سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(145) برائلر مرغی کھانا حلال ہے یا حرام ؟

  • 14751
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 2411

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

برائلر مرغی کھانا کیسا ہے ؟ بعض لوگ اسے حرام قرار دیتے ہیں کیونکہ اس کی خوراک خون اور مردار اور دوسری کئی اشیاء سے تیار ہوتی ہے۔ لاکھوں لوگوں کے لئے یہ مسئلہ پریشانی کا سبب بنا ہوا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اصل جواب سمجھنے سے پہلے دو باتیں سمجھنا بہت ضروری ہیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حلت اور حرمت ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ جن کا تعلق انسان کے ذوق اور مزاج کے ساتھ ہو۔ جسے انسانی ذوق چاہے اس کو حلال اور جسے چاہے حرام سمجھ لے بلکہ یہ آسمانی شریعت ہے جس کا خالق کائنات نے اپنے بندوں کو مُکلف بنایا ہے۔ اس لئے حلال وہی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یا محمد رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کی زبان پر حلال کر دیا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَـٰذَا حَلَالٌ وَهَـٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوا عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ ﴿١١٦﴾... النحل

            ''اور اپنی زبانوں کے جھوٹ بنا لینے سے یہ مت کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تا کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھو یقینا وہ کامیاب نہیں ہوں گے جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔''(النحل : ۱۱۶)

            دوسری بات یہ ہے کہ حلال و حرام عقل کے تابع نہیں اور نہ ہی قیاسات اور مادی وسائل سے ان کا اثبات کیا جا سکتاہے اور جو لوگ اسے مادی وسائل اور عقل کے تابع بناتے ہیں وہ گمراہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی مکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے گھوڑے کے گوشت کو حلال قرار دیا ہے۔ جیسا کہ بخاری شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی حدیث ہے اور خچر کو حرام قرار دیا ہے۔ یہ دونوں جانور شکل و صورت میں کھانے پینے اور پیدائش میں ایک دوسرے کی مشابہت رکھتے ہیں البتہ شکل میں تھوڑا فرق پایا جاتا ہے۔ اسی طرح گھریلو گدھا اور جنگلی گدھا دونوں کو شریعت میں حمار (گدھا) کہا گیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے مشابہت بھی رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود گھریلو گدھے کا گوشت حرام ہے اور جنگلی گدھے کا گوشت حلال ہے ۔ اگر اہل علم اور ان اشیاء کے سپیشلسٹ گھوڑے اور جنگلی گدھے کے حلال ہونے میں اور خچر اور گھریلو گدھے کے حرام ہونے میں فرق معلوم کرنے کی کوشش کریں تو ہر گز شرعی علت تک نہ پہنچ سکیں گے حالانکہ یہ اشیاء مادی اور حسی وسائل کے لحاظ سے ایک ہی چیز شمار ہوتی ہیں۔ کون ہے جو مادی لحاظ سے ان کی حلت اور حرمت کی علت بیان کر سکے؟ یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ حلال اور حرام آسمانی شریعت ہے مادی ، حسی اور عقلی وسائل کے تابع نہیں۔ یہ دونوں باتیں ذہن نشین کرنے کے بعد اب جواب کی طرف آئیے۔ قرآن مجید اور سنت نبوی   صلی اللہ علیہ وسلم  میں کوئی ایسی چیز نہیں ملتی جس سے برائلر مرغی کا حرام ہونا ثابت ہو سکے بلکہ حدیث سے مرغی کا حلال ہونا ثابت ہے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

(( رأيت  النبى صلى الله عليه وسلم  يأكل  دجاجا))

            ''میں نے نبی اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  کو مرغی کا گوشت کھاتے ہوئے دیکھا۔''(صحیح بخاری مع فتح الباری ج۹، ص۵۶۱)

            یہ حدیث صحیح مسلم ، دارمی، بیہقی اور مسند احمد میں بھی ہے۔ امام بخاری نے اس پر باب باندھا ہے باب لحم الدجاج اور امام ترمذی بھی فرماتے ہیں باب ما جاء فی اکل الدجاج

            نبی مکرم   صلی اللہ علیہ وسلم تو پاکیزہ کھانا ہی کھاتے تھے اور ایسے کھانے کے قریب تک نہیں جاتے تھے کہ جس میں کراہت ہو ۔ نبی مکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  کا مرغی کا گوشت کھانا اس کے حلال ہونے کی واضح دلیل ہے۔ اس کے بعد کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ مرغی کے گوشت کو حرام قرار دے۔ صرف اس شبہ سے کہ اس کی خوراک میں حرام چیزیں استعمال ہوتی ہیں کیونکہ حلت اور حرمت میںجانور کی غذا کا اعتبار نہیں بلکہ شریعت کا اعتبار ہے کیونکہ بعض جانور ایسے ہیں کہ جن کی خوراک پھل، سبزیاں اور حلال اشیاء ہیں اس کے باوجود وہ حرام ہیں مثلاً گیدڑ، بندر وغیرہ ایسے جانوروں کو کھانا ہر گز حلال نہیں حالانکہ ان کی خوراک پاکیزہ ہوتی ہے مگر شریعت نے انہیں حرام قرار دیاہے۔

            اگر حرام اور حلال ہونے ی علت جانور کے کھانے (خوراک ) کو تسلیم کر لیں کہ جس کی خوراک پاک ہوگی اس کا گوشت حلال اور جس کی خوراک نجس اور حرام ہو گی اس کا گوشت حرام ہو گا تو فرض کریں کہ کوئی شخص خنزیر کے بچے کو پیدائش ہی سے گھر میں پالتا ہے اسے حلال اور پاک غذا مہیا کرتا ہے تو کیا وہ حلال ہو جائے گا؟ اگر اس بارے میں کوئی شخص اپنی عقل کو فیصل مانے گا تو اس کے مطابق تو حلال ہو گا کیونکہ اُس نے کبھی حرام اور نجس چیز کھائی ہی نہیں اور اپنا فیصلہ اگر شریعت کی طرف لے جائے گا پھر یہ حرام ہو گا۔

            ان تمام دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ حلت اور حرمت میں جانور کی خوراک کا کوئی اعتبار نہیں بلکہ شریعت کا اعتبار ہو گا۔

شبہ کا رَد

            جو لوگ برائلر مرغی کو حرام قرار دیتے ہیں وہ اسے جلالہ پر قیاس کرتے ہیں جسے نبی مکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے حرام قرار دیا ہے جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے:

(( نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم  عن أكل  الجلالة  والبانها .))( ابو داؤد , ترمذى , ابن ماجه)

            ''نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے جلالہ کے کھانے سے اور ان کے دودھ سے منع کیا ہے۔''(ابوداؤد ' ترمذی ' ابن ماجہ)

            اس حدیث سے جلالہ کی قطعی حرمت ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس کے استعمال سے اس وقت تک روکا گیا ہے جب تک کہ اس گندی خوراک کی بدبو زائل نہ ہو جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے صحیح چر سے ثابت ہے کہ:

" إنه كان يحبس  الدجاجة  الجلالة  ثلاثا"

            ''عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جلالہ مرغی کو تین دن بند رکھتے تھے (پھر استعمال کر لیتے تھے)۔''(رواہ ابنِ ابی شیبہ)

            علامہ ناصرا لدین البانی نیاس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ،  (ارواء الغلیل ج۸، ص۱۵۱)

            یہ صرف اس لئے کرتے تھے تا کہ اس کا پیٹ صاف ہو جائے اور گندگی کی بو اس کے گوشت سے جاتی رہے۔

            اگر جلالہ کی حرمت گوشت کی نجاست کی وجہ سے ہوتی تو وہ گوشت جس نے حرام پر نشو ونما پائی ہے کسی بھی حال میں پاک نہ ہوتا۔ جیسا کہ ابنِ قدامہ نے کہا ہے کہ اگر جلالہ نجس ہوتی تو دو تین دن بند کرنے سے بھی پاک نہ ہوتی۔  (المغنی ج۹، ص۴۱)

            عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اس صحیح اثر سے معلوم ہوتا ہے کہ جلالہ کی حرمت اس کے گوشت کا نجس اور پلید ہونا نہیں بلکہ علت اس کے گوشت سے گندگی کی بدبو وغیرہ کا آنا ہے۔ جیسا کہ حافظ ابنِ حجر فرماتے ہیں:

" و المعتبر فى جواز  اكل الجلالة  زوال رائحة  النجاسة  عن تعلف  بالشيى  الطاهر  على الصحيح "( فتح البارى ج9 , ص 565)

            ''جلالہ کے کھانے کا لائق ہونے میں معتبر چیز نجاست وغیرہ کی بدبو کا زائل ہونا ہے۔ یعنی جب بدبو زائل ہو جائے تو اس کا کھانا درست ہے۔''

علامہ صنعانی بھی فرماتے ہیں:

" قيل بل الإعتبار  بالرائحة  و النتن"

            ''کہ جلالہ کے حلال ہونے میں بدبو کے زائل ہونے کا اعتبار کیا جاتا ہے۔''(سبل السلام ، ج۳، ص۷۷)

            جلالہ کے بارے میں اہل لغت کے اقوال جان لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ اکثر اہل لغت نے لکھا ہے کہ:

" ألجلالة  هى  البقرة  التى تتبع النجاسات"

            ''کہ جلالہ وہ گائے ہے جو نجاسات کو تلاش کرتی ہے۔''  (لسان العرب ج۲، ص۳۳۶، الصحاح للجوہری ج۴، ص۱۲۵۸، القاموس المیط ج۱، ص۵۹۱)

ابنِ منظور الافریقی لکھتے ہیں:

" و الجلالة من الحيوان  التى تأكل  الجلة العذرة "

            ''کہ جلالہ وہ حیوان جو انسان کا پاخانہ وغیرہ کھاتے ہیں۔''(لسان العرب، ج۲، ص۳۳۶)

            اس قول کے مطابق برائلر مرغی جس کو لوگ حرام قرار دیتے ہیں جلالہ بنتی ہی نہیں ہے کیونکہ وہ انسان کا پاخانہ نہیں کھاتی۔ لہٰذا اسے جلالہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ اس میں جلالہ کی علت نہیں پائی جاتی اور جب علت نہ رہی تو جلالہ والا حکم بھی اس پر نہیں لگ سکتا۔ لہٰذا برائلر مرغی جس کی غذا حلال اور حرام چیزوں کے مرکبات سے تیار ہو تی وہ حلال ہے جس میںکوئی شبہ نہیں۔ اس کی غذا کا اعتبار نیہں بلکہ شریعت کا اعتبار ہے۔ آخر میں یہ بات بھی اچھی طرح یاد رہے کہ مرغی کی خوراک میں جو خون مردار اور دوسری حرام اشیاء ڈالی جاتی ہیں اگرچہ یہ انسانوں کے لئے حرام ہیں جانوروں کے لئے حرام نہیں کیونکہ وہ تو مُکلف ہی نہیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول   صلی اللہ علیہ وسلم  نے انسانوں کے لئے جن اشیاء کا کھانا حرام قرار دیا ہے ان کی خریدو فروخت بھی (چند ایک جانور چھوڑ کر) حرام قرار دی ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں:

(( لعن الله اليهود  - ثلاثا أن الله  حرم  عليهم الشحوم  فباعوها  و أكلوا أثمانها  و إن  الله  إذا حرم على قوم  أكل  شيى حرم  عليهم  ثمنه.))

            ''اللہ تعالیٰ یہودیوں پر لعنت کرے ۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے پھر کہا اللہ تعالیٰ نے ان پر چربی کا کھانا حرام کر دیا تو انہوں نے اسے فروخت کر کے اس کی قیمت استعمال کرنی شروع کر دی اور یقینا اللہ تعالیٰ جس کسی قوم پر کسی چیز کا کھانا حرام کر دیتا ہے اس کی قیمت بھی ان پر حرام کر دیتا ہے۔''                                                       (صحیح سنن دائود للالبانی ج۲، ص ۶۶۷ واحمد)

اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:

(( إن الله حرم  الخمر وثمنها  و حرم  الميتة  و ثمنها  و حرم  الخنزير  و ثمنه.))

            ''بے شک اللہ نے شراب ، مردار، خنزیر کو حرام قرار دیا ہے اور ان کی قیمتیں بھی حرام کی ہیں۔''   (صحیح ابو داؤد ، ج۲، ص۶۶۶)

            رسول کریم   صلی اللہ علیہ وسلم  کے ان فرامین سے معلوم ہوتا ہے کہ جن چیزوں کا کھانا انسان کے لئے حرام ہے اُن کی خریدوفروخت کرنا بھی حرام ہے۔ (سوائے چند جانوروں کے جیسے کہ گھریلو گدھا ہے) ایسا کرنے والا اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی کا مرتکب ہے اور حرام کمائی کھانے اور جمع کرنے میں مصروف ہے۔

            ہمارے ان بھائیوں کو چاہیے کہ وہ مرغی کی خوراک تیار کرنے میں حرام اشیاء کی خریدو فروخت سے اجتناب کریں۔ خوراک میں مردار اور خون ڈالنے کی بجائے مچھلی کا چور ا ڈال لیں ۔ جب حلال چیز کی خریدو فروخت میں کفایہ ہے تو پھر حرام کی کیا ضرورت ہے؟ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو قرآن و سنت پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ