہ محاورہ بن گیا ہے کہ اگر تمہیں مجھ سے محبت ہے تو میرے کتے سے بھی محبت کرنا ہو گی۔ یہاں تک کہ اب یہ محبت بڑھ کر غلط مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ اسلام میں کتاب ایک نا پسندیدہ جانور ہے اسے گھر میں رکھنے سے رحمت کے فرشتے گھر میں داخل نہیں ہوتے:

((عَنْ أَبِي طَلْحَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ تَدْخُلُ المَلاَئِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلاَ تَصَاوِيرُ))

            ''ابو طلحہ راوی ہیں کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا(رحمت کے)فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہو یا تصویریں ہوں۔''(بخاری و مسلم ، مشکوٰةباب التصاویر)

            ایک دفعہ وعدہ کے باوجو دجبریل علیہ السلام گھر میں نہیں آئے۔ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  بہت غمگین ہوئے بعد میں معلوم ہوا کہ حسن رضی اللہ عنہ یا حسین رضی اللہ عنہ جو ابھی بچے تھے گھر میں کتے کا پلا لے آئے تھے۔

            ۱)         اگر کتا کسی برتن میں منہ ڈال دے تو اس کا پانی گرا دینے اور اسے ساتھ دفعہ دھونے کا حکم ہے:

((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «طَهُورُ إِنَاءِ أَحَدِكُمْ إِذَا وَلَغَ فِيهِ الْكَلْبُ، أَنْ يَغْسِلَهُ سَبْعَ مَرَّاتٍ أُولَاهُنَّ بِالتُّرَابِ أخرجه مسلم  و فى لفظ له فليرقه))

            ''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:  جب تم میں سے کسی شخص کے برتن میں کتاب منہ ڈال جائے تو اسے پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے ساتھ مرتبہ دھوئے جن میں سے پہلی مرتبہ مٹی کے ساتھ ہو۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے اور اس کے ایک لفظ میں ہے کہ اسے گرادو۔ '' (بلوغ المرام، باب المیاہ ، کتاب الطھارة)

            ۲)        خالص سیاہ رنگ کا کتا نمازی کے آگے سے گزر جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے اگر اس کے سامنے سترہ نہ ہو اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ :  ''سیاہ کتا شیطان ہے ۔''   (صحیح مسلم باب مایستر المصلی)

            ۳)        خالص سیاہ کتے کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے:

((عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْلَا أَنَّ الْكِلَابَ أُمَّةٌ مِنَ الْأُمَمِ لَأَمَرْتُ بِقَتْلِهَا كُلِّهَا، وَلَكِنِ اقْتُلُوا مِنْهَا كُلَّ أَسْوَدَ بَهِيمٍ.))

            ''عبداللہ بن مغفل راوی ہیں کہ نبی   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے امتوں میں سے ایک امت ہیں تو میں تمام کتے مار ڈالنے کا حکم دے دیتا تو تم ان میں سے خالص سیاہ کو مارد و۔''   (ابو داؤد، ترمذی ، مشکوة باب ذکر الکتاب)

            ۴)        اسی طرح دو نقطوں والے سیاہ کتے کو بھی مارنے کا حکم دیا:

((عن جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، يَقُولُ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ، حَتَّى إِنَّ الْمَرْأَةَ تَقْدَمُ مِنَ الْبَادِيَةِ بِكَلْبِهَا فَنَقْتُلُهُ، ثُمَّ نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَتْلِهَا، وَقَالَ: «عَلَيْكُمْ بِالْأَسْوَدِ الْبَهِيمِ ذِي النُّقْطَتَيْنِ، فَإِنَّهُ شَيْطَانٌ.))

            ''جابر رضی الہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں کتے مار ڈالنے کا حکم دیا یہاں تک کہ بادیہ سے کوئی عورت اپنا کتا لے کر آتی تو ہم اسے مار ڈالتے ۔ پھر رسول اللہ نے انہیں قتل کرنے سے منع فرما دیا اور فرمایا تم دو نقطوں والے کالے سیاہ کتے کو مارو کیونکہ وہ شیطان ہے (دو نقطوں سے مراد ہے جس کی آنکھوں کے اوپر دو نقطے ہوں )۔''  (رواہ مسلم)

            ۵)        اللہ تعالیٰ کی آیات کا علم حاصل ہونے کے بعدخواہشات نفس کی پیروی کی وجہ سے ان سے نکل جانے والے کی مثال کتے کے ساتھ دی گئی ہے﴿وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ ... ١٧٦﴾  (دیکھئے اعراف :۱۷۵،۱۷۶)

            بدترین انسان یعنی برے عالم کی مثال کتے کے ساتھ دینے سے اس کی خست (ذلت)  واضح ہے۔

            ۶)        اپن ہبہ کو واپس لینے والے کی مثال کتے کے ساتھ دی گئی ۔ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

(( ليس لنا مثل السوء الذى يعود فى هبته كالكلب يعود فى قيئه.))

            ''بری مثال ہمارے لئے نہیں ہے جو شخص اپنا ہبہ واپس لیتا ہے ، وہ کتے کی طرح ہے جو اپنی قے دوبارہ چاٹ لیتا ہے۔''   (صحیح بخاری کتاب الھبۃ)

            اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اپنے آپ کو کتا قرار دیتے ہیں خواہ وہ شیخ جیلانی کے کتے بنیں یا مدینہ کے کتے (سگ مدینہ) یا رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے کتے، انہوں نے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کی اس جانور کے ساتھ نفرت کو ملحوظ نہیں رکھا۔ اس چیز کے ساتھ خود کو تشبہیہ دینا کیسے درست ہو سکتا ہے جس نے نبی   صلی اللہ علیہ وسلم  سخت نفرت رکھتے ہوں۔

کتا رکھنے کی تین صورتیں

            گھر میں فرشتوں کے داخل نہ ہونے ، منہ ڈالنے کی وجہ سے برتنوں کے ناپاک ہو جانے اور دوسرے اسباب کی بنا پر گھر میں کتا رکھنا جائز نہیں۔ مگر کتے میں کچھ فائدے بھی ہیں مثلاً سدھائے جانے کی قابلیت ، مانوس ہو جانا، پہرہ داری وغیرہ ۔ اس لئے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے تین قسم کا کتا رکھنے کی اجازت دی ہے۔ شکار کے لئے ، کھیتی کے لئے یا مویشیوں کے لئے۔ ان کے علاوہ اگر کوئی شخص کتا رکھے گا تو روزانہ اس کے اجر سے ایک قیراط کی کمی ہو جائے گی (قیراط اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی مقرر پیمانہ ہے جنازہ میں شامل ہونے کے ثواب والی حدیث میں مذکور قیراط کے متعلق رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ ایک قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے)۔

((  عن أبى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم  من اتخذ كلبا  إلا  كلب ماشية  أو صيد أو زرع  انتقض من أجره  كل يوم قيراط.))

            ''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ مویشیوں کے لئے یا شکاری کتے یا کھیتی کے علاوہ کسی نے کوئی کتا رکھا تو اس کے اجر سے روزانہ ایک قیراط کم ہو جائے گا۔''  (بخاری و مسلم)

            اس سے معلوم ہو اکہ صرف گھر کی حفاظت کے لئے کتا رکھنا جائز نہیں۔ بعض لوگ قیاس کر کے اسے جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس صورت میں تین کتوں کو مستثنیٰ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں رہتا۔

کتے کو قتل کرنے کا حکم

            جن کتوں کو رکھنے کی اجازت دی گئی ہے انہیں مارنا جائز نہیں۔ رہے عام کتے جو ان تین کاموں میں سے کوئی کام بھی سرانجام نہیں دیتے، ان میں سے خالص سیاہ رنگ کے کتے اور سیاہ رنگ کے اس کتے کو جس کی آنکھوں کے اوپر دو نقطے ہوں، مارڈالنے کا حکم ہے۔ جیسا کہ شروع میں احادیث ذکر ہو چکی ہیں ۔ اس رنگ کے کتے خواہ شکاری ہوں یا کھیتی کے یا مویشیوں کے شیطان ہونے کی وجہ سے مار دینے چاہئیں۔ اسی طرح کاٹنے والے کتے کو بھی مار ڈالنے کا حکم ہے۔ صحیح بخاری اور مسلم میں حدیث ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

(( خمس فواسق يقتلن فى الحل  والحرم  الحية و الغراب الأبقع و الفارة  و الكلب العقور و الحديا.))

            ''یعنی پانچ چیزیں فاسق ہیں انہیں حرم اور غیر حرم میں قتل کیا جائے سانپ اور سیاہ و سفید کو ا، چوہیا ، کاٹنے والا کتا اور چیل ۔''  (مشکوة ، کتاب المناسک)

            عام کتے جو نقصان نہ کرتے ہوں ، انہیں مارنا جائز نہیں چونکہ صحیح مسلم مین حدیث ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا۔ یہاں تک کہ بادیہ سے کوئی عورت اپنے کتے کے ساتھ آتی تو صحابہ رضی اللہ عنہم اسے مار ڈالتے۔ پھر رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں قتل کرنے سے منع کر دیا اور فرمایا کہ کالے سیاہ دو نقطوں والے کتے کو قتل کرو کیونکہ وہ شیطان ہے۔

            آپ کے والد صاحب نے گھر میں کتا رکھا ہوا ہے اگر شکار یا کھیتی یا مویشیوں کے لئے رکھا گیا ہے تو اس کے رکھنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہ خالص سیاہ رنگ یا دو نقطوں والا سیاہ کتا نہ ہو۔ اگر اس رنگ کا ہو تو اسے مار دینا واجب ہے۔ اگر وہ شکاری کتا یا کھیتی یا مویشیوں کا کتا نہیں تو اسے گھر سے نکال دیں۔ ہاں اگر وہ لوگوں کو یا ان کے جانوروں کو کاٹنا شروع کر دے تو اسے مار دینا جائز ہے کیونکہ اس صورت میں وہ کلب عقور ہے یعنی کاٹنے اور زخمی کرنے والا کتا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ